فقہ تقدیری اور اس کی نشوونما
محمد جمیل اختر جلیلی ندوی
تمہید
یہ بات مسلم ہے کہ شریعت اسلامی قیامت تک کے لئے ہے اور قیامت تک پیش آنے والے مسائل کاحل بھی اس میں موجودہے؛ لیکن اسی کے ساتھ یہ اعتراف بھی ہے کہ شریعت کے نصوص محدودہیں، جب کہ مسائل لامحدود ہیں، اب انہیں محدود نصوص کے ذریعہ سے لامحدودمسائل کاحل تلاش کرناہے، جس کے لئے اجتہاد ضروری ہے، اسی اجتہادکوجلابخشنے کے پیش نظرفقہ تقدیری کاوجود اور اس میں وسعت ہوئی۔
لغوی تعریف
لفظ ِ’تقدیر‘’قدر ‘سے ماخوذ ہے، جس کے کئی معانی آتے ہیں:
۱- قدرعلیہ قدارۃ: تمکّن منہ۔(قادرہونا)
۲- قدرالشیٔ قدْراً: بین مقدارہ۔(مقداربیان کرنا)
۳- قدر فلاناً: عظّمہ۔ قرآن مجید میں ہے: وماقدروااللہ حق قدرہ۔(تعظیم کرنا)
۴- قدرالأمر: دبّرہ وفکّرہ فی تسویتہ۔(معاملہ کی درستگی میں غوروفکرکرنا)
۵- قدرالشیٔ َ بالشیٔ: قاسہ بہ وجعلہ علی مقدارہ۔(اندازہ کرنا، مقدارکے مطابق کرنا)
۶- قدراللہ ُ الأمرَ علی فلانٍ: جعلہ لہ وحکم بہ علیہ۔(فیصلہ کرنا، حکم لگانا)
۷- قدراللہُ الرزقَ علیہ: ضیّقہ، قرآن مجید میں ہے: وأماإذامابتلاہ فقدر علیہ رزقہ۔(تنگی کرنا)
۸- قدراللحمَ : طبخہ فی القدر۔(ہانڈی میں پکانا)(المعجم الوسیط، لفظ: قدر، ص:۷۱۸)؛ لیکن عمومی استعمال مقداراورمبلغ کے بتانے کے لئے ہوتاہے؛ چنانچہ ابوالحسین احمد بن فارس لکھتے ہیں:
(قدر) القاف والدال والراء: أصل صحیح یدل علی مبلغ الشیٔ وکنہہ ونہایتہ، فالقدر: مبلغ کل شیٔ، یقال: قدرہ کذا: أی مبلغہ، وکذلک القدَر۔ وقدرتُ الشیَٔ أقدِرُہ وأقدُرُہ من التقدیر، وقدَّرتہ أقدرہ۔ (معجم مقاییس اللغۃلابن فارس، باب القاف والدال ومایثلثہما: ۵؍۶۲)
(قدر)قاف، دال اورراء: اصل صحیح ہے، جوکسی چیز کی مقدار، حقیقت اورانتہاء پردلالت کرتاہے، بس قدرہرچیزکی مقدارکوکہتے ہیں، کہاجاتاہے: قدرہ کذا: یعنی اس کی مقدار، اسی طرح قدَربھی ہے، اندازہ کے معنی فعل قَدَر، أقْدِرُ اورأقْدُرُ آتاہے، اسی طرح قَدَّرْتُہ أقدِرہ کے معنی میں آتاہے۔
لفظ ِ’تقدیر‘ اسی لفظ’قدر‘ سے باب تفعیل کامصدرہے، جس کی جمع ’’تقدیرات‘‘آتی ہے، اہل عرب اس لفظ کو بھی مختلف معانی کے لئے استعمال کرتے ہیں:
۱- الاحتمال والافتراض : (امکان اورمفروضہ)، کہاجاتاہے: فی تقدیری أنہ صادق۔(میرے خیال میں وہ سچاہے)
۲- التوقع : (توقع)، کہاجاتاہے: تقدیرات المیزانیۃ، تقدیرقیمۃ السلعۃ/مبلغ التعویضات/ عمل فنی۔(بجٹ کااندازہ/سامان کی قیمت کااندازہ/ معاوضہ کی رقم کاتخمینہ/ ورک آرٹ کاتخمینہ)، اسی طرح کہاجاتاہے: تجاوز کل التقدیرات : جاء علی خلاف المتوقع۔(توقع کے خلاف ہوا)
۳- المعیار : (معیار)، کہاجاتاہے: نجح بتقدیرمقبول/جید/جیدجداً/ممتاز۔(وہ قابل قبول/ اچھے/ بہت اچھے/عمدہ گریڈسے کامیاب ہوا)
۴- الحساب : (حساب)، کہاجاتاہے: لم یستطع تقدیر ممتلکاتہ۔(وہ اس کی جائیدادکاحساب نہیں کرسکا)
۵- التخمین والتقویم : (اندازہ)، کہاجاتاہے: تقدیرثمن البضاعۃ۔ (سامان کی قیمت کااندازہ)
۶- الاحترام :(احترام)، کہاجاتاہے: عملٌفنّیٌ یستحق التقدیر: یستحق التفضیل، أی: لہ قیمۃ۔(فنکارانہ کام احترام کاحق دارہے، یعنی اس کی قدروقیمت ہے)
۷- الاعتراف : (اعتراف) کہاجاتاہے: تقدیراًلجہودہ۔(اس کی کوشش کااعتراف کرتے ہوئے)
۸- النیۃ والعزم : (عزم وارادہ) (معجم اللغۃ العربیۃ المعاصرۃ للدکتورأحمدمختار، لفظ: تقدیر، ص: ۱۷۸۱، معجم الغنی ، حر ف التاء، لفظ نمبر: ۳۰۲۳۴۸، ص: ۱۴۹۹)
یہاں اہل عرب کے نزدیک استعمالی معانی میں سے اول یعنی ’’احتمال وافتراض‘‘(امکان اورمفروضہ)مراد ہے۔
اصطلاحی تعریف
قدیم کتابوں میں تقدیری مسائل تومذکورہیں؛ لیکن اصطلاحی اعتبارسے فقہ تقدیری کی تعریف مذکورنہیں، عصرحاضرکے علماء نے مختلف الفاظ میں اس کی تعریف کی ہے، جن میں سے جامع اورسہل تعریف کویہاں نقل کیاجاتاہے؛ چنانچہ ڈاکٹرمحمدبن عبداللہ المحیمیدلکھتے ہیں:
معرفۃ الأحکام الشرعیۃ العملیۃ المتعلقۃ بالمسائل التی لم تنزل بعدبأدلتہاالتفصیلیۃ۔ (الفتوی الافتراضیۃ: مفہومہاوأہمیتہاوحکمہا، ص:۵doc)
تفصیلی دلائل کے ساتھ ان احکام شرعیہ عملیہ کی جان کاری، جوابھی تک پیش نہیں آئے۔
فقہ تقدیری کے لئے مستعمل الفاظ
فقہ تقدیری کے لئے درج ذیل الفاظ بھی استعمال ہوتے ہیں:
۱- الفقہ الافتراضي(الفرضي) :
۲- الفقہ الذھنی :
۳- الفقہ التخیلي(المتخیل) :
۴- فقہ أرأیتَ :
۵- فقہ التوقع :
۶- فقہ المآلات :
۷- فقہ المستقبل :
۸- فقہ الاستشراف :
نشوونما
’فقہ تقدیری‘فقہ اسلامی کاہی ایک حصہ ہے؛ اس لئے اس کی پیدائش اورنشوونما کواسی کے ساتھ جوڑکردیکھنے کی ضرورت ہے، اکثرحضرات نے اس کے موجد کے طورپرحضرت امام ابوحنیفہؒ کانام پیش کیاہے؛ چنانچہ محمدبن الحسن حجوی لکھتے ہیں:
أماأبوحنیفۃفہو الذی تجرد لفرض المسائل وتقدیر وقوعہا وفرض أحکامہا، إمابالقیاس علی ماوقع، وإماباندراجہا فی العموم مثلاً، فزاد الفقہ نموّاً وعظمۃ، وصار أعظم من ذی قبل بکثیر، قالوا: إنہ وضع ستین ألف مسألۃ، وقیل: ثلاث مائۃ ألف مسألۃ، وقدتابع أباحنیفۃ جل الفقہاء بعدہ، ففرضوا المسائل وقدروا وقوعہا، ثم بینوا أحکامہا۔ (الفکرالسامی فی تاریخ الفقہ الإسلامی: ۱؍۴۱۹)
جہاں تک امام ابوحنیفہ کاتعلق ہے تویہ وہ شخص ہیں، جومسائل اوران کے احکام فرض کرنے میں منفرد ہیں، یاوقوع پذیر مسائل پرقیاس کرکے یاپھرعموم میں شامل کرکے، جس کی وجہ سے فقہ کی عظمت اورنمومیں اضافہ ہوا اورپہلے سے زیادہ عظیم الشان ہوگیا، لوگوں کاکہناہے کہ انھوں نے ساٹھ ہزارمسائل وضع کئے، اورکہاگیاہے کہ تین لاکھ مسائل وضع کئے ہیں، پھران کے بعد اکثر فقہاء نے ان کی پیروی کی اورمسائل فرض کئے اوران کے واقع ہونے کاتخمینہ کیااوران کے احکام بیان کئے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ فقہ اسلامی کی نشوونما کی طرح اس کی پیدائش بھی عہدنبویﷺ میں ہوگئی تھی، قرآن واحادیث میں اس کی مثالیں ہمیں مل جاتی ہیں؛ چنانچہ قرآن مجید میں ہے:
قُلْ أَرَأَیْْتُمْ إِن جَعَلَ اللَّہُ عَلَیْْکُمُ اللَّیْْلَ سَرْمَداً إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ مَنْ إِلَہٌ غَیْْرُ اللَّہِ یَأْتِیْکُم بِضِیَاء أَفَلَا تَسْمَعُون ٭ قُلْ أَرَأَیْْتُمْ إِن جَعَلَ اللَّہُ عَلَیْْکُمُ النَّہَارَ سَرْمَداً إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ مَنْ إِلَہٌ غَیْْرُ اللَّہِ یَأْتِیْکُم بِلَیْْلٍ تَسْکُنُونَ فِیْہِ أَفَلَا تُبْصِرُونَ ۔(القصص: ۷۱-۷۲)
کہو بھلا دیکھو تواگر اللہ تم پر ہمیشہ قیامت کے دن تک رات (کی تاریکی) کئے رہے تو اللہ کے سوا کون معبود ہے جو تمہیں روشنی لا دے تو کیا تم سنتے نہیں؟ ٭ کہو بھلا دیکھو تو اگر اللہ تم پر ہمیشہ قیامت تک دن کئے رہے تو اللہ کے سوا کون معبود ہے کہ تم کو رات لا دے جس میں تم آرام کرو تو کیا تم دیکھتے نہیں؟
اسی طرح حدیث میں ہے، حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضرہوااورپوچھا:
یارسول اللہ! أرأیت إن جاء نی رجلٌ یرید أخذمالی؟ قال: فلاتعطہ مالک، قال: أرأیت إن قاتلنی؟ قال: فقاتلہ، قال: أرأیت إن قتلنی؟ قال: فأنت شہید، قال: أرأیت إن قتلتہ؟ قال: ہوفی النار۔ (صحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب أخذ مال الغیربغیرالحق، حدیث نمبر: ۲۰۱)
اے اللہ کے رسول! آپ کاکیاخیال ہے اگرکوئی شخص آکرمیرامال چھیننا چاہے؟آپ نے فرمایا: اسے اپنامال مت دو، اس نے پھرسوال کیا: آپ کی کیارائے ہے اگروہ مجھ سے قتال کرے؟ آپ نے فرمایا: توتم بھی اس سے قتال کرو، اس نے پھرپوچھا: آپ کاکیاخیال ہے اگروہ مجھے قتل کردے؟ آپ نے جواب دیا: تم شہیدہوگے، اس نے پھرکہا: آپ کی کیارائے ہے اگرمیں اسے قتل کردوں؟ آپ نے فرمایا: وہ جہنم میں ہوگا۔
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے سوال کیا:
یارسول اللہ! أرأیت ثیاب أہل الجنۃ أتنسج نسجاً أم تشقق عنہ ثمرالجنۃ؟ قال: فکأن القوم تعجبون من مسألۃ الأعرابی، فقال: ماتعجبون من جاہل یسأل عالماً؟ قال: فسکت ہنیّۃ، ثم قال: أین عن ثیاب الجنۃ؟ قال: أنا، قال: لا؛ بل تشقق من ثمر الجنۃ۔ (مسندالإمام أحمدبن حنبل، تحقیق: شعیب الأرناؤوط، حدیث نمبر: ۶۸۹۰)
اے اللہ کے رسول! آپ کاکیاخیال ہے ؟ کیاجنتیوں کے کپڑے بنے جائیں گے یاجنت کے پھل سے تراشے جائیں گے؟ راوی کہتے ہیں کہ دیہاتی کے اس سوال سے قوم متعجب ہوئی توآپ نے فرمایا: ایک ناواقف کے واقف کارسے پوچھنے پرتمہیں تعجب کیاہے؟ راوی کہتے ہیں کہ پھرتھوڑی دیر رکے رہے، پھرفرمایا: جنت کے کپڑوں کے بارے میں سوال کرنے والاکہاں ہے؟ اس نے کہا: میں! آپ نے فرمایا: نہیں! بل کہ وہ جنت کے پھل سے تراشے جائیں گے۔
اس سے معلوم ہوا کہ فقہ تقدیری کاوجودعہدنبوی میں بھی تھا؛ لیکن دوسرے فنون کی طرح اس کی اپنی شناخت نہیں تھی؛ البتہ اموی دور میں حکومت کی وسعت اورنبوت سے زمانہ کی دوری کی وجہ سے مسائل میں اضافہ ہوگیااورایسے مسائل پیش آئے، جن کے تعلق سے نہ توکوئی منصوص حکم موجودتھا اورناہی صحابہ کی طرف سے کوئی اجتہادی رائے، اسی کے ساتھ ساتھ اہل سنت والجماعت، شیعہ اورخوارج فرقوں کے وجود میں آجانے کی وجہ سے بھی مسائل میں اختلافات رونماہوئے، اب لامحالہ مسائل کے حل کے لئے اجتہاداورغوروفکرکی ضرورت تھی، ایسے میں دوجماعتیں وجودمیں آئیں، ایک جماعت نہ صرف غوروفکر اوراجتہاد کی قائل تھی؛ بل کہ اس میں وسعت کی بھی قائل تھی، جب کہ دوسری جماعت اجتہاداورغوروفکرمیں وسعت کی قائل نہیں تھی، وہ صرف صحابہ کی آراء تک ہی محدودرہناچاہتی تھی، اس لحاظ سے ایک اصحاب الحدیث اوردوسری اصحاب الرائے کی جماعت وجود میں آئی۔
جوحضرات غوروفکرمیں وسعت کے قائل نہیں تھے، ان میں سے زیادہ ترکاقیام سرزمین حجازمیں رہا، جب کہ غوروفکرمیں وسعت کے قائلین کاقیام حجاز سے باہرکوفہ میں رہا، اس اعتبارسے حجازاصحاب الحدیث کااورکوفہ اصحاب الرائے کامرکز قرارپایا، اصحاب الرائے میں حضرت ابراہیم بن یزیدنخعی اہم ستون کی حیثیت رکھتے ہیں، جن سے ان کے شاگردحمادبن سلیمان نے کسب فیض کیا اوران سے حضرت امام ابوحنیفہؒ نے تحصیل علم کیا۔
فقہ تقدیری کاوجودحضرت امام ابوحنیفہؒ سے پہلے بھی تھا؛ چنانچہ الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ میں ہے:
وفی ھذاالعھد-أیضاً- ظھرالفقہ الإفتراضي (التقدیري)، وقد عظم ھذااللون من الفقہ فی مدرسۃ العراق من قبل ظھور أبی حنیفۃ رضی اللہ عنہ وتلامیذہ، وإن کان قدتزاید الاشتغال بھذاالفن فی عھدھم وعھد تلامیذھم۔ ( الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ)
اوراسی عہدمیں فقہ تقدیری کاظہورہوا، فقہ کی یہ قسم امام ابوحنیفہ اوران کے شاگردوں سے پہلے دبستان عراق میں نموپاچکی تھی، اگرچہ کہ ان کے اوران کے شاگردوں کے عہدمیں اس فن سے اشتغال بڑھ گیاتھا۔
اسی لئے شیخ ابوزہرہ کہتے ہیں کہ امام ابوحنیفہؒ نے اس کاایجاد نہیں کیا؛ بل کہ انھوں نے اس میں وسعت دی ہے، وہ لکھتے ہیں:
ونحن نری أن أباحنیفۃ لم یحدث الفقہ التقدیری، ولکنہ نماہ ووسعہ وزادفیہ بماأکثرمن التفریع والقیاس، وعندی أن الفقہ التقدیری وجد قبل أبی حنیفۃ فی وسط فقہاء الرأی، وإن کان إبراہیم النخعی قدتحاماہ، أو علی التحقیق لم یسرفیہ إلی مداہ، فکان لایجب حتی یسأل، فلایفرع ہومن تلقاء نفسہ… ولقدروی عنہ-الشعبی- أنہ کان یقول: واللہ لقد بغض ہؤلاء القوم إلی المسجد، فہوا أبغض إلی من کناسۃ داری، قیل: ومن ہم یاأباعمرو؟ قال: الأرأییون، وإذا کان الشعبی قدمات قبل أن ینضج أبوحنیفۃ، إذن کان لایزال تلمیذاً لحماد، فقدمات سنۃ ۱۰۹، والفقہ التقدیری کان شائعاً فی الکوفۃ فی عہدہ، فلابد أن أباحنیفۃ لم یحدثہ؛ ولکن قدوجدہ، فنماہ وزادفیہ، وأکثر۔ (أبوحنیفۃ: حیاتہ وعصرہ وآراء ہ الفقہیۃ، ص: ۲۶۰، فقرہ نمبر: ۶۶)
اورہماراخیال یہ ہے کہ ابوحنیفہ نے فقہ تقدیری کاایجادنہیں کیاہے؛ البتہ انھوں نے اس کوبڑھایااوروسعت دی ہے اوراس میں قیاس واندازہ سے اضافہ کیاہے اورمیرے نزدیک فقہ تقدیری فقہائے رائے کے درمیان ابوحنیفہ سے پہلے بھی موجود تھا اور ابراہیم نخعی نے اس میں قدم بڑھایاتھا؛ لیکن بہت آگے نہیں بڑھ سکے تھے؛ چنانچہ وہ پوچھنے پرہی جواب دیتے تھے، لہٰذا انھوں نے اپنی طر ف سے بہت کم تفریع کی…اورامام شعبی ان سے نقل کرتے ہیں کہ وہ کہاکرتے تھے: ان لوگوں نے مجھے مسجدسے نفرت دلادی ہے، بس یہ لوگ میرے نزدیک میرے گھر کے کوڑے دان سے بھی زیادہ مبغوض ہیں، پوچھاگیا: وہ کون ہیں اے ابوعمرو؟ جواب دیا: اَرَاَیُّوْن(أرأیت کہہ کر پیش آنے والے امورکے تعلق سے سوال کرنے والے)، اورشعبی کی وفات ابوحنیفہ کے مستحکم ہونے سے پہلے ہوئی کہ وہ حماد کی شاگردی میں رہے اوران(شعبی) کی وفات ۱۰۹ھ میں ہوئی اورفقہ تقدیری ان کے زمانہ میں کوفہ میں رائج تھا، اس سے معلوم ہوا کہ ابوحنیفہ نے اسے ایجاد نہیں کیاہے، ہاں اس علم کوانھوں نے پایا تواسے بڑھایااوراس میں خوب اضافہ کیا۔
فقہ تقدیری میں دست گاہ رکھنے اوراس کووسعت دینے ہی کی وجہ سے امام ابوحنیفہؒ کوہی اس کاموجد کہاجاتاہے، پھران کے بعد ان ہی کی پیروی کرتے ہوئے کم وبیش تمام فقہاء نے اس کی طرف توجہ دی اوراس طرح ہرمذہب میں اس کاایک بڑاذخیرہ وجودمیں آیا، جس سے آج نئے مسائل کے حل میں خوب استفادہ کیاجاتاہے۔
ایک تبصرہ شائع کریں