سات چیزوں سے پہلے ……!

سات چیزوں سے پہلے ……!

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی


سلسلۂ نبوت کی آخری کڑی حضرت محمدمصطفی ﷺہیں، امت کے خیراوربھلائی کے تئیں انھیں جوفکردامن گیرتھی، وہ کسی صاحب علم سے پوشیدہ نہیں؛ حتیٰ کہ خوداللہ تعالیٰ نے فرمایا: (اے پیغمبر!) اگر یہ اس کلام پر ایمان نہ لائیں تو شاید تم ان کے پیچھے رنج کر کر کے اپنے آپ کو ہلاک کر دو گے (الکہف:۶)، اسی فکرکے تحت امت کوبہت ساری باتیں بھی بتلائی ہیں، جن پرعمل کرکے ایک امتی اپنے آپ کوجنت کامستحق بناسکتاہے، انھیں باتوں میں سے درج ذیل سات باتیں بھی ہیں، جن میں مشغول ہوکرانسان اپنے خالق کوبھول بیٹھتا(یابیٹھے گا)، اللہ کے رسولﷺنے امت کویہ ہدایت دی کہ ان میں پڑنے سے پہلے اعمال صالحہ کی فکرکرو، ورنہ وقت گزرنے کے بعدکف افسوس ملنے کے سواکچھ بھی باقی نہیں رہے گا،آیئے! ہم بھی ان سات چیزوں کوجانتے چلیں؛ تاکہ ہمیں کف افسوس نہ ملناپڑے۔

اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا: بادروابالأعمال سبعاً: ہل تنتظرون إلافقراًمنسیاً، أوغنیً مطغیاً، أومرضاً مفسداً، أوہرماًمفنداً، أوموتاًمجہزاً، أوالدجال، فشرغائب ینتظر، أوالساعۃ، فالساعۃ أدہیٰ وأمر۔(سنن الترمذی، حدیث نمبر: ۲۳۰۶)’’سات چیزوںسے پہلے اعمال(صالحہ) کی طرف لپکو، کیاتمہیں بھلادینے والے فقروفاقہ کاانتظارہے، یاسرکش بنادینے والی مالداری کا، یابگاڑدینے والی بیماری کا، یاسٹھیادینے والے بوڑھاپے کا، یااچانک آنے والی موت کا، یادجال کا، تویہ براغائب شخص ہے، جس کاانتظارکیاجارہاہے، یاقیامت کا، توقیامت بہت ہی ہولناک اورکڑوی ہے‘‘۔

اس حدیث میں اللہ کے رسولﷺ نے دوطرح کے اعمال کے بارے میں بتلائے ہیں، ایک وہ، جن کاتعلق انسان کی اپنی ذات سے ہے، جب کہ دوسرے کاتعلق عموم سے ہے؛ البتہ دونوں ایسے ہیں، جن کی وجہ سے انسان اعمال نہیں کرسکے گااورجب اعمال نہیں کرسکے گاتوجنت کامستحق کیسے قراردیاجاسکے گا؟

۱- بھلادینے والافقر

فقروفاقہ انسان کووہ کام کرنے پرمجبورکردیتاہے، جس کے بارے میں سوچابھی نہیں جاسکتااورایسے کام سے غافل کردیتاہے، جواسے کرناچاہئے، یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے فقرسے پناہ مانگنے کاحکم فرمایاہے، ارشادہے: ’’اللہ کی پناہ مانگوفقرسے، قلت(مال)سے، ذلت سے اوراس سے کہ تم کسی پرظلم کرویاتم پرظلم کیاجائے‘‘(ابن ماجہ، حدیث نمبر: ۳۸۴۲)، نیزاللہ کے رسولﷺنے خودبھی ان چیزوں سے پناہ مانگی ہے،فرماتے تھے:’’اے اللہ ! میںپناہ مانگتاہوں فقر سے، قلت (مال)سے، ذلت سے اوراس سے کہ میںکسی پرظلم کروںیامجھ پرظلم کیاجائے‘‘(سنن ابی داود، حدیث نمبر: ۱۵۴۶)۔

کہتے ہیں کہ’’پیٹ بڑاپاپی ہوتاہے‘‘، یہ انسان سے کچھ بھی کرواسکتاہے، انسان اس کے لئے دھوپ کی تمازت بھی برداشت کرتاہے اوربارش کی بوندیں بھی جھیل لیتاہے، مزدوری کرتاہے، جس میں جھڑکیاں بھی سننی پڑتی ہیں، اپنے سرپربوجھ بھی ڈھوتاہے، جس میں رسوائی ہوتی ہے، بہت ساری خواتین اسی پاپی پیٹ کے چکرمیں اپنی عصمت کوبیچ ڈالنے پرمجبورہوجاتی ہیں، فقروفاقہ کے وقت انسان صرف یہ سوچتاہے کہ وہ کونساایساکام کرے، جس سے اس کافقردورہوسکے؟ظاہرہے کہ ایسے وقت میں اعمال کی طرف توجہ کیسے ہوسکتی ہے؟ اوراگرہوبھی جائے تواعمال کرتے ہوئے وہ یکسونہیں رہ پاتا، اسی لئے اللہ کے رسول ﷺنے اس کی طرف توجہ دلائی کہ جب تم کواللہ تعالیٰ نے خوش حالی عطاکررکھی ہے تواس کی قدرکرواوراللہ کاشکراداکرو، زبانی بھی اورعملی بھی۔

زبانی شکرتویہ ہے کہ ’’الحمدللہ‘‘کہاجائے اورعملی شکریہ ہے کہ ان فرائض کی ادائے گی کی جائے، جن کا ہمیں مکلف بنایاگیاہے، اس سے بالکل بھی غفلت نہ برتی جائے؛ کیوں کہ پتہ نہیں جس خوش حالی کی وجہ سے ہم کوتاہی کرہے ہیں، وہ کب ہم سے چھن جائے اورایسافقرمسلط کردیاجائے، جواعمال کی طرف رخ پھیرنے کی بھی مہلت نہ دے؟

۲- سرکش بنادینے والی مالداری

جس طرح محتاجگی اورفقروافلاس انسان کوغافل بنادیتاہے، اسی طرح بسااوقات مال ودولت کی کثرت بھی انسان کوغفلت میں ڈال دیتی ہے، شداد اتنامالدارتھاکہ اس نے دنیاہی میں جنت بنواڈالی، قارون کے خزانوںک ی توآج بھی مثال پیش کی جاتی ہے، فرعون بادشاہ تھااورہرطرح کی راحت وآسائش اسے مہیاتھے؛ لیکن ان لوگوں کے ذہنوں سے اس دولت نے خالق کے وجودکومٹادیاتھا، یہ لوگ یہ سمجھنے لگے کہ یہ میری کمائی ہوئی دولت ہے اورجس کے پاس دولت ہو، اسے خداکویادکرنے کی کیاضرورت ہے؟ بل کہ فرعون نے تو’’أناربکم الأعلی‘‘(میں تم سب کابڑارب ہوں)کادعوی ہی ٹھونک دیا، اس کانتیجہ کیاہوا؟ سب کے سب ہلاک کردئے گئے۔

جب مال ودولت کی بہتات ہوجاتی ہے توانسان سرکش بن جاتاہے، قرآن خودکہتاہے: ’’مگر انسان سرکش ہو جاتا ہے٭ جب کہ اپنے تئیں غنی دیکھتا ہے‘‘(العلق: ۶-۷)،اورظاہرہے کہ سرکشی اطاعت نہیں کرنے دیتی ، وہ تونخوت اورگھمنڈکاراستہ دکھاتی ہے اورجس شخص کے اندرنخوت اورگھمنڈ پیداہوجائے تواسے اعمال کی فرصت کہاں؟ وہ توفرعون وہامان بن جاتاہے، اسی لئے اللہ کے رسولﷺنے امت کوتوجہ دلائی کہ ایسی مالداری کاانتظارمت کرو؛ بل کہ اللہ نے جتنی دولت سے نوازاہے، اس پرقانع بن جاؤ اوران اعمال کی طرف متوجہ ہوجاؤ، جوتمہیں مطیع بناسکے اورجنت کے لئے راستہ ہموارکرسکے، بہادرشاہ ظفرنے کیاہی اچھی بات کہی ہے:

ظفرآدمی اس کونہ جانئے گا، ہووہ کیساہی صاحب فہم وذکاء

جسے عیش میںیادخدانہ رہی، جسے طیش میںخوف خدانہ رہا

۳- بگاڑدینے والی بیماری

تندرستی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے، اسی کوغالب ؔنے یوں کہاہے:

تنگ دستی اگر نہ ہو غالبؔ

تندرستی ہزار نعمت ہے

یہ ایسی نعمت ہے، جس کے سلسلہ میں اکثرلوگ دھوکہ میں رہتے ہیں، اس کی قدردانی نہیں کرتے، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:’’دو نعمتیں ایسی ہیں، جن کے بارے میں لوگ کثرت سے دھوکہ میں ہیں، ایک تندرستی، دوسری فارغ البالی‘‘(بخاری، کتاب الرقاق، حدیث نمبر: ۶۴۱۲)،اب ذرا اپنے معاشرہ کاجائزہ لیجئے! کتنے لوگ ان دو نعمتوں کے قدر داں ملیں گے؟’’تندرستی ہزار نعمت ہے‘‘ کامصرع پڑھ اور بول ضرور لے تے ہیں؛ لیکن صحت کو باقی رکھنے کی کتنی تدبیروں پرعمل پیراہیں؟ ہماری نوجوان نسل کا کیاپوچھنا؟ رات ٹیلی ویژن اورانٹر نٹ پر بیٹھ کردودو تین تین بجادیتے ہیں،پھرآنکھ اس وقت کھلتی ہے، جب شاہ خاور ایک تہائی حصہ طے کرچکتاہے،حالاں کہ صبح کی ہوا خوری صحت کے لئے بہت ہی زیادہ مفید ہے، اسی کے ساتھ ساتھ مخرب اخلاق لٹریچر پڑھ کر اور عریاں وفحش تصاویر دیکھ کر چند سیکنڈ کی لطف اندوزی کی خاطر اپنی اچھی خاصی توانائی اورقوت کوضائع کردیتے ہیں؛ حالاں کہ پیارے حبیب ﷺ نے ایسے شخص کو ملعون قراردیاہے، ناکح الید ملعون۔ (کشف الخفاء: ۲/۳۲۵)،اسی کے ساتھ ساتھ پڑیااورگٹکھے کھاکھاکرپچ پچ دھوکتے ہیں؛ حالاں کہ انھیں یہ معلوم ہے کہ اسے کھانے سے نقصان ہے۔

ایسی ہی قدردانی فارغ البالی کے ساتھ ہے، ہر شخص کے دماغ میں یہی رچ بس گیا ہے کہ ارے ! ابھی عمر ہی کیا ہوئی ہے؟ ابھی توکھانے پینے اور کھیلنے کودنے کے دن ہیں،در اصل یہ ایک شیطانی سوچ ہے اورشیطان تو انسان کاکھلاہوادشمن ہے،تاریخ کاتھوڑاہی سہی مطالعہ کیجئے! عروج واقبال کی جتنی داستانیں اورفتح وانقلاب کی جتنی تاریخیں ہیں، سب کے پیچھے نوجوان ہی کا ہاتھ نظر آتاہے،اسی لئے پیارے نبی ﷺ کا فرمان ہے: المومن القوی خیروأحب الی اللہ من المومن الضعیف۔ (مسلم، حدیث نمبر: ۴۸۱۶)،’’طاقت ور مومن کمزور مومن سے بہتر ہے اوراللہ کے نزدیک محبوب ہے‘‘،نبی کریم ﷺنے اسی کی طرف امت کوتوجہ دلائی ہے کہ تندرستی کے زمانہ کوغنیمت سمجھاجائے اورایسی بیماری آنے سے پہلے اعمال کرلئے جائیں، جوانسان کوعمل سے روک دے، عربی شاعرنے کیاخوب کہاہے:

اغتنم فی الفراغ فضل رکوع- فعسی أن یکون موتک بغتۃً

کم صحیح رأیت من غیرسقم- ذہبت نفسہ الصحیحۃ فلتۃً

(فراغت کے وقت رکوع کی اہمیت کوغنیمت جانو، ہوسکتاہے کہ موت اچانک آجائے؛(کیوں کہ)کتنے تندرست لوگوں کوتم نے دیکھاہوگا، جن کی جانیں اچانک نکل گئیں)

۴- سٹھیادینے والا بوڑھاپا

بوڑھاپاانسان پرطاری ہونے والی ایک حالت ہے، جس کی وجہ سے جسم کے تقریباً تمام ہی اعضاء ڈھیلے پڑجاتے ہیں، کمزوری آجاتی ہے، تھکن کااحساس جلدہونے لگتاہے، حواس خمسہ کی قوتیں متاثرہوجاتی ہیں، اسی لئے توکہاجاتاہے کہ ’’بوڑھاپابذات خودبیماریوں کاگھرہے‘‘، آج یہ بیماری توکل یہ بیماری، ایک سلسلہ چل نکلتاہے، ظاہرہے کہ ایسی صورت میں انسان اعمال کی طرف کیسے متوجہ ہوسکے گا؟

