مشرکانہ ترانے، سوریہ نمسکاراوریوگامیں شرکت
محمد جمیل اختر جلیلی ندوی
بعض سرکاری وپرائیویٹ اسکولوں میں مشرکانہ ترانے، وندے ماترم یاگیتاکے اشلوک شروع میں پڑھوائے جاتے ہیں، سوریہ نمسکارکرایا جاتا ہے، یوگا کرایا جاتا ہے، جس کاایک جزء سوریہ نمسکار بھی ہے، کہیں طلبہ پراس کولازم کردیاگیاہے، کہیں اس کی ترغیب دی جاتی ہے اوراس کے لئے ماحول سازی کی جاتی ہے، بعض ریاستوں میں خودریاستی حکومت نے اسکولوں پراس کا آرڈرجاری کردیاہے، مشنری اسکولوں میں حضرت عیسی علیہ السلام کی فرضی تصویریامجسمہ کے سامنے دعا کرائی جاتی ہے ، اگرچہ اس کولازم نہیں کیاجاتاہے؛ لیکن ترغیب دی جاتی ہے، یہاں تک کہ بعض مسلمان انتظامیہ اسکول میں زیادہ داخلے کی لالچ یاحکومت کوخوش کرنے کے لئے اس طرح کاعمل کراتے ہیں توسوال یہ ہے کہ کیاان کے لئے ایساکرنا درست ہے؟
اس مسئلہ کی دوصورتیں ہیں:
(الف) یہ اعمال جبری طورپرکرائے جائیں۔
(ب) یہ اعمال ترغیبی طورپرکرائے جائیں۔
اگرجبری ہو؟
اگرسرکاری یا پرائیویٹ اداروں میں جبری طورپریہ عمل ہوتومسلمانوں کے لئے حکم یہ ہے کہ ان اداروں سے اپنے بچوں کونکال لیں اورہرگز ہرگز ایسے اداروں میں نہ پڑھائیں، ایسے اداروں میں تعلیم دلوانے کے مقابلہ میں بچوں کاجاہل رکھناہی اچھاہے، جہاں ایمان محفوظ نہ ہو؛ کیوں کہ یہ تمام مشرکانہ افعال ہیں اور مشرکانہ افعال کرنے والے کوقرآن مجیدمیں دائرۂ ایمان سے خارج قراردیتے ہوئے’’نجس‘‘ قراردیاگیاہے، ارشادباری ہے:
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْمُشْرِکُونَ نَجَسٌ ۔(التوبۃ: ۲۸)
اے ایمان والو! بلاشبہ مشرکین نجس ہیں۔
مشرکانہ افعال انجام دینے والوں کویہاں پر’’نجس‘‘ ان کی مذمت کے لئے کہا گیا ہے، ورنہ جسمانی اعتبارسے (اگرناپاک کرنے والے امورپیش نہ آئے ہوں)تو وہ پاک ہیں، مشہور مفسرقرآن علاء الدین علی بن محمدخازنؒ لکھتے ہیں:
سموا نجسا علی الذم؛ لأن الفقہاء اتفقوا علی طہارۃ أبدانہم(لباب التأویل فی معانی التنزیل الشہیربتفسیرالخازن:۳؍۷۷۶)۔
انھیں نجس ذم کے طورپرکہاگیاہے؛ کیوں کہ فقہاء کاان کے جسموں کے پاک ہونے پراتفاق ہے۔
لہٰذا اس سے بچنااسی طرح ضروری ہے، جس طرح نجاست سے بچناضروری ہے، حدادی کے حوالہ سے روح المعانی میں لکھاہے:
قال الحدادی: سمی المشرک نجسا؛ لأن الشرک یجری مجری القذر فی أنہ یجب تجنبہ کمایجب تجنب النجاسات(روح المعانی: ۳؍۳۱۱)۔
حدادی کہتے ہیں: مشرک کونجس کہاگیا؛ کیوں کہ شرک کواس بات میں گندگی کے قائم مقام قراردیاگیاہے کہ اس سے بچنااسی طرح واجب ہے، جس طرح نجاسات سے بچناواجب ہے۔
اورایمان کی حفاظت کرنا دوسری تمام چیزوں کے مقابلہ میں زیادہ ضروری ہے، ابن امیرالحاجؒ لکھتے ہیں:
ویقدم حفظ الدین من الضروریات علی ماعداہ عندالمعارضۃ؛ لأنہ المقصودالأعظم(التقریر والتحبیر: ۳؍۳۰۸)۔
معارضہ کے وقت ضروریات میں سے حفظ دین کودوسروں پر مقدم کیاجائے گا؛ کیوں کہ وہی مقصوداعظم ہے۔
ان تمام باتوں سے معلوم ہوا کہ ایمان کی حفاظت تعلیم کے مقابلہ میں زیادہ اہم ہے؛ اس لئے ایسے اداروں سے بچوں کونکال لینا ان کوتعلیم سے آراستہ کرنے کے مقابلہ میں زیادہ ضروری ہے۔ واللہ اعلم!
اگرترغیبی ہو؟
لیکن اگرمعاملہ جبرکانہ ہو؛ بل کہ ترغیب کاہوتواس سلسلہ میں جان لیجئے کہ’’ترغیب‘‘ بھی حکم ہی کی ایک قسم ہے(خواہ سرکاری اسکولوں میں ہو یا پرائیویٹ اداروں میں)، ابوالمعالی عبدالملک بن عبداللہ جوینیؒ لکھتے ہیں:
فإن الأمریفید الترغیب تارۃ، ویفید اللزوم، وکون المأمورطاعۃ أخریٰ(التلخیص فی أصول الفقہ: ۱؍۴۴۷)۔
امرکبھی ترغیب کافائدہ دیتاہے اورکبھی لزوم اورماموربہ کی بجا آوری کا۔
اس لئے اولیٰ یہ ہے کہ ان اسکولوں میں بچوں کوداخل کرانے سے بچاجائے اورکسی متبادل اسکول میں داخل کرایاجائے؛ لیکن اگرکوئی متبادل اسکول نہ ہوتوان میں داخل کرانے کی گنجائش ہے؛ کیوں کہ لازمی حکم اورترغیبی امرکے درمیان فرق ہوتاہے، بدرالدین زرکشیؒ لکھتے ہیں:
وإنمایفترق الحال فی الترغیب والاقتضاء، والدلالۃ(البحرالمحیط:۱؍۳۴۴)۔
ترغیب واقتضاء اوردلالت کے حال میںفرق ہوتاہے۔
تاہم اگرایسے ادارے موجودہوں، جہاں یہ مشرکانہ افعال نہ توانجام دئے جاتے ہوں اورناہی ان کی ترغیب دی جاتی ہو تو ایسی صورت میں ان اداروں میں بچوں کوداخل کراناجائز نہیں، جن میں یہ مشرکانہ افعال کرائے جاتے ہوں؛ کیوں کہ ایمان کی حفاظت زیادہ ضروری ہے۔
البتہ مسلمان انتظامیہ کے لئے مشرکانہ عمل کی ترویج یا اس کی ترغیب دونوں جائز نہیں؛ کیوں کہ یہ تعاون علی الإثم ہے، جس سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے ، ارشادہے:
وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَی الإِثْمِ وَالْعُدْوَان۔(المائدۃ:۲)
اورگناہ وزیادتی پرتعاون نہ کرو۔
ایک تبصرہ شائع کریں