ہجری کلینڈر کی ابتداء/ اسلامی سال

ہجری کلینڈر کی ابتداء

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

اسلام آنے سے پہلے دنیامیں تقریباً پندرہ کلینڈررائج تھے، جیسا کہ آج بھی بہت سارے کلینڈررائج ہیں، جن میں سب سے زیادہ مشہورعیسوی کلینڈرہے، ہندوستان میں سنسکرت کلینڈرماگھ، پھاگن اوربھادوں والاآج بھی باقی ہے اوربہت سارے؛ بل کہ دیہات کے لوگ اسی کے مطابق اپناکام کاج کرتے ہیں؛ لیکن اسلامی کلینڈرکی خصوصیت یہ ہے کہ اس کاتعلق کائنات کے پیداکرنے والے سے جڑاہواہے، جواس کے مکمل طورپردرست ہونے کی گواہی ہے، اللہ تعالیٰ خودفرماتاہے: ’’وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور چاند کی منزلیں مقرر کیں تاکہ تم برسوں کاشمار اور (کاموں کا) حساب معلوم کرو یہ (سب کچھ) اللہ نے تدبیر سے پیدا کیا ہے سمجھنے والوں کیلئے وہ اپنی آیتیں کھول کھول کربیان فرماتا ہے ‘‘(سورۂ یونس:۵)۔

مہینہ کے تعلق سے زمانۂ جاہلیت کا عمل

پھریہ بات بھی یادرکھنے کی ہے زمانۂ جاہلیت میں لوگ اپنے فائدہ کوسامنے رکھ کرمہینوں میں تبدیلی کرلیاکرتے تھے، جیسے: محرم کامہینہ ان کے یہاں بھی قابل احترام سمجھاجاتاتھا، جس میں لڑائی جھگڑے کی ممانعت تھی، اب وہ لوگ اس مہینے میں لڑائی کرنے کے موڈ میں ہوتے تومحرم کوکھسکاکرآگے پیچھے کردیتے اورمیدان میں اترپڑتے، اسلام نے آکراس کوختم کیااورواضح طورپرفرمایاکہ:’’اللہ کے نزدیک مہینے گنتی میں (بارہ ہیں یعنی) اس روز (سے) کہ اُس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، کتابِ الٰہی میں (برس کے) بارہ مہینے (لکھے ہوئے) ہیں اُن میں سے چار مہینے ادب کے ہیں۔ یہی دین کا سیدھا رستہ ہے تو ان مہینوں میں (قتالِ ناحق سے) اپنے آپ پر ظلم نہ کرنا‘‘(سورۂ توبہ: ۳۶)۔

مہینہ کی تبدیلی درست نہیں

اس آیت سے جہاں یہ بات معلوم ہوئی کہ سال کے بارہ مہینے ہوتے ہیں، اسی طرح یہ بات بھی مذکورہے کہ چارمہینے قابل احترام ہیں، پھران قابل احترام مہینوں میں اپنے فائدہ کوسامنے رکھتے ہوئے تبدیلی کونادرست قراردیاگیا اورفرمایاگیاکہ: ’’امن کے کسی مہینے کو ہٹا کر آگے پیچھے کر دینا کفر میں اضافہ کرنا ہے اس سے کافرگمراہی میں پڑے رہتے ہیں، ایک سال توا س کو حلال سمجھ لیتے ہیں اور دوسرے سال حرام، تاکہ ادب کے مہینوں کی جو اللہ نے مقرر کئے ہیں گنتی پوری کر لیں اور جو اللہ نے منع کیا ہے اس کو جائز کر لیں۔ ان کے بُرے اعمال ان کو بھلے دکھائی دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا ‘‘(سورۂ توبہ: ۳۷)۔

زمانۂ جاہلیت میں تاریخ یادرکھنے کا طریقہ

زمانۂ جاہلیت میں لوگ سال کویادرکھنے کے لئے کسی خاص واقعہ کاذکر کیا کرتے تھے، جیسے پیغمبراسلام کی پیدائش کوعام الفیل(ہاتھی کاسال) سے یادرکھاگیا؛ کیوں کہ جس سال ان کی پیدائش ہوئی ، اسی سال آپ کی پیدائش سے 56دن پہلے ابرہہ نے ہاتھیوں کے لشکرکے ساتھ مکہ پرحملہ کیاتھا؛ لیکن اللہ نے اپنے گھرکی حفاظت خودکی اورایک معمولی پرندہ ابابیل کے ذریعہ سے پورے لشکرکوہلاک کروادیا، پھراسلام کے عام ہونے کے بعداسلامی کسی واقعہ سے مسلمان سال کویادرکھنے لگے؛ چنانچہ آپ کے نبوت ملنے کے بعدنبوت سے سال کویادرکھتے تھے، بسااوقات دوسرے خاص واقعہ کے ذریعہ بھی سال کویادرکھاجاتاتھا، جیسے: صلح حدیبیہ کے بعدصلح سے، فتح مکہ کے بعدفتح سے، حجۃ الوداع کے بعدوداع سے اورسورۂ براء ت کے نزول کے براء ت وغیرہ سے بھی سال کویادرکھاگیا، خودآپ نے جب نجران کے عیسائیوں کوخط لکھا تواس میں حضرت علی سے یہ لکھوایا: أنہ کتب لخمس من الہجرۃ (نظام الحکومۃ النبویۃلمحمدعبدالحیّ للکتانی: ۱؍ ۱۷۲) ’’یہ خط پانچ ہجری کولکھاگیاہے‘‘۔

اسلامی تاریخ کی ضرورت

اسلامی سلطنت سب سے زیادہ حضرت عمرؓکے زمانہ میں پھیلی، عراق، مصر، لیبیا، شام، ایران، خراسان،مشرقی اناطولیہ، جنوبی آرمینیااورسجستان وغیرہ کاعلاقہ فتح ہوکراسلامک اسٹیٹ میں شامل ہوئے،جس کے کل رقبہ کااندازہ بائس لاکھ، اکاون ہزاراورتیس(22,51,030)مربع میل سے کیاگیاہے، ظاہرہے کہ اتنے بڑے رقبہ میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لئے وقت بھی درکارہوتاتھااورخطوط کے پہنچنے میں تاخیربھی ہوجایاکرتی تھی، جس کی وجہ سے یہ سمجھ پانامشکل ہوجاتا تھاکہ یہ خط کب کا تحریر کردہ ہے اورخط میں جوبات لکھی گئی ہے، اس کاتعلق کس وقت سے ہے؟ خودحضرت عمرؓ کے زمانہ میں ایک مالی معاملہ پیش آیا، جس کے دستاویز میں’’شعبان‘‘ لکھاتھا؛ لیکن سال کاذکرنہیں تھا، حضرت عمر نے سوال کیا: یہ کس سال کے شعبان کامعاملہ ہے؟ وہ شعبان، جوگزرچکا، یاوہ شعبان، جوآنے والاہے؟ اسی طرح ان کے گورنرابوموسی اشعریؓ نے ایک مرتبہ یہ لکھ بھیجاکہ : ’’ آپ کی طرف سے ہمارے پاس جوخطوط آتے ہیں، ان میں تاریخ نہیں ہوتی‘‘ (تویہ کیسے سمجھاجاسکے گاکہ یہ خط کب کاہے؟)، ایسی صورت میں حال میں یہ ضرورت محسوس کی گئی کہ سال کی بھی تعیین ہوجانی چاہئے: تاکہ کسی قسم کاکوئی شبہ باقی نہ رہے۔

ہجری کلینڈر کی ابتداء

مجلس مشاورت بلائی گئی اورغوروفکرہونے لگی، مجلس مشاورت کے سامنے کئی تاریخی واقعات تھے، جن سے سال کویارکھاجاسکتاتھا، نبوت کاسال، اسلام کی پہلی جنگ غزوۂ بدر، غزوۂ احد، جس میں سترمسلمان شہیدہوئے، جن میں سیدالشہداء حضرت حمزہؓ بھی تھے، صلح حدیبیہ، فتح مکہ، جس دن پورامکہ ففتح ہوگیا، آپ کی وفات کاسال وغیرہ بہت سارے ایسے واقعات تھے، جن سے سال کی تعیین کی جاسکتی تھی؛ لیکن طے یہ ہواکہ اسلامی کی ابتدا’’ہجرت‘‘ سے کی جائے؛ کیوں کہ اس کے اندرایسی تاریخ پوشیدہ ہے، جس نے اسلام کوعزت بخشی، جس کی وجہ سے لوگ مصائب سے آزادہوئے، جس کی وجہ سے مسلمانوں نے مکہ کی گھٹن زدہ ماحول سے نکل کرمدینہ کی کھلی فضامیں سانس لینے کے قابل ہوئے، جس کی وجہ سے اسلام بے خوف وخطرہوگیا، جواسلام کے پھیلنے کاپیش خیمہ ثابت ہوا، جس نے اسلام کونئی طاقت عطاکی، ایسی طاقت، جس کے نتیجہ میں اسلام ابھرتاہی چلاگیا؛ حتی کہ پوری دنیامیں چھاگیا، بس اسی دن سے ہجرت کی تاریخ سے اسلامی سال کویادرکھاجانے لگا۔

اسلامی سال کی ابتداء محرم کے مہینے سے کیوں؟

یہاں ایک سوال یہ پیداہوتاہے کہ ہجرت کاواقعہ توربیع الاول کے مہینے میں پیش آیا، پھراسلامی سال کی ابتداء محرم سے کیسے ہوتی ہے؟ اس کاجواب یہ ہے کہ واقعہ اگرچہ ربیع الاول میں پیش آیا؛ لیکن ہجرت کاعزم اورارادہ محرم کے مہینے میں ہی ہوگیاتھا، پھریہ کہ محرم کامہینہ اشہرحرم میں ہے اورمحرم سے پہلے والامہینہ ذی الحجہ بھی اشہرحرم میں ہے، توایک ہجرت کے عزم کی وجہ سے اوردوسرے اس کے اشہرحرم ہونے کی وجہ سے بھی اسلامی مہینے کاآغاز محرم سے ہوا؛ تاکہ اسلامی سال کاآغاز بھی محترم مہینہ سے ہواوراس کااختام بھی محترم مہینے سے ہو، اسے نیک فال کے طورپربھی لیاجاسکتاہے۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی