میاں بیوی کےحقوق ا ورذمہ داریاں (قسط نمبر: 8 آخری قسط)

میاں بیوی ---- حقوق ا ورذمہ داریاں

(قسط نمبر: 8 آخری قسط)

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی

۲- حق ِطلاق

    حق تادیب کی طرح حق طلاق بھی شوہرکاخاص حق ہے، اس حق کااستعمال اس وقت کیاجاتاہے، جب تادیب سے کام نہ چلے اور ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزارنادشوارہوجائے، ایسی صورت میں طلاق کے ذریعہ سے نکاح کے بندھن کوختم کرکے دونوں کے لئے ایک نئی زندگی شروع کرنے کی راہ ہموارکی جاتی ہے؛ لیکن چوں کہ شریعت کی نگاہ میں یہ ایک مبغوض اورناپسندیدہ چیزہے، جیساکہ اللہ کے رسولﷺکاارشادہے:

’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک مباح چیزوں میں سے ناپسندیدہ ترین چیزطلاق ہے‘‘(ابن ماجۃ، أبواب الطلاق، حدیث نمبر: ۲۰۱۸)۔

    اس لئے بہترتویہی ہے کہ یہ سوچ کراس سے بچاجائے کہ ہرانسان میں کچھ خرابیاں ہوتی ہیں تواس کے اندرکچھ اچھائیاں بھی ہوتی ہیں، صرف ایک چیز پرنظرکی جائے اوردوسری کی چیزکی طرف نگاہ اٹھاکربھی نہ دیکھاجائے، یہ عدل وانصاف کے تقاضہ کے خلاف بات ہے، تاہم یہ بات ضرور ذہن نشین رہنی چاہئے کہ طلاق کی اجازت کے بھی شریعت نے کچھ وجوہات ا و ر اسباب بیان کئے ہیں، جن کاجاننا موجودہ زمانہ میں اس لئے ضروری ہے کہ عمومی طورپر لاعلمی کے نتیجہ میں بات بے بات طلاق دے دی جاتی ہے، پھرندامت کے آنسوکے سواکچھ ہاتھ نہیں آتا۔

طلاق کے اسباب

    پھرطریقۂ طلاق سے بھی ناواقفیت ہونے کی بناپرلوگ تین سے کم پرراضی نہیں ہوتے؛ اس لئے ذیل میں اسباب ووجوہات کے ساتھ طریقۂ طلاق کوبھی بتلایاگیاہے؛ تاکہ جس طرح نکاح کاوجودشرعی طورپرہواہے، خاتمہ بھی شریعت کے مطابق ہو، لہٰذا آیئے سب سے پہلے اسباب کوجانتے چلیں۔

شریعت نے درج ذیل اسباب کی بناپرکسی عورت کوطلاق دینے کی گنجائش دی ہے:

۱- جب بیوی کے اندردینی بہتری کافقدان ہو،جیسے: نمازکاترک کرنااوربے پردگی وغیرہ، توایسی صورت میں طلاق دینامندوب ہے، علامہ ابن قدامہؒ لکھتے ہیں:

’’(طلاق کی) چوتھی قسم: مندوب ہے اوروہ اللہ تعالیٰ کے واجب حقوق میںعورت کی کوتاہی کے وقت طلاق دیناہے، جیسے: نمازوغیرہ، جب کہ اس کومجبورکرنا ممکن نہ ہو‘‘(المغنی، فصل: الطلاق خمسۃ أضرب: ۸؍۲۳۵

۲- جب بیوی کے اندراخلاقی خرابی پائی جائے، مثلاً: شوہرکے عدم موجودگی میں دوسرے مردسے تعلق قائم کرنا؛ کیوں کہ عورت پرضروری ہے کہ وہ اپنی عزت صرف اپنے شوہرکے حوالہ کرے، کسی اورکے سامنے ہرگزہرگزاپنی عزت نیلام نہ کرے، اللہ کے رسولﷺ نے عورت کے اس لازمی ذمہ داری کوبتلاتے ہوئے فرمایا:

’’تمہاراان(بیویوں)پرحق یہ ہے کہ وہ اپنے بستروں کوکسی ایسے شخص سے نہ رُندوائیں، جس کوتم ناپسند کرتے ہو‘‘(صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۱۲۱۸

    یعنی کسی اجنبی شخص(غیرمحرم) کوہرگزاپنے گھرآکراپنے بستروں پربیٹھنے کی اجازت نہ دیں، علامہ خطابیؒ فرماتے ہیں:

’’اس کے معنی یہ ہیں کہ مردوں میں سے کسی کوداخل ہونے کی اجازت نہ دیں کہ وہ ان کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرے‘‘(معالم السنن: ۲؍۲۰۰

    جب اجنبی(غیرمحرم) کے لئے گھرکے اندرلانے کی اجازت نہیں تواس کے پاس عزت نیلام کرنے کی اجازت کیسے ہوگی؟لہٰذا عورت پرفرض ہے کہ وہ اپنی عزت وعصمت کی حفاظت کرے کہ اب صرف تنہااس کی عزت نہیں رہی؛ بل کہ اس کے شوہرکی عزت بھی بن چکی ہے؛ حتی کہ اگروہ شوہرکی اجازت کے بغیرکسی غیرمحرم کوگھرکے اندرداخل ہونے کی اجازت دیدے تو شوہر کوشریعت کی طرف سے یہ حق حاصل ہے کہ اس کی تادیب کرے، اللہ کے رسول ا نے فرمایا:

’’اگروہ دوسروں کوگھرآنے کی اجازت دیں توانہیں چوٹ نہ پہنچانے والی مارمارو‘‘ (صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۱۲۱۸

    اوراگربیوی زناکاری میں مبتلاہوجائے توایسی صورت میں طلاق کی گنجائش توہے؛ لیکن پہلے افہام وتفہیم کرے،نہ ماننے کی صورت میں طلاق دیناواجب ہے، محمدبن اسماعیلؒ صنعانی لکھتے ہیں:

’’(زانی باندی کاحکم)بیوی میں جاری ہوگاکہ زناکی وجہ سے طلاق اورجدائے گی واجب نہیں ہے؛ بل کہ اگر زناکاتکرارپایاجائے توواجب ہے‘‘(سبل السلام، باب حدالزانی: ۴؍۸

علامہ ابن قدامہؒ لکھتے ہیں:

’’(طلاق کی تیسری قسم) مباح ہے، یہ عورت کی بداخلاقی، سوء عشرت اوراس سے مقصدکی حصول یابی کے بجائے نقصان اٹھانے کے وقت ہے‘‘(المغنی، فصل: الطلاق خمسۃ أضرب: ۸؍۲۳۵

۳- جب شوہرحقوقِ زوجیت کی ادائے گی سے عاجزہوجائے، حق زوجیت( یعنی بیوی سے تعلق قائم کرنا)بھی بیوی کاایک اہم دینی اورضروری حق ہے، جس کوپوراکرناآج کے زمانہ میں خوراک وپوشاک کے حق سے زیادہ ضروری ہے، حضور اکرمﷺکوبتلایاگیاکہ (حضرت) عبداللہ بن عمروبن العاص ؓ دن کوروزہ رکھتے ہیں اوررات کو قیام کرتے ہیں، اللہ کے رسولﷺنے ان سے اس بات کی تصدیق کی، پھرفرمایا:

’’ایسا مت کرو، روزہ بھی رکھو اورافطاربھی کرو، قیام بھی کرواورسوبھی جاؤ، کیوں کہ تمہارے جسم کاتم پرحق ہے، تمہاری آنکھ کاتم پرحق ہے اورتمہاری بیوی کاتم پرحق ہے‘‘(بخاری، باب لزوجک علیک حق، حدیث نمبر: ۵۱۹۹

    یہی وجہ ہے کہ فقہاء نے اسے بیوی کاایساحق تسلیم کیاہے، جس کے مطالبہ کاپورااستحقاق بیوی کوحاصل ہے، مشہورحنفی فقیہ عثمان بن علی زیلعیؒ لکھتے ہیں:

’’وطی(بیوی کے ساتھ تعلق قائم کرنا)بیوی کاحق ہے، لہٰذااسے شوہرسے مطالبہ کاپورااستحقاق ہے‘‘(تبیین الحقائق، بحث فی العزل:۶؍۲۱

    یہ حق کس قدراہمیت کی حامل ہے، اس کااندازہ آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ کی طرف سے مرتب کردہ قانونی کتاب’’مجموعۂ قوانین اسلامی‘‘کے قانونِ طلاق کے دفعہ (۷۳) سے لگاسکتے ہیں ، جس میںلکھاہے کہ:

’’ترکِ مجامعت اوربیوی کومعلقہ بناکررکھنا بھی تفریق کے اسباب میں سے ایک سبب ہے؛ کیوں کہ حقوق زوجیت کی ادائے گی واجب ہے، حقوقِ زوجیت ادانہ کرنااوربیوی کومعلقہ بناکر رکھنا ظلم ہے اوردفع ظلم قاضی کافرض ہے، نیز صورت مذکورہ میں عورت کامعصیت میں مبتلاہونا بھی ممکن ہے، قاضی کافرض ہے کہ ایسے امکانات کوبندکردے؛ اس لئے اگرعورت قاضی کے یہاں مذکورہ بالا شکایت کے ساتھ مرافعہ کرے توقاضی تحقیقِ حال کے بعدلازمی طورپررفع ظلم کرے گا اورمعصیت سے محفوظ رکھنے کے مواقع پیدا کرے گا‘‘(مجموعۂ قوانین اسلامی،ص:۱۹۲

۴- بیوی ناشزہ(نافرمان) ہوجائے توطلاق دینے کی گنجائش ہے؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ کے بعددنیامیں عورت کے لئے سب کچھ شوہرہے، اس کااندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ کے رسولﷺنے فرمایا:

’’اگرمیں کسی کوحکم دیتاکہ وہ کسی شخص کوسجدہ کرے توبیوی کوحکم دیتا کہ وہ اپنے شوہرکوسجدہ کرے‘‘(سنن الترمذی، باب ماجاء فی حق الزوج علی المرأۃ، حدیث نمبر:۱۱۵۹

    یعنی سجدہ تواللہ کے سواکسی اورکے لئے درست ہی نہیں، اگرایسی کوئی اجازت ہوتی توسب سے پہلے شوہرکویہ حق حاصل ہوتاکہ اسے سجدہ کیا جائے، اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ کے بعد شوہرکی بات ماننا اوراس کی اطاعت کرنابیوی پرضروری ہے، ملاعلی قاریؒ لکھتے ہیں:

’’اس میں انتہائی مبالغہ سے بتلایاگیاہے کہ بیوی کے لئے شوہر کے حق میں اطاعت ضروری ہے؛ کیوں کہ سجدہ اللہ کے علاوہ کسی کے لئے جائزنہیں‘‘(مرقاۃ المفاتیح، باب عشرۃ النساء ومالکل واحدۃ من الحقوق، الفصل الثانی: ۶؍۳۶۹

    اورجب بیوی شوہرکی اطاعت جائز امورمیں نہ کرے تویہ سوء اخلاق کے درجہ میں داخل ہوجاتاہے، جس کی وجہ سے طلاق دینے کی گنجائش ہے۔

۵- جب کسی شرعی بنیادپروالدین طلاق دینے کے لئے کہیں، توایسی صورت میںنہ صرف طلاق دینے کی گنجائش ہے؛ بل کہ واجب ہے؛چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کامشہورواقعہ ہے ، وہ فرماتے ہیں:

’’میرے نکاح میں ایک ایسی عورت تھی، جس سے میں محبت کرتا تھا، حضرت عمرؓ اسے ناپسندکرتے تھے، بس انھوں نے مجھ سے کہا: اسے طلاق دیدو، میں نے انکار کیا، تووہ آپﷺ کی خدمت میں حاضرہوئے اور قصہ گوش