سبسڈی (subsidy)والے قرض کاحکم

بینک سے سبسڈی والے قرض لینا 

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

سوال(۱): وہ قرضے، جن کاایک حصہ معاف کردیاجاتاہے اور لی ہوئی رقم سے کم واپس کرناپڑتاہے، ایسے قرضوں کا کیاحکم ہے؟

جواب: اس سوال کے جواب کے لئے دو باتوں کاجانناضروری ہے:

۱-  بینک کی حیثیت کیاہے؟

۲-  بینک میں جمع کی جانے والی رقوم کی حیثیت کیاہے؟

بینک کی حیثیت

پہلی بات کاجواب یہ ہے کہ بینک ایک ایسے ادارے کانام ہے، جوافراد وتنظیم کی امانتیں ایک متعین یاغیرمتعین مدت کے لئے قبول کرتاہے، پھر دوسروں (ضرورت مندوں) کوقرض فراہم کرنے میں ان کااستعمال کرتاہے، رضوان منیر ماردینی نے ڈاکٹرمحمداسماعیل ہاشم کی کتاب ’’مذکرات فی النقود والبنوک‘‘ سے اس کی تعریف یوں نقل کی ہے:

أنہ المنشأۃ التی تقبل الودائع من الأفرادوالہیئات تحت الطلب أولأجل، ثم تستخدم ہذہ الودائع فی منح القروض والسلفیات۔ (البنک الإسلامی ومجالات عملہ لرضوان منیرالماردینی،ص:۳)

’’یہ وہ ادارہ ہے، جو افراد اور تنظیموں سے مطالبہ کے تحت یا ایک مدت کے لئے جمع شدہ رقم کو قبول کرتا ہے ، پھر ان کو قرض اور ایڈوانس دینے کے لئے استعمال کرتا ہے‘‘۔

بینک کی ا س تعریف سے معلوم ہواکہ بینک بھی بنیادی طورپر’’جوائنٹ اسٹاک کمپنی‘‘ ہے اورکمپنی کی حیثیت ایک ’’قانونی شحض‘‘ کی ہوتی ہے۔

بینک میں جمع کی جانے والی رقوم کی حیثیت 

دوسری بات کاجواب یہ ہے کہ بینک میں جمع کی جانے والی رقوم کی حیثیت ’’امانت‘‘ کی ہے، جوفقہی طورپرقرض ہوتاہے(نظریۃ القرض فی الفقہ الإسلامی لأحمدأسعد،ص:۳۳۲،اسلام اورجدید معیشت وتجارت از: مفتی تقی عثمانی صاحب، ص: ۱۱۵)، اورقرض کا حکم یہ ہے کہ مستقرض(قرض دار)کی ملکیت اس میں ثابت ہوجاتی ہے، لہٰذا وہ اس میں تصرف کامالک ہوتاہے، ملک العلماء علامہ کاسانیؒ لکھتے ہیں:

وأماحکم القرض: فہوثبوت الملک للمستقرض فی المقرَض للحال۔ (بدائع الصنائع: ۷؍۳۹۶)

مذکورہ دونوں باتوں کی وضاحت سے ہمیں معلوم ہوا کہ بینک ایک ایسا ’’قانونی شخص‘‘ہے، جو اپنی ملکیت میں تصرف کرنے کااختیاررکھتاہے، لہٰذا وہ دوسرے کوقرض دے سکتاہے، اورجب وہ قرض دے سکتاہے تواپنے دئے ہوئے قرض کاایک حصہ معاف بھی کرسکتاہے، اس میں کسی قسم کا کوئی حرج نہیں،  علامہ شامیؒ لکھتے ہیں:

والدائن إذاقبض دینہ، ثم أبرأ المدین عنہ صح۔(ردالمحتار، مطلب فی التملیک: ۸؍۵۰۲)

قرض خواہ قرض پرقبضہ کے بعدمعاف کردے تویہ درست ہے۔

جب کل قرض کومعاف کرنے کی اجازت ہے توقرض کاایک حصہ معاف کرنے کی بدرجۂ اولیٰ اجازت ہوگی؛ چنانچہ علی حیدرؒ فرماتے ہیں:

الوجہ الرابع: أن یقول الدائن : أعطنی نصف دینی علی أن تکون بریئاً من الصف الآخر ولماکان لم یذکروقتاً لأداء النصف، أصبح الإبراء فی النصف صحیحا،وکان ہذا الإبراء ابراء مطلقاً۔ (دررالحکام، المادۃ: ۱۵۶۲، إذاأبرأ أحد آخر من حق یسقط حقہ…:۴؍۷۰)

چوتھی صورت یہ ہے کہ قرض خواہ کہے: مجھے میرے قرض کانصف ، نصف آخر کی معافی کے ساتھ دے دو، اورنصف آخر کی ادائے گی کاوقت غیرمذکورہو تونصف میں معافی صحیح ہے اوریہ معافی مطلق ہوگی۔

لہٰذا بینک کے وہ قرضے، جن کاایک حصہ معاف کردیاجاتاہے اورلی ہوئی رقم سے کم واپس کرناپڑتاہے، ایسے قرضوں کے لینے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ البتہ دوباتیں ملحوظ رہنی چاہئیں:

۱-  قرض لیناایک ضرورت ہے، جوپہاڑکے بوجھ سے بڑھ کرہوتاہے؛ اس لئے اس’’ ضرورت ‘‘سے استفادہ بقدر ضرورت ہی ہوناچاہئے؛ کیوں کہ اصول ہے: ماأبیح للضرورۃ یقدربقدرہا۔(الأشباہ والنظائر:۱؍۹۵)۔

۲-  بینک کااکثرکاروبارسودپرمشتمل ہوتاہے، لہٰذا ’’شدید قسم کی ضرورت‘‘ پرہی بینک سے قرض لینے کی کوشش کی جائے۔ 

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی