مقاصد شریعت:آغاز وارتقاء

مقاصد شریعت ۔آغاز وارتقاء

مقاصد شریعت:آغاز وارتقاء

محمدجمیل اختر جلیلی ندوی

تمہید

شریعت کا کوئی حکم مقصد سے خالی نہیں، خواہ ہماری رسائی اس تک پہنچ سکے یا نہ پہنچ سکے، گزشتہ ادوارمیں بہت ساری کتابوں میں اس کی وضاحت کی گئی ہے؛ لیکن یہ خاص فن کی شکل میں موجود نہیں تھا، سب سے پہلے امام ابواسحق شاطبیؒ نے باقاعدہ طورپراپنی کتاب کا ایک جزء اس کے لئے مختص کیا اور مقاصد کے تعلق سے جو بنیادی فنی بحثیں ہوسکتی تھیں، وہ کیں، اس وقت یہ علم مرتب اور مدون ہو کرباقاعدہ ایک فن کی حیثیت اختیارکرچکاہے اورخصوصیت کے ساتھ فقہ نوازل کے حل کرنے اورجدید دورکے سائنٹیفک ذہنوں کومطمئن کرنے کے لئے یہ علم بہت زیادہ اہمیت کاحامل ہے، ذیل میں اسی کاتعارف پیش کرنے کی سعادت حاصل کی جارہی ہے۔

مقاصد کی لغوی تعریف(دیکھئے: معجم الرائد، ص:۶۳۴، المعجم الوسیط، ص: ۷۳۸، المعجم الوجیز، ص:۵۰۳، لسان العرب، ص: ۳۶۴۲ ومابعدہا، www.almaany.com)

’مقاصد‘ جمع ہے’مقصَد‘اور’مقصِد‘(صاد کے زبر اور زیر کے ساتھ) کی، مقصِدکے معنی:موضع القصد(قصد وارادہ کی جگہ) اور غایت وفحوی(غرض ومفہوم)کے آتے ہیں، جب کہ مقصَد میں میم مصدریہ ہے اوراس کے معنی: قصدوارادہ اوراس جانب وگوشہ، جس کی طرف توجہ کی جائے کے آتے ہیں، کہا جاتا ہے:إلیہ مقصدی:أی:وجھتی،یعنی میری توجہ اس طرف ہے، یہ دونوں قَصَدَ یَقْصِدُ قَصْداًسے مشتق ہیں، جس کے لغت میں متعدد معانی آتے ہیں:

۱-قصد یقصد قصداً (ہ‘ أو لہ‘ أو إلیہ):توجہ إلیہ۔(کسی کی طرف متوجہ ہونا)

۲-قصد یقصد قصداً (إلیہ):اعتمدہ۔(بھروسہ کرنا)

۳-قصد یقصد قصداً (فی مشیہ):مشی مستویاً۔(سیدھا ہو کر چلنا)

۴-قصد یقصد قصداً(فی النفقۃ):توسط بین التقتیر والتبذیر۔کان معتدلاً۔(معتدل ہونا)

۵-قصد یقصد قصداً (فی الحکم): کان عادلاً۔(انصاف کرنا)

۶-قصدہ:نحانحوہ۔(پیچھے چلنا)

۷-قصد یقصد قصداً(الشیَٔ):کسرہ۔(توڑدینا)

۸-قصد یقصد قصداً (الشاعرُ):أنشأالقصائد۔(قصیدے لکھنا)

۹-قصد یقصد قصداً (الطریقُ): استقام۔(درست ہونا)

شریعت کے لغوی معنی

الشریعۃ کے معنی ’’راستہ، گھاٹ اورچوکھٹ ‘‘کے آتے ہیں، اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:{ثُمَّ جَعَلْنَاکَ عَلَی شَرِیْعَۃٍ مِّنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْہَا وَلَا تَتَّبِعْ أَہْوَاء  الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُون}(الجاثیۃ:۱۸)’’پھر ہم نے تم کو دین کے کھلے رستے پر (قائم) کر دیا تو اسی (رستے) پر چلو اور نادانوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلنا‘‘، شریعت کے ایک معنی ’’عقائد و احکام میں سے بندوں کے لئے اللہ کی طرف سے مشروع کردہ چیز‘‘ کے ہیں، المعجم الوسیط میں ہے:(الشریعۃ):ماشرعہ اللہ لعبادہ من العقائد والأحکام۔(المعجم الوسیط،ص:۴۷۹)

مقاصدشریعت کی اصطلاحی تعریف

قدیم علمائے اصولیین نے مقاصد شریعت کی کوئی ٹھوس تعریف نہیں کی ہے؛ بل کہ انھوں نے اس کی حقیقت ، مشمولات اورمتعلقات،نیزاس کی بعض قسمیں اوردلائل وامثلہ کے ذکرپر اکتفا کیا ہے؛ اس لئے ان کی کتابوں میں علمی اوراصطلاحی تعریف ہمیں نہیں ملتی، ایسااس لئے بھی ہوا کہ ان کے زمانہ میں اس نے دوسرے فنون کی طرح باقاعدہ فن کی حیثیت اختیار نہیں کیا تھا؛ تاہم آج کے زمانہ میں یہ نہ صرف ایک فن کی حیثیت سے متعارف ہواہے؛ بل کہ ایساعظیم الشان فن کی صورت اختیارکرچکاہے، جس کی طرف ہرعالم کی نظراٹھتی ہے اوروہ اس کے مطالعہ کی طرف راغب ہوتاہے، خصوصیت کے ساتھ عالم عرب کے علماء نے اس کی طرف کافی توجہ دی ہے اوراس کوایک فن کی حیثیت سے متعارف کرانے میں ان کا بڑا ہاتھ ہے، انھوں نے اس پرمستقل کتابیں بھی لکھی ہیں، ان کتابوں میں مقاصد شریعت کی متعدد تعریفیں کی گئی ہیں، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ:

’’مقاصدشریعت ایسی مصلحتوں کوکہتے ہیں، جن کی شریعت نے بندوں کونفع پہنچانے یانقصان سے بچانے کی خاطردنیوی یااخروی اعتبارسے ہرجگہ اورہرزمانہ میں رعایت کی ہے‘‘۔

مقاصد شریعت:آغاز وارتقاء

مقاصد شریعت کی تاریخ تدوین کودوحصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں:

۱۔کتابوں میں ذکرسے پہلے کی تاریخ

۲۔کتابوں میں ذکرکے بعد کی تاریخ

کتابوں میں ذکرسے پہلے کی تاریخ

مقاصدشریعت کی تاریخ کاآغاز شریعت اسلامی کی ابتداء کے ساتھ ہوا، قرآن اوراحادیث میں کثرت سے مثالیں مل جاتی ہیں، عہد صحابہ میں بھی اس کی مثالیں موجود ہیں؛ چنانچہ قرآن کی حفاظت کی غرض سے اس کوجمع کرنے، اسلام کے مستحکم ہوجانے کی وجہ سے مؤلفۃ القلوب کوزکات کی مد سے خارج کرنے اورعقل ومال اورآبروکی حفاظت کی خاطرشرابی کواسی کوڑے لگانے کے احکام اسی کی مثالیں ہیں۔

عہد صحابہ کے بعد تابعین، تبع تابعین اورفقہائے مجتہدین نے بہت سارے ان مسائل میں قیاس سے کام لیا، جن کے تعلق سے نہ توکوئی نص تھی اورنہ ہی صحابہ کاقول، اورظاہرہے کہ قیاس میں علت کابڑادخل ہوتاہے، جومقاصدشریعت کے بہت قریب ہے، خودحضرت ابراہیم نخعیؒ کاقول ہے:

’’اللہ تعالیٰ کے احکام کے اغراض ہیں، یہ ہماری طرف لوٹنے والی حکمتیں اور مصلحتیں ہیں‘‘(الفکرالمقاصدی عندالإمام الغزالی للدکتور محمدعبدو،ص:۱۵۱)۔

باقی فقہائے کرام کے اجتہادات کی مثالیں کتب فقہ میں دیکھی جاسکتی ہیں، اس کی تفصیل میں تطویل کااندیشہ ہے، شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ لکھتے ہیں:

’’پھرتابعین، پھران کے بعدعلمائے مجتہدین برابرمصالح کے ذریعہ احکام کی علت نکالتے رہے، ان کے معانی کوسمجھتے رہے اورمنصوص حکم کی بابت دفع مضرت اورجلب منفعت کے لئے مناسب مناط تخریج کرتے رہے، جیساکہ ان کی کتابوں اوران کے مذاہب میں تفصیل سے لکھاہواہے‘‘(حجۃ اللہ البالغہ: ۱/ ۲۹، ط: دارالجیل، بیروت)۔

کتابوں میں ذکرکے بعدکی تاریخ

اس تاریخ کوہم چار مرحلوں میں تقسیم کرسکتے ہیں:

۱-پہلا مرحلہ: آغاز وابتداء۔

۲-دوسرامرحلہ:تبدیلی وتدوین۔

۳-تیسرامرحلہ:تکمیل وپختگی۔

۴-چوتھامرحلہ:تہذیب وتزئین۔

پہلا مرحلہ:آغاز وابتدا

پہلے مرحلہ میں عموماً امام غزالی ؒکے استاذ امام الحرمین جوینیؒ اورامام غزالیؒ کا نام ذکرکیاجاتاہے؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان سے پہلے ابوعبداللہ محمد بن علی حکیم ترمذی(م:۲۷۹ھ)، ابومنصورماتریدی(م:۳۳۳ھ)، ابوبکر قفال (کبیر) شاشی شافعی (م:۳۶۵ھ)، ابوبکرابہری(م:۳۷۵ء)اور قاضی ابوبکر محمد بن طیب باقلانی(م:۴۰۳ھ)وغیرہم نے اسرارشریعت، احکام شریعت کی علتوں اوران کے مقاصد پر گفتگوکی ہے؛ بل کہ اس موضوع پر کتابیں بھی لکھی ہیں؛ چنانچہ حکیم ترمذی کی ’’الصلاۃ ومقاصدہا‘‘اور’’الحج وأسرارہ‘‘،ابومنصورماتریدیؒ کی ’’مأخذ الشرائع‘‘، قفال شاشی کی ’’أصول الفقہ‘‘ اور’’محاسن الشریعۃ‘‘، ابہری کی’’کتاب الأصول‘‘، ’’کتاب إجماع أہل المدینۃ‘‘ اور’’مسألۃ الجواب والدلائل والعلل‘‘اورباقلانی کی’’التقریب والإرشاد فی ترتیب طرق الاجتہاد‘‘ وغیرہ کتابیں اسی سلسلہ کی کڑی ہیں۔

ان کے بعد ابوالمعالی عبد الملک بن عبداللہ جوینی آئے، جو امام الحرمین کے نام سے مشہورہیں، ان کی وفات ۴۷۸ھ میں ہوئی، انھوں نے ’’البرہان فی أصول الفقہ‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی ، جس میں پہلی بارباقاعدہ طورپرمقاصد شریعت کے تعلق سے اصولی بحث کی، ضروریات، حاجیات اورتحسینیات کی تعریف اورحد بندی کی، اسی طرح ان کی ایک دوسری کتاب ’’غیاث الأمم فی التیاث الظلم‘‘ کے نام سے ہے، جو ’’الغیاثی‘‘ کے نام سے معروف ہے، یہ بھی مقاصد شریعت پرایک اہم کتاب ہے اورخصوصیت کے ساتھ نئے مسائل کے حل کے لئے کئی اہم امورمل جاتے ہیں۔

امام الحرمین کے بعدان کے شاگرد امام غزالی کا نام لیا جاتا ہے؛ لیکن ان سے پہلے شمس الأئمہ ابوبکر محمد بن احمد السرخسی (م:۴۹۰ھ) کا نام بھی ذکر کیا جانا چاہئے کہ انھوں نے بھی اپنی اصولی کتاب میں اس کی طرف اشارہ کیاہے؛ چنانچہ عبادت کے مقصد کوبتاتے ہوئے لکھتے ہیں:

المقصد من العبادات:إظہارشکرالنعمۃ بہا فی الدنیا ونیل الثواب فی الآخرۃ۔(اصول السرخسی:۲/ ۲۹۱)

عبادات کے مقاصد:دنیامیں نعمت کے شکرکااظہاراورآخرت میں ثواب کاحصول ہے۔

اسی طرح حدودکے بارے میں رقم طراز ہیں:

والحدود:شرعت زواجرعن ارتکاب أسبابہا المحظورۃ۔(اصول السرخسی:۲/ ۲۹۴)

حدودممنوع اسباب کے ارتکاب کے لئے زجرکے طورپرمشروع ہوئے ہیں۔

ان کے بعدامام الحرمین کے مایہ ناز شاگردابوحامدالغزالی (م:۵۰۵ھ) نے اس موضوع پرکام کیا، اصول فقہ پران کی دوکتابیں ہیں:ایک ’’المنخول‘‘ اوردوسری ’’المستصفیٰ‘‘، انھوں نے مستصفی میں استصلاح کی بحث میں تفصیل سے مقاصد شریعت کوواضح کیا اوریہ بات بتائی کہ پوری شریعت کامقصدپانچ امور پر منحصر ہے:(۱)دین کی حفاظت(۲) نفس کی حفاظت(۳)عقل کی حفاظت(۴)نسل کی حفاظت(۵) اورمال کی حفاظت (المستصفی، الأدلۃ:۲/ ۴۸۲)،موجودہ حالات میں احکام کی تطبیق کے لئے یہ بہت اہم ہے، ان کی ایک اورکتاب ہے’’شفاء الغلیل فی الشبہ والمخیل ومسالک التعلیل‘‘ کے نام سے ، اس میں’’مسلک المناسبۃ‘‘ کے ضمن میں مقاصد پر بحث کی ہے، ان کی ایک اورکتاب مشہورہے، جو’’إحیاء علوم الدین‘‘ کے نام سے ہے، اس میں احکام شریعت کے اسرارورموز اورمقاصدشریعت پربھی بحث کی گئی ہے، خلاصہ یہ کہ اس مرحلہ میں:

۱-علم مقاصد شریعت اوراس کے مسائل کے بعض مباحث کااظہارکیاگیا۔

۲-ان مباحث کے ذکرمیں وضاحتی اورتحقیقی اعتبارسے تفصیل نہیں کی گئی؛کیوں کہ یہ ابتدائی مرحلہ ہے اورابتدائی مرحلہ میں تفصیل نہیں آپاتی ہے۔

دوسرامرحلہ:ترقی اور تدوین

امام غزالی کے بعدمقاصدشرعیت پرکام کرنے والوں میں سلطان العلماء عزبن عبدالسلام (م:۶۰۶ھ)کانام لیاجاتاہے؛ لیکن ان سے پہلے ان کے استاذعلی بن محمدسیف الدین آمدی (م:۶۳۱ھ) نے بھی اس پراچھی خاصی گفتگو کی ہے، انھوں نے اصول فقہ پر’’المحصول‘‘لکھنے کے ساتھ ساتھ ’’الإحکام فی أصول الأحکام‘‘ اور’’لباب الألباب‘‘تصنیف کیں، ان میں انھوں نے مقاصد کی تعریف کی اورعلتوں کے مابین ترجیحی عمل کے لئے بطور ثالث کے اس کوشامل کیا؛ چنانچہ مقاصد کی تعریف ان الفاظ میں کی:المقصود من شرع الحکم إماجلب مصلحۃ، أودفع مضرۃ۔(الإحکام فی أصول الأحکام:۳/ ۲۷۱)۔

پھران کے بعدان کے نامورشاگرد نے اس علم کونکھارا، اس کے نوک پلک کو پہلے سے کہیں بہترکیا،اسی لئے ان کو مقاصد شریعت کے اہم ستون کے طور پرجانا جاتاہے، اس موضوع پرانھوں نے ایک کتاب’’قواعد الاٌحکام فی مصالح الأنام‘‘ کے نام سے لکھی، اس میں انھوں نے اس موضوع کے تعلق سے نئے گوشے واکئے، مقاصد کی کچھ نئی تقسیمات کیں، احکام کے مصالح کوان کے درجات اورمراتب کے ساتھ ذکرکیا، مصالح اورمفاسدکی حقیقت کوواضح کیا، پھران کی تقسیم اور درجہ بندی کی، ان کی ایک کتاب’’شجرۃ المعارف والأحوال وصالح الأقوال والأعمال‘‘ بھی ہے، اس میں بھی مقاصدشریعت سے متعلق کافی چیزیں ہیں اوربقول مولاناعتیق احمد بستوی مد ظلہ:یہ مقاصدشریعت پرنظریاتی سے بڑھ کرتطبیقی کتاب ہے، اسی طرح ان کی دوسری کتاب ’’الفوائدفی اختصارالمقاصد‘‘ ہے، جو’’القواعد الصغری‘‘کے نام سے معروف ہے، یہ قواعدالأحکام کی تلخیص ہونے کے باوجود بعض نئی چیزوں پرمشتمل ہے۔

عزبن عبدالسلام کے بعدان کے شاگردعلامہ شہاب الدین قرافی(م:۶۸۵ھ)نے اس کام کومزیدآگے بڑھایا، انھوں نے کئی اہم کتابیں تالیف کیں، جن میں’’أنوارالفروق فی أنواء البروق‘‘، ’’شرح تنقیح الفصول‘‘ اور’’النفائس‘‘ وغیرہ ہیں، ان میں انھوں نے مقاصد کے بعض مسائل بیان کئے، اسی طرح بعض قواعد بھی ذکرکئے، جیسے:قاعدۃ المقاصد، قاعدۃ الوسائل اورقاعدۃ المشقۃ المسقطۃ للعبادۃ والمشقۃ التی لاتسقطہا وغیرہ، انھوں نے ضروریات اورمقاصدخمسہ کے ذکرکرنے کے ساتھ ساتھ ’عرض‘ کے تعلق سے اختلاف کوبھی نقل کیا(دیکھئے:شرح تنقیح الفصول،ص:۳۹۱)اوریہ تمام چیزیں سابق کے مقابلہ میں زیادہ مرتب اندازمیں لکھیں۔

ان کے بعد سلیمان بن عبدالقوی نجم الدین طوفی(م:۷۱۶ھ) نے حدیث ’’لاضرر ولاضرار‘‘کی تشرح میں مصالح اورمقاصدشریعت پر تفصیلی گفتگوکی ،انھوں نے کئی کتابیں تصنیف کیں، جن میں’’معراج الوصول إلی علم الأصول‘‘،’’روضۃ الناظر وجنۃ الماظر‘‘اور’’البلبل فی أصول الفقہ‘‘وغیرہ ہیں، آخرالذکرکتاب روضۃ الناظرکی تلخیص ہے،امام طوفی کومقاصد شریعت کے بانیان میں شمارکیاجاتاہے؛ چنانچہ انھوں نے اپنی کتاب ’’شرح روضۃ الناظر‘‘میں نہ صرف یہ کہ مصلحت کی تعریف کی؛ بل کہ اس کی تقسیم بھی کی ہے اوراس طرح اس موضوع کوایک نئی جہت سے روشناس کرایا۔

نجم الدین طوفی کے بعداس موضوع کے تعلق سے علامہ ابن تیمیہ(م:۷۲۸ھ) کانام لیاجاتاہے، انھوں نے اس کے لئے مستقل کتاب توتصنیف نہیں کی؛ لیکن ان کی تحریروں میں اس سے بہت زیادہ اعتناء کیاگیاہے، احمدالریسونی کہتے ہیں:

لایکادیخلوکلام لہ عن الشریعۃ وأحکامہا من بیان حکمہا ومقاصدہاوإبراز مصالحہا و مفاسد مخالفتہا۔ (نظریۃ المقاصد عندالشاطبی، ص:۶۸)

شرعی احکام کے تعلق سے ان کاکوئی کلام اس بات سے خالی نہیں، جس میں ان کی حکمتیں، ان کے مقاصد کا بیان، اس کے مصالح کااظہاراوراس کے برعکس مفاسد کوبیان نہ کیاگیاہو۔

جب کہ یوسف احمدبدوی نے لکھا:

لئن کان الشاطبی شیخ المقاصدین-کمایراہ کثیرمن المعاصرین-، فہذا یصدق علیہ تألیفاً وتنظیراً، أماشیخ المقاصدین تطبیقاً وتوظیفاً، فہوا ٔبوالعباس ابن تیمیۃ صاحب الدراسۃ والرسالۃ۔(مقاصدالشریعۃ عندابن تیمیۃ، ص:۹۵)

اگرشاطبی شیخ المقاصدہیں-جیساکہ بہت سارے معاصرین کی رائے ہے- تونظریاتی اورتالیفی اعتبارسے ان پرصادق آتاہے، جہاں تک عملی اورتطبیقی لحاظ سے شیخ المقاصد ہونے کاتعلق ہے توصاحب الدراسہ والرسالہ ابوالعباس ابن تیمیہ ہیں۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علامہ ابن تیمیہ نے اس موضوع پرصرف لکھنے کی حدتک کام نہیں کیاہے؛ بل کہ تطبیقی طورپرکام کیاہے،جوان کے مطبوعہ فتاوی کے مجموعہ ’’مجموع الفتاوی‘‘اوردیگرکتب میں ہمیں دیکھنے کوملتاہے۔

پھران کے مایہ نازشاگرد محمدبن ابوبکرابن قیم جوزیۃ (م:۷۵۱ھ) نے اس کام کو آگے بڑھایا اوراپنے استاذکے مقابلہ میں اس کوزیادہ نکھارا، انھوں نے ’’إعلام الموقعین عن کلام رب العالمین‘‘، ’’شفاء العلیل‘‘اور’’مفتاح دارالسعادۃ‘‘ وغیرہ کتابیں تالیف کیں اوران میں ان احکام شرعیہ کوعقل وقیاس سے ثابت کیا اور ان کے مصالح  پرروشنی ڈالی، جن کے تعلق سے عمومی طور پر فقہا’’غیرمدرک بالقیاس‘‘ اور’’خلاف قیاس‘‘ کہتے ہیں۔

یہ تمام کام دوسرے مرحلہ میں ہوئے، جن کوخلاصہ کے طور پریہ کہاجاسکتاہے: 

۱-اس مرحلہ میں بعض نئے مباحث کااضافہ کیاگیا۔

۲-تعریف وغیرہ کی وضاحت کے ساتھ ساتھ بعض مقاصدی اصول بھی بتلائے گئے۔

تیسرامرحلہ:تکمیل وپختگی

مذکورہ حضرات کے بعداس موضوع کی طرف توجہ اور دھیان دینے کے اعتبارسے ابواسحق ابراہیم بن موسی غرناطی (م:۷۹۰ھ) کا نام لیاجاتاہے، جوشاطبی کے نام سے مشہورہیں، انھوں نے مذکورہ حضرات کے لگائے ہوئے پودے کواپنی اچھوتی سوچ کے ذریعہ سے ایک تناوردرخت بنادیا، ایسا تناور درخت ، جس کے بعد طویل زمانہ تک اس موضوع کے تعلق سے بالکل سناٹاچھایارہا، انھوں نے اس کے قواعد، اس کی قسمیں اوراس کے احکام وغیرہ کومستقل موضوع بنایا، جب کہ اس سے قبل تمام حضرات نے قیاس، علت، اورمصلحت وغیرہ کی بحثوں کے ضمن میں اس سلسلہ میں کلام کیاتھا، انھوں نے ’’الموافقات فی أصول الشریعۃ‘‘ لکھ کرمقاصدشریعت کوایک نئی جہت عطاکی، انھوں نے مقاصد کومنظم اورمرتب کیا اور بنیادی طور پراس کی دوقسمیں کیں:ایک وہ ، جو شارع کے قصدوارادہ سے متعلق ہوتاہے اوردوسرا وہ، جومکلف کے قصد وارادہ سے متعلق ہوتاہے، پھرپہلی قسم کوچارقسموں پرمنقسم کیا:

۱-وضع شریعت کے تعلق سے شارع کاابتدائی قصد۔

۲-وضع شریعت کے تعلق سے افہام کے لئے شارع کا قصد۔

۳-شریعت کے تقاضہ کے لحاظ سے تکلیف کے لئے اس کے وضع کی بابت شارع کاقصد۔

۴-شریعت کے اس حکم کے تحت مکلف کے داخل ہونے میں شارع کاقصد۔(الموافقات:۲/ ۷-۸)

اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے مقاصد کو بہت سارے اصولی مسائل کے ساتھ مربوط کیا، اسی وجہ سے اس علم کا موجد بھی انھیں کو کہا جاتاہے، بس خلاصہ کے طورپریہ کہاجاسکتاہے کہ اس مرحلہ میں:

۱-اس کومرتب اورمستحکم طورپرپیش کیاگیا، جواس سے قبل نہیں تھا۔

۲-مستقل ایک فن کی حیثیت سے اس کوسامنے لایاگیا۔

۳-مقاصد کی متعددقسمیں کی گئیں؛ تاکہ اس کے سمجھنے میں آسانی ہو۔

۴-مقاصدکوبہت سارے اصولی مسائل کے ساتھ مربوط کیاگیا۔

مقاصد:امام شاطبی کے بعد

امام شاطبی کے بعداس موضوع کے تعلق سے عالم عرب میں طویل خاموشی رہی، جواس بات پردلیل تھی کہ شاطبی نے اس موضوع کی تکمیل کردی ہے ، عالم عرب کی یہ خاموشی ابن عاشورنے توڑی؛ لیکن اکثرحضرات باوجود یہ کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی(م:۱۱۷۶ھ) کی کتابوں سے استفادہ کرتے رہے ہیں، ان کا ذکراس موضوع سے جوڑکرنہیں کرتے؛ حالاں کہ علامہ شاطبی کے بعداس موضوع پرخاصی گفتگوانھوں نے ہی کی ہے، انھوں نے ’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ لکھی اوراس میں عقائد، عبادات، معاملات، عقوبات اوراخلاقیات کے مسائل کوعقل و قیاس کے ترازو میں تول کرپیش کیااوردینی احکام کے مقاصد و مصالح پربڑی بلاغت کے ساتھ تفصیلی روشنی ڈالی ؛ چنانچہ ان کی یہ کتاب علامات قیامت، سیرت نبوی، اخلاق وادیان کا مقارنہ، تصوف، عقائد، تفسیر، حدیث اورعلوم فقہ کے عقلی ونقلی اجتہادات پرمشتمل ہونے کے ساتھ ساتھ عبادات کے اسراراورمقاصد شریعت کی روشنی میں ثابت شدہ ان کے فوائد وثمرات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے، انھوں نے اس کتاب کی دوبڑی قسمیں کی ہیں:

۱-ان قواعدکلیہ کے ساتھ مختص ہے، جن سے وہ مصالح مستنبط ہوتے ہیں، جن کی رعایت احکام شرعیہ میں کی گئی ہے۔

۲-نبی کریمﷺکی ان احادیث پرمشتمل ہے، جن میں عبادات، مقامات واحوال، خلافت وقضاء اورجہاد کی مشروعیت کی حکمت بیان کی گئی ہے۔

اس کتاب میں ایک جگہ مصالح اورشرائع کے درمیان فرق کوبتلاتے ہوئے مصالح کے بارے میں فرماتے ہیں:

اعلم أن الشارع أفادنا نوعین من العلم، متمایزین بأحکامہما متباینین فی منازلہما، فأحدالنوعین:علم المصالح والمفاسد، أعنی مابینہ من تہذیب النفس باکتساب الأخلاق النافعۃ فی الدنیا، أوفی الآخرۃ، وإزالۃ أضدادہا، ومن تدبیرالمنزل وآداب المعاش وسیاسۃ المدنیۃ…والنوع الثانی:علم الشرائع والحدود والفرائض، أعنی مابین الشرع من المقادیر۔(حجۃ اللہ البالغۃ،باب الفرق بین المصالح والشرائع:۱/ ۲۲۵-۲۲۶)

جانناچاہئے کہ شارع نے ہمیں دوطرح کے علم سے نوازاہے، جواحکام کے اعتبارسے ممتاز اورمرتبہ کے لحاظ سے جداہیں، ان میں سے ایک:مصالح اور مفاسد کاعلم، اس سے میری مراد وہ علم ہے، جودنیایاآخرت میں نفع رساں اخلاق کے حصول اوران کے اضدادکے ذریعہ سے نفس کو سنوارنے اورشہری سیاست، زندگی گزارنے کے طریقے اورگھرکی دیکھ بھال کی وضاحت کرے…اوردوسری قسم:حدودوفرائض اورشرائع کاعلم ہے، اس سے میری مرادوہ ہے، جومقادیرشریعت نے واضح کئے ہیں۔

اسی طرح عید کی مشروعیت کا مقصد بتاتے ہوئے رقم طراز ہیں:

وضم معہ مقصداً آخرمن مقاصد الشریعۃ،وہوأن کل ملۃ لابدلہا من عرضۃ یجتمع فیہاأہلہا؛لتظہرشوکتہم وتعلم کثرتہم، ولذلک یستحب خروج الجمیع؛ حتی الصبیان والنساء وذوات الخدوروالحیض، ویعتزلن المصلی ویشہدن دعوۃ المسلمین،ولذلک کان النبیﷺ یخالف فی الطریق ذہاباًوإیاباً، لیطلع أہل کلتاالطریقین علی شوکۃ المسلمین۔(حجۃ اللہ البالغۃ،العیدان:۲/ ۴۸)

اوراس کے ساتھ مقاصد شریعت میں سے ایک دوسرے مقصد کو بھی شامل کرلیاجائے اوروہ یہ ہے کہ ہرملت کے لئے ایسا میدان ہونا چاہئے ، جہاں سارے لوگ جمع ہوں؛ تاکہ ان کی شوکت ظاہراوران کی کثرت معلوم ہوسکے، اسی لئے تمام لوگوں کے نکلنے کو مستحب قراردیاگیاہے؛ حتی کہ بچے، عورتیں، پردہ نشین اور حائضہ بھی، اوریہ عیدگاہ سے دوررہیں گی اورمسلمانوں کی دعامیں شامل ہوں گی، اوراسی وجہ سے نبی کریمﷺآنے جانے کے راستے کوبدلاکرتے تھے؛ تاکہ دونوں راستوں کے لوگوں کو مسلمانوں کی شوکت معلوم ہوسکے۔

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے بعد جس شخصیت نے اپنی تقریروں اورتحریروں کے ذریعہ اس موضوع پرتطبیقی لحاظ سے کام کیا، وہ حجۃ الاسلام محمدقاسم نانوتوی(م:۱۲۹۷ھ) ہیں، جنھوں نے مستقل طورپرتصنیفی کام تونہیں کیا؛ لیکن جورسائل لکھے اورجوتقریریں کیں، ان میں احکام شریعت کوعقل وقیاس کی روشنی میں تطبیقی طورپرپیش کیا، انھوں نے خاص طور سے آریہ سماج اورانگریز پادریوں سے مقابلہ کیااوراسلام کے خلاف ان کے اعتراضات کامسکت جواب دیا۔

مولاناقاسم نانوتوی کے بعداس موضوع پرتحریری اور تقریری طورپرتطبیقی کام مولانااشرف علی تھانوی(م:۱۳۶۲ھ) نے کیا، انھوں نے اپنی تصانیف ، مواعظ اور تقاریر میں احکام شریعت کے اسرارورموز پرکوبیان کیا، معترضین کے اعتراضات کاجواب دیتے ہوئے مصالح اورمقاصد شریعت کو واضح کیا، اس تعلق سے ان کی کتابوں میں’’اشرف الجواب‘‘ ’’المصالح العقلیۃ للأحکام النقلیۃ‘‘، جواب ’’احکام اسلام- عقل کی نظرمیں‘‘ کے نام سے مطبوعہ ہے، کامطالعہ کیاجاسکتاہے؛ چنانچہ وضوکی ایک حکمت  بتاتے ہوئے لکھتے ہیں:

مشاہدہ وطبی تجارب اس امرکے شاہدہیں کہ انسان کے اندرونی جسم کے زہریلے مواداطراف بدن سے خارج ہوتے رہتے ہیں اوروہ ہاتھ پاؤں یااطراف منھ وسرپرآکرٹھہرجاتے ہیں اورمختلف اقسام کے زہریلے پھوڑے وپھنسیوں کی شکل میں ظاہرہوتے رہے ہیں اوراطراف بدن کودھونے سے وہ گندے موادرفع ہوتے رہتے ہیں، یاتوجسم کے اندرہی ان کاجوش پانی سے بجھ جاتاہے یاخارج ہوتارہتاہے۔(احکام اسلام- عقل کی نظرمیں، ص:۱۷)

چوتھامرحلہ:تہذیب وتزئین

جیساکہ ذکرکیاگیاکہ امام شاطبی کے بعدعالم عرب میں اس موضوع کے تعلق سے کوئی ہلچل نہیں ہوئی؛البتہ کچھ ہندوستانی علماء نے کام کیا؛ لیکن یہ کام مقاصد کے نام سے مستقل طورپرنہیں تھا، بس احکام کے شرعیہ کے مصالح اوراس کے مقاصدکوواضح کئے گئے، ان کے اسراروحِکم بتائے گئے اورعقل و برہان کے ترازومیں تول کردکھایاگیاکہ شریعت کا کوئی حکم حکمت ، مصلحت اورمقصد سے خالی نہیں؛بل کہ جن احکام کوہم خالص تعبدی سمجھتے ہیں، ان میں بھی حکمت اور مصلحت موجودہے۔

امام شاطبی کے بعدمقاصد شریعت کے نام سے مستقل طور پرجس شخصیت نے قدم بڑھایا، وہ محمدطاہربن عاشور (م:۱۳۹۳ھ) ہیں، انھوں نے ’’مقاصدالشریعۃ الإسلامیۃ‘‘ کے نام سے کتاب لکھی اوراس میں بعض نئی بحثیں کیں؛ چنانچہ انھوں نے ’’مقاصدعامہ‘‘ پرگفتگوکی اوراس کے تحت شریعت کے کلی مقاصد کو ذکر کیا، پھرانھوں نے’’مقاصدخاصہ‘‘پرکلام کیا اور اس کے تحت بعض فقہی ابواب کے خاص مقاصدکوبیان کیا، انھوں نے مقاصدسے واقف ہونے کے طریقوں پربھی روشنی ڈالی اوریہ بتایاکہ اس کے تین طریقے ہیں:

۱-تصرفات شرعیہ کااستقراء:یعنی ایک توان احکام میں استقراء، جن کی علتیں معروف ہیں اوردوسرے ان مشترک علت والے احکام کے دلائل میں استقراء، جن سے ہمیں یقین ہوجائے کہ شارع کامرادی مقصدیہی ہے۔

۲-قرآن کے وہ واضح دلائل، جن میں خلاف ظاہرکے مراد ہونے کااحتمال کمزورہو۔

۳-سنت متواترہ:یعنی ایک تومعنوی متواتر، جوعام صحابہ کی طرف سے حضورﷺ کے عمل کے مشاہدہ سے حاصل ہو،اوردوسرے عملی متواتر، جوآحادصحابہ کی طرف حضور ﷺ کے اعمال کے مکررمشاہدہ سے حاصل ہو (مقاصدالشریعۃ الإسلامیۃ لابن عاشور،ص:۱۹۰-۱۹۴)۔

اس موضوع پرعلامہ طاہربن عاشورکا کام موجودہ دور کے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتاہے، انھوں نے سابقہ تمام اعمال کے نہ صرف یہ کہ نوک پلک درست کئے؛ بل کہ بہت کچھ اس میں اضافہ بھی کیااورنئے نظریات پیش کئے، یہی وجہ ہے جس طرح امام شاطبی کوابوالمقاصداول کہاجاتاہے، اسی طرح طاہربن عاشورکوابوالمقاصد ثانی کہاجاتاہے۔

ان کے بعدانھیں کے ایک معاصر، جواتفاق سے تونس ہی کے رہنے والے تھے، جن کانام علال فاسی(م:۱۳۹۴ھ) ہے، انھوں نے ’’مقاصد الشریعۃ الإسلامیۃ ومکارمہا‘‘لکھی؛ لیکن ان کی کتاب میں مقاصدپربحث کم اورمغربی نظام اورجدید قوانین پربحث زیادہ ہوگئی ہے، دراصل انھوں نے دونوں نظاموں کے درمیان موازنہ کی کوشش کی ہے؛ لیکن اس کوشش کی وجہ سے مقاصد شریعت کی بحث کافی پیچھے رہ گئی ہے۔

پھران کے بعداس موضوع کی طرف رجحان بڑھتا گیا اور اس موضوع پرکام ہوتاگیااوربہت سارے علماء نے باقاعدہ اسی کواپناموضوع بنایا، جن میں ڈاکٹراحمدریسونی، ڈاکٹریوسف حامد العالم وغیرہ قابل ذکرہیں، موجودہ زمانہ میں اس موضوع پر لکھی گئی چند کتابیں حسب ذیل ہیں:

۱-المقاصدالعامۃ للشریعۃ الإسلامیۃ للدکتوریوسف حامد العالم

۲-مقاصدالشریعۃ الإسلامیۃ وعلاقتہابالأدلۃ الشرعیۃ للدکتور محمد سعدبن أحمدالیوبی

۳-مقاصدالشریعۃ لطہ جابرالعلوانی

۴-مدخل إلی مقاصدالشریعۃ للدکتورأحمد الریسونی

۵-علم المقاصد الشریعۃ للدکتورنورالدین بن مختارالخادمی

۶-علم مقاصدالشارع للدکتور عبدالعزیزبن عبدالرحمن

۷-دراسۃ فی فقہ مقاصدالشریعۃ بین المقاصدالکلیۃ والنصوص الجزئیۃ للدکتوریوسف القرضاوی

۸-مقاصدالشریعۃ الإسلامیۃ تأصیلاً وتفعیلاً للدکتور محمد بکر إسماعیل حبیب

۹-نحوتفعیل مقاصدالشریعۃللدکتورجمال الدین عطیۃ

۱۰-المقاصدالعامۃ للشریعۃ الإسلامیۃ لعبدالرحمن عبدالخالق

ان کے علاوہ چھوٹے بڑے بہت سارے رسائل وکتب اس وقت منصہ شہودمیں آچکے ہیں، جن کامطالعہ مفیدہے۔

2 تبصرے

  1. ماشاءاللہ
    مع حوالے کے ایک بہترین اور تسلی بخش بلاگ ہے۔
    شاد و آباد رہیں سدا سلامت رہیں نیک خواہشات۔

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی