تقریر وڈرامہ کے پروگرام میں طالبات کی شرکت
محمد جمیل اختر جلیلی ندوی
تقریراورمکالمہ ابلاغ دین کے اہم ذرائع ہیں، جس کوواجب قراردیاگیا ہے،اللہ تبارک وتعالیٰ نبی کریم اکوحکم دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
یَا أَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَیْْکَ مِن رَّبِّکَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ۔(المائدۃ: ۶۷)
اے رسول!جوکچھ آپ کے پاس آپ کے رب کی طرف سے اتاراگیاہے، اسے پہنچادیجئے، اگرآپ نےایسانہیں کیاتوآپ نے اپنے رب کاپیغام نہیں پہنچایا۔
اوراللہ کے رسولﷺکاارشاد ہے:
بلغوا عنی ولوآیۃ۔(بخاری، حدیث نمبر:۳۴۶۱)
میری بات پہنچاؤ، اگرچہ کہ ایک ہی آیت ہو۔
’’مجلۃ البحوث الإسلامیۃ‘‘ میں ہے:
’’داعیوں اورمسلم حکمرانوں پرواجب ہے کہ وہ لوگوں تک حق پہنچانے میں بقدراستطاعت ریڈیو، صحافت، ٹیلی ویژن اورمجلسوں اورجمعہ وغیرہ میں خطابت یاکسی دوسرے ذریعہ سے اپنی شرکت درج کرائیں‘‘(مجلۃ البحوث الإسلامیۃ: ۱۸؍۳۳۳)۔
اب اس کی دوصورتیں ہیں:
۱- یہ پروگرام لڑکے اورلڑکیوں کے لئے علاحدہ علاحدہ کرائے جائیں۔
۲- یہ پروگرام لڑکے اورلڑکیوں کے مابین کرائے جائیں۔
پہلی صورت میں فتنہ سے خالی ہونے کی وجہ سے کوئی حرج کی بات نہیں، علامہ اکمل الدین بابرتیؒلکھتے ہیں:
’’عورت تلبیہ میں آواز بلندنہ کرے کہ اس میں فتنہ ہے‘‘(العنایۃ شرح الہدایۃ، کتاب الحج: ۴؍۱۲)۔
لہٰذا جہاں فتنہ کااندیشہ نہ ہو، وہاں رفع صوت کی گنجائش ہے؛ اس لئے لڑکیوں کے مابین اس طرح کے پروگرام منعقد کرنے کی گنجائش ہے۔
جہاں تک دوسری صورت کاتعلق ہے تواس کی دوشکلیں ہیں:
۱- پروگرام کاانعقادغیرمراہق ومراہقہ اورغیربالغ وبالغہ کے درمیان ہو۔
۲- پروگرام کاانعقادمراہق ومراہقہ یابالغ و بالغہ کے درمیان ہو۔
پہلی صورت میں عدم فتنہ کے اندیشہ کی وجہ سے درست ہے، جب کہ دوسری صورت میں اس وقت گنجائش ہے، جب کہ کسی فتنہ کا اندیشہ نہ ہو، فتنہ کے اندیشہ کی صورت میں گنجائش نہیں، فتاوی اللجنۃ الدائمۃ میں ہے:
’’عورت کی نفس آواز کاایسا پردہ نہیں ہے، جس کاسننا حرام ہو؛ البتہ اگرگفتگومیں لوچ اورجھکاؤ ہوتوشوہرکے علاوہ کے لئے حرام ہے‘‘(فتاوی اللجنۃ الدائمۃ، فتوی نمبر: ۸۰۹۲۹)۔
جہاں تک ڈرامہ کی بات ہے توانعقادکے اعتبارسے اس کی دوشکلیں ہیں:
۱- ڈرامہ کاانعقادصرف لڑکوںیاصرف لڑکیوں کے درمیان ہو۔
۲- ڈرامہ کاانعقاد لڑکوں اورلڑکیوں کے درمیان ہو۔
پھرمقصد کے اعتبارسے ہرایک دوشکلیں ہیں:
۱- اچھی فکرپہنچانے کے لئے ہو۔
۲- بری فکرپہنچانے کے لئے ہو۔
پہلی صورت میں درج ذیل شرطوں کے ساتھ گنجائش ہے:
۱- ڈرامہ میں انبیاء علیہم السلام، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، ملائکہ،شیاطین، کفار، حیوانات، فاجروفاسق شخص اورعورتوں کی نقالی نہ کی جائے۔
۲- اللہ، رسول، قرآنی آیات اورشعائرِدین کااستہزاء نہ ہو۔
۳- حرام چیز (جھوٹ، غیبت ، رقص وغیرہ)کی ملاوٹ نہ ہو۔
۴- عبادات کی تمثیل میں صحیح طریقہ کوچھوڑکرغلط طریقہ کواختیارنہ کیاجائے۔
۵- ائمۂ متبوعین اوربزرگانِ دین کی ایسی تمثیل نہ اختیارکی جائے، جس سے ان کی قدر وعظمت میں کمی آتی ہو ----- اسلام ویب کے ایک فتوی میں ہے:
’’اگرتمثیل وڈرامہ کامقصداچھااورصحیح فکرپہنچاناہوتواس میں کوئی حرج نہیں، اگرچہ کہ حقیقتاً خودایجادکردہ ہو’’(فتوی نمبر: ۴۵۵۲۳، fatwa.islamweb.net، نیز دیکھئے: www.islamqa.info)۔
دوسری صورت میں گنجائش نہیں؛ کیوں کہ قرآن مجید میں صاف طورسے ایسوں کاٹھکانہ جہنم بتایاگیاہے، ارشادہے:
إِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّونَ أَن تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃُ فِیْ الَّذِیْنَ آمَنُوا لَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ فِیْ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ۔(النور:۱۹)
بے شک جولوگ ایمان والوںکے درمیان برائی پھیلاناچاہتے ہیں، ان کے لئے دنیاوآخرت میں درد ناک عذاب ہے۔
جہاں تک انعقادکے اعتبارسے دوسری صورت کاتعلق ہے تواس کی دوشکلیں ہیں:
۱- ڈرامہ کاانعقادغیرمراہق ومراہقہ اورغیربالغ وبالغہ کے درمیان ہو۔
۲- ڈرامہ کاانعقادمراہق ومراہقہ یابالغ و بالغہ کے درمیان ہو۔
پہلی صورت میں مذکورہ بالاشرطوں کے ساتھ گنجائش ہے؛ ، جب کہ دوسری صورت میں اختلاط ودیگربرائیوں کی وجہ سے گنجائش نہیں، ہذاماعندی، واللہ أعلم بالصواب!
ایک تبصرہ شائع کریں