کم شرح سود والے قرض
محمد جمیل اختر جلیلی ندوی
سوال: غیرمعافی قرضے یامعافی والے قرضوں میں اصل سے زائدرقم کامطالبہ ہو؛ لیکن اس کی شرح سودبہت کم ہو، جس کو سروس چارج کہاجاتاہویا اپنی مقدارکے اعتبارسے وہ سروس چارج کہلا سکتا ہوتوایسے قرضے اوران پراداکی جانے والی زائدرقم کاکیا حکم ہوگا؟ یہ سودکے دائرہ میں آئے گا یاانتظامی خرچ شمار کرتے ہوئے اس میں وسعت وگنجائش ہوگی؟
جواب:
سروس چارج کی قسمیں
سروس چارج کوہم دوصورتوں میں تقسیم کرسکتے ہیں:
۱- وہ سروس چارج، جو پیسے رکھنے والوں سے وصول کیاجائے۔
۲- وہ سروس چارج، جو اپنے قرض داروں سے وصول کیاجائے۔
پہلی صورت کے جواز میں کوئی شک نہیں؛ کیوں کہ بینک ایک ایسی کمپنی ہے، جس کے پاس لوگ روپے پیسے قرض کی شکل میں ودیعت (امانت) رکھتے ہیں، ظاہرہے کہ ان روپیوں کی حفاظت کے لئے افرادکی ضرورت پڑتی ہے، پھراسی کے ساتھ ساتھ روپیوں کے حساب وکتاب کے لئے رجسٹربھی تیارکرناہوتا ہے اوران میں اخراجات ایک لازمی شیٔ ہے، کمپنی اپنی طرف سے روپیوں کی حفاظت پرمامور افراداورحساب وکتاب کے لئے تیاررجسٹروں کے لئے خرچہ برداشت نہیں کر سکتی؛ اس لئے بینک ہرکھاتہ دارسے کچھ رقم سروس چارج کے نام سے لیتی ہے، جودراصل روپیوں کی حفاظت کے لئے اور’’الأجرۃ إنما تکون فی مقابلۃ العمل‘‘(ردالمحتار، مطلب دعوی الأب أن الجہاز عاریۃ: ۳؍۱۵۶)کے طورپر ہوتی ہے؛ چنانچہ الجوہرۃ النیرۃ میں ہے:
…بخلاف الودیعۃ إذاشرط المودِع للمودَع أجراً علی حفظہا، فلہ الأجر۔ (الجوہرۃ النیرۃ، کتاب الرہن: ۲؍۴۰۱)
’’ودیعت کے برخلاف، جب صاحب ودیعت ودیعت کی حفاظت کے لئے ودیعت رکھنے والے کے لئے اجرت کی شرط لگائے تواس کے لئے اجرت ہوگی‘‘۔
ڈاکٹراحمداسعدرقم طراز ہیں:
والحکم الشرعی لہذہ الصورۃ یتلخص فی أن المصرف یتقاضی أجراً مقابل الخدمات التی یقدمہاللمودع، وہذاجائز شرعاً، ولامجال للشبہۃ فی اختلاط الأجربالربا، أوالمنفعۃ المحرمۃ۔ (نظریۃ القرض فی الفقہ الإسلامی،ص: ۳۳۴، بحوالہ: تطویرالأعمال المصرفیۃ،ص: ۳۶۸، مشکلۃ الاستثمار فی البنوک الإسلامیۃ وکیف عالجہا الإسلام،ص:۵۵۵)
’’اس صورت کے حکم شرعی کاخلاصہ یہ ہے کہ بینک اپنی ان خدمات کے لئے اجرت کا تقاضی کرتاہے، جووہ مودع کے لئے انجام دیتاہے، یہ شرعاً جائز ہے اور اس میں سود اور منفعت محرمہ کے ساتھ اختلاط کاکوئی شبہ نہیں ہے‘‘۔
جہاں تک دوسری صورت کاتعلق ہے تواس کی بھی دوصورتیں ہوسکتی ہیں:
۱- قرض کسی شخص سے لیا جائے اوروہ سروس چارج کے نام سے کچھ رقم لے۔
۲- قرض کسی ادارہ سے لیاجائے اوروہ ادارہ سروس چارج کے نام سے کچھ رقم لے۔
پہلی صورت میں سروس چارج کے نام سے قرض کے علاوہ کچھ رقم لیناعام حالت میں درست نہیں؛ کیوں کہ یہاں کسی عمل کے مقابلہ میں یہ ’’رقم‘‘ نہیں ہے، لہٰذا یہ ’’الأجرۃ إنماتکون فی مقابلۃ العمل‘‘کے دائرہ میں نہیں ہوگا؛ البتہ خاص حالت میں مثلاً: اس کے پیسے دوسرے شہرمیں ہواورقرض لینے والے کوسخت ضرورت ہو، ظاہرہے کہ ایسی صورت میں پیسے لانے کے لئے دوسرے شہرجانے کاخرچ لینا درست ہوگا؛ کیوں کہ یہ ’’الأجرۃ إنماتکون فی مقابلۃ العمل‘‘کے تحت داخل ہے۔
دوسری صورت میں سروس چارج کے نام سے کچھ رقم لینادرست ہے کہ یہ ’’اجرۃ العمل‘‘ہے؛ البتہ اس کے لئے اس بات کولازم قراردیاجائے کہ یہ زائدرقم قرض کامعاملہ کرتے وقت ہی لیاجائے، قرض کی واپسی کے وقت نہ لیاجائے، قرض کی واپسی کے وقت لینے میں سودکے شبہ کاامکان ہے، جس سے بچنابھی ضروری ہے؛ کیوں کہ اللہ کے رسولﷺنے فرمایا:
…فمن اتقی المشتبہات استبرأعرضہ ودینہ ، ومن وقع فی الشبہات وقع فی الحرام۔(ابوداود، باب فی اجتناب الشبہات، حدیث نمبر: ۳۳۳۲)
’’جوشبہات سے بچا، اس نے اپنے دین وآبروکو(طعن وتشنیع سے) بچالیااورجوشبہات میں پڑگیا، وہ حرام میں جاپڑا‘‘۔
اگر زائدرقم سروس چارج کی طرح معمولی ہو؟
یہ توبات اس وقت کی ہے، جب سروس چارج کے نام سے کچھ زائدرقم لی جائے؛ لیکن اگر زائدرقم کانام سروس چارج نہ ہو، تاہم اس کی مقداراتنی ہی ہو، جتنی سروس چارج کی ہوتی ہے، توکیااسے بھی سروس چارج سمجھاجائے یانہیں؟
اس سلسلہ میں دوباتیں ہیں:
۱- سروس چارج کی مقداروالی رقم اگرچہ سروس چارج نہ کہلاتاہو؛ لیکن عرف میں اسے سروس چارج ہی سمجھاجاتاہوتواسے سروس چارج ہی سمجھا جائے؛ کیوں کہ فقہی اصول ہے: ’’الثابت بالعرف کالثابت بدلیل شرعی‘‘(عرف سے ثابت ہونے والی چیز دلیل شرعی سے ثابت شدہ حکم کی طرح ہے)، ایسی صورت میں اسے سودنہیں سمجھاجائے گا۔
۲- اگرعرف میں سروس چارج نہ سمجھاجاتاہوتواسے سروس چارج نہ سمجھاجائے اگرچہ کے مقدارکے اعتبارسے سروس چارج کے برابرہو؛ کیوں کہ عرفی اوروضعی دونوں اعتبارسے اسے سروس چارج نہیں سمجھاجاتااورجب سروس چارج نہیں سمجھاجاتاتوپھراس کاحکم بھی ثابت نہ ہوگا؛ کیوں کہ فقہ کاایک اصول ہے: ’’اختصاص العقد باسم لاختصاصہ بحکم یدل علیہ معنی ذلک الاسم‘‘(حکم کے ساتھ مختص ہونے کے لئے عقد کاکسی نام کے ساتھ مختص ہونااسی نام پردلالت کرتاہے، جس پروہ نام دلالت کرے)، جیسے کسی شخص نے قسم کھائی کہ وہ فلاں کے گھرنہیں جائے گا، اس شخص کے قسم کھانے کے بعد وہ فلاں اپنے گھرکوباغ یا مسجد میں تبدیل کردے، پھرقسم کھانے والااس باغ یامسجدمیں داخل ہوتووہ شخص حانث نہیں ہوگا؛ کیوں کہ :
عقد الیمین باسم الدار، والبستان والمسجد والحمام غیرالدار، فإذالم یبق ذلک الاسم لایبق الیمین‘‘۔(الجامع الصغیر، باب الیمین فی الدخول والخروج والسکنی والرکوب: ۱؍ ۲۵۹، نیز دیکھئے: المبسوط للسرخسی، باب المہایأۃ: ۲۰؍۱۴۷)
’’قسم کامعاملہ گھرکے نام کے ساتھ پیش آیا، جب کہ باغ، مسجد اورحمام نام زد گھرنہیں، پس جب نام باقی نہیں رہا توقسم بھی باقی نہیں رہی‘‘۔
لہٰذا ایسی صورت میں اسے سودسمجھا جائے گا، ھذا ماعندی واللہ أعلم بالصواب!
ایک تبصرہ شائع کریں