ضرورت مندمتکبر
محمد جمیل اختر جلیلی ندوی
انسانوں کے دوطبقے
اللہ تعالیٰ نے دنیاکے نظام کوچلانے کے لئے انسان کے دوطبقے بنائے ہیں، ایک طبقہ کا تعلق اَپَر کلاس سے ہے، جب کہ دوسرے کاتعلق لورکلاس سے، اپراورلور کی یہ تقسیم معاشرتی نقطۂ نظرسے بہت اہمیت کی حامل ہے، کیوں کہ اگر تمام انسان اپرکلاس کے ہوتے، توکام کاج کون کرتا؟ مکان کی تعمیرسے لے کرصفائی ستھرائی کی ذمہ داری کس کے سرہوتی؟ پھرتونہ رہنے کے لئے گھر ہوتے، نہ سانس لینے کے لئے صاف فضاہی میسرہوتی، ایسی صورت میں انسان کیا کرتا؟کہاں زندگی گزارتا؟اوراگرمعاملہ اس کے برعکس ہوتا، تمام انسان دوسرے طبقے سے تعلق رکھتے، توروزی روٹی کی تدبیرکیسے ہوتی؟ ہرشخص مزدورہوتاتو اجرت کہاں سے ملتی؟ صفائی کرنے والے توملتے؛ لیکن صفائی کرانے والا کوئی نہیں ہوتا، تعمیرکرنے والے تومیسرہوتے؛ لیکن تعمیرکرانے والے کافقدان ہوتا،معلوم ہواکہ یہ تقسیم بہت اہمیت کی حامل ہے۔
انسانی طبقات کی تقسیم ایک دوسرے کے تعاون کے لئے
اللہ تعالیٰ نے نظامِ دنیاکوچلانے کے لئے یہ تقسیم توکردیا؛ لیکن یہ پابندی بھی لگادی کہ اپرکلاس میں ہونے کامطلب یہ نہیں کہ لورکلاس کے لوگوں کوحقارت کی نگاہ سے دیکھاجائے، اُنھیں شودرکادرجہ دے کرانسانی صف سے خارج سمجھا جائے، لورکلاس میں ہونے کامطلب یہ نہیں وہ اپرکلاس والے کے برابرکھڑانہیں ہوسکتا؛ کیوں کہ یہ تقسیم محض باہمی ارتباط کے لئے ہے، یہ تقسیم صرف اس لئے ہے؛ تاکہ دنیامیں ایک دوسرے کاتعاون کیاجائے، دولت وثروت والے اُن لوگوں کی طرف دست ِتعاون بڑھائیں، جن کے پاس دولت نہیں اورجوکام کاج اورمحنت ومزدوری والے افرادہیں، وہ اُن لوگوں کے کام آئیں، جن کے پاس ہنرنہیں؛ تاکہ یہ معاشرہ امدادوتعاون کے ساتھ چلتارہے۔
کسی بھی طبقہ کوتکبر کی اجازت نہیں
جس طبقہ کواللہ تعالیٰ نے کسی مصلحت کی وجہ سے اپرکلاس والابنایاہے، اسے بھی تکبرکی اجازت نہیں دی ہے، قرآن مجیدمیں ہے: إنہ لایحب المستکبرین۔ (النحل: ۲۳) ’’بے شک اللہ تعالیٰ تکبرکرنے والے کوپسندنہیں کرتا‘‘، چہ جائے کہ لورکلاس والے کواس کی اجازت ملتی؛ بل کہ لورکلاس کے حق میں اس کی قباحت اوربڑھ جاتی ہے، مال داروں کوتوبسااوقات مال داری دھوکہ میں ڈالتی ہے، جس کے نتیجہ میں وہ تکبرکے مرتکب ہوتے ہیں؛ لیکن محتاج کے پاس تومال بھی نہیں ہوتاتوپھرتکبرکس بات پر؟محتاجی کی حالت توبندگی کے اظہارکی حالت ہوتی ہے؛ تاکہ مالک کورحم آئے، فقرمیں توضرورت کوبیان کیاجاتاہے؛ تاکہ آقاضرورت پوری کردے، بے زری میں توفروتنی اختیارکی جاتی ہے؛ تاکہ داتابخشش کرے، جب ہاتھ خالی ہوتوہاتھ پھیلایاجاتاہے؛ تاکہ نوازنے والا نوازے، نہ یہ کہ ایسی حالت میں مزیداکڑفوں دکھایاجائے، اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایاہے: ’’اورہم نے انھیں عذاب میں گرفتارکیا(ایسی حالت میں بھی)ان لوگوں نے نہ تواپنے رب کے سامنے فروتنی اختیارکی اورناہی گڑگڑائے‘‘(المؤمنون: ۷۶)، اوراللہ کے رسول ﷺ نے ایسے شخص کے بارے میں فرمایا: ثلاثۃ لاینظر اللہ الیہم یوم القیامۃ، ولایزکیہم، ولہم عذاب ألیم: شیخ زان، وملک کذاب، وعائل مستکبر(جامع الأصول، الفصل الثانی فی احادیث مشترکۃ بین آفات النفس، حدیث نمبر:۹۳۶۱)’’تین لوگ ایسے ہیں، قیامت کے دن جن کی طرف اللہ تعالیٰ رحمت کی نظرنہیں فرمائیں گے اورناہی ان کاتزکیہ کریں گے(۱) بدکاربوڑھا(۲)جھوٹابادشاہ(۳) اورتیسرامتکبرمحتاج‘‘۔
آج معاشرہ میں کتنے لوگ ایسے بھی نظرآتے ہیں، جن کے پاس دانہ دُنکا بھی نہیں ہوتا؛ لیکن فخروغرور کی وجہ سے ان کی نگاہ سطحِ زمین پرنہیں پڑنے پاتی، بسااوقات ان کی حالت ’’رسی جل جائے، پربَل نہ جائے‘‘ کے مصداق ہوتی ہے، ایسے لوگوں کوبالخصوص اورتمام لوگوں بالعموم فخروتکبرسے بچنے کی ضرورت ہے؛ تاکہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی رحمت بھری نظرسے ہم محروم نہ ہوں، اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے، آمین!
ایک تبصرہ شائع کریں