پھرایسابوڑھاپا، جوانسان کوسٹھیادے، عقل کوکمزوراوراسے مخبوط الحواس بنادے، وہ تواورزیادہ انسان کوناکارہ بناکررکھ دیتاہے، لوگ بھی اسے ناکارہ قراردے دیتے ہیں اورآج کے زمانہ میں توبہت ساری اولادانھیں’’بوڑھوں کے گھر‘‘(Old age home)چھوڑآتے ہیں، ایسے وقت میں چاہ کربھی انسان عمل نہیں کرسکتا، الایہ کہ اس کی عادت عمل کرنے کی بنی ہوئی ہوتوپھراسے دشواری کم ہوگی، یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسولﷺ ایسے بوڑھاپے سے اللہ کی پناہ مانگاکرتے تھے، آپ دعاکرتے تھے: اللہم إنی أعوذ بک من الہرم۔(صحیح البخاری، حدیث نمبر: ۶۳۷۱)’’اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتاہوں بوڑھاپے سے‘‘۔

امت کوبھی توجہ دلائی کہ عمل کاوقت اصل بوڑھاپانہیں ہے، اصل عمل کاوقت توعین جوانی ہے اورجوشخص جوانی کے وقت اعمال کرتا ہے توایک تواس کی عادت بن جاتی ہے، جوبوڑھاپے میں کام آتی ہے اوردوسرے قیامت کے دن عرش کاسایہ نصیب ہوگا، اللہ کے رسولﷺنے عرش کاسایہ نصیب ہونے والے سات خوش نصیبوں کاذکر کرتے ہوئے کارشادفرمایاہے:…وشاب نشأ فی عبادۃ اللہ…(صحیح البخاری،حدیث نمبر: ۱۴۲۳)’’اورایسانوجوان (بھی عرش کے سایہ میں ہوگا) جواللہ کی عبادت پرپروان چڑھاہو‘‘۔

اس لئے ہمیں اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ہم جوانی کی حالت میں اعمال کریں اوربوڑھاپے کاانتظارنہ کریں؛ کیوں کہ بوڑھاپا جسم کوکمزورکردیتاہے اور اعمال کرنے سے انسان کومشغول کردیتاہے۔

۵- اچانک آنے والی موت

موت کاایک وقت متعین ہے، اس سے نہ توایک سیکنڈ وہ آگے آئے گی اورناہی ایک سیکنڈ پیچھے، خود اللہ تعالیٰ ارشادہے:’’ اور ہر ایک فرقے کیلئے (موت کا) ایک وقت مقرر ہے،جب وہ وقت آجاتا ہے تو نہ تو ایک گھڑی دیر کر سکتے ہیں نہ جلدی‘‘ (الاعراف:۳۴)،پھریہ ہرشخص پرطاری ہونے والی چیزہے، کسی کوبھی اس سے مفرنہیں،’’ہرنفس کوموت کامزہ چکھناہے‘‘(آل عمران:۱۸۵)؛ لیکن کسی کویہ نہیں معلوم کہ وہ کب اورکہاں آئے گی؟ اس کاعلم توصرف اللہ کے پاس ہے، ’’اور کوئی متنفس نہیں جانتا کہ کس سرزمین میں اُسے موت آئے گی‘‘(لقمان: ۳۴)، اب ظاہرہے کہ جب پہلے سے اس کے بارے میں معلوم نہیں توجب بھی آئے گی، ہمارے لئے اچانک ہی ہوگی؛ البتہ بچپن اورجوانی میں لوگ اس کاتصورکم کرتے ہیں؛ حالاں کہ روزکسی نہ کسی کوموت کے منھ کے میں جاتے ہوئے دیکھتے ہیں، ہاں بوڑھاپے میں چوں کہ عمراپنے اختتام کوپہنچ جاتی ہے؛ اس لئے اس عمرمیں لوگوں کواس کاتصورہوجاتاہے۔

جب قرآن کے صریح اورواضح لفظوںسے یہ بات معلوم ہوگئی کہ موت آئے گی اوریہ معلوم نہیں کہ کب آئے گی؟ تویہ سوچ کرہاتھ پرہاتھ دھرے رہناکہ ابھی عمرہی کیا ہوئی ہے؟ کتنی بے وقوفی کی بات ہے؟جب کہ عقل مندوہ شخص ہے، جوموقع کوغنیمت سمجھے اورموت کے بعدکام آنے والے اعمال کرے۔

۶- دجال

دجال کاظہورعلامات قیامت میں سے ہے، یہ ایک آنکھ سے اندھاہوگا،یہ ایسی چیزیں لوگوں کے سامنے لے کرآئے گا، جس سے لوگوں کودھوکہ ہوگا کہ یہ خدا ہے، جولوگ کمزورایمان والے ہوں گے، وہ اس پرایمان بھی لائیں گے؛ لیکن جومؤمن ہوں گے، وہ اس کی آنکھوں کے درمیان ’’کافر‘‘لکھے ہوئے کلمہ کو پڑھ لیں گے اوراس پرایمان نہیں لائیں گے، جواس پرایمان نہیں لائے گا، وہ طرح طرح سے اسے پریشان کرے گا، اس کافتنہ اتناعام ہوگاکہ دوسرے اعمال کی طرف توجہ نہیں ہوپائے گی، یہی وجہ ہے کہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام نے اپنی قوم کواس کے فتنہ سے آگاہ کیاہے(مسندأحمد، حدیث نمبر:۲۵۱۳۳)۔

اللہ کے رسولﷺ خودبھی نمازوں کے اندر اس کے فتنہ سے اللہ کی پناہ مانگتے تھے، فرماتے تھے: اللہم إنی أعوذ بک من عذاب القبر، وأعوذبک من فتنۃ المسیح الدجال…(صحیح البخاری، حدیث نمبر: ۸۳۲) ’’اے اللہ! میں قبرکے عذاب اورمسیح دجال کے فتنہ سے تیری پناہ چاہتاہوں‘‘، امت کوبھی اس فتنہ سے آگاہ فرمایا اورکہاکہ اس کے آنے سے پہلے اعمال کی طرف لپکو؛ کیوں کہ جب یہ آجائے گاتواس کے فتنے کی شدت اعمال سے روک دے گی۔

۷- قیامت

یہ دنیادارالعمل ہے، اس کے بعدقیامت قائم ہوگی اورہرایک کواپنے کئے کاحساب دیناہوگا، پھرعمل کے مطابق جنت یادوزخ کافیصلہ کیاجائے گا، جب قیامت قائم ہوگی ، اس وقت پوری دنیاتہس نہس ہوکررہ جائے گی، زمین کوہلاکررکھ دیاجائے گا، پہاڑروئی کے گالے کی طرح اڑیں گے، اتناہولناک منظرہوگاکہ ہرحاملہ اپنابچہ کو ساقط کربیٹھے گی، قرآن مجیدمیں اس کی ہولناکی کواس طرح بیان کیا گیاہے:’’ اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو کہ قیامت کا زلزلہ ایک عظیم حادثہ ہو گا ٭ (اے مخاطب!) جس دن تو اُس کو دیکھے گا (اس دن یہ حال ہو گا کہ) تمام دُودھ پلانے والی عورتیں اپنے بچوں کو بھول جائیں گی اور تمام حمل والیوں کے حمل گر پڑیں گے اور لوگ تجھ کو متوالے نظر آئیں گے مگر وہ متوالے نہیں ہوں گے بلکہ (عذاب دیکھ کر) مدہوش ہورہے ہوں گے بیشک اللہ کا عذاب بڑا سخت ہے‘‘ (الحج: ۱-۲)۔

قیامت قائم ہونے کے بعداعمال کی مہلت نہیں ملے گی کہ اعمال کے حساب کاوقت شروع ہوگا، جودنیاوی زندگی میں بویاگیاہے، اس کاثمرہ یہاں ملے گا، اسی لئے اللہ کے رسولﷺنے امت کوآگاہ کردیاکہ قیامت قائم ہونے سے پہلے اعمال کی طرف جلدی کرو؛ کیوں کہ اس کاقیام ہمیں بتاکرنہیں ہوگا، ہاں اتنی بات ضرورہے کہ اس کے بعدعمل نہیں کیاجاسکے گا، توجتناوقت ہمیں مل رہاہے، اس میں عمل کرلیں، اسی میں بھلائی ہے، ورنہ سوائے پچھتاوے کے اورکچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔

اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ ہم تمام کوان مذکورہ امورکے ظہورسے پہلے اعمال کی توفیق دے؛ تاکہ ہمارانام بھی مستحقین جنت کی فہرست میں شامل ہوجائے، آمین یارب العالمین!


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی