فقہی قواعد
تشکیل وتدوین
تمہید
چوتھی صدی ہجری میں جب اجتہادی صلاحیت کمزورپڑگئی اورفقہی فروعات اورایک جیسےمسائل کی کثرت کی وجہ سے جزئیات کایادرکھنا نہ صرف یہ کہ دشوار ہوگیا؛ بل کہ اشتباہ بھی پیداہونے لگا، ایسے میں ایسے اصول اورقواعد مرتب کرنے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت پیش آئی، جن میں الفاظ کم ہوں اوران کے تحت مختلف ابواب کی بہت ساری جزئیات داخل ہوسکیں، یہی قواعد اوراصول ’’فقہی قواعد‘‘ کے نام سے معروف ہوئے، ذیل میں اس کی تعریف اور تدوین وارتقاء کی تاریخ پرروشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔
لغوی تعریف
قاعدہ عربی زبان کالفظ ہے، جس کے معنی ’’بنیاد‘‘ اور’’جڑ‘‘ کے آتے ہیں، اس کی جمع قواعد آتی ہے(دیکھئے: لسان العرب، لفظ: قعد، ص: ۳۶۸۹، المعجم الوسیط، ص: ۷۴۸، معجم الغنی،لفظ نمبر: ۲۰۱۰۱۰۲، ص: ۳۰۷۲)، قرآن مجید میں ہے:
وَإِذْ یَرْفَعُ إِبْرَاہِیْمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْْتِ وَإِسْمَاعِیْلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّکَ أَنتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْم(البقرۃ:۱۲۷)
اور جب ابراہیم اور اسماعیل بیت اللہ کی بنیادیں اونچی کر رہے تھے (تو دعا کئے جاتے تھے کہ) اے اللہ ہم سے یہ خدمت قبول فرمایا، بیشک تو سننے والا (اور) جاننے والا ہے ۔
دوسری جگہ اشادہے:
قَدْ مَکَرَ الَّذِیْنَ مِن قَبْلِہِمْ فَأَتَی اللّہُ بُنْیَانَہُم مِّنَ الْقَوَاعِدِ فَخَرَّ عَلَیْْہِمُ السَّقْفُ مِن فَوْقِہِمْ وَأَتَاہُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَیْْثُ لاَ یَشْعُرُون(النحل:۲۶)
ان سے پہلے لوگوں نے بھی (ایسی ہی) مکاریاں کی تھیں تو اللہ (کا حکم) ان کی عمارت کے ستونوں پر آ پہنچا اور چھت ان پر ان کے اوپر سے گر پڑی۔ اور (ایسی طرف سے) ان پر عذاب آ واقع ہوا جہاں سے ان کو خیال بھی نہ تھا ۔
اصطلاحی تعریف
اس کی اصطلاحی تعریف مختلف لوگوں نے مختلف الفاظ میں کی ہے؛ چنانچہ امام راغب اصفہانی لکھتے ہیں:
القاعدۃ: وہی قضیۃ کلیۃ منطبقہ علی جمیع جزئیاتہا۔(کتاب التعریفات، ص: ۱۷۷)
قاعدہ ایساکلی قضیہ ہے، جواپنے تمام جزئیات پرمنطبق ہوجائے۔
کفوی کہتے ہیں:
والقاعدۃ اصطلاحاً: قضیۃ کلیۃ من حیث اشتمالہا بالقوۃ علی أحکام جزئیات موضوعہا۔ (الکلیات، ص: ۷۲۸)
اصطلاح میں قاعدہ ایسے کلی قضیہ کوکہتے ہیں، جواپنے موضوع کے جزئی احکام پراستحکام کے ساتھ شامل ہو۔
تھانوی لکھتے ہیں:
أمرکلی منطبق علی جمیع جزئیاتہ عندتعرف أحکامہا منہ۔ (کشاف اصطلحات الفنون: ۲؍۱۲۹۵)
ایساکلی امرہے، جواپنے تمام جزئیات پراس وقت منطبق ہو، جب ان جزئیات کے احکام اس کے ذریعہ سے معلوم کیاجائے۔
تاہم یہ تعریفات تمام فنون کے قواعد پرصادق آتی ہے، اسی لئے علامہ حموی نے فقہی قواعد کے لئے تھوڑی الگ تعریف کی ہے، وہ فرماتے ہیں:
إن القاعدۃ ہی عندالفقہاء غیرہاعندالنحاۃ والأصولیین، إذہی عند الفقہاء: حکم أکثری لاکلی، ینطبق علی أکثرجزئیاتہ لتعرف أحکامہا۔ (غمزعیون البصائر، الفن الأول: قول فی القواعدالکلیۃ: ۱؍۵۱)
فقہاء کے نزدیک قاعدہ کی تعریف نحویوں اوراصولیوں کے علاوہ ہے، ان کے نزدیک قاعدہ کلی کی بجائے ایسااکثری حکم ہے، جس کاانطباق اس کے اکثر جزئیات پرہوجائے؛ تاکہ ان جزئیات کے احکام معلوم ہوسکے۔
یہ تعریف بھی سابقہ تعریفات کے ہی ہم معنی ہے، صرف ’’حکم أکثری لاکلی‘‘کے ذریعہ سے فرق کیاگیاہے؛ لیکن ظاہرہے کہ کوئی بھی اصل کلی نہیں ہواکرتی، کچھ نہ کچھ استثناء ات ضرورہواکرتے ہیں؛ اس لئے مستثنیات اورشذوذ کودیکھتے ہوئے حکم اکثری کہنے کی ضرورت نہیں، اسی لئے محمد علی بن حسین مالکی مکی لکھتے ہیں:
من المعلوم أن أکثرقواعدالفقہ أغلبیۃ۔(تہذیب الفروق: ۱؍۳۶)
یہ بات معروف ہے کہ زیادہ تر فقہی قواعد اکثری ہوتے ہیں
ایک تعریف اس طرح کی گئی ہے:
قانون تعرف بہ أحکام الحوادث التی لانص علیہا فی کتاب أو سنۃ أو إجماع۔ (إیضاح القواعدالفقہیۃ للشیخ عبداللہ بن سعید، ص: ۷)
ایساقانون، جس کے ذریعہ سے ان مسائل کے احکام معلوم ہوسکیں، جن کے تعلق سے کتاب وسنت یااجماع میں کوئی نص موجود نہ ہو۔
ان تمام تعریفات سے قدرے واضح تعریف ماضی قریب کے مشہورفقیہ شیخ مصطفی زرقاء نے کی ہے:
أصول فقہیۃ کلیۃ فی نصوص موجزۃ دستوریۃ تتضمن أحکاماً تشریعیۃ عامۃ فی الحوادث التی تدخل تحت موضوعہا۔ (المدخل الفقہی العام،الفصل التاسع والسبعون،ص: ۹۶۵)
ایسے مختصر قانونی متن میں کلی فقہی اصول، جوعمومی طورپراپنے موضوع کے تحت داخل ہونے والے مسائل کے شرعی احکام کوشامل ہوں۔
بہ الفاظ دیگرایک مناسب تعریف ڈاکٹراحمدعلی ندوی نے ان الفاظ میں کی ہے:
أصل فقہی کلی تتضمن أحکاماً تشریعیۃ عامۃ من أبواب متعددۃ فی القضایا التی تدخل تحت موضوعہ۔ (القواعد الفقہیۃ، ص: ۴۵)
ایساکلی فقہی اصل، جوعمومی طورپراپنے موضوع کے تحت داخل ہونے والے متعددابواب کے مسائل کے شرعی احکام کوشامل ہو۔
تاریخ تدوین
فقہی قواعدبھی دوسرے علوم ہی کی طرح ہے، یکبارگی فن کی حیثیت سے وجودمیں نہیں آگیا؛ بل کہ مختلف مراحل سے گزرکرموجودہ شکل میں پہنچ سکا ہے، تاہم اتنی بات ضرور ہے کہ اس کاوجود اسلامی شریعت کے وجودکے ساتھ ہی ہوا، جیساکہ فقہ، اصول فقہ اورمقاصد شریعت وغیرہ کاوجودہوا، یہ فن دو مرحلوں سے گزراہے:
پہلا مرحلہ : تشکیل وآغاز
دوسرا مرحلہ : تدوین وارتقاء
تشکیل وآغاز
فقہی قواعدکی تخم پاشی عہد نبوی میں ہی ہوچکی تھی؛ کیوں کہ آپ ﷺ کوجوزبان عطاکی گئی تھی، وہ ’’جوامع الکلم‘‘تھی، جس کی وجہ سے ایسے بہت سارے کلمات آپ کی زبان مبارک سے اداہوئے، جوفقہی قاعدہ کے روپ میں تھے اورجس کے تحت بہت سارے فقہی فروعات کی شمولیت کی گنجائش تھی، جیسے: الخراج بالضمان، العجماء جرحہاجبار، لاضررولاضرار اورالبینۃ علی المدعی والیمین علی من أنکر وغیرہم، یہ جوامع الکلم فقہاء کے نزدیک براہ راست قواعد میں شمارکئے گئے ہیں اوراگرذخیرہ ٔ احادیث کوٹٹولاجائے تواس طرح کے بہت سارے جوامع الکلم ملیں گے، جن کی حیثیت قواعدکی ہوسکتی ہے۔
اسی طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بعض اقوال بھی قواعدکے درجہ کے ہیں، جیسے حضرت عمرؓ کاقول: مقاطع الحقوق عندالشروط۔ (صحیح البخاری بشرح الکرمانی، باب الشروط فی المہرعندعقدۃ النکاح: ۱۹؍۱۱۱) کہ یہ شروط کے باب میں ، حضرت عبداللہ بن عباس ؓکاقول: کل شئی فی القرآن، أو، أو، فہومخیر، وکل شئی(فإن لم تجدوا)فہوالأول فالأول۔ (مصنف عبدالرزاق، باب بأی الکفارات شاء کفر، حدیث نمبر: ۸۱۹۲) کہ یہ کفارہ کے باب میں، اورحضرت علی ؓکاقول: من قاسم الربح فلاضمان علیہ۔ (مصنف عبدالرزاق، باب ضمان المقارض إذاتعدی ولمن الربح، حدیث نمبر: ۱۵۱۱۳)کہ یہ مضاربت وشرکت کے باب میں قاعدہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
تابعین کے دورمیں بھی بعض حضرات کے اقوال ایسے ملتے ہیں، جوقاعدہ کے تحت مندرج ہوتے ہیں، جیسے قاضی شریح کے اقوال: من شرط علی نفسہ طائعاً غیرمکرہ فہوعلیہ۔ (صحیح البخاری بشرح الکرمانی: ۱۲؍۵۵)کہ یہ شروط جعلیہ(جسے آج کل شرط جزائی بھی کہاجاتاہے) کے لئے قاعدہ بننے کے مناسب ہے، اسی طرح ان کاقول : من ضمن مالاً فلاربحہ۔(أخبارالقضاۃ للوکیع: ۲؍۳۱۹)قاعدہ کی طرح ہے اور’’الخراج بالضمان‘‘ کے مماثل ہے، اسی طرح حضرت لیث بن سعدنے خیربن نُعیم کاقول نقل کیاہے: من أقرعندنابشئی ألزمناہ إیاہ۔ (أخبارالقضاۃ للوکیع: ۳؍۲۳۱)بھی ہے، جواقرارکے باب میں قاعدہ کے مماثل ہے۔
تابعین کے بعدجب ہم ائمہ کے دورمیں آتے ہیں توسب سے پہلے امام ابوحنیفہؒ کے شاگردرشیدقاضی ابویوسف یعقوب بن ابراہیم ؒ(م:۱۸۲ھ) کی ’’کتاب الخراج‘‘ کوپاتے ہیں، جس میں بہت ساری ایسی عبارتیں مل جاتی ہیں، جوقاعدہ کے درجہ کی ہیں، مثلا:
۱- التعزیرإلی الإمام علی قدرعِظَم الجرم وصغرہ : یہ عبارت انھوںنے تعزیرکے مسئلہ میں اختلاف کونقل کرتے ہوئے لکھا، وہ لکھتے ہیں:
وقداختلف أصحابنا فی التعزیر، فقال بعضہم: لایبلغ بہ أدنی الحدودأربعین سوطاً، وقال بعضہم: أبلغ بالتعزیرخمسۃ وسبعین سوطاً، أنقص من حدالحر، وقال بعضہم: أبلغ بہ أکثر، وکان أحسن مارأینا فی ذلک واللہ أعلم: أن التعزیرإلی الإمام علی قدرعِظَم الجرم وصغرہ ۔ (کتاب الخراج، ص: ۱۸۰، ط: المطبعۃ السلفیۃ، القاہرۃ ۱۳۹۲ھ)
۲- کل من مات من المسلمین لاوارث لہ، فمالہ لبیت المال۔ (کتاب الخراج، ص: ۲۰۱، ط: المطبعۃ السلفیۃ، القاہرۃ ۱۳۹۲ھ)
۳- لیس للإمام أن یخرج شیئاًمن یدأحدإلابحق ثابت معروف۔ (کتاب الخراج، ص: ۷۱، ط: المطبعۃ السلفیۃ، القاہرۃ ۱۳۹۲ھ)، یہ عبارت معروف ومشہورقاعدہ’’القدیم یترک علی قدمہ‘‘کے ہم مثل ہے۔
۴- لاینبغی لأحدأن یُحدث شیئافی طریق المسلمین ممایضرہم، ولایجوز للإمام أن یقطع شیئاممافیہ الضررعلیہم، ولایسعہ ذلک۔ (کتاب الخراج، ص: ۱۰۱، ط: المطبعۃ السلفیۃ، القاہرۃ ۱۳۹۲ھ)، اس عبارت کاپہلاجزء رفع ضررکے قاعدہ پرمبنی ہے، جب کہ دوسراجزء مشہورقاعدہ’’التصرف علی الرعیۃ منوط بالمصلحۃ‘‘کی نمائندگی کرتاہے۔
۵- وإن أقربحق من حقوق الناس من قذف ، أوقصاص فی نفس، أودونہا أومال، ثم رجع عن ذلک نفذ علیہ الحکم فیماکان أقر بہ، ولم یبطل شئی من ذلک برجوعہ۔ (کتاب الخراج، ص: ۱۸۳، ط: المطبعۃ السلفیۃ، القاہرۃ ۱۳۹۲ھ)، یہ عبارت اگرطویل ہے؛ لیکن متداول قاعدہ’’المرء مؤاخذبإقرارہ‘‘ کے موافق ہے۔
اسی طرح امام محمدؒ کی کتاب الأصل میں بھی ایسی عبارتیں ہیں، جوقواعدکے مماثل ہیں، جیسے:
۱- التحری یجوز فی کل ماجازت فیہ الضرورۃ۔ (کتاب الأصل: ۳؍۳۴)
۲- لایجتمع الأجروالضمان۔ (کتاب الأصل: ۳؍۴۵)
۳- کل شئی کرأکلہ والانتفاع بہ علی وجہ من الوجوہ فشراء ہ وبیعہ مکروہ، وکل شئی لابأس بالانتفاع بہ، فلابأس ببیعہ۔ (کتاب الحجۃ علی أہل المدینۃ: ۲؍۷۷۱-۷۷۲،ترتیب، تصحیح، تعلیق: سیدمہدی حسن گیلانی، ط: حیدرآباد۱۹۶۸ء)
حضرت امام شافعیؒ کی بعض عبارتیں بھی ایسی ملتی ہیں، جیسے:
۱- الأعظم إذاسقط عن الناس سقط ماہوأصغر منہ : یہ عبارت اکراہ کے متعلق بعض احکام کی تعلیل کے سلسلہ میں آئی ہے؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ کاارشاد {إلَّا مَنْ اُکْرِہَ وَقَلْبُہ‘ مُطْمَئِنٌّ بِالْإیْمَانا}کے تحت لکھتے ہیں:
وللکفرأحکام کفراق الزوجۃ وأن یقتل الکافرویغنم مالہ، فلماوضع اللہ عنہ، سقط عنہ أحکام الإکراہ علی القول کلہ؛ لأن الأعظم إذاسقط عن الناس سقط ماہوأصغر منہ ومایکون حکمہ بثبوتہ علیہ۔ (الأم: ۳؍۲۳۶)
۲- الرخص لایُتَعدی بہا مواضعہا : یہ عبارت معذورکی نماز کے مسائل سے متصل بعض احکام کی تعلیل کرتے ہوئے واردہوئی ہے؛ چنانچہ فرماتے ہیں:
إن الفرض استقبال القبلۃ والصلاۃ قائماً، فلایجوز غیرہذا إلا فی المواضع التی دل رسول اللہ ﷺ علیہا، ولایکون شئی قیاساً علیہ، وتکون الأشیاء کلہا مردودۃ إلی أصولہا، والرخص لایُتعدی بہامواضعہا۔ (الأم، باب صلاۃ العذر: ۱؍۸۰)
۳- الحاجۃ لاتُحِقُّ لأحد أن یأخذ مال غیرہ(الأم: ۲؍۷۷) : یہ قاعدہ انھوں نے لوگوں کے حقوق کے احترام اوران کے اموال کی حفاظت کے تعلق نقل کیاہے۔
۴- لیس یحل بالحاجۃ محرَّم إلا فی الضرورات (الأم، باب مایکون رطباً أبداً: ۳؍۲۸) : اس قاعدہ سے ضرورت اورحاجت کے درمیان تفریق ہوتی ہے۔
۵- إذا ضاق الأمراتسع : یہ قاعدہ امام شافعی ؒ کی طرف منسوب ہے؛ چنانچہ علامہ زرکشیؒ نے ائمہ شوافع کے حوالہ سے نقل کیاہے کہ یہ قاعدہ امام شافعیؒ کی خوب صورت عبارتوں میں سے ہے(المثور فی القواعد: ۱؍۱۲۰-۱۲۱، تحقیق: تیسیر فائق أحمدمحمود)۔
امام احمدؒ کی بعض عبارتیں بھی اس طرح کی ملتی ہیں؛ چنانچہ امام ابوداودؒ اپنی کتاب’’المسائل‘‘کے باب ’’ماجاء فی باب الہبۃ عنہ‘‘ میں فرماتے ہیں:
سمعت أحمد یقول: کل ماجاز فیہ البیع تجوز فیہ الہبۃ والصدقۃ والرہن۔ (کتاب مسائل الإمام أحمد لأبی داود،ص: ۲۰۳، مقدمہ: سیدرشیدرضا)۔
اسی طرح ’’باب بیع الطعام بکیلہ‘‘امام احمدؒ کایہ قول نقل کیاگیاہے:
