شرعی احکام اوراس کی اصولی تقسیم

شرعی احکام اوراس کی اصولی تقسیم

شرعی احکام اوراس کی اصولی تقسیم

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

’’حکم‘‘مصدرہے حَکَمَ یَحْکُمُ کا، جس کے معنی’’فیصلہ کرنے، سمجھنے اورجاننے‘‘کے آتے ہیں۔اِس کی جمع ’’أحکام‘‘ آتی ہے۔(لسان العرب:۲۷۰/۲، مادۃ:حکم،مختار الصحاح، فصل الحاء، باب المیم،، ص:۴۷۰)

اصطلاح میں اصولیین کے نزدیک حکم’’ اللہ تعالیٰ کے اُس خطاب کوکہتے ہیں، جواختیار،اقتضاءیاوضع کےساتھ مکلفین کےافعال سے متعلق ہو‘‘(ارشاد الفحول:71/1،التقریر والتحبیر:۱؍۲۱۶، تلخیص الأصول للزاھدی، الفصل الثالث: الحکم الشرعی،ص:۲۱، المأمول من لباب الأصول، باب الحکم الشرعی،ص:۳

’’خطاب‘‘اُس کلام کوکہتے ہیں، جس میں متکلم کاروئے سخن کلام کو سمجھانےکے لئے اپنے روبروکی طرف ہوتاہے۔جیسے:أَقِيمُوا الصَّلَاةَ (الأنعام:۷۲) ’’نمازقائم کرو‘‘۔ اِس میں اللہ تعالیٰ کاروئےسخن اپنے بندوں کی طرف ہےاوریہ سمجھانے کےلئےہےکہ تم پرنمازکی اقامت ضروری ہے۔

’’اختیار‘‘کہہ کریہ بتانا مقصودہے کہ یہ خطاب کبھی لازمی نہیں ہوتا؛ بل کہ مخاطَب پر اُس کاکرنااورنہ کرنا برابر ہوتا ہے، جیسے اللہ تعالیٰ نےاحرام سے باہر آنےوالے کوحکم دیا:وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوا(المائدۃ:۲)’’جب تم حلال ہوجاؤ توشکار کرو‘‘،یہاں اِصْطَادُوامیں خطاب لازمی نہیں؛ چنانچہ امام طبرانیؒ حضرت مجاہدؒ کاقول نقل کرتے ہیں:

’’جب حلال ہوجائےتو اگر شکار کرنا چاہےتوشکارکرے اور اگر شکار کرنانہ چاہے توشکارنہ کرے‘‘(تفسیر طبری برتفسیر سورۂ مائدہ، آیت نمبر:۲، حدیث نمبر:۱۰۹۸۶)۔

اِسی اختیارکودوسرے الفاظ میں’’مباح‘‘ بھی کہاجاتاہے۔

’’اقتضاء‘‘کے معنی ’طلب‘اور’تقاضہ‘کے آتے ہیں۔یہ تقاضہ کبھی توکسی کام کےکرنےکا ہوتاہے اورکبھی کسی کام کے چھوڑنےکا، پھر کام کرنے کے تقاضہ میں کبھی جزم ہوتا ہے اورکبھی عدمِ جزم۔ اگرجزم کے ساتھ تقاضہ ہوتویہ واجب کہلاتا ہےاورعدمِ جزم کے ساتھ ہوتوندب۔ اِسی طرح کام چھوڑنےکےتقاضہ میں بھی کبھی جزم ہوتاہے اورکبھی عدمِ جزم۔ جزم کی صورت میں حرام کہلاتاہے اورعدمِ جزم کی صورت میں مکروہ۔’اقتضاء‘کی قیدکامقصدمکلف کے اُن افعال سے احترازہے، جن میں خطاب اقتضاءکے طریق پرنہیں ہے، جیسے اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ (الصّٰفّٰت:۹۶)

اوراللہ نے بنایاتم کواورجوتم بناتے ہو‘‘۔

اوراِس آیت کے اندرخطاب توبندوں سےہے؛ لیکن اِس میں کسی چیزکاتقاضہ نہیں ہے؛ بل کہ اِس میں خبردی جارہی ہے۔

’’وضع‘‘سےاللہ تعالیٰ کاوہ خطاب مرادہے، جس میں سبب، شرط، مانع، رخصت وعزیمت اورصحت وبطلان کی صراحت ہو(اِس کی تفصیل حکم کی قسم میں آئےگی۔ انشاء اللہ)۔(أصول الفقہ الاسلامی لوہبۃ الزحیلی:۱؍۳۹۔۴۰، الاٍحکام فی أصول الأحکام للآمدی،فی حقیقۃ الحکم الشرعی وأقسامہ:۱/ ۱۳۵۔۱۳۷)

احکام شرعیہ کی قسمیں

احکام شرعیہ کی دوقسمیں ہیں:

۱۔اعتقادی:

اس سے مراد وہ احکام ہیں، جن میں اللہ تعالیٰ وحدانیت، رسولوں کی رسالت، ان پرنازل ہونے والی کتابوں، آخرت کے دن، قضاوقدر،قبراورحشرونشر سے متعلق بحث کی گئی ہو۔

۲۔ فروعی:

فروعی حکم ’’اللہ تعالیٰ کے اُس خطاب کوکہتے ہیں، جو اختیار،اقتضاءیاوضع کےساتھ مکلفین کےافعال سے متعلق ہو‘‘۔

اِس کی دوقسمیں ہیں:

(الف)تکلیفی۔ (ب)وضعی۔

(الف)تکلیفی:

وہ حکم ہے، جس میں کسی کام کے کرنے یاکسی کام سے رکنے کامطالبہ حتمی یا اختیای طور پر کیاگیا ہو‘‘(أصول الفقہ لأبی زہرہ، ص:۲، علم أصول الفقہ، ص:۱۰۱) بالفاظ دیگر شارع کے اُس خطاب کوکہتے ہیں، جس کےاندر واجب (فرض)، حرام، مباح، مکروہ اورمندوب ہونے کی صراحت ہو۔

یعنی اُس میں یہ وضاحت ہوکہ فلاں کام واجب ہے،لہٰذااُس کاکرنامکلف پرضروری ہے، یاوہ حرام ہے، اُس سے مکلف کا بچنالازم ہے، نہ بچنے کی صورت میں سزادی جائے گی۔یاپھراُس کام کاکرنا جائز، مکروہ یامندوب ہے۔ مکروہ کانہ کرنابہترہے؛ کیوں کہ وہ شارع کی نگاہ میں ناپسندیدہ ہے۔ جائز کام کوکرنے میں کوئی حرج نہیں اورمندوب کوبجالاناشارع کی نگاہ محبوب ہے۔

حکم تکلیفی کی قسمیں

حکم ِ تکلیفی کی پانچ قسمیں ہیں:

۱۔واجب ۲۔مندوب ۳۔مباح ۴۔ مکروہ

۵۔ حرام

واجب

وَجَبَ یَجِبُ کا اسم فاعل ہے، جس کےلغوی معنی ’’لازم اورثابت ہونے‘‘کے آتے ہیں(تاج العروس،مادۃ:وجب:۴؍۳۳۳، لسان العرب، مادۃ: وجب:۵۳؍۴۷۶۶

اصولیین کی اصطلاح میں ’واجب‘ ’’اللہ تعالیٰ کے اُس حکم کوکہتے ہیں، جس میں مکلف سے حتمی اور لازمی طورپرکسی کام کے کرنے کامطالبہ ہو‘‘(معالم أصول الفقہ عندأھل السنۃ والجماعۃ،ص:۲۹۶)۔

مندوب

نَدَبَ یَنْدُبُ کا اسم مفعول ہے، جو’الیٰ‘ صلہ کے ساتھ ’’بلانے اوراُبھارنے‘‘ کےمعنی میں آتاہے۔(تاج العروس،مادۃ: ندب:۴؍۲۵۳، الاحکام للآمدی:163/1، المصباح المنیرللفیومی، کتاب النون:۲؍۱۲۴)

ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ ’رجل ٌندبٌ‘سے مشتق ہے، جس کے معنی ’خفیف‘ (ہلکے پھلکے) کے آتے ہیں۔ فقہاء چوں کہ فرض کے علاوہ کو’مندوب‘ کہتے ہیں، جوفرض کے مقابلہ میں خفیف الحال ہوتاہے، اِس مناسبت سے یہ ’رجلٌ ندبٌ‘ سے مشتق ہوا(مقاییس اللغۃ لأبی الحسین محمدبن فارس، مادۃ: ندب، تحقیق: عبدالسلام محمدہارون: ۵؍۴۱۳۱)۔

اصطلاح میں’مندوب‘ ’’اُس حکم کوکہتے ہیں، جس میں شارع نے مکلف سے کسی کام کامطالبہ غیرلازمی طورپرکیاہو‘‘(علم اصول الفقہ للخلاف،ص:۱۱۱، أصول الفقہ للخضری بک،ص:۵۴

مُباح

یہ اَبَاحَ یُبِیْحُ کااسم ِ مفعول ہے، جس کے معنی ’’ظاہر کرنے، حلال کرنے اورچھوڑ دینے‘‘کے آتے ہیں۔اوراباح الرجل مالہ اُس شخص کے لئے کہاجاتاہے، جس نے اپنامال لینے یانہ لینے کی اجازت دے رکھی ہو(المعجم الوسیط،ص:۷۵، المصباح المنیر، الباء مع الواؤ:۱؍۳۵

اصطلاح میں’مُباح‘’’اللہ تعالیٰ کے اُس خطاب کوکہتے ہیں، جس کےکرنے اورنہ کرنےکایکساں طور پر اختیار دیا گیا ہو‘‘(التقریر والتحبیر لابن امیرالحاج:۲؍۱۹۲)

مکروہ

یہ کَرِہَ یَکْرَہُ کا اسم فاعل ہے، اس کا مصدرکَُرْھاً(کاف کے پیش اورزبر کے ساتھ) آتاہے، اِس کے معنی ’’مشقت، نفرت، ناپسندیدگی اورعدمِ رضامندی‘‘کے آتے ہیں(المصباح المنیر، باب الکاف مع الراء:۲؍۹۱،الصحاح فی اللغۃ،مادۃ:کرہ،:۶؍۲۲۴۶، المغرب، باب الکاف مع الراء المھملۃ:۲؍۲۱۷

اصطلاح میں مکروہ’’شارع کے اُس خطاب کو کہتے ہیں، جس میں مکلف سےکسی کام کے ترک کامطالبہ غیرلازمی طورپرہو‘‘۔(علم اصول الفقہ للخلاف، ص:۱۱۴،معالم أصول الفقہ،ص:۲۹۶)

احناف کے نزدیک حکم تکلیفی کی قسمیں

احناف کے نزدیک حکم تکلیفی کی سات قسمیں ہیں:

۱۔فرض ۲۔واجب ۳۔مندوب ۴۔حرام

۵۔مکروہ تحریمی ۶۔مکروہ تنزیہی ۷۔مباح

فرض

فرض ایسے حکم کوکہتے ہیں، جوشارع نے مکلف پر ایسی قطعی دلیل سے لازم کیاہو، جس میں کسی قسم کا کوئی شبہ نہ ہو، جیسے نماز میں قرآن پڑھنا کہ یہ آیت فاقرأوا ماتیسر من القرآن سے ثابت ہے۔

واجب

واجب ایسے حکم کوکہتے ہیں، جوشارع نے مکلف پرایسی ظنی دلیل کے ذریعہ سے لازم کیاہو، جس میں شبہ ہو، جیسے: نماز میں سورۂ فاتحہ کاپڑھنا کہ یہ’’لا صلاۃ لمن لم یقرأ بفاتحۃ الکتاب‘‘خبرآحاد سے ثابت ہے؛ اس لئے یہ دلیل ظنی ہے۔

مکروہ تحریمی

ایسے حکم کوکہتے ہیں، جس میں شارع نے مکلف سے دلیل ظنی کے ذریعہ سے کسی کام سے رکنے کامطالبہ حتمی طورپر مطالبہ کیاہو، جیسے بیع پربیع کرنا کہ آپ ﷺ کے قول ’’لایبیع الرجل علی بیع أخیہ‘‘سے ثابت ہے، جوخبر آحاد ہونے کی وجہ سے دلیل ظنی ہے۔

مکروہ تنزیہی

ایسے حکم کوکہتے ہیں، جس میں شارع نے مکلف سے کسی کام سے رکنے کامطالبہ غیرحتمی طورپر کیاہو، جیسے: چیرپھاڑ کرنے والے پرندے کے جھوٹے سے وضو کرنا۔

حرام

ایسے حکم کوکہتے ہیں کہ جس میں شارع نے مکلف سے دلیل قطعی کے ذریعہ کسی فعل سے رکنے کامطالبہ حتمی طورپر کیاہو، جیسے زناسے سے رکنے کامطالبہ آیت ’’لاتقربوا الزنا‘‘ سے ثابت ہے۔

باقی مباح اورمندوب کی تعریف وہی ہے، جوپیچھے گزرچکی(أصول الفقہ للبردیسی، ص:۵۷ ومابعدہا)۔

(ب)وضعی:

شارع کے اُس خطاب کوکہتے ہیں، جس میں حکم کے ثبوت کوکسی دوسری چیزپرمعلق کردیاگیاہو(المأمول من لباب الأصول أبوحسام الدين الطرفاوي، ص:۳،التوضیح لمتن التنقیح: ۱/25)، جیسے قرآن مجیدمیں ہے:وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا (المائدۃ:۳۸) یہاں پرہاتھ کاٹنے کی سزاکوچوری پرمعلق کیاگیاہے۔

حکم وضعی کی قسمیں

اِس کی پانچ قسمیں ہیں:

۱۔سبب ۲۔شرط ۳۔مانع ۴۔رخصت وعزیمت

۵۔ صحیح وباطل

سبب

’سبب ‘کے لغوی معنی ’رسی‘کے آتے ہیں، اِس کی جمع’ اسباب‘ آتی ہے۔قرآن مجیدمیں ہے:فَلْيَمْدُدْ بِسَبَبٍ إِلَى السَّمَاءِ(الحج: ۱۵)’’توآسمان کی طرف ایک رسی سے کھینچ لے‘‘۔

علامہ زبیدی اورعلامہ شوکانی نےیہاں’ سبب‘ کی تفسیر ’حبل‘ سے کی ہے۔(تاج العروس،مادۃ:سأب:۱/۵۷۰،نیز دیکھئے: فتح القدیر:۵/۱۰۱) پھرہراُس چیزکواستعارتاًسبب کہا جانے لگا، جو کسی چیز تک پہنچنے کا ذریعہ بنے(النہایۃ فی غریب الأثر، باب السین مع الباء:۲ /۸۳۰، التعریفات للجرجانی:۱/۳۷، معجم لغۃ الفقہاء:)اللہ تعالیٰ کاارشادہے:وَتَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْأَسْبَابُ (البقرۃ: ۱۶۶) ’’اور ان کے تمام باہمی رشتے کٹ کررہ جائیں گے‘‘۔

اصطلاحی معنی

اصطلاح میں سبب ایسی چیزکوکہتے ہیں، جس کےوجود کی وجہ سے حکم ثابت ہواروعدم موجودگی میں حکم ثابت نہ ہو، مثلا:میراث کے حقدارہونے کے لئے نسب، ولاء یا پھر زوجیت میں سے کوئی سبب پایاجاناچاہئے، نہ پائے جانے کی صورت میں میراث کا حقدارنہیں ہوسکتا،اسی طرح زوالِ شمس ظہرکی نماز کے لئے سبب ہے؛ چنانچہ اگرزوال نہیں ہواہے توظہرکی نماز واجب نہیں۔وهو ما يلزم من وجود الوجود ويلزم من عدمه العدم،(المأمول من لباب الأصول أبوحسام الدين الطرفاوي، ص:۴)

شرط

شرط (رپرجزم کےساتھ)کے لغوی معنی’علامت‘کے آتے ہیں، اس کی جمع شروط اورشرائط آتی ہے، اسی علامت کے معنی میں لفظ ِشرط(رپرزبرکے ساتھ)بھی آتی ہے، جس کی جمع اشراط آتی ہے(المصباح المنیر:۱؍۱۵۳، الصحاح فی اللغۃ:۱ ؍۳۵۲، مادہ: شرط)

اصطلاح میں شرط’’ ایسے کلمہ کوکہاجاتاہے، جس پرحقیقتاً کسی چیز کاوجود معلق ہو‘‘(اصول السرخسی:۲؍۳۰۳، ارشاد الفحول:۱؍۷۶)، جیسے:طہارت کہ یہ نماز کے وجودکے لئے شرط ہے، اس کے بغیرنماز کاوجودہی نہیں۔ یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہئے کہ شرط مشروط کی حقیقت سے باہر کی چیز ہوتی ہے، اس کی عدم موجودگی میں مشروط کابھی وجود نہیں ہوتا؛ البتہ اس کی موجودگی میں مشروط کاوجود ضروری نہیں، جیسے وقوع طلاق کے لئے زوجیت کاپایاجانا شرط ہے، اگرعورت ومرد کے درمیان زوجیت نہ ہو توطلاق کاوجود ہی نہیں ہوسکتا؛ لیکن زوجیت کے وجود سے یہ لازم نہیں ہوتا کہ ہرحال میں طلاق کابھی وجود ہوجائے۔

مانع

یہ منع یمنع کااسمِ فاعل ہے، جس کے لغوی معنی ’’روکنے والے‘‘ یعنی’’آڑ‘‘کے آتے ہیں، اس کی جمع موانع اورمنعۃ آتی ہے(المعجم الوجیز،ص:۵۹۲)۔

اصطلاح میں مانع’’اس چیزکوکہتے ہیں، جوسبب کے پائے جانے کے باوجود حکم کوثابت ہونے سے روک دے‘‘۔(معجم لغۃ الفقہاء: ۱؍۳۹۷)، جیسے:مورث کو قتل کرنا وراثت کوروکنے والاہے، اگرچہ کہ وراثت کا سبب ’قرابت‘ پایاجارہاہے، یعنی اگربیٹے نے اپنے باپ کوقتل کردیاتوقاتل بیٹے کوباپ کی میراث نہیں ملے گی، باوجودیہ کہ وراثت کاسبب موجودہے۔

رخصت وعزیمت

’عزیمت‘ کے معنی ’’پختہ ارادہ‘‘کے ہیں، اس کی جمع ’عزائم‘ آتی ہے(المصباح المنیر:۲؍۲۸)، قرآن مجید ہے:وَلَقَدْ عَهِدْنَا إِلَى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْمًا (طہ:۱۱۵)’’اورہم نے اس سے پہلے آدم کو ایک بات کی تاکید کی تھی، پھران سے بھول ہوگئی اورہم نے ان میں عزم نہیں پایا(یعنی اس غلطی میں عزم کودخل نہیں تھا)‘‘۔

اصطلاح میں عزیمت’’ایسے ثابت شدہ حکم کوکہتے ہیں، جوشرعی دلیل کے بالکل موافق ہو‘‘، جیسے: پنج وقتہ نمازیں۔(کشف الأسرار، باب العزیمۃ والرخصۃ:۲؍۲۹۸)

رخصت کے لغوی معنی’’نرمی وآسانی‘‘ کے ہیں، اس کی جمع رخص آتی ہے(المعجم الوسیط،ص:۳۶۶،المصباح المنیر: ۱؍۱۱)۔

اصطلاح میں رخصت ’’مکلف کے کسی عذر کی وجہ سے عزیمت والے معاملہ میں نرمی پیداکرنے کوکہتے ہیں‘‘(کشف الأسرار، باب العزیمۃ والرخصۃ:۲؍۲۹۸)، جیسے: مردارکھاناحرام ہے؛ لیکن اس شخص کے لئے درست ہے، جواضطرارکی حالت میں ہو۔

احناف کے نزدیک رخصت کی قسمیں

احناف کے یہاں رخصت کی دوقسمیں ہیں:

۱۔حقیقی رخصت ۲۔مجازی رخصت

حقیقی رخصت

اس کی دو صورتیں ہیں:

۱۔حرمت اورحکم کی بقا کے ساتھ رخصت، اسے کامل رخصت کہاجاتاہے، جیسے: کسی کو زبان سے کفریہ کلمہ اداکرنے پرمجبورکیاجائے تواس کے لئے ایسا کرنے کی اجازت ہے؛ البتہ کلمۂ کفر کی حرمت اب بھی باقی ہے۔

۲۔حکم کوواجب کرنے والے سببِ متأخر کی بقا کے ساتھ رخصت، جیسے: مسافر کے لئے روزہ نہ رکھنے کی اجازت۔

مجازی رخصت

اس کی بھی دوصورتیں ہیں:

۱۔امت محمدیہ سے اٹھائے جانے والے سابقہ امتوں کے احکام، جسے قرآن نے ’’اصر‘‘ اور’’اغَال‘‘ سے تعبیر کیاہے، یہ حقیقت کے اعتبارسے ساقط ہوچکے ہیں؛ لیکن مجازاً انھیں بھی رخصت کہاجاتاہے۔

۲۔بعض وہ امور، جن کی اجازت امت محمدیہ کو عقلی اعتبار سے درست نہ ہونا چاہئے؛ لیکن آسانی کے پیش نظرامت محمدیہ کورخصت دی گئی ہے، نیز وہ امور، جن کی اجازت اضطرار کی حالت میں دی گئی ہے، جیسے: مردار کھانے کی اجازت،حقیقت کے اعتبارسے ان دونوں صورتوں میں رخصت نہیں؛ بل کہ سقوط ہے(اصول البزدوی،ص:۱۳۹)

صحت وبطلان(درست ونادرست)

’صحت‘ کے لغوی معنی ’’تمام عیوب سے پاک اوربیماری کے ختم ہونے‘‘کےہیں۔(تھذیب اللغۃ، مادۃ: صح:۱؍ ۴۲۶، مختارالصحاح، باب الحاء، فصل الصاد،ص:۸۴)

اصطلاح میں’صحت‘احکام شرعیہ پرطاری ہونے والی ایسی صفت کوکہتے ہیں، جس کی موجودگی میں مکلف کے کسی فعل کوشریعت کے موافق قراردیاجاسکے۔

’بطلان‘ کے لغوی معنی ’’نقصان وضیاع‘‘ اور’’حکم کے ساقط ہونے‘‘کے ہیں۔

’بطلان‘ کی اصطلاحی تعریف عبادت ومعاملات کے اعتبارسے مختلف ہے؛ چنانچہ عبادت میں بطلان کامطلب ’’عبادت کا غیرمعتبرہونا‘‘ہے؛ گویاکہ عبادت کا وجودہی نہیں ہوا، جیسے:کسی نے بغیروضوکے نماز ادا کی، توباوجود نمازکے افعال صادرہونے کے شریعت کی نگاہ میں وہ نامعتبر ہےاوربغیروضوکے اداکی ہوئی نمازکودوبارہ اداکرنا ضروری ہے۔

معاملات میں’بطلان‘سے مرادائمۂ ثلاثہ کے نزدیک یہ ہے کہ ’’معاملہ اصل، یاوصف، یادونوں کے اعتبارسے غیرمشروع ہو‘‘۔

جب کہ احناف کے نزدیک ’بطلان‘ سے مرادیہ ہے کہ ’’معاملہ نہ تواصل کے اعتبارسے مشروع ہواور ناہی وصف کے اعتبارسے‘‘، جیسے: مردارکی بیع کہ یہ سرے سے مال ہی نہیں ہےاورجوچیزمال ہی نہ ہو، اس کی بیع کیسے درست ہوسکتی ہے؟(کشف الأسرار:۱؍۲۵۸،منہاج الوصول آلی علم الأصول،ص:۲۰، علم أصول الفقہ،ص:۱۲۸)


1 تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی