جھارکھنڈاورجنگ آزادی کی ابتدائی تحریکیں(قسط نمبر:1) Jharkhand and the early independence movements

جھارکھنڈاورجنگ آزادی کی ابتدائی تحریکیں

(قسط نمبر:1)

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی


۲۰۰۰ء میں ہندوستان میں جوریاستیں وجودمیں آئیں، ان میں ایک جھارکھنڈبھی ہے، یہ صوبہ 75.677کلومیٹر(28.833اسکوائرمیل)رقبہ پرمحیط بنگال، اڑیسہ اوربہارکے درمیان آباد پہاڑوں اورگھنے جنگلات سے گھراعلاقہ ہے، اس علاقہ کے ایک بڑے حصہ کوپہلے ’’چھوٹاناگپور‘‘ کے نام سے جاناجاتاتھا۔

انگریزوں کے ناپاک قدم سے بھارت کی سرزمین کوپاک کرنے میں جس طرح دیگرعلاقوں کے جاں بازوں نے جان کی بازی لگائی، اسی طرح جھارکھنڈکے بھی سورماؤں نے سردھڑ کی بازی لگائی ہے اوریہ توفطری بات تھی کہ یہاں کی مٹی ہی میں شجاعت وبہادری، جاں نثاری وجاں سپاری اورہمت وحوصلہ مندی پائی جاتی ہے، یہاں ندی نالے، تالاب جھیل، پہاڑپہاڑیاں اورگھنے جنگلات پائے جاتے ہیں، انھیں کے درمیان کھیلتے کودتے، دوڑتے بھاگتے، تیراکی اورشکارکرتے آج بھی یہاں کے بچے جوان ہوتے ہیں، جب کہ آج سے ایک ڈیڑھ صدی قبل تواس خطے کے بچوں کی جوان ہونے کی جگہیں یہی ہواکرتی تھیں، ظاہرہے کہ ایسے ماحول میں پیداہونے والے لوگوں میں شجاعت اوربہادری توفطری طورپرہوگی ہی، پھریہ علاقہ وہ ہے، جہاں کے لوگوں کی اکثریت(قبائلی) آزادطبیعت کے مالک ہوتے ہیں، نہ کھانے پینے میں رورعایت، نہ پہننے اوڑھنے میں لحاظ، بعض قبائلی توآج بھی چوہے تک کواپنی غذا بنالیتے ہیں، ایسے میں اگرکوئی ان کی آزادی کوچھیننے کی کوشش بھی کرے توکیایہ خاموش رہتے؟

انگریز جب بھارت پرقابض ہوئے تودیگرخطوں کی طرح جھارکھنڈپربھی قابض ہوئے اوریہاں کے قبائلی لوگوں کااستحصال کرناشروع کیا، ان سے جنگلات صاف کرواکرکاشت کاری کرواتے ، ان کی عورتوں کی عزتوں پرہاتھ صاف کرتے، پھران محنت کش قبائلیوں کی آباد کی ہوئی زمینوں کامالک اپنے چمچوں کوبناکراِن بیچاروں سے صرف بیگاری کرواتے اوربدلے میں ان کاجسمانی استحصال بھی کرتے اورمعاشی استحصال بھی،ان تمام وجوہات کی بناپر جھارکھنڈ کی سرزمین میں انگریزوں کے خلاف لاواپکتارہا اورپھراس سلسلہ میں کئی تحریکیں اٹھیں، ان تحریکوں کواگرچہ ’’بغاوت‘‘کانام دیاجاتاہے؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انگریزوں کے استحصال اوران کے ظلم وزیادتی کے خلاف ؛ بل کہ اپنی اوراپنے ملک کی آزادی کے لئے لڑائی تھی، ان تحریکوں کوجنگ آزادی کی ابتدائی تحریکیں کہی جاسکتی ہیں، آیئے جھارکھنڈ کی کچھ تحریکوں کے بارے میں جانتے چلیں:

چوآڑتحریک

جھارکھنڈکے آدیواسیوں نے رگھوناتھ مہتو کی قیادت میں ایسٹ انڈیاکے ظلم وزیادتی کے خلاف 1769ء میں ایک تحریک شروع کی تھی، جو 1805ء تک چلی،1769ء میں پھلگن پورنیما کے دن رگھوناتھ نے نیمیہ گاؤں کے ایک کھیت میں اس بارے میں میٹنگ رکھی اوریہیں سے اس تحریک کاآغاز ہوا، 1773ء تک یہ تحریک نیمیہ، پٹاکم، برہمم، دہلہم، میدی پور، کنچوک پرگناس(موجودہ سرائے کیلا کھرساواں)سے ہوتے ہوئے راج نگر گامہاریااوڈ تک پھیل چکی تھی، اس تحریک سے جڑے لوگوں نے انگریز کے کئی جتھے پرحملہ کیا اورکامیابی حاصل کی، نیمودھل پر قلعہ حملہ کیا، جہاں پانچ ہزار سے زیادہ فوجی تھے؛ لیکن فوجیوں کووہاں سے بھاگناپڑا،1774ء میں کنچوگ پرگناس کے ہیڈکواٹرپرحملہ کیااورپولیس فورس کوگھیرے میں لے کرہلاک کیا، اس تحریک کامرکز رانچی کاسلی تھا، 5/اپریل 1778ء کورگھوناتھ مہتونے اپنے ساتھیوں کے ساتھ رام گڑھ میں موجود انگریزوں کے کیمپ پرحملہ کرنے کامنصوبہ بنایاتھا؛ لیکن بدقسمتی سے انگریزی فوج نے ان کوگھیرلیا، دونوں کے درمیان طویل جنگ چلی، بالآخررگھوناتھ مہتو انگریزوں کی گولی کے شکارہوگئے، بڑی تعدادمیں لوگ شہیدہوئے اور سیکڑوں گرفتاربھی ہوئے،رگھوناتھ کی شہادت کے بعدیہ تحریک ختم نہیں ہوگئی؛ بل کہ یہ چلتی رہی اوررانچی سے نکل کربنگال کے میدناپورتک پھیل گئی، اس تحریک کے تعلق سے ایک کتاب بھی لکھی گئی ہے، جو’’چوآڑبغاوت 1799ء‘‘کے نام سے ہے، بتایاجاتاہے کہ اس تحریک کے شواہد آج بھی رگھوناتھ پور، گھوٹیاڈیہہ، سلی اور لوٹا وغیرہ کے دیہاتوں میں موجودہیں اوران علاقوں کے بوڑھے پرکھے اس تحریک کی کہانیاں بھی سناتے ہیں، اس تحریک کے تعلق سے، جسے’’بغاوت‘‘ کے نام سے مشہورکیاگیاہے، یہ بہت ہی مناسب تجویز دی گئی ہے کہ اسے’’جنگل محل کی آزادی کی تحریک‘‘ کہاجائے۔