کل شئی یشتریہ الرجل ممایکال أویوزن فلایبعہ حتی یقبضہ، وأماغیرذلک فرخص فیہ۔ (کتاب مسائل الإمام أحمد لأبی داود،ص: ۲۰۳)
اسی باب میں قاضی سوّاربن عبداللہ کے حوالہ سے ان کاقول نقل کیاگیاہے:
کل أمرخالف أمرالعامۃ فہوعیب یرد بہ۔ (أخبارالقضاۃ للوکیع: ۲؍۵۵)
خلاصہ یہ کہ عہدنبوی ،عہدصحابہ ، عہدتابعین اوران ادوار کے بعدائمہ کے ادوار میں فقہی قواعد کاوجودتھا؛ البتہ وہ مرتب اورمدون شکل میں نہیں تھا۔
تدوین وارتقاء
چوتھی صدی ہجری میں جب اجتہادی صلاحیت کمزورپڑگئی اورلوگ فقہی مذاہب کے اسیر اورترجیح وتخریج کے عمل کے دائرہ میں محصورہوگئے اور فقہی جزئیات کویادرکھنادشواراوراس کی کثرت کی وجہ سے مسائل کے درمیان اشتباہ ہونے لگا توایسے اصول کی ضرورت پیش آئی، جن کے ضمن میں بہت ساری جزئیات سماسکیں؛ تاکہ بہت ساری جزئیات کویادرکھناآسان ہوجائے اورایک جیسے مسائل کے مابین اشتباہ پیدانہ ہو، ایسی ضرورت کے کے پیش نظرقواعدفقہ کاوجودہوا،ڈاکٹرمحمدبن حمودوائلی لکھتے ہیں:
بدأت حرکۃ تقعید القواعد الفقہیۃ وتدوینہا فی القرن الرابع للہجرۃ، وذلک أن المتأخرین من الفقہاء قد وجدوا أشتاتاً من الفروق موزعۃ فی أبواب الفقہ المختلفۃ ووقفوا علی أحکام متشابہۃ ینص علیہا فی أبواب متعددۃ، فاستطاعوا سیراً علی مناہج من سبقوہم من الأئمۃ وتلامیذہم أن یتعرفوا علل الأحکام التی استنبطہا السابقون، وأن یستقصوا مجموعۃ الأحکام الکلیۃ التی تضم أشتات الجزئیات وتجمع متفرقاتہا، فجمعوا تلک الأشباہ والنظائرکل طائفۃ متحدۃ الحکم فی قاعدۃ فتکون من تلک المجموعات الفقہیۃ قواعد تجمع المسائل الموحدۃ فی سلک واحد، وتربط بینہا برباط یضم شتاتہا۔ (القواعد الفقہیۃ- تاریخہا وأثرہا فی الفقہ ، ص: ۱۹-۲۰)
فقہی قواعد کی بنیاداوراس کی تدوین کی تحریک کاآغاز چوتھی صدی ہجری میں ہوا، جس کی وجہ یہ بنی کہ فقہائے متاخرین نے مختلف فقہی ابواب میں فروق کومنتشر پایااورمتعددابواب میں متشابہ منصوص احکام سے واقف ہوئے، لہٰذا ان لوگوں نے ائمہ سابقین اوران کے تلامذہ کے طریقۂ کارکی روشنی میں ان احکام کی علتوں سے واقف ہونے کی کوشش کی، جن کوان حضرات نے مستنبط کیاتھا اورایسے کلی احکام کے مجموعہ کااحاطہ کیا، جن کے تحت متفرق اورمنتشرجزئیات جمع ہوسکیں، اس طرح ان لوگوں نے یکساں حکم والے اشباہ ونظائرکوایک قاعدہ کے تحت جمع کردیا، لہٰذا ان فقہی مجموعات سے ایسے قواعد وجود میں آئے، جوایک جیسے مسائل کوایک لڑی میں جمع اورمنتشرجزئیات کوجمع کرکے ایک دھاگے میں مربوط کرتے ہیں۔
اس پیش رفت میں فقہائے احناف کوسبقت حاصل ہے؛ چنانچہ جمع قواعد کے تعلق سے امام علائی شافعی، امام سیوطی اورعلامہ ابن نجیم رحمہم اللہ وغیرہ نے جوروایت نقل کی ہے، وہ یہ ہے کہ چوتھی صدی ہجری کے فقہائے احناف میں سے امام ابوطاہردَباَّس نے امام ابوحنیفہؒ کے مذہب کے اہم قواعد کوسترہ کلی قواعد میں جمع کردیاتھا، ابوطاہرنابیناتھے اورعشاء کے بعد اپنی مسجدمیں لوگوں کے چلے جانے بعد ان قواعدکی تکرارکیاکرتے تھے، ان قواعد میں سے بعض کوابوسعید ہروی شافعی نے نقل کیا، جن میں درج ذیل قواعد خمسہ شامل ہیں:
۱- الأموربمقاصدہا۔
۲- الیقین لایزول بالشک۔
۳- المشقۃ تجلب التیسیر۔
۴- الضرریزال۔
۵- العادۃ محکمۃ۔
امام ابوطاہردباس کے تمام قواعد سے واقفیت اوران کی تحدید (قواعدخمسہ مشہورہ کوچھوڑکر) آسان نہیں ہے؛ البتہ ان کے ہم عصر حنفی امام ابوالحسن کرخی (م: ۳۴۰ھ) کا اس فن پرایک رسالہ ہے، جس میں ابوطاہردباس کے قواعد ذکرکرنے کے ساتھ ساتھ انھوں نے اپنی طرف سے کچھ قواعد وضع کئے ہیں، جن کی کل تعدادسینتیس(۳۷) ہے اوراس فن میں یہ پہلی کتاب ہے۔
اس صدی میں اس موضوع پرایک کتاب لکھی گئی ، جسے امام محمدبن حارث خُشنی مالکی(م: ۳۶۱ھ)نے لکھی، جس کانام’’أصول الفتیا‘‘ ہے، جس میں فقہی کلیات اورقواعد کی ایک بڑی تعدادہے، پھرپانچویں صدی ہجری میں امام ابوزیددبوسی(م: ۴۳۰ھ) آئے اورانھوں نے امام کرخی کتاب میں بیش بہااضافہ کیاہے، ان کی کتاب کانام’’تأسیس النظر‘‘ ہے، اس کتاب کے بعد چھٹی صدی ہجری میں ابن دوست شافعی(م:۵۰۷ھ)نے ’’القواعد‘‘کے نام سے، امام علاء الدین محمدبن احمدسمرقندی (۵۴۰ھ)نے ’’إیضاح القواعد‘‘ کے قواعد کے نام سے اورقاضی عیاض بن موسی یحصبی مالکی(م:۵۴۴ھ) نے ’’القواعد‘‘ کے نام سے اس موضوع پرکتابیں لکھیں۔
ساتویں صدی ہجری میں اس فن پرکافی کام ہوا؛ بل کہ یہ فن اپنی پختگی کوپہنچ گیا، اس صدی میں علامہ محمدبن ابراہیم جاجرمی سہلکی(م:۶۱۳ھ)نے ’’القواعدفی فروع الشافعیۃ‘‘ کے نام سے، امام عزالدین بن عبدالسلام (م: ۶۶۰ھ)نے ’’قواعد الأحکام فی مصالح الأنام ‘‘کے نام سے ، اورفقہائے مالکیہ میں علامہ محمد بن عبداللہ بن راشدبَکری قفصی(م:۶۸۵ھ) نے ’’المُذہب فی قواعد المَذہب‘‘ کے نام سے اس فن پر کتابیں تالیف کیں۔
آٹھویں صدی ہجری اس فن کی تدوین کاسنہرادورہے، جس میں خصوصیت کے ساتھ فقہائے شوافع نے اس فن پرتالیف کی طرف توجہ مبذول کی، پھردیگرفقہی مذاہب کے فقہاء نے بھی توجہ کی، اس زمانہ کی اہم اورمشہورتالیف شدہ کتابیں درج ذیل ہیں:
۱- الأشباہ والنظائر لابن الوکیل الشافعی(م:۷۱۶ھ)
۲- القواعد الکبری لنجم الدین سلیمان بن عبدالقوی الطوفی الحنبلی(م:۷۱۶ھ)
۳- القواعدالصغری لنجم الدین سلیمان بن عبدالقوی الطوفی الحنبلی(م:۷۱۶ھ)
۴- القواعد النورانیۃ الفقہیۃ لشیخ الإسلام تقی الدین أبی العباس أحمدبن عبدالحلیم بن تیمیۃ(م:۷۲۸ھ)، تاہم یہ کتاب کتب قواعد کی بجائے کتب فقہ کے زیادہ مشابہ ہے۔
۵- کتاب القواعدلأبی عبداللہ المقَّری المالکی(م:۷۵۸ھ)
۶- المُذہب فی ضبط قواعد المَذہب لمحمد بن راشد البکری القفصی المالکی(م:۷۳۶ھ)
۷- المجموع المُذہب فی ضبط قواعد المَذہب لأبی سعید صلاح الدین خلیل بن کیکلدی العلائی الشافعی(م: ۷۶۱ھ)
۸- الأشباہ والنظائر لتاج الدین السبکی(م: ۷۷۱ھ)
۹- القواعد لابن المطہر الحلی من علماء الشیعۃ(م:۷۷۱ھ)
۱۰- الأشباہ والنظائر لجمال الدین الإسنوی(م: ۷۷۲ھ)
۱۱- القواعد والفوائد فی الفقہ والأصول والعربیۃ لأبی عبداللہ محمد ابن مکی العاملی الشیعی الإمامی(م:۷۸۶ھ)
۱۲- مختصر المجموع المذہب لمحمدبن سلیمان الصَّرْخدی الشافعی(م:۷۹۲ھ)
۱۳- المنثور فی القواعدلبدرالدین الزرکشی(م:۷۹۴ھ)
۱۴- تقریرالقواعد وتحریرالفوائد(القواعد فی الفقہ) لأبی الفرج عبدالرحمن بن رجب الحنبلی(م:۷۹۵ھ)
۱۵- القواعد فی الفروع لعلی بن عثمان الغزی الشافعی (م:۷۹۹ھ)
فقہی قواعدکے تعلق سے آٹھویں صدی ہجری کے امتیازات درج ذیل ہیں:
۱- فقہی قواعداوراس کے ضوابط کی پیش کش کے منہج میں ترقی ہوئی، جواس سے قبل نہیںتھا۔
۲- فقہی قواعد پیش کرنے کے تین طریقے سامنے آئے:
(الف) فقہی موضوعات کی ترتیب کے مطابق، جیساکہ مقَّری کی’’کتاب القواعد‘‘اورابن رجب کی ’’تقریر القواعد و تحریر الفوائد‘‘ میں ہے۔
(ب) عموم وخصوص کے لحاظ سے، جیساکہ علائی کی’’المجموع المذہب‘‘، ابن سبکی کی’’الأشباہ والنظائر‘‘ اورابوعبداللہ محمدبن مکی عاملی کی’’القواعد والفوائدفی الفقہ والأصول والعربیۃ‘‘ میں ہے۔
(ج) ہجائی ترتیب کے اعتبارسے، جیساکہ زرکشی کی کتاب’’المنثور‘‘میں ہے۔
نویں صدی ہجری میں بھی اس فن پرکتابیں تالیف کی گئیں؛ چنانچہ اس صدی کے آغازمیں علامہ عمربن علی شافعی المعروف بابن الملقن (م:۸۰۴ھ) نے امام سبکی کی کتاب پر اعتماد کرتے ہوئے قواعد پرایک کتاب’’الأشباہ والنظائر‘‘کے نام سے تصنیف کی، اس کے علاوہ جوکتابیں اس صدی میں تصنیف کی گئیں، وہ درج ذیل ہیں:
۱- فوائد الحسام علی قواعد ابن عبدالسلام فی فروع الشافعیۃ لسراج الدین أبی حفص عمر بن رسلان البلقینی الشافعی(م:۸۰۵ھ)، یہ دراصل ’’القواعدالکبری‘‘ کی شرح ہے۔
۲- أسنی المقاصد فی تحریر القواعد لمحمدبن محمدالزبیری الشافعی(م: ۸۰۸ھ)
۳- تحریرالقواعدالعلائیۃ وتمہید المسالک الفقہیۃلشہاب الدین أحمد بن محمدبن عمادالدین المقدسی الشافعی المعروف بابن الہائم (م: ۸۱۵ھ)، ان کی ایک اورکتاب کاذکر’’القواعد المنظومۃ ‘‘کے نام سے بھی ملتاہے۔
۴- نضدالقواعدالفقہیۃ علی مذہب الإمامیۃ للمقدادبن عبداللہ السیوری الحلی الشیعی الإمامی(م:۸۲۷ھ)
۵- کتاب القواعد لتقی الدین أبی بکربن محمدالحِصنی(م: ۸۲۹ھ)
۶- مختصرمن قواعدالعلائی وتمہیدالأسنوی لأبی الثناء نورالدین محمود بن أحمدالمعروف بابن خطیب الدہشۃ(م:۸۳۴ھ)
۷- حواشی القواعدالفقہیۃ لمحب الدین أحمدبن نصراللہ الحنبلی (م:۸۴۴ھ)
۸- نظم الذخائر فی الأشباہ والنظائر لعبدالرحمن بن علی الخلیلی المقدسی المعروف بشُقیر(م: ۸۷۶ھ)
۹- المذہب فی ضبط قواعدالمذہب لأبی عبداللہ محمدبن أحمدالمالکی المعروف بعظّوم(۸۸۹ھ)
۱۰- القواعد والضوابط لابن عبدالہادی(م: ۸۸۰ھ)
دسویں صدی ہجری میں اس فن نے عروج حاصل کیااوراس کی تدوینی سرگرمی تیز ترہوگئی، علامہ سیوطی(۹۱۰ھ) نے ان اہم فقہی قواعد کوجمع کرنے کاکام کیا، جوامام علائی، امام سبکی اورامام زرکشی کے یہاں منتشراورمتفرق تھے، انھوں نے ان قواعد کواپنی کتاب’’الأشباہ والنظائر‘‘ میں نہ صرف جمع کیا؛ بل کہ وہ قواعد بھی شامل کئے، جوزرکشی کی کتاب میں نہیں تھے، اس کے علاوہ انھوں نے ایک اورکتاب’’شواردالفوائدفی الضوابط والقواعد‘‘ کے نام سے بھی لکھی۔
اسی زمانہ میں علامہ ابوالحسن علی بن قاسم زقاق تُجیبی مالکی(م:۹۱۲ھ) نے قرافی کی’’الفروق‘‘ اورمقَّری کی’’ کتاب القواعد‘‘ کی مددسے فقہی قواعد کونظم میں ڈھالا،جو’’منظومۃ المنہج المنتخب‘‘ کے نام سے معروف ہے،جوفقہائے مالکیہ کے یہاں قدرکی نگاہ سے دیکھاگیا، اسی طرح ابوالعباس احمدبن یحییٰ ونشریسی مالکی(م:۹۱۴ھ) نے’’إیضاح المسالک إلی قواعد الإمام مالک‘‘ کے نام ایک کتاب تصنیف کی، ان کے علاوہ جوکتابیں اس دورمیں تالیف کی گئیں، وہ درج ذیل ہیں:
۱- القواعد الکلیۃ والضوابط الفقہیۃ لجمال الدین یوسف بن الحسن بن أحمدالمعروف بابن الہادی الحنبلی(م:۹۰۹ھ)
۲- الکلیات الفقہیۃ لأبی عبداللہ محمدبن أحمدالمعروف بابن غازی المالکی(م:۹۱۹ھ)
۳- شرح المنہج المنتخب لأبی العباس أحمدبن علی الزقاق(ابن الناظم)(م:۹۳۱ھ)
۴- شرح قواعدالزرکشی لسراج الدین عمربن عبداللہ العبّادی المصری(م:۹۴۷ھ)
۵- النورالمقتبس فی قواعدمالک بن أنس لعبدالواحد بن أحمدالونشریسی(م:۹۵۵ھ)
۶- تمہیدالقواعدالأصولیۃ والعربیۃ لتفریع فوائدالأحکام الشرعیۃ لزین الدین علی بن أحمدالجبعی العاملی الشیعی الإمامی الشہیربالشہید الثانی (م: ۹۶۶ھ)
۷- اسی زمانہ میں علامہ ابن نجیم حنفی(م:۹۷۰ھ)نے سبکی اورسیوطی کے طرز پر’’الأشباہ والنظائر‘‘ کی تالیف کی، چوں کہ فقہ حنفی میں مدت دراز کے بعد اس طرح کی کتاب ظہورمیں آئی تھی؛ اس لئے اسے اہم اقدام قراردیاگیا اورعلمائے احناف نے اسے درسی نصاب میں شامل بھی کیااوراس کی متعددشروحات بھی لکھی گئیں۔
۸- المقاصد السنیۃ والقواعد الشرعیۃ لعبدالوہاب بن أحمدالشعرانی الشافعی(م:۹۷۳ھ)
۹- شرح المنہج المنتخب لأحمدبن علی المنجورالمالکی(م:۹۹۵ھ)
اس طرح قواعد فقہ کی تدوین صدی بہ صدی بغیرکسی انقطاع کے ہوتی رہی؛ یہاں تک کہ گیارہویں صدی ہجری اوراس کے بعد کے ادوار میں بھی یہ سلسلہ قائم رہا؛ بل کہ اس دورمیں فن پراتنی کتابیں وجود میں آگئیں، جوماقبل میں نہیں تھیں، اوربلاشبہ اس دوسرے مرحلہ کوقواعد فقہ کی تدوین کاسنہرادورکہا جاسکتا ہے، جس کاآغاز امام کرخی اورامام دبوسی کے ہاتھوں شروع ہواتھا۔
تاہم یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ گیارہویں صدی ہجری میں جوکام ہوا، ان کی اکثریت شرح وتوضیح اورتعلیق وحواشی کاکام ہے، کسی میں قدرے بسط کے ساتھ اورکسی میں قدرے ایجازکے ساتھ؛ لیکن کام وہی تشریح، تفصیل اورتوضیح وتعلیق اورتحشیہ کاہی ہے، پھراس میں بھی خصوصیت کے ساتھ سیوطی اورابن نجیم کی ’’الأشباہ والنظائر‘‘ اورزقاق کی ’’المنہج المنتخب‘‘اس سلسلہ میں سرفہرست ہیں، اس دورمیں حنابلہ کے یہاں کم کام ہواہے۔
ایک تبصرہ شائع کریں