جھارکھنڈاورجنگ آزادی کی ابتدائی تحریکیں
(قسط نمبر:2)
محمد جمیل اختر جلیلی ندوی
کھیروارتحریک
یہ تحریک1871ء بھگیرتھ مانجھی کی سربراہی میں جھارکھنڈ میں شروع ہوئی، اس تحریک کاآغاز بھی دوسری تحریکوں کی طرح انگریزوں کے ظلم وزیادتی، جسمانی اورمعاشی استحصال کے خلاف شروع ہوئی، انگریز بھارت واسیوں سے نفع حاصل کرنے کے کسی بھی طریقہ کوہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے، ان سے ٹیکس وصول کرتے تھے، ان کی محنت سے اگائے ہوئے غلہ جات کومختلف حیلوں سے چھینتے تھے؛ حتی کہ زمین کامحصول بھی لیتے تھے اوران چیزوں کی وصولی میں ظلم وجبرسے کام لیتے تھے، اس تحریک کاآغاز بھی انھیں چیزوں کے خلاف میں ہوا؛ چنانچہ ایک مرتبہ بھگیرتھ مانجھی نے اس تحریک کے مقصد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:
’’کسی انسان نے زمین کوپیدانہیں کیا، ہماری زمین کوکسی نے نہیں جوتا تو پھرہماری پیداوارکوبانٹنے کاحق ہمارے علاوہ کسی کونہیں ہوگا‘‘۔
بھگیرتھ مانجھی کی اس تحریک میں بڑی تعدادمیں سنتھال شامل ہوئے اورانھوں نے جدیداسلحوں سے لیس انگریزوں سے اپنے جائز حق کے لئے لڑائی لڑی، اس تحریک کوبھی انگریزوں نے اپنی طاقت کے زورپرکچل دیا اوراس میں شامل لوگوں کووحشیانہ سزائیں دے کرموت کی نیندسلادیا۔
کھاڑیاتحریک
اس تحریک کی قیادت تلنگا کھاڑیا(1806-1880ء)نے کی، تلنگا کھاڑیاکی پیدائش9/فروری 1806ء کوجھارکھنڈ کے ضلع گملاکے ایک گاؤں مرگو (Murgu) میں ہوئی، اس نے جب شعور کی آنکھیں کھولیں، اس وقت بھارت پرانگریز قابض ہوچکے تھے، چھوٹاناگپور کے علاقہ پربھی ان کاقبضہ تھااور1850ء کے آخرتک پورے چھوٹاناگپورمیں ان کاقبضہ ہوگیاتھا، انگریزوں کے قبضہ کے بعد لوگوں سے اس زمین کی مال گزاری وصول کی جانے لگی، جس پر وہ صدیوں سے کاشت کاری کرتے آرہے تھے، مال گزاری نہ دے سکنے کی صورت میں زمین سے ہاتھ دھونے پرمجبورہوناپڑا، تلنگا کھاڑیا ان ناانصافیوں کودیکھ خاموش نہیں رہ سکا اوروہ اس کے خلاف لوگوں کی ذہن سازی اوران کومنظم کرنے لگا، اس نے کئی دیہات میں جیوری پنچائت بنائی، جوبرطانوی حکومت کے متوازی سیلف گورننس رول کے طورپرکام کرتی تھی، کھاڑیا کی تشکیل کردہ 13/جیوری پنچائتیں تھیں، جوگملا، سیسائی، بسیا، سمڈیگا، کمہاری، کولبیرا، چین پور، مہابوانگ اوربانو کے علاقوں میں پھیلی ہوئی تھیں، جہاں تلنگاکھاڑیا اپنے حامیوں کوتیراورتلوارکی تربیت کیاکرتاتھا، اس نے 1500کے قریب تربیت یافتہ لوگوں کی ایک فوج کھڑی کی، ان لوگوں نے لڑائی کے لئے گوریلاانداز اختیارکیا، ان لوگوں نے برطانوی حکومت کی ناک میں دم کردیا، یہ تحریک 1850-1860کے درمیان اپنے شباب پرتھی۔
برطانوی حکومت اس تحریک سے پریشان تھی اوراس کوختم کرنے کے لئے کوششیں کررہی تھی، بالآخر ایک جلسہ سے تلنگاکو گرفتارکیاگیااورلوہردگا جیل میں ڈال دیاگیا، پھروہاں سے کلکتہ جیل منتقل کیاگیا، جہاں اسے 18/سال کی قیدہوئی، جیل سے رہائی کے بعداس کاسرکش رویہ اوربھی مضبوط ہوگیا، اس نے دوبارہ اپنے حامیوں کواکھٹاکیااورانگریزوں کے خلاف جنگ کے منصوبے بنائے، جس کی اطلاع انگریزوں کوہوگئی، 23/اپریل1880ء کوجب وہ سیسائی اکھاڑہ میں ٹریننگ سیشن شروع کرنے سے پہلے روزانہ کی طرح پوجامیں مشغول تھاکہ بودھن سنگھ نامی ایک برطانوی ایجنٹ نے اس پرگولیاں چلائیں، جس سے وہ گرگیا، اس کے حامی اس کی لاش لے کرجنگل کی طرف نکل گئے ؛ تاکہ لاش انگریزوں کے ہاتھ نہ لگ سکے، پھرکویل ندی پارکرکے گملاکے سوسونیم ٹولی گاؤں میں اسے دفن کیا، جواب ’’تلنگاتوپاٹانڑ‘‘ کے نام سے معروف ہے۔
منڈاتحریک
یہ تحریک بھی سابقہ تحریکوں کی طرح زمینداروں، اونچی ذات والوں اورانگریزوں کے مظالم کے خلاف شروع ہوئی، اس تحریک کی قیادت برسامنڈا (1875-1900)نے کی، اس نے جب شعورکی آنکھیں کھولیں تواپنی قوم کوظلم وزیادتی کی چکی میں پستے ہوئے پایا، جسے یہ برداشت نہیں کرسکا اور 1895ء میں اس نے ظالموں کے خلاف بغاوت کااعلان کیا، حکومت کے خلاف بغاوت اور سرکاری عہدہ داروں کے خلاف غنڈہ گردی کے جرم میں اسے جیل بھی جاناپڑا؛ لیکن پھروہاں سے جھوٹ کرواپس آیا، 1898ء میں اس نے چالکاد نامی جگہ پرایک بڑی تعدادمیں لوگوں کوجمع کیا، جن کے ہاتھوں میں سفید اورلال رنگ کے جھنڈے تھے، سفیدجھنڈاہم وطنی کی علامت تھی، جب کہ لال جھنڈا اس ارادہ کی نشانی کہ ظالموں کے خون سے سفیدجھنڈے کو لال کرناہے۔
برسامنڈا کی تحریک کے تین بنیادی مقاصد تھے:(۱) معاشی مقصد: زمینداراورمہاجن، جنھوں نے آدیواسیوں کی زمینوں پرقبضہ کیاہے، انھیں بھگانا۔ (۲) مذہبی مقصد: آدیواسیوں میں جوباہرکے رسومات داخل ہوگئے ہیں، ان سے آدیواسی سماج کوپاک کرنا۔ (۳)سیاسی مقصد: آدیواسی علاقوں سے برطانوی راج ختم کرکے ’’منڈاراج‘‘ قائم کرنا۔ ان مقاصد کی تکمیل کے لئے برسانے دوجماعتیں بنائیں: ایک کو’’تانادھرم‘‘ کی اشاعت کاکام سونپا اوردوسرے کوتحریکی کام کی ذمہ داری دی۔
11/اگست1898ء کواس نے چارہزارلوگوں کی فوج بنائی اوران میں سے مختلف لوگوں کووزارتیں تقسیم کیں اورجنگل میں اپنی حکومت کااعلان کردیا، یہ حکومت بدگاؤں، تورن، مرمو، جسپور، رامپور، سرگجا اورزانزگیرتک پھیلی ہوئی تھی، برسانے حکم دیاکہ بغیراجازت ان علاقوں میں داخل ہونے والوں کوسزادی جائے، پھربرسانے اپنی فوج کوتین حصوں میں تقسیم کیا: (۱)پرچارک: یہ تجربہ کارلوگ تھے، جن کے گھرو ں میں برسااوران کے وزاراء ہفتہ میں دودن جمعرات اوراتوارکو خفیہ میٹنگ کرکے آگے کی حکمت عملی طے کرتے تھے۔(۲)پُرانک: یہ منتخب نوجوان تھے، جوہمیشہ لڑائی کے لئے تیار رہتے تھے۔(۳) نانک: یہ ان لوگوں کی جماعت تھی، جوخفیہ میٹنگ میں طے شدہ امورکے نافذ کرنے پرمامورتھے۔
اس طرح جب پوری تیاری ہوگئی توچھوٹی چھوٹی ٹکڑیاں بناکرپولیس تھانوں اورچرچوں پرحملہ کیاگیا، زمینداروں کوبھی تنگ کیاگیا، جب حکومت پریشان ہوگئی توجوابی کارروائی کے طورپرحکومت نے بڑی تعدادمیں آدیواسیوں کوقتل کروادیا، یہ تحریک اورآگے بڑھتی اوراپنے ہدف کوپارکرتی کہ اس سے پہلے ہی زمیندار جگموہن سنگھ اورویرسنگھ کے تیارکردہ کچھ آدیواسیوں نے برساکامعتقد ظاہرکرکے اس کی قیام گاہ معلوم کرلیا اورحکومت کواس کی اطلاع پہنچادی، حکومت نے چاروں طرف سے جنگل کوگھیرکربرساکوگرفتارکرلیا،قیدہی میں 9/جون 1900ء کو برساکی موت ہوگئی۔
یہ جھارکھنڈ کی وہ تحریکیں ہیں، جنھوں نے انگریزوں ، ان کے پٹھوؤں اوران کے مظالم کے خلاف علم آزادی بلندکی، ان میں سے اکثرتحریکیں 1857ء سے پہلی کی ہیں، جس سے یہ اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ جھارکھنڈ کی سرزمین میں سرفرروشی، جاں نثاری، ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے اور استحصال کامقابلہ کرنے کاجذبہ بدرجہ اتم موجودہے اوراس نے اپنے روایتی ہتھیاروں سے ہی انگریزوں کے دانت کھٹے کررکھے تھے، ان تحریکوں کودیکھ اورپڑھ کر یہ کہاجاسکتاہے کہ جھارکھنڈ ان علاقوں میں سے ہے، جہاں جنگ آزادی کی ابتدائی تحریکیں شروع ہوئیں۔
ایک تبصرہ شائع کریں