مردوں کی مشابہت اختیارکرنے والی عورت
محمد جمیل اختر جلیلی ندوی
اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں جب انسانوں کوبسانے کاارادہ کیاتوسب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کی، پھران کی تسکین کے لئے ان کی پسلی سے حضرت حواعلیہاالسلام کوپیداکیا، اللہ تعالیٰ کاارشادہے: وہی ہے، جس نے تم سب کوایک جان(نفس) سے پیداکیا اوراس( نفس)سے اس(نفس) کی بیوی کی تخلیق کی؛ تاکہ اس کے پاس سکون حاصل ہو‘‘(الأعراف: ۱۸۹)۔
مرد وعورت کی تخلیق میں اللہ کا عدل
مردوعورت کی تخلیق میں اللہ تعالیٰ نے عدل کارویہ اپنایاہے، جس سے جس طرح کاکام لیناتھا، اسے اسی قسم کی صلاحیت سے نوازا، سانچہ بھی اسی مناسبت سے ڈھالا، عقل بھی اسی اعتبارسے عطافرمایا، احساسات وجذبات بھی اسی لحاظ سے ودیعت کی اوریہ سب باتیں کوئی ہوائی نہیں ہیں؛ بل کہ موجودہ دورکے سائنس دانوں نے اس کی تصدیق وتوثیق بھی کی ہے؛ چنانچہ اس سلسلہ میں کیلیفورنیایونیورسٹی کے سائنس دانوں نے یہ واضح کیاکہ آرام اورسکون کی حالت میں عورت کادماغ مرد کے دماغ سے مختلف ہوتاہے، عورت کے دماغ کاڈیزائن مردکے مقابلے میں درد اورمشقت زیادہ جھیلنے کے اعتبارسے بنایاگیا، جب کہ مردکے دماغ کی یہ خوبی نہیں ہے، ایک ریسرچ سے یہ بھی معلوم ہواہے کہ مرداورعورت جب جیساکوئی کام کرتے ہیں تودونوں کے دماغ کے مخصوص حصے ایک دوسرے سے مختلف شکل میں متحرک ہوتے ہیں، اوراگروہ ایک دوسرے سے مختلف کام انجام دیتے ہیں تودونوں کے دماغ کاایک ہی حصہ متحرک ہوتاہے(نٹ پرموجودڈاکٹرمحمدلئیق اللہ خان کے ایک مضمون سے مستفاد)۔
جب فطری طورپردونوں کے درمیان عادات واطوار، سانچہ وساخت اورقوت وصلاحیت کے اعتبارسے فرق ہے توشریعت نے اس فرق کوچال ڈھال، بناؤسنگار اورلباس وپوشاک میں بھی ملحوظ رکھاہے، ہرایک کے لئے اس کے اعتبارسے حکم دیاگیاہے، مثلاً: لباس میں خالص ریشم اورزیورات کومردوں کے لئے حرام قرار دیا گیاہے، جب کہ عورت کے لئے ان کے استعمال کوجائزقراردیاگیاہے۔
فطرت کاخیال ضروری
اب اس فطری اورعقلی فرق کوملحوظ رکھناہماری ذمہ داری ہے، اگرہم اس کوملحوظ نہیں رکھتے توعقل وفطرت کے خلاف بغاوت کرتے ہیں، آج جس طرف بھی نظراٹھاکر دیکھئے، لڑکے اورلڑکی کے درمیان، کام کاج، بناؤ سنگار، رہن سہن، چال ڈھال اورلباس وپوشاک میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا،لڑکے بھی آفس میں نوکری کرتے ہیں اورلڑکیاں بھی، لڑکیاں بھی پونی ٹیل رکھتی ہیں اورلڑکے بھی، لڑکے بھی جینس پہنتے ہیں اورلڑکیاں بھی، لڑکیاں بھی بالیاں پہنتی ہیں اورلڑکے بھی، کبھی کبھارتودھوکہ اس قدرہوجاتاہے کہ بھائی صاحب کوبہن جی اوربہن جی کوبھائی صاحب کہناپڑتاہے، یہ ہمارے لئے( اورخاص طورپران گارجنوں کے لئے،جوخوداپنی بچیوں کے مردانہ روش کوپسندکرتے ہیں) بڑی بے غیرتی کی بات ہے کہ اس فرق کومٹادیناچاہتے ہیں، جواللہ نے رکھاہے، یہ اللہ کے خلاف بغاوت نہیں تواورکیاہے؟پھرجب کوئی اللہ کے خلاف بغاوت کرے گا توبھلاوہ چین سے کیسے رہ سکتاہے؟قیامت کے دن بھی رسوائی حاصل ہوگی؛ کیوں کہ ان عورتوں کی طرف اللہ نظررحمت نہیں فرمائے گا، جومردوں کی مشابہت اختیارکرتی ہیں، اللہ کے رسول ﷺ کاارشادہے: تین لوگوں کی طرف اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نظررحمت نہیں فرمائے گا: (۱) والدین کانافرمان (۲) مردوں کی مشابہت اختیارکرنے والی عورت (۳) اوردیوث۔ (صحیح وضعیف الجامع للألبانی، حدیث نمبر: ۳۰۷۱)
ہم تمام مسلمانوں کوچاہئے کہ اپنے گھرکی عورتوں کومردوں کی مشابہت اختیارکرنے سے روکیں؛ کیوں کہ یہ قیامت کے دن رسوائی کاسبب ہے، جس کے بارے میں ہم سے پوچھ ہوگی؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں گھرکاذمہ داربنایاہے، لہٰذا گھرکے ماحول کے بگڑنے اوردرست ہونے کاحساب ہم سے لیاجائے گا، اللہ کے رسولﷺ کاارشادہے: کلکم راع و مسئول عن رعیتہ… والرجل فی أہلہ راع، وہومسئول عن رعیتہ…۔(صحیح البخاری، حدیث نمبر: ۲۴۰۹) ’’تم میں سے ہرشخص ذمہ دارہے اوراس سے اس کی رعیت(ماتحت کے سلسلہ میں ذمہ داری ) کی بابت پوچھ ہوگی… مرداپنے اہل کاذمہ دارہے اوراس سے اس کے ماتحتوں کے بارے میں پوچھ ہوگی‘‘؛ اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے اندراحساس ذمہ داری پیداکریں؛ تاکہ قیامت کے دن پوچھ سے بچ سکیں، اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطافرمائے، آمین!
ایک تبصرہ شائع کریں