مال کا تصوراورقرآنی اصلاحات

مال کا تصوراورقرآنی اصلاحات

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی

قرآن مجیداللہ تبارک وتعالیٰ کی آخری اورقیامِ قیامت تک رہنے والی کتاب ہے؛ چنانچہ اس کے اندرانسانوں کے لئے ہرہرشعبے کے تعلق سے رہنمایاں اورارشادات موجوہیں، کوئی شعبہ ایسانہیں ہے، جس کے سلسلہ میں(خواہ تفصیلی یا اجمالی)رہنمائی نہ ہو، مال کے بارے میں بھی اس کے اندررہنمائی کی گئی ہے، ان کوجاننے سے پہلے خود مال کی مرادہمیں جانناچاہئے ۔

مال کاتعارف

مال کی تعریف یوں کی گئی ہے:

’’مال ہراس شئی کوکہتے ہیں، جس کے آپ، یافردواحد یاجماعت مالک ہو، خواہ اس کاتعلق عام سامان سے ہو، یاتجارتی سامان سے، یازمین جائیدادسے ہو، یاپھرنقودو حیوان سے‘‘(معجم المصطلحات والألفاظ الفقہیۃ لمحمودعبدالرحمن عبدالمنعم،ص: ۱۹۴)۔

اسی طرح ’’بحرالدرر‘‘کے حوالہ سے علامہ محمدعلی تھانویؒ نے بھی لکھاہے:

’’مال وہ ہے، جس کی طرف طبیعت مائل ہو، خواہ وہ اشیائے منقولہ میں سے ہویاغیرمنقولہ میں سے‘‘(کشاف اصطلحات الفنون: ۲؍۱۴۲۲)۔

معلوم ہواکہ مال ملکیت کی تمام چیزوں کوکہاجاتاہے، خواہ اس کاتعلق سامان سے ہو، یازمین جائیدادسے، یاروپے پیسے سے ، یاپھرحیوان سے۔

مال کی اہمیت

انسانی زندگی میں مال کوبڑی اہمیت حاصل ہے، اوریہ اہمیت صرف اِس دورکی نہیں؛ بل کہ اس سے پہلے کے ادوارمیں بھی رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ تقریباًتمام انبیاء کرام علیہم السلام نے اپنی قوموں کودعوت دیتے وقت یہ بات کہی کہ:’’میں تم سے اس دعوت کے بدلہ میں مال اوراجرت کامطالبہ نہیں کرتا ہوں‘‘، انبیاء کرام علیہم السلام کے اس جملہ سے اشارہ اس بات کی طرف بھی ہوتاہے کہ ان کی قوموں کے نزدیک مال کی اہمیت ضرورتھی۔

سورۂ کہف میں انگورکے باغ والے دوآدمیوں کاقصہ نقل کیاگیاہے، ان کے درمیان فخرکی بات مال کی زیادتی ہی کوذکرکیاگیاہے:فَقَالَ لِصَاحِبِهِ وَهُوَ يُحَاوِرُهُ أَنَا أَكْثَرُ مِنْكَ مَالًا وَأَعَزُّ نَفَرًا(الکہف:۳۴)، قارون کومال کی کثرت ہی سلسلہ میں یادکیاجاتاہے، اسے اس کثرت کے ساتھ دولت دی گئی تھی کہ دوسرے لوگ رشک کیاکرتے تھے اورکہاکرتے تھے:يَالَيْتَ لَنَا مِثْلَ مَا أُوتِيَ قَارُونُ إِنَّهُ لَذُو حَظٍّ عَظِيمٍ(القصص:۷۹)، جب موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کے حق میں بددعاکی تواسی کاحوالہ دیتے ہوئے بددعاکی:رَبَّنَا إِنَّكَ آتَيْتَ فِرْعَوْنَ وَمَلَأَهُ زِينَةً وَأَمْوَالًا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا رَبَّنَا لِيُضِلُّوا عَنْ سَبِيلِكَ رَبَّنَا اطْمِسْ عَلَى أَمْوَالِهِمْ وَاشْدُدْ عَلَى قُلُوبِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوا حَتَّى يَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِيمَ(یونس:۸۸)، ہرقوم کے مترفین(مالدار لوگ) نے انبیاء کرام علیہم السلام کی دعوت کاجواب کچھ اس انداز میں دیا:نَحْنُ أَكْثَرُ أَمْوَالًا وَأَوْلَادًا وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِينَ(سبأ:۳۵)خوددورنبوت میں ولیدبن مغیرہ کواسی مال کی کثرت کوجتلایاگیاہے، کہاگیا: وَجَعَلْتُ لَهُ مَالًا مَمْدُودًا(المدثر:۱۲)، یہ اوراس قسم کی دوسری مثالیں اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ فی نفسہ مال کی اہمیت رہی ہے۔

مال کے بارے میں اسلام کانظریہ

اسلام نے مطلقاًمال کوناپسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھاہے؛ بل کہ اسے احترام کی نظرسے دیکھاہے؛ چنانچہ بڑی خو ب صورت تعبیراستعمال کرتے ہوئے ارشادفریاگیاہے: فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ(الجمعۃ:۱۰)، دوسری جگہ ارشادہے:وَآخَرُونَ يَضْرِبُونَ فِي الْأَرْضِ يَبْتَغُونَ مِنْ فَضْلِ اللَّهِ(المزمل:۲۰)، اسی طرح ایک جگہ ’’خیر‘‘کالفظ اس کے لئے استعمال کیاگیاہے، ارشادہے:وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ (العادیات:۸)،مذکورہ جگہوں پرمال کمانے اورمعاش طلب کرنے کو’’فضل‘‘ کے لفظ سے تعبیرکیاہے، جبکہ ایک جگہ ’’خیر‘‘کہاگیاہے، جواس کے محترم ہونے کی دلیل ہے؛ البتہ مال کے سلسلہ میں انسانی سوچ کے اندرجوبرائیاں درآئی ہیں، اسلام نے اس کی اصلاح کی ہے۔

مال کے بارے میں انسانی تصور

عمومی طورپرمال کے سلسلہ میں انسانی تصوریہ ہے کہ جس طرح چاہے اسے حاصل کرے اور جس طرح چاہے، جہاں چاہے، جیسے چاہے اورجتناچاہے، صرف کرے، قرآن نے مال کے سلسلہ میں انسان کے اسی تصورکی اصلاح کی ہے، آیئے ان اصلاحات کوجانتے چلیں:

مال کی ملکیت کے سلسلہ میں قرآنی اصلاحات

انسان جوبھی مال کماتاہے، خواہ اس کے لئے جتنی بھی جاںفشانی کرے، اپنی جان جوکھم میں ڈالے؛ لیکن وہ اس معنی میں ملکیت ِتامہ نہیں رکھتاکہ جس طرح چاہے، جہاں چاہے، جیسے چاہے اورجتناچاہے، صرف کرسکتاہے، یہی وجہ ہے کہ انسان کے اس تصورختم کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے دوپہلوؤں سے احکام دئے ہیں، ایک ایجابی، دوسرے سلبی، ایجابی پہلوسے درج ذیل احکام دئے ہیں:

۱- زکوٰۃ: صاحب نصاب پرپورے مال سے ڈھائی فیصدزکوٰۃ نکالنے کاحکم لازمی طورپردیاگیاہے، جس کے مقاصدمیں سے ایک یہ بھی ہے کہ صاحب نصاب بندہ بادل نخواستہ بھی اداکرے؛ تاکہ اسے یہ احساس ہوکہ وہ اپنے کمائے ہوئے اس مال کامختارکل نہیں ہے۔

۲- صدقہ:اس حکم کے اندریہ بات مخفی ہے کہ اس مال میں محتاجوں کابھی حق ہے؛ البتہ یہ حکم غیرلازمی طورپردیاگیاہے؛ تاکہ بندہ کی آزمائش بھی ہوسکے۔

۳- امداد:مال کے سلسلہ میں مختارکل کے تصورکوختم کرنے کے لئے امدادوتعاون کاحکم دیاگیاہے، جس کی کئی شکلیں بتلائی گئی ہیں:

(الف) قرض :یہ امدادکی ایک ایسی شکل ہے، جس میں وسعت پیداہوجانے کے بعدمال ومتاع کی واپسی ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ کاارشادہے: يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى فَاكْتُبُوهُ (البقرۃ:۲۸۲)، اورمہلت کے سلسلہ میں فرمایاگیا: وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ (البقرۃ: ۲۸۰)۔

(ب) مانگنے والوں کودینا:امدادکی یہ شکل ایسی ہے، جس میں مال ومتاع کی واپسی نہیں ہوتی؛ لیکن امدادکی اس شکل کوقرآن نے مالکانہ انداز میں بیان کیاہے، ارشادہے:وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ(الذاریات:۱۹)، ایک دوسری جگہ فرمایاگیاہے:وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَعْلُومٌ  لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ (المعارج:۲۵۔۲۴)

(ج) اللہ کے راستے میں خرچ کرنا:امدادکی یہ شکل بھی کثرت سے قرآن میں مذکورہے، ایک جگہ ارشادہے: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ(البقرۃ: ۱۹۵)۔

۴- میراث: اس حکم کااطلاق اگرچہ موت کے بعدہوتاہے؛ لیکن اس حکم کے ذریعہ پہلے سے ہی انسان کے ذہن میں یہ بات ڈال دی گئی کہ صرف تم ہی اس مال کے مالک نہیں ہو؛ بل کہ تمہاری آل واولادکابھی اس مال میں حق ہے۔

اس سلسلہ میں سلبی پہلومندرجہ ذیل ہیں:

۱- فضول خرچی اوراسراف سے ممانعت:مال کے سلسلہ میں ملکیت ِتامہ کے انسانی تصورکوختم کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیاکہ اپنے کمائے ہوئے مال میں فضول خرچی نہیں کرسکتے، اللہ تعالیٰ کاارشادہے: وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ(الأعراف: ۳۱)،دوسری جگہ ارشادہے: وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ(الأنعام: ۱۴۱)

۲- بخل سے ممانعت: انسانوں میں سے بعضوں کاتصورمال کے سلسلہ میں یہ ہوتاہے کہ وہ اس پرکنڈلی مارکربیٹھے رہتے ہیں؛ حتیٰ کہ ضرورت کے موقع پربھی خرچ نہیں کرتے، اس بخیلی سے قرآن نے روکاہے،اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:وَأَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنَى وَكَذَّبَ بِالْحُسْنَى فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَى(اللیل:۸۔۱۰)، دوسری جگہ فرمایاگیا: وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ(الحشر:۹)

۳- احسان جتانے سے ممانعت: مال کے مالک ہونے کے احساس کے نتیجہ میں بسااوقات انسان احسان کرکے جتلانے کی بھی کوشش کرتاہے، اللہ تعالیٰ نے اس سے صرف ہلکے پھلکے انداز میں نہیں روکا؛ بل کہ اس عمل کی وجہ سے کسی اجروثواب کے مرتب نہ ہوکی بات فرمائی، ارشادہے: يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذَى (البقرۃ: ۲۶۴)

۴- اضاعت مال کی ممانعت: مال کی بابت ملکیت کے تصورکے نتیجہ میں انسان کبھی بلاوجہ اسے ضائع کرنے لگتاہے، اللہ تعالیٰ نے اس تصور ختم فرماتے ہوئے حکم دیاہے کہ : وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا  إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا (الاسراء:۲۶۔۲۷)

حصول ِمال کے بارے میں قرآنی اصلاحات

مال کے حصول کے سلسلہ میں بھی عمومی تصوریہی ہے کہ بس وہ آناچاہئے، چاہے جیسے بھی، جہاں سے بھی اورجس طریقے بھی ہو؛ لیکن قرآن نے اس تصورکوبھی بدلااورایجابی وسلبی ہردوپہلوسے اس کی اصلاح کی ہے؛ چنانچہ ایجابی پہلویہ ہیں:

۱- بیع کی اجازت:بیع (خریدوفرخت) مال کے حصول کاایک درست ذریعہ ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کی اجازت دی ہے، ارشادہے: وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا (البقرۃ:۲۷۵)

۲- قرض کی گنجائش:حصول مال کاایک دوسراذریعہ قرض بھی ہے، اس طریقہ پرانسان کاکام نکل جاتاہے، قرآن نے ان کی اجازت دی ہے۔

۳- ہبہ کی اجازت:ہبہ کے ذریعہ سے بھی مال ملتاہے، اس کی بھی قرآن نے اجازت دے رکھی ہے۔

۴- میراث کالزوم:مال آنے کاایک طریقہ میراث بھی ہے، قرآن نے اس کی پوری تفصیل بتلائی ہے۔

اس کے سلبی پہلودرج ذیل ہیں:

۱- سود سے ممانعت:بظاہربیع کی طرح سودکے ذریعہ بھی مالی اضافہ ہوتاہے، یہی بات مشرکین مکہ کہاکرتے تھے:إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا (البقرۃ:۲۷۵)؛ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس تصورکوسختی کے ساتھ ختم کرتے ہوئے بیع کودرست قراردیا، جب کہ سودکونادرست بتلایا، فرمایا: أَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا (البقرۃ:۲۷۵)، نیز اس کے بارے میں مزیدیہ بھی فرمایاکہ سودکھانے والے سے اللہ تعالیٰ کااعلان جنگ ہے: فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ(البقرۃ:۲۷۹)۔

۲- چوری سے ممانعت:مال کے حصول کاایک طریقہ چوری ہے، بظاہراس طریقہ میں محنت کم پڑتی ہے؛ لیکن اس طریقہ کونہ صرف یہ کہ نادرست قراردیاگیا ہے؛ بل کہ اس کے لئے سخت سزا بھی متعین کی گئی ہے:وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ(المائدۃ: ۳۸)

۳- رشوت سے ممانعت:بلاکسی محنت کے مال آنے کاایک طریقہ رشوت بھی ہے، جس میں ایک انسان دوسرے کی مجبوری کافائدہ اٹھانے کی کوشش کرتاہے، اللہ تعالیٰ نے اس طریقہ سے مال حاصل کرنے کوغلط قراردیاہے، ارشادہے: وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ(البقرۃ:۱۸۸)، اورزبان نبوت نے ایسے طریقے پرمال حاصل کرنے والے پرلعنت بھیجی ہے، فرمایا: لعن رسول اللہ ﷺ الراشی والمرتشی(سنن الترمذی، حدیث نمبر: ۱۳۳۷)

۴- لوٹ مارکی ممانعت:مال کی آمدکاایک ذریعہ لوٹ مارہے، یہ طریقہ بھی نادرست ہے، ایساکرنے والے کے لئے بھی قرآن نے سخت سزاکا اعلان کیاہے۔

۵- غصب کی ممانعت:مال آنے کاایک ذریعہ دوسرے کامال ہڑپ کرنابھی ہے، اس طریقہ کی بھی تردیدکی گئی ہے، فرماگیاہے: وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ(البقرۃ:۱۸۸)


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی