پھل آنے سے پہلے خریدوفروخت

پھل آنے سے پہلے خریدوفروخت

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

سوال :  آج کل کارواج پھل آنے سے پہلے ان کوفروخت کردینے کی ہے توکیایہ صورت جائز ہے؟ یاپھراس کی متبادل صورت کیاہے؟

پھل آنے سے پہلے خریدوفروخت درست نہیں

جواب:  پھل آنے سے پہلے خریدوفروخت کامعاملہ کرنادرست نہیں، خواہ یہ معاملہ اسی سال کے لئے ہویاآئندہ سال کے لئے؛ کیوں کہ یہ بیع معدوم ہے اور معدوم کی بیع کی ممانعت صراحتاً حدیث میں مذکورہے، اللہ کے رسول ﷺ کاارشادہے: 

’’لاتبع مالیس عندک‘‘۔(سنن أبی داود، باب فی الرجل یبیع لالیس عندہ، حدیث نمبر:۳۵۰۳)

اسی کی روشنی میں فقہائے امت نے بھی اس طرح کی بیع نادرست قراردیاہے، علامہ ابن ہمامؒ لکھتے ہیں:

لاخلاف فی عدم جوازبیع الثمار قبل أن تظہر۔ (فتح القدیر: ۶؍۲۶۴)  

ظہورسے پہلے پھلوں کی بیع کے نادرست ہونے میں کسی کااختلاف نہیں ہے۔

ڈاکٹر وہبہ زحیلیؒ رقم طراز ہیں:

اتفق الفقہاء علی بطلان بیع الثمار والزروع قبل أن تخلق۔(الفقہ الإسلامی وأدلتہ، بیع الثمار أوالخضار أو الزروع:۴؍۱۷۵ )

پیدائش سے پہلے پھلوں اورکھیتیوں کی بیع کے باطل ہونے پرفقہاء کااتفاق ہے۔

الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ میں ہے: 

أجمع الفقہاء علی عدم صحۃ بیع الثمارقبل ظہورہا؛ لأنہامعدومۃ، وبیع المعدوم غیرجائز للغرر۔ ( الموسوعۃ الفقہیۃ: ۱۵؍۱۳، لفظ: ثمار)

 ظاہرہونے سے پہلے پھلوں کی بیع کے عدم جواز پرفقہاء کااجماع ہے؛ کیوں کہ یہ معدوم ہے اورمعدوم کی بیع دھوکہ کی وجہ سے ناجائزہے۔

پہلی متبادل شکل

البتہ اس کے جواز کی ایک متبادل طریقہ یہ ہے کہ ’’پھلوں کامعاملہ نہ کیاجائے؛ بل کہ زمین سمیت پورے باغ کامعاملہ کیاجائے، مثلاً: ایک سال یادوسال کے لئے زمین سمیت باغ کرایہ پردیاجائے اورکرایہ دارکویہ حق حاصل ہوکہ وہ باغ کی زمین میں کچھ بوکرفائدہ اٹھائے اورمالک کااس میں کوئی حق نہ ہوگا‘‘(فتاوی قاسمیہ:۱۹؍۳۳۰)، علی بن ابوبکرمرغینانیؒ لکھتے ہیں:

ومن استأجرأرضاً علی أن یکربہا ویزرعہا أویسقیہا ویزرعہافہوجائز۔ (الہدایۃ:۲؍۲۷۲)

جس نے زمین اس شرط کے ساتھ اجرت پرلی کہ وہ ہل سے اس کی اصلاح کرے گا اورکھیتی کرے گا یااس کی سینچائی کرے گا اورکھیتی کرے گا تویہ درست ہے۔

دوسری متبادل شکل

لیکن ظاہرہے کہ اس(پہلی شکل) میں مشتری پراضافی بوجھ لادناہوا، ایسی صورت میں خریدارمشقت میں پڑجائے گا؛ اس لئے بہترشکل یہ ہے کہ پھلوں کی بیع کوبیع سلم کے ساتھ ملحق کردیاجائے، علامہ شامیؒ نے اس سلسلہ میں بہت واضح بات کی ہے اوراپنے یہاں دمشق کی مثال بھی پیش کی ہے، وہ فرماتے ہیں:

قلت لکن لایخفی تحقق الضرورۃ فی زماننا، ولاسیما فی مثل دمشق الشام کثیرۃ الأشجار والثمار، فإنہ لغلبۃ الجہل علی الناس لایمکن إلزامہم بالتخلص بأحدالطرق المذکورۃ، وإن أمکن ذلک بالنسبۃ إلی بعض أفرادالناس ، لایمکن بالنسبۃ إلی عامتہم، وفی نزعہم عن عادتہم حرج کماعلمت، ویلزم تحریم أکل الثمار فی ہذہ البلدان، إذلاتباع إلاکذلک، والنبیﷺ إنمارخص فی السلم للضرورۃ مع أنہ بیع المعدوم، فحیث تحققت الضرورۃ ہنا أیضاً أمکن إلحاقہ بالسلم بطریق الدلالۃ، فلم یکن مصادماً للنص، فلذاجعلوہ من الاستحسان؛ لأن القیاس عدم الجواز،ووظاہرکلام الفتح المیل إلی الجواز، ولذاأوردلہ الروایۃ عن محمد؛ بل تقدم أن الحلوانی رواہ عن أصحابنا، وماضاق الأمراتسع، ولایخفیٰ أن ہذامسوغ للعدول عن ظاہرالوایۃ۔ (ردالمحتار: ۷؍۸۶)

