نافرمان بیٹے کی سزا

نافرمان بیٹے کی سزا

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانی وجودکاذریعہ والدین کوبنایاہے، جوخوداس بات پردلیل ہے کہ ان کی اہمیت اورمقام ومرتبہ بہت زیادہ ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حقوق بتانے کے بعدان کے حقوق کاذکرکیاہے، ارشادہے: ’’اللہ کی عبادت کرواوراس کے ساتھ کسی کوشریک نہ کرو اوروالدین کے ساتھ اچھابرتاؤ کرو‘‘ (النساء: ۳۶)۔

صبرآزما مرحلہ

بچہ کے لئے ان دونوں کوجس قسم کی مشقتیں برداشت کرنی پڑتی ہیں، اس کااندازہ باپ ہونے کے بعدہوتاہے، رحم مادرمیں نطفہ سے لے کرپیدائش تک بڑا پرمشقت اور صبرآزما مرحلہ سے ماں کوگزرناپڑتاہے، اس کی ایک جھلک قرآن نے اس طرح بیان کی ہے: اس کی ماں نے اسے تکلیف جھیل کرپیٹ میں رکھا اورتکلیف برداشت کرکے اسے جنا(الأحقاف: ۱۵) ، ایک دوسری جگہ ارشادہے: اس کی ماںنے دکھ پردکھ اٹھاکراسے پیٹ میں رکھا(لقمان: ۱۴)، ماں کی اس مشقت کودیکھ کرباپ بھی پریشان رہتاہے، پھر پیدائش کے بعدسے بڑے ہونے تک جس طرح کاخیال ماں باپ رکھتے ہیں، وہ انھیں کاحصہ ہے،وہ خوداپناپیٹ کاٹنا پسندکرتے ہیں؛ لیکن بچوں کوبھوکارکھنا اوران کی فرمائشوں کو پورانہ کرناگورانہیں کرتے، والدین ایک جوڑے میں سال بتادیتے ہیں؛ لیکن بچوں کے لئے کئی کئی جوڑے بنوادیتے ہیں، اپنی بیماریوں کوجھیل جاتے ہیں, لیکن بچوں کی ادنیٰ سی تکلیف کے لئے رات رات بھرجاگتے ہیں، بچوں ہی کی فکرمیں وہ اٹھتے بیٹھتے ہیں، محنت ومشقت کرتے ہیں اوران کی زندگی سنوارنے کے چکرمیں اپنی پوری زندگی گنوادیتے ہیں۔

والدین کی نافرمانی کی سزا

اب اگرکوئی بچہ اپنے والدین کی بات(جوشریعت کے خلاف نہ ہو)نہ مانے، انھیں ستائے، پریشان کرے توظاہرہے کہ اس سے بڑا کائیاں کوئی اورنہیں ہوسکتا، اسی لئے اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: اکبرالکبائر: الإشراک باللہ، وعقوق الوالدین، وشہادۃ الزور۔(بخاری، حدیث نمبر: ۶۵۲۱) ’’سب سے بڑا کبیرہ گناہ اللہ کے ساتھ شریک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنااورجھوٹی گواہی دیناہے‘‘، دوسری جگہ فرمایا: اللہ کے رسول ﷺ کاارشادہے: تین لوگ ایسے ہیں،قیامت کے دن اللہ تعالیٰ جن کی طرف نظرکرم نہیں فرمائے گا: (۱) والدین کانافرن(۲) شراب کاعادی (۳) اور احسان کرکے جتانے والا (المستدرک للحاکم، حدیث نمبر: ۷۲۳۵)۔

معاشرہ کاحال

آج جب ہم اپنے معاشرہ کاایک سرسری جائزہ لیتے ہیں توکتنے ایسے بوڑھے اوربوڑھیوں کی آنکھوں سے آنسوبہتے ہوئے دیکھتے ہیں، جواپنے سگے بچوں کے ستائے ہوئے ہوتے ہیں، انھی لوگوں کوکھاناتک نصیب نہیں ہوتا، جنھوں نے اپنے بچوں کوکھلانے کے لئے خودکوبھوکارکھا، بیمارپڑنے پرانھیں دواتک نصیب نہیں ہوتی، جنھوں نے بچوں کی معمولی تکلیف کے لئے اپنی آنکھوں سے نیند کو کوسوں دوررکھا، ایسے لوگوں کواحادیث میں مذکوروعیدوں سے ڈرناچاہئے اوراللہ تبارک وتعالیٰ کے بتائے ہوئے راستہ کواختیارکرناچاہئے، ارشادہے: واخفض لہماجناح الذل من الرحمۃ وقل رب ارحمہماکماربیانی صغیرا(الإسراء:۲۴) ’’اورعاجزی اورمحبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کابازوپست رکھو اوران کے لئے دعاکرتے رہوکہ اے میرے پروردگار!ان پرویساہی رحم کر، جیساانھوں نے میری بچپن میں میری پرورش کی‘‘، کاش! ہمیں عمل کی توفیق نصیب ہوجائے!

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی