ظالم بادشاہ
محمد جمیل اختر جلیلی ندوی
انسانوں کوکنٹرول کرنے اورانھیں ایک نظام کے تحت چلانے کے لئے ضروری ہے کہ ان کاایک سردارہو، جو اپنی قوم کے لحاظ سے ذی شعوراور عقل مندہو؛ تاکہ حق والے تک اس کاحق پہنچااورغیرمستحق دعویدارکوقرارواقعی سزادے سکے، نیز چوں کہ انسانی مزاج میں جدل(لڑائی جھگڑا)بھی پایاجاتاہے توایسے موقع پرصلح وصفائی کراکے معاملہ رفع دفع کرسکے، اگرکسی قوم کاکوئی سردارنہیں ہوتا تواس قوم میں’’جنگل راج‘‘ نافذرہتاہے، جہاں طاقت وراپنے سے کمزورکوگٹک لینے کی پوری کوشش کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ سردارکے لئے ’’عدل وانصاف‘‘کی صفات سے متصف ہونے کوضروری قراردیاگیاہے؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ کاارشادہے: جب تم لوگوں کے درمیان (حاکم بن کر) فیصلہ کروتوعدل کے ساتھ فیصلہ کرو(النساء:۵۸)، اسی طرح دوسری جگہ ارشادہے: اوراگرآپ حاکم بن جائیں تولوگوں کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کریں، بے شک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والے کوپسندکرتاہے(المائدۃ:۴۲)۔
سماجی فساد کا سبب
جب تک سردارعدل وانصاف کاپیکرہوتاہے ، معاشرہ کانظام سکون وطمانینت کے ساتھ چلتارہتاہے؛ لیکن جب رسردارعدل وانصاف کے دامن کوچھوڑدیتاہے اوروہی صفت اختیار کرلیتاہے، جوجنگل راج میں طاقت ورشخص اپنائے ہوئے ہوتاہے توپھرمعاشرہ میں فساداٹھ کھڑاہوتاہے، جولوگ سردارکے حامی ہوتے ہیں، وہ سرداری کے نشہ میں چورہوکر کمزور لوگوں کوگیدڑاورلومڑی کی طرح بھنبھوڑنے اورکتوں کی طرح کاٹنے لگتے ہیں، جس کانتیجہ وسیع پیمانہ پربگاڑہوتاہے، دبے کچلے لوگ ابتداءً توبرداشت کرتے ہیں، پھروہ بھی مقابلہ کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں؛ کیوں کہ:
ظلم کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں
ناؤکاغذ کی صداچلتی نہیں
ظالم بادشاہ کا انجام
اس آسمان نے کتنے ایسے ظالم بادشاہوں کونیست ونابودہوتے دیکھاہے، جنھوں نے مخلوق خداپرفطری وسعت کے باوجودزمین کوتنگ کرکے رکھ دیاتھا؛ حتی کہ ان میں سے بعض نے توخدائی تک کادعوی کرڈالاتھا؛ بل کہ اوراس دورمیں توہم نے یہ بھی دیکھاکہ خودمظلوم بندوں نے ہی گریبان پکڑکرمسندشاہی سے ظالم حکمرانوں کوبے دخل کردیا، آج بھی دنیاکے اسٹیج پرجوظالم حکمراں ہیں، انھیں سمجھ لینی چاہئے کہ دیرہے، اندھیرنہیں، انھیں اپنے مظالم سے بازرہناچاہئے، ورنہ وہ دن دورنہیں، جب ان کاہاتھ بھی راہ چلتے پکڑ لیاجائے۔
دنیاوی بادشاہ کی حیثیت
سرداراوربادشاہ ایک حیثیت سے زمین پراللہ تعالی کا خلیفہ ہوتاہے اوراللہ تعالیٰ کی سب سے نمایاں صفت رحمت اورمہربانی کی ہے، ظاہرجواللہ رحمت والا اور مہربان ہو، وہ کیسے یہ چاہے گا کہ اس کاجانشین ایک ظالم وجابرقسم کاہو؟ اللہ تعالیٰ فرماتاہے: وماربک بظلام للعبید(فصلت:۴۶) ’’اورتیرارب بندوں کے حق میں ظالم نہیں ہے‘‘، ظلم کی اسی قباحت کی وجہ سے ہی زبان نبوت نے ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کہنے کوافضل ترین جہادقرادیاہے، ارشادہے: بلاشبہ عظیم ترین جہادظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کہناہے (ترمذی، حدیث نمبر:۲۳۲۹)، جب ظلم وہ اللہ نہیں کرتا، جس نے انسان کوعدم سے وجودبخشاہے توپھروہ انسان کیسے کرسکتاہے، جسے چندانسانوں کاسرداربنایاگیاہے؟ اوراگروہ ظلم کرنے کورواروا سمجھے دنیا میںبھیاسے سزامل جاتی ہے اورآخرت میں توسب سے بڑی سزااللہ کی نظررحمت سے محرومی ہے ہی،اللہ کے رسول ﷺ کا ارشادہے: تین لوگ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کی طرف نظررحمت نہیں فرمائے گا، نہ ان کاتزکیہ(پاک وصاف ) کرے گا اوران کے لئے دردناک عذاب ہے: (۱) ایک وہ شخص ، جوسچے پکے مسلمانوں کے پاس آئے اوران کے عقائد کوبگاڑدے اورجمعیت کوختم کردے؛ یہاں تک کہ وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کوحلال سمجھنے لگیں اورخوںریزی پراترآئیں(۲) دوسراایساظالم بادشاہ، جو کہے کہ: جس نے میری اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی اورجس نے میری نافرمانی کی، اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ راوی حضرت سفیان نے تیسرے شخص کا ذکرنہیں کیا۔(مجمع الزوائد، کتاب الخلافۃ، باب عمال السوء وأعوان الظلمۃ، حدیث نمبر: ۹۲۰۵المعجم الأوسط للطبرانی، حدیث نمبر: ۲۴۰۱)
اللہ تعالیٰ ہمیں ظلم کرنے سے بچائے اورمظلوم وبے سہارالوگوں کاتعاون کرنے والابنائے۔ آمین!
ایک تبصرہ شائع کریں