کول تحریک

کول تحریک کاآغاز1831ء میں ہوا، اسے بھی ’’آزادی کی لڑائی‘‘ ہی کہنا چاہئے، اس کاسبب کول قبیلے کے لوگوں کی زمینوں پرغاصبانہ قبضہ اوران پربے جاظلم وزیادتی تھی، انگریزوں کے دورحکومت میں ان سے اُن زمینوں کوچھین لیاگیا، جن پریہ برسوں سے کاشت کاری کیاکرتے تھے، جس کی وجہ سے انھیں معاشی طورپرتنگی کاسامناکرناپڑا، انگریزوں نے اپنے حامیوں کے درمیان ان کی زمینوں کوتقسیم کردیا، جوزمیںداراورمہاجن کی شکل میں نمودارہوئے، یہ نہ صرف ان کاجسمانی استحصال کرتے تھے؛ بل کہ ان کی بہوبیٹیوں کی عزت پربھی ڈاکے ڈالتے تھے، اس صورت حال نے کول قبیلے کواپنی آزادی کی لڑائی لڑنی پڑی،یہ لڑائی دراصل ان غیرقبائلی جاگیرداروں، مہاجنوں اورسودخوروں کے خلاف تھی، جن کی پشت پرایسٹ انڈیاکمپنی کھڑی تھی؛ چنانچہ کول قبیلے کے لوگوں نے ان کی املاک کوتباہ وبرباد کردیا اوران کی پشت پناہی کرنے کی وجہ سے سرکاری خزانے کوبھی لوٹااورعدالتوں اورپولیس اسٹیشنوں پربھی حملہ کیا، حالات کی سنگینی کودیکھتے ہوئے کمپنی نے فوج کی ایک بڑی تعداد روانہ کی، جس نے کول قبیلے کی اس بغاوت کوکچل دیا، ظاہرہے کہ بھالا، پھارسااورغلیل وتیردھنش کے روایتی ہتھیارسے وہ برطانوی فوج کے نئے اسلحوں کامقابلہ بھی نہیں کرسکتے تھے، نتیجہ یہ ہواکہ بھاری تعداد میں کول مارے گئے۔

سنتھال تحریک

اس تحریک کوبھی ’’سنتھال بغاوت‘‘ یا’’سنتھال ہول‘‘ (Santhal Hool)کے نام سے جاناجاتاہے، یہ تحریک30/جون 1855ء میں  شروع ہوئی، یہ تحریک بھی برطانوی نوآبادیاتی اتھاریٹی اوراونچی ذات کے زمینداروں کے خلاف تھی، جو نہ صرف یہ کہ ان پر ظلم وزیادتی کیاکرتے تھے؛ بل کہ صدیوں سے جن زمینوں پروہ کاشت کرتے تھے، ان زمینوں کوان لوگوں نے چھین لیاتھا، اسی کے ساتھ ساتھ ان سے اضافی ٹیکس بھی وصول کرتے تھے اوران کی عورتوں کواپنی ہوس کانشانہ بھی بناتے تھے۔

اس تحریک کو’’مرموں برادران‘‘ نے شروع کیاتھا، یہ چاربھائی تھے، سدھو، کانہو، چانداوربھیرو، ان کی قیادت میں 60,000 سنتھال انگریزوں سے مقابلہ کے لئے جمع ہوئے،انھوں نے بہت سارے دیہاتوں میں زمینداروں، ساہوکاروں اورانگریزوں کے کارندوں کوسزائے موت دی،اس تحریک سے نمٹنے کے لئے برطانوی حکومت نے بھاری تعداد میں فوج بھیجی، سنتھال گرچہ بہترین تیرانداز تھے؛ لیکن ظاہرہے کہ یہ تیرانگریزوں کے بندوق اورتوپ کامقابلہ نہیں کرسکتے تھے، نتیجہ یہ ہواکہ 15000ہزارسے زیادہ لوگ مارے گئے اوران کے دسیوں گاؤں تباہ وبرباد کردئے گئے اوراس طرح اس تحریک کوکچل دیاگیا۔      

(جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی