عادل شاہی حکومت
محمد جمیل اختر جلیلی ندوی
اس سلطنت کا بانی یوسف عادل شاہ ہے، جوآل عثمان کی نسل سے تھا؛ بل کہ سلطان دوم محمد ثانی فاتح قسطنطنیہ کا بھائی تھا، جب سلطان محمد والد کا جانشین ہوا توارکان سلطنت نے مشورہ دیا کہ سلطان مراد مرحوم کے عہد حکومت میں ایک شخص سلطنت کا دعویدار تھا؛ اس لئے اب مناسب یہی ہے کہ ولی عہد کے علاوہ تمام عثمانیوں کو تہہ تیغ کردیاجائے؛ تا کہ کسی قسم کا کوئی خدشہ باقی نہ رہے، اراکین کا یہ مشورہ سلطان محمد کو معقول لگا اوراس نے اپنے چھوٹے بھائی شہزادہ یوسف کے قتل کا فرمان جاری کردیا، اپنی جان کی حفاظت کے لئے بغداد، کاشان، اصفہان اورشیراز کی سیرکرتا ہوا، وہ دکن چلا آیا اور محمد شاہ بہمنی کے ملازموں میں شامل ہوگیا، امیرآخوری (اصطبل کی افسری) اور منصب یک ہزاری (ایک ہزار سپاہیوں کے سالار کا عہدہ) پرفائز ہوتے ہوئے بیجاپور کا طرفدار (ناظم) بنا، پھر’’جومارے، اسی کی تلوار اور جو غالب ہو، اسی کا ملک‘‘ کے مشہورمثل پرعمل کرتے ہوئے 1490ء (مطابق ۸۹۵ھ) میں باقاعدہ سلطنت بیجاپورکی بنیادڈالی، جو1686ء تک چلتی رہی۔
یوسف عادل شاہ کے تعلق سے یہ جوروایت نقل کی گئی ہے، وہ کئی کتابوں میں مذکورہے اورعادل شاہی دورکے مشہور مؤرخ محمد قاسم فرشتہ نے بھی اسی واقعہ کونقل کیا ہے (دیکھئے:تاریخ فرشتہ مترجم:۳/ ۳۰)؛ لیکن اس روایت کی اعتباریت پراس بات کی وجہ سے سوال اٹھایا گیا ہے کہ آل عثمان مذہبی لحاظ سے سنی تھے، جب کہ یوسف شیعہ مذہب کا پیروکارتھا،پروفیسر عبدالمجیدصدیقی لکھتے ہیں:
’’…لیکن یہ روایت اس وجہ سے قرین قیاس نہیں ہے کہ یوسف عادل خاں شیعہ مذہب کاپیروکارتھا، برخلاف اس کے سلاطین عثمانیہ سنی المذہب تھے‘‘(مقدمہ تاریخ دکن، ص:۶۶)۔
اس سلسلہ میں رفیع الدین شیرازی ایک دوسری بات نقل کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ یہ احمد بیگ حاکم ساوہ کا پوتا ہے، جس کوجہاں شاہ نے ساوہ کی حکومت سپردکی تھی، احمد بیگ کے بعد اس کا بیٹا محمود بیگ اس کا جانشین ہوا، جوبہت جلد لڑائیوں میں مارا گیا، یوسف محمود کا بیٹا تھا، جواپنے باپ کے مرنے کے بعد پریشان ہوکر بغداد چلاگیا اور1463ء مطابق ۸۶۸ھ میں دکن آگیا(تذکرۃ الملوک،بحوالہ:بیجاپورکی اردو مثنویاں، از:قیوم صادق،ص:۳۹)۔
میں سمجھتا ہوں کہ صرف شیعہ مذہب کے پیروکار ہونے کی وجہ سے یہ کہنا کہ وہ آل عثمان سے نہیں، صحیح نہیں؛ کیوں کہ یہ بات بھی مذکور ہے کہ صغرسنی میں ہی قتل کے خوف کی وجہ سے اسے بغداد کے علاقوں میں جانا پڑا، ممکن ہے کہ وہیں اس نے شیعہ مذہب پرعمل کرنا شروع کیا ہو۔
بہر حال! بات جوبھی ہو، وہ دکن آیااورترقی کے مدارج طے کرتے ہوئے خود ایک سلطنت کا بانی بنا، اس سلطنت کے نوبادشاہ ہوئے، جن کے نام اورمدت حکمرانی درج ذیل ہے:
۱-یوسف عادل شاہ ۱۴۹۰ تا ۱۵۱۰ء
مطابق ۸۹۵ء تا ۹۶۱ھ
۲-اسماعیل عادل شاہ ۱۵۱۰ تا ۱۵۳۴ء
مطابق ۹۱۶ھ تا۹۴۱ھ
۳-ملوعادل شاہ ۱۵۳۴ تا ۱۵۳۵ء
مطابق ۹۴۱ھ (صرف چھ مہینے)
۴-ابراہیم عادل شاہ اول ۱۵۳۵ء تا۱۵۵۷ء
مطابق ۹۴۱ھ تا ۹۶۵ھ
۵-علی عادل شاہ اول ۱۵۵۷ء تا۱۵۸۰ء
مطابق ۹۶۵ھ ۹۸۸ھ
۶-ابراہیم عادل شاہ ثانی ۱۵۸۰ء تا۱۶۲۷ء
مطابق ۹۸۸ھ تا ۱۰۳۳ھ
۷-محمد عادل شاہ ۱۶۲۷ء تا۱۶۵۶ء
مطابق ۱۰۳۳ھ تا۱۰۶۷ھ
۸-علی عادل شاہ ثانی ۱۶۵۶ء تا ۱۶۷۲ء
مطابق ۱۰۶۷ھ تا۱۰۸۳ھ
۹-سکندرعادل شاہ ۱۶۷۲ء تا ۱۶۸۶ء
مطابق ۱۰۸۳ھ تا۱۰۹۷ھ (دیکھئے: تاریخ فرشتہ:۳/ ۳۰ ومابعدہ، تاریخ جنوبی ہند از: محمودخاں محمود، ص:۱۰۳، تاریخ ملت:۳/ ۶۳۹، احکم التاریخ از: محمدحسین، ص:۳۴۰ وما بعدہ)
عادل شاہیوں کی حکومت تقریباً دوسوسال تک رہی، اس دوران انھوں نے اپنی سلطنت کو وسعت دینے کے ساتھ ساتھ علوم وفنون کی قدردانی بھی کی اور علم دوستی کاثبوت بھی پیش کیا، خود بانیٔ سلطنت یوسف عادل شاہ کے تعلق سے محمد حفیظ اللہ لکھتے ہیں:
’’یوسف عادل خاں نہایت اچھاشاعر اورمقررتھا، موسیقی میں اسے کمال حاصل تھا اورموسیقی کے جلسوں میں فی البدیہہ اشعار پڑھاکرتا، علماء، فضلاء، شعراء اور مغنیوں کا بڑا قدرداں تھا اور بیش بہا تحفوں سے ان کی ہمت افزائی کرتا، ایران و توران ، عربستان اور روم جیسے دور دراز مقامات سے ارباب علم وفن کواپنے دربار میں بلاتا اوران کی قدر افزائی کرتا‘‘(سلاطین ہند کی علم پروری، ص:۱۵۲)۔
اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جس سلطنت کی خمیر میں علم پروری ہو، اس سلطنت میں یقینا علم وفنون کی ترویج ہوئی ہوگی، یہی وجہ ہے کہ یوسف عادل شاہ کے بعد بھی کئی حکمراں ایسے آئے، جنھوں نے اپنی سلطنت کے بانی کی علم پروری کو باقی رکھا؛ بل کہ بعض تواس سے فائق بھی ہوئے؛ چنانچہ علی عادل شاہ کے بارے میں آتا ہے کہ اسے مطالعہ کا بڑا شوق تھا، دوران سفر چارصندوقوں میں کتابیں رہاکرتی تھیں (دکن میں اردو، از:نصیرالدین ہاشمی، ص:۱۷۳، واقعات مملکت بیجاپور، ص:۱۵۸)۔
ایک تبصرہ شائع کریں