غیرمسلم اداروں میں بچوں کی تعلیم
محمد جمیل اختر جلیلی ندوی
ملک کے اِس کونے سے لے کراُس کونے تک اگرہم نظردوڑائیں تویہ بات معلوم ہو جائے گی کہ عصری تعلیم کے لئے عمومی طورپر دونظریاتی ادارے کام کررہے ہیں، ایک تو مشنریاں ہیں، جوآزادی سے پہلے سے ہی اپناکام کررہی ہیں، یہ غیرشعوری طورپربچوں کے ذہنوں میں لادینیت کی تعلیم راسخ کرتی ہیں، دوسرے ہندونظریاتی ادارے ہیں، جنھوں نے اپناکام آزادی کے فوراًبعدسے شروع کردیاہے، جہاں خالص ہندونظریہ کے مطابق تعلیم دی جاتی ہے، یہاں ’’وندے ماترم‘‘ کے ساتھ ساتھ اسمبلیوں میں ایسے الفاظ دہروائے جاتے ہیں، جوسراسرمشرکانہ ہوتے ہیں، ان کے علاوہ کچھ حکومتی ادارے ہیں، جہاں تعلیم کم اورضیاعِ وقت زیادہ ہوتا ہے، اب سوال یہ ہے کہ سرکاری اسکولوں یاعیسائی مشنری وسنگھ پریوارکے تحت چلنے والے اسکولوں میں اپنے بچوں کی تعلیم دلاناجائزہے یانہیں؟
تعلیم کی حیثیت
تعلیم کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی کی سی ہے، لہٰذا تعلیم دلاناضروری ہے، اب مجبوری یہ ہے کہ یاتوسرکاری اسکول ہیں، یا عیسائی مشنری اورسنگھ پریوارکے ادارے، اگربچوں کوتعلیم دلاناہے توانھیں میں دلاناہے، یاپھرتعلیم سے محروم رکھنا ہوگا، اس سلسلہ میں راقم الحروف کے نزدیک اسکولوں کی دوصورتیں ہیں:
(الف) ان اسکولوں میں خالص مذہبی تعلیم دی جاتی ہے۔
(ب) ان اسکولوں میں تعلیم توعام دی جاتی ہے ؛ البتہ بعض مضامین یابعض امورمذہبی ہوں۔
خالص مذہبی اسکولوں میں تعلیم دلانا
پہلی صورت میں بچوں کوتعلیم دلانابالکل درست نہیں؛ کیوں کہ یہاں حفاظت ِدین وایمان کامسئلہ تعلیم سے زیادہ اہمیت کاحامل ہے، لہٰذا تعلیم پر اس کومقدم کیاجائے گا، ابن امیرالحاجؒ لکھتے ہیں:
ویقدم حفظ الدین من الضروریات علی ماعداہ عندالمعارضۃ؛ لأنہ المقصود الأعظم(التقریر والتحریر: ۳؍۳۰۷، شرح الکوکب المنیر، باب ترتیب الأدلۃ والتعادل والتعارض: ۴؍۷۲۷)۔
معارضہ کے وقت ضروریات میں سے حفظ دین کودوسروں پرمقدم کیاجائے گا؛ اس لئے کہ وہی مقصود اعظم ہے۔
نیز آں حضرتﷺکاارشادہے:
کل مولود یولد علی الفطرۃ،فأبواہ یہودانہ، أوینصرانہ، أو یمجسانہ، کمثل البہیمۃ تنتج البہیمۃ ، ہل تری فیہاجدعاء(بخاری، باب ماقیل فی أولاد المشرکین ، حدیث نمبر: ۱۳۸۵)۔
ہربچہ فطرت پرپیداہوتاہے، اس کے والدین اسے یہودی، یا نصرانی،یامجوسی بنادیتے ہیں، جیساکہ جانور، جانورہی جنتاہے، کیا تم اس میں نک کٹا دیکھتے ہو؟
اورخالص مذہبی اسکولوں میں تعلیم دلاناگویافطرت پرپیداشدہ بچے کوعیسائی اورمشرک بناناہے؛ اس لئے درست نہیں۔
عام اسکولوں میں تعلیم دلانا
جہاں تک دوسری صورت کاتعلق ہے توان میں تعلیم دلانے کی گنجائش ہے؛ البتہ غیراسلامی مذہبی مضامین اورامورسے بچانا ضروری ہے، جس کی صورت یہ ہے کہ ہیڈ ماسٹر سے بات کرکے اپنے مسلمان بچوں کوان امورسے مستثنیٰ کرایاجائے، جیساکہ عموماً ان اسکولوں میں ہوتاہے؛ لیکن اگر ہیڈماسٹر اس طرح کی گنجائش نہ نکالے توپھرایسی تعلیم سے بہرہ ورنہ ہوناہی بہتر ہے، فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والإفتاء میں ہے:
یجب علی الوالدأن یربی أولادہ ذکوراً وإناثاً تربیۃإسلامیۃ، فإنہم أمانۃ بیدہ، وہومسئول عنہم یوم القیامۃ، ولایجوز لہ أن یدخلہم مدارس الکفار، خشیۃ الفتنۃ، وإفساد العقیدۃ، والأخلاق، والمستقبل بیداللہ جل وعلا، یقول اللہ جل وعلا: سورۃ الطلاق، الآیۃ۴:ومن یتق اللہ یجعل لہ من أمرہ یسراً۔ وباللہ التوفیق، وصلی اللہ علی نبینا محمدوآلہ وصحبہ وسلم(فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والإفتاء ، فتوی نمبر: ۴۱۷۲)۔
والدپرضروری ہے کہ وہ اپنی مذکرومؤنث اولادکی تربیت اسلامی اعتبارسے کرے؛ کیوں کہ وہ ان کے ہاتھوں میں امانت ہیں، قیامت کے دن ان کی بابت ان سے پوچھ ہوگی، والدکے لئے جائز نہیں ہے کہ انھیں اخلاق وعقیدہ کے بگاڑ اورفتنہ کے اندیشہ کی وجہ سے کفارکے اداروں میں داخل کرے ، اورمستقبل تو اللہ کے ہاتھ میں ہے، اللہ تعالیٰ کاارشادہے: اورجواللہ سے ڈرا، وہ اس کے معاملہ میں آسانی پیداکرے گا، وباللہ التوفیق، وصلی اللہ علی نبینا محمدوآلہ وصحبہ وسلم۔
معلوم ہوا کہ اگرکسی قسم کے فتنہ کااندیشہ نہ ہوتوگنجائش ہے، واللہ تعالیٰ اعلم، وعلمہ اتم!
ایک تبصرہ شائع کریں