میں کہتاہوں کہ ہمارے زمانہ میں ضرورت کاتحقق پوشیدہ نہیں ہے، بالخصوص شام کے دمشق جیسے کثیر درختوں اورپھلوں والے علاقہ میں؛ کیوں کہ جہالت کے غلبہ کی وجہ سے مذکورکسی ایک طریقہ کے ذریعہ لوگوں پر خلاصی لازم کرنا ممکن نہیں ہے؛ البتہ بعض افراد کی نسبت سے اس کاامکان ہے؛ لیکن عام لوگوں کی نسبت سے ممکن نہیں اورلوگوں کوان کی عادتوں سے اتارنے میں حرج ہے، جیسا کہ آپ کومعلوم ہے، (جس کے نتیجہ میں) ان شہروں میں پھل کھانے کی حرمت لازم آتی ہے کہ پھلوں کی بیع اسی طریقہ پر ہوتی ہے، پھرنبی کریم ﷺ نے بیع معدوم ہونے کے باوجودسلم کی بیع کوضرورت کی وجہ سے جائز قراردیاہے، پس ضرورت کے ثبوت کی وجہ سے بطریق دلالت یہاں بھی اس کوسلم سے ملحق کرناممکن ہے، اس طرح نص سے متصادم بھی نہیں ہوگا، اسی لئے فقہاء نے اسے استحسان قراردیا؛ کیوں کہ قیاس عدم جواز کاتقاضہ کرتاہے، فتح القدیرکے ظاہری کلام سے بھی جواز کی طرف رجحان معلوم ہوتاہے، اسی لئے امام محمدؒ کی ایک روایت بھی اس کے لئے لائے ہیں؛ بل کہ یہ بات گزرچکی کہ امام حلوانیؒ نے ہمارے اصحاب سے روایت کیاہے، اورجب معاملہ تنگ ہوجاتاہے توگنجائش نکل آتی ہے، اوریہ بات مخفی نہیں ہے کہ ظاہرروایت سے عدول کرنے کی یہاں گنجائش ہے۔

علامہ شامیؒ نے بعض پھلوں کے ظہورکے بعدبیع کوضرورت کی بنیادپرسلم کے ساتھ ملحق قراردیاہے، ہمارے زمانہ میں پھلوں کے ظہورسے قبل ہی بیع کاعام رواج ہے، ظاہرہے کہ یہاں بھی اس ضرورت کاتحقق ہورہاہے، جس کی وجہ سے علامہ شامیؒ نے بیع سلم کے ساتھ ملحق قراردیاہے، نیز مسلمہ قاعدہ ہے: الضرورات تبیح المحظورات( الأشباہ والنظائر لابن نجیم، ص: ۸۵،التحبیر شرح التحریر،ص: ۳۸۴۷)، اوریہاں ضروت شدیدہ ہے،نیز قاعدہ ہے: الحرج مدفوع(اصول السرخسی:۲؍۲۰۳) اورالمشقۃ تجلب التیسیر( الأشباہ والنظائر لابن نجیم، ص: ۷۵)، جوسلم کے ساتھ ملحق کئے جانے کودرست قراردے رہاہے، ورنہ پھلوں کاکھاناحرام ہوجائے گاکہ بیع کاعام طریقہ آج کل یہی ہے، اسی لئے مفتی رشیداحمدؒ نے بھی اسی کوبنیاد بنا کر جائز قراردیاہے، وہ فرماتے ہیں:

’’ہمارے زمانہ میں قبل البروز ہی بیع کاعام دستورہے، وہی ضرورت ِشدیدہ وابتلاء عام یہاں بھی ہے، جس کی وجہ سے الحاق بالسلم کیاگیا، فلیتأمل‘‘(احسن الفتاوی: ۶؍۴۸۷)۔

ایک دوسرے سوال کے جواب میں تحریرفرماتے ہیں:

’’ایسی ضرورت شدیدہ کے مواقع میں عمل بالمرجوح؛ بل کہ عمل بمذہب الغیرکی بھی گنجائش دی جاتی ہے؛ بل کہ بعض مواقع میں عمل بمذہب الغیرواجب ہوجاتا ہے، حضرات فقہاء رحمہم اللہ تعالیٰ ایسے مواقع ضرورت کوکسی بعیدسے بعیدتاویل کے ذریعہ کسی کلیہ شرعیہ کے تحت لاکرگنجائش نکالنے کی کوشش فرماتے ہیں؛ چنانچہ علامہ ابن عابدین رحمہ اللہ نے بیع ثمارکی گنجائش نکالنے کی اہمیت وضرورت پربہت زوردیاہے اورطویل بحث فرمائی ہے، بالآخراس کوبیع سلم سے ملحق قراردے کرجواز کافتوی تحریرفرمایاہے‘‘(احسن الفتاوی:۴؍۴۸۷-۴۸۸)۔

ہذا ماعندی واللہ أعلم بالصواب!

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی