بے جا طلاق کی روک تھام - شرعی طریقے

بے جا طلاق کی روک تھام کےشرعی طریقے

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی


سوال : طلاق کے بارے میں جوافراط وتفریط پائی جاتی ہے اورجس سے بڑی خرابیاں پیداہورہی ہیں، ان کوقابو میں کرنے کے لئے ضرورت محسوس کی جارہی کہ طلاق کی جن صورتوں میں حنفیہ کے نزدیک متعہ واجب نہیں؛ بل کہ صرف مستحب ہے، ایسی صورتوں میں متعہ کوواجب قراردیاجائے اوربصورت نقداس کی ایک معقول حدمقررکی جائے، یایہ کہ طے شدہ مہرکے علاوہ مزیدنصف مہرلازم کیاجائے؟

جواب: اس سوال کے اندرتین شقیں ہیں:

۱- طلاق کے سلسلہ میں افراط وتفریط کودیکھتے ہوئے حنفیہ کے نزدیک جن صورتوں متعہ صرف مستحب ہے، کیاان صورتوں میں متعہ کوواجب قراردیاجاسکتا ہے؟

۲- متعہ کی جگہ بصورت نقدایک معقول حدمقررکی جاسکتی ہے؟

۳- یاطے شدہ مہرکے علاوہ مزیدنصف مہرلازم کیاجاسکتاہے؟

طلاق کی روک تھام کے لئے متعہ کا وجوب؟

جہاں تک پہلی شق کاتعلق ہے تواس سلسلہ میں ہمیں دوباتیں جاننے کی ضرورت ہے:

۱- احناف کے یہاں متعہ کن صورتوں میں واجب ہے؟

۲- متعہ کے وجوب اورعدم وجوب کے سلسلہ میں فقہائے کرام رحمہم اللہ کے کیااقوال ہیں؟

متعہ کن صورتوں میں واجب ہے؟

جہاں تک پہلی بات کاتعلق ہے تواحناف کے یہاں تمام مطلقات کے لئے متعہ مستحب ہے؛ البتہ ایک صورت ایسی ہے، جس میں مطلقہ کے لئے متعہ واجب ہے، وہ صورت یہ ہے کہ عورت کودخول سے پہلے طلاق دی گئی ہواورمہربھی طے نہ کیاگیاہو توایسی صورت میں متعہ واجب ہے، الجوہرۃ النیرۃ میں ہے:

وتستحب المتعۃ لکل مطلقۃ؛ إلامطلقۃ واحدۃ، وہی التی طلقہاقبل الدخول، ولم یسم لہامہراً، فالمتعۃ لہاواجبۃ؛ إلاإذاجاء ت الفرقۃ من قبلہا۔(الجوہرۃ النیرۃ: ۴؍۳۳)

تمام مطلقہ کے لئے متعہ مستحب ہے، سوائے ایک مطلقہ کے، اوروہ غیرمدخول بہاہے، جس کامہرطے نہ ہو، ایسی مطلقہ کے لئے متعہ واجب ہے؛ الایہ کہ جدائے گی اس کی طرف سے آئی ہو(توپھرمتعہ نہیں ہے)۔

تاہم ایک شکل ایسی بھی ہے، جس میں احناف میں سے امام زفرؒ کے نزدیک متعہ واجب ہے، جب کہ ائمۂ ثلاثہ احناف کے نزدیک اقل مہرکانصف (پانچ درہم) واجب ہے، وہ صورت یہ ہے کہ عورت کامہردس درہم سے کم طے ہواوردخول سے پہلے ہی طلاق دیدی جائے، ہدایہ میں ہے:

ولوطلقہاقبل الدخول بہا، تجب خمسۃ عندعلمائناالثلاثۃ-رحمہم اللہ-،وعندہ تجب المتعۃ کماإذالم یسم شیئاً۔ (الہدایۃ:۱؍۲۰۴)

اگردخول سے پہلے طلاق دی گئی توہمارے علمائے ثلاثہ کے نزدیک (شوہر)پرپانچ درہم واجب ہوں گے اورامام زفرؒ کے نزدیک(اس صورت میں بھی) متعہ اسی طرح واجب ہوگا، جس طرح مہرطے نہ کرنے کی صورت میں واجب ہوتاہے۔

متعہ کے وجوب اورعدم وجوب کے دلائل

جہاں تک دوسری بات(متعہ کے وجوب اورعدم وجوب کے سلسلہ میں فقہائے کرام رحمہم اللہ کے کیااقوال ہیں؟)کاتعلق ہے تواس سلسلہ میں فقہائے کرام کی دورائیں ہیں:

۱-  ہرمطلقہ کے لئے متعہ مستحب ہے  ---  یہ مالکیہ کی رائے ہے، احمدبن ادریس قرافیؒ لکھتے ہیں:

(التابع الثانی: المتعۃ)وہی عندنا مستحبۃ۔(الذخیرۃ: ۴؍۴۴۸، نیزدیکھئے: المدونۃ الکبری: ۲؍۲۳۸)

دوسری تابع:متعہ ہے، اوریہ ہمارے نزدیک مستحب ہے۔

متعہ کے استحباب پریہ حضرات دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ قرآن میں حقاً علی المحسنین کہاگیاہے اورظاہرہے کہ احسان واجب کے قبیل نہیں ہوتا، علامہ ابن رشدمالکیؒ فرماتے ہیں:

وأمامالک، فإنہ حمل الأمرعلی الندب لقولہ تعالیٰ فی أخرالآیۃ{حقاً علی المحسنین}أی: علی المتفضلین المتجملین، وماکان من باب الإجمال والإحسان، فلیس بواجب۔(بدایۃ المجتہد:۲؍۹۷)

جہاں تک امام مالکؒ کاتعلق ہے توانھوں نے اللہ تعالیٰ کے قول {حقاعلی المحسنین} کی وجہ سے امرکوندب پرمحمول کیاہے کہ محسن کے معنی فضل واحسان کرنے والے کے ہیں، اورجس کاتعلق باب احسان سے ہو، وہ واجب نہیں ہوتا۔

البتہ مالکیہ کے یہاں بھی ایک قول وجوب کاملتاہے اورفقہائے مالکیہ میں سے احمدبن محمدخلوتی صاویؒ کارجحان بھی اسی طرف معلوم ہوتاہے، وہ لکھتے ہیں:

ومشہورالمذہب الندب، وقیل: بوجوبہا، والقرآن أظہرفی الوجوب من الندب؛ ولکن صرفہ عنہ صارف عندالإمام۔(حاشیۃ الصاوی: ۵؍۴۳۹، نیزدیکھئے: حاشیۃ الدسوقی: ۲؍۴۲۵، شرح مختصرالخلیل:۴؍۸۷)

مشہورمذہب ندب کاہے، اوراس کے وجوب کی بھی بات کہی گئی ہے اورقرآن ندب سے زیادہ وجوب کے سلسلہ میں ظاہرہے؛ لیکن امام مالکؒ کے نزدیک صارف نے ظاہروجوب سے(ندب کی طرف)پھیردیاہے۔

۲- ہرمطلقہ کے لئے متعہ واجب ہے، سوائے اس غیرمدخول بہامطلقہ کے، جس کامہرطے ہو  ----  یہ شوافع کی رائے ہے؛ چنانچہ امام نوویؒ رقم طرازہیں:

فإن کان قبل الدخول، نظر، إن لم یشطرالمہر، فلہاالمتعۃ، وإلافلاعلی المشہور، وإن کان بعدالدخول، فلہاالمتعۃ علی الجدیدالأظہر۔(روضۃ الطالین، الباب الخامس: المتعۃ: ۷؍۳۲۱، نیزدیکھئے: الإقناع للشربینی: ۲؍۴۲۶)

بس یہ طلاق اگردخول سے پہلے ہوتودیکھاجائے گا، اگرمہرکاکچھ بھی طے نہ ہوتومتعہ دیاجائے گا، ورنہ مشہورقول کے مطابق متعہ نہیں ہوگااوراگردخول کے بعدہ ہوتوقول جدیدظاہرکے مطابق متعہ ہوگا۔

ان حضرات کی دلیل قرآن مجیدکی آیات{فمتعوہن وسرحوہن سراحاً جمیلاً(الأحزاب:۴۹)}اور{وللمطقات متاع بالمعروف۔(البقرۃ:۲۴۱)} ہیں کہ یہ دونوں آیات وجوب کاتقاضاکرتی ہیں۔

حنابلہ کی رائے احناف کے مطابق ہے(دیکھئے: المغنی، مسألۃ وفصول: ماتسحقہ المفوضۃ إذاکلفت قبل الدخول…: ۸؍۴۷)؛ البتہ امام احمدؒ کی بھی ایک رائے ہرمطلقہ کے لئے متعہ واجب ہونے کی ہے، ابوالبرکات مجدالدین عبدالسلام بن عبداللہ الحرانیؒ لکھتے ہیں:

وعنہ: تجب لکل مطلقۃ، وعنہ:تجب للکل؛ إلالمن دخل بہاوسمی مہرہا۔(المحررفی الفقہ:۲؍۳۷)

اوران سے روایت ہے کہ ہرمطلقہ کے لئے واجب ہے، انہی سے مروی ہے کہ ہرایک کے لئے واجب ہے، سوائے اس کے، جومدخول بہاہواورمہرطے ہو۔

مذکورہ عبارتوں سے معلوم ہواکہ :

۱- امام شافعیؒ،(ایک قول کے مطابق) امام مالکؒ، امام احمدؒاوربعض صورتوں میں احناف کے یہاں متعہ واجب ہے۔

۲- امام مالکؒ،امام احمدؒاورامام ابوحنیفہؒ کے یہاں متعہ مستحب ہے۔

متعہ کے بارے میں راجح قول

فقہائے کرام کے مستدلات پرنظرڈالنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ امام شافعیؒ کامسلک اقرب الی القرآن والاصول ہے؛ کیوں کہ قرآن مجید میں متعہ کے حکم کے سلسلہ میں جوالفاظ استعمال کئے گئے ہیں، ان سے وجوب کاثبوت ملتاہے، نیزمحسنین اورمتقین کے الفاظ سے جویہ شبہ پیداہورہاہے کہ وجوب کاتعلق عموم سے ہوتاہے، نہ کہ خصوص سے ، جب کہ یہاں خصوص کاذکرکیاگیاہے تواس کاجواب دیتے ہوئے مفسرقرطبیؒ رقم طرازہیں:

وقولہ {علی المتقین} تاکیدلإیجابہا؛ لأن کل واحدیجب علیہ أن یتقی اللہ فی الإشراک بہ ومعاصیہ، وقدقال تعالیٰ فی القرآن: {ہدی للمتقین}۔(الجامع لأحکام القرآن:۳؍۲۰۰)

اورعلی المتقین کاقول وجوب کومؤکدکرنے کے لئے ہے؛ کیوں کہ ہرفردپرضروری ہے کہ اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے اورگناہ کے ارتکاب کرنے سے پرہیز کرے، اللہ تعالیٰ نے خودفرمایا: ہدی للمتقین۔

اورعلامہ رشیدرضامصریؒ لکھتے ہیں:

وأماکونہ{حقاعلی المحسنین}فمعناہ: أنہاواجبۃ حاقۃ علی أنہاإحسان فی التعامل، لاعقوبۃ، فإن الحکمۃفیہا کماقالوا:جبرإیحاش الطلاق، کأن المعنی: إن کنتم مؤمنین باللہ محسنین فی طاعتہ، فعلیکم أن تجعلواہذاالمتاع لائقاً مؤدیاًإلی الغرض منہ۔(تفسیرالمنار:۲؍۳۴۰)

جہاں تک حقاعلی المحسنین کی بات ہے تواس کے معنی ہیں کہ یہ اس طورپرواجب ہے کہ احسان کامعاملہ ہے، نہ کہ عقوبت کا، کیوں کہ اس کی حکمت، جیساکہ فقہاء رحمہم اللہ نے فرمایا، طلاق کی وحشت کی تلافی ہے، گویامعنی ہوئے کہ اگرتم اللہ کی اطاعت میں احسان کرتے ہوئے اس پرایمان رکھتے ہوئے توتم پرضروری ہے کہ اس متاع(متعہ)کومناسب طریقہ پرمقصودتک پہنچانے والے بنو۔

عصرحاضرکے مشہورفقیہ ڈاکٹروہبہ زحیلیؒ امام شافعی ؒ کے مسلک کوراجح قراردیتے اوراس کی وجوہات کی نشاندہی کرتے ہوئے تحریرفرماتے ہیں:

والظاہررجحان مذہب الشافعیۃ لقوۃ أدلتہم، ولتطییب خاطرالمرأۃ، وتخفیف ألم الفراق، ولإیجادباعث علی العودۃ إلی الزوجیۃإن لم تکن البینونۃ الکبریٰ۔(الفقہ الإسلامی وأدلتہ: ۷؍۳۲۰)

مذہب شوافع کی ترجیح ظاہرہے؛ کیوں کہ ان کے دلائل مضبوط ہیں، اوراس میں عورت کی دل داری اورجدائے گی کے غم کو ہلکاکرناپایاجاتاہے، نیزاگربینونت کبری نہ ہوئی ہوتوتجدیدنکاح کاذریعہ بنتاہے۔

بس معلوم ہواکہ حنفیہ کے نزدیک جن صورتوں میں متعہ مستحب ہے، ان میں قرآنی آیات کے اسلوب اوردیگرائمہ کے قوال کوسامنے رکھتے ہوئے متعہ کوواجب قراردینے کی گنجائش ہے، ہذاماعندی، واللہ اعلم بالصواب!

متعہ کی جگہ نقد رقم

رہی بات دوسری شق(متعہ کی جگہ بصورت نقدایک معقول حدمقررکی جاسکتی ہے؟)کی تواس سلسلہ میں سب سے پہلے یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ متعہ کسے کہتے ہیں؟ مشہورشافعی فقیہ علامہ خطیب شربینیؒ لکھتے ہیں:

مال یجب علی الزوج دفعہ لامرأتہ المفارقۃ فی الحیاۃ بطلاق ومافی معناہ بشروط۔(مغنی المحتاج، فصل فی أحکام المتعۃ: ۳؍۳۴۱)

ایسامال، جس کادیناشوہرپرچندشرطوں کے ساتھ واجب ہو، اس بیوی کے لئے، جس کی جدائے گی زندگی ہی میں طلاق کے ذریعہ ہوئی ہو۔

البتہ فقہائے احناف نے اس کی مقدارتین کپڑے متعین کی ہے، مشہورحنفی فقیہ عبدالغنی میدانیؒ لکھتے ہیں:

والمتعۃ وہی ثلاثۃ أثواب: درع، وخمار، وملحفۃ من کسوۃ مثلہا۔(اللباب فی شرح الکتاب: ۱؍۲۵۷)

متعہ تین کپڑے ہیں، قمیص، دوپٹہ اورچادر، جواس کے پوشاک کے ہم مثل ہوں۔

تاہم یہ تین کپڑے حتمی نہیں ہیں؛ بل کہ اس سے زائدبھی دیاجاسکتاہے، علامہ شامیؒ رقم طراز ہیں:

ثم رأیت بعض المحشین قال:وفی البرجندی قالوا:ہذافی دیارہم، أمافی دیارنا، فینبغی أن یجب أکثرمن ذلک؛ لأن النساء فی دیارناتلبس أکثرمن ثلاثۃ أثواب، فیزادعلی ذلک إزارومکعب۔(ردالمحتار، کتاب النکاح، باب المہر:۴؍۲۴۴ )

پھرمیں نے بعض محشین کودیکھا، انھوں نے لکھاہے کہ برجندی میں ہے کہ فقہاء نے فرمایا: یہ ان کے علاقہ میں ہے، جہاں تک ہمارے علاقہ کی بات ہے تومناسب ہے کہ اس(تین)سے زیادہ واجب ہو؛ کیوں کہ ہمارے علاقہ میں خواتین تین کپڑوں سے زیادہ زیب تن کرتی ہیں؛ چنانچہ ازار(پاجامہ) اورمکعب(لمبی چادر)کااضافہ کیاجائے گا۔

البتہ اتناخیال رکھناضروری ہے کہ متعہ کی مقدارمہرمثل کے نصف سے نہ توزائدہواورناہی پانچ درہم سے کم ، علامہ مرغینانیؒ لکھتے ہیں:

لکن لاتزیدعلی نصف مہرمثلہا، ولاتنقص عن خمسۃ دراہم۔(الہدایۃ: ۱؍۲۰۵)

لیکن مہرمثل کے نصف سے نہ توزائدہواورناہی پانچ درہم سے کم ہو۔

یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہئے کہ متعہ کے طورپرہرحال میں کپڑاہی دیناضروری نہیں ہے؛ بل کہ اس کی قیمت بھی دی جاسکتی ہے، ملک العلماء علامہ کاسانیؒ لکھتے ہیں:

ولوأعطاہاقیمۃ الأثواب دراہم، أودنانیرتجبرعلی القبول؛ لأن الأثواب ماوجبت لعینہا؛ بل من حیث أنہامال۔(بدائع الصنائع، حکم اختلاف الزوجین فی المہر: ۲؍۳۰۴)

اگرکپڑوں کی قیمت دراہم یادنانیرکی شکل میں دیدے تواسے قبول کرنے پرمجبورکیاجائے گا؛ کیوں کہ عین کپڑے واجب نہیں ہیں؛ بل کہ اس اعتبارسے ہیں کہ وہ مال ہیں۔

مذکورہ عبارتوں کی روشنی میں راقم کے نزدیک متعہ کی بصورت نقدایک معقول حدمقررکی جاسکتی ہے؛ البتہ متعہ لازم کرنے کے مقصدکوسامنے رکھتے ہوئے اس کی مقدارمہرمثل کے نصف سے نہ توزائدہوناچاہئے اورناہی پانچ درہم سے کم، واللہ اعلم بالصواب!

طے شدہ مہرکے علاوہ مزید رقم کااضافہ

جہاں تک سوال کی تیسری شق(طے شدہ مہرکے علاوہ مزیدنصف مہرلازم کیاجاسکتاہے؟)کی بات ہے توراقم الحروف کے نزدیک اس کی بھی گنجائش ہونی چاہئے؛ البتہ اس کی حیثیت مالی جرمانہ کی ہوگی، خوداللہ کے رسولﷺسے بھی اس طرح کےجرمانہ کی بات ثابت ہے؛ چنانچہ روایت میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا:

من أعطی زکاۃ مالہ مؤتجراًفلہ أجرہ، ومن منعہا، فإنا آخذوہاوشطرمالہ، عزمۃ من عزمات ربنا، لیس لآل محمدمنہاشئی۔(جامع الأصول، حدیث نمبر:۲۶۶۴)

جواپنے مال کی زکات اجرپانے کے لئے دے تواسے اس کااجرملے گا اورجوشخص اس کوروکے گا، ہم اس سے زکات وصول کریں گے اوربطورسزااس کے مال کاایک حصہ بھی لیں گے، یہ ہمارے رب کے واجبات میں سے ایک واجب ہے، اس میں آل محمدکے لئے کوئی حصہ نہیں۔

اس حدیث میں مزید’’شطرمال‘‘ لینے کاذکرہے، جوایک قسم کاجرمانہ ہے، نیز ملکی حالات کے پیش نظراس کی گنجائش ہونی چاہئے، جس کاتذکرہ کرتے ہوئے استاذمحترم حضرت مولاناخالدسیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم ایک سوال کے جواب میں تحریرفرماتے ہیں:

’’موجودہ دورمیں خاص کرغیرمسلم ممالک میں ایسے خداناترس لوگوں کواس کے سواسزادینے کی کوئی اورصورت ممکن نہیں ہے، جسمانی سزادیناخلاف قانون بھی ہے اوراس سے مظلوم عورت کاکوئی فائدہ بھی نہیں ہوگا، اگرمالی جرمانہ عائدکیا جائے، دارالقضاء، شرعی پنچائت یامسلمانوں کے معتبرادارے اورتنظیمیں اس کا فیصلہ کریں اوروہ رقم مطلقہ عورت کے حوالہ کردی جائے تومردکی سرزنش بھی ہوگی اورعورت کوکسی حدتک سہولت بھی حاصل ہوگی؛ اس لئے موجودہ حالات میں طلاق کے بے جااستعمال پرمالی جرمانہ عائدکرنے کی گنجائش نظرآتی ہے؛ البتہ عوام اس کافیصلہ نہ کریں، دارالقضاء، محکمہ ٔشرعیہ یامسلمانوں کے کسی معتبرادارہ مردکی زیادتی کی تحقیق کرکے اوراس کے مالی استطاعت کوسامنے رکھ کرفیصلہ کرناچاہئے، واللہ اعلم بالصواب!(منصف، آپ کے شرعی مسائل، تاریخ: ۲۰؍۱۰؍۲۰۱۷ء)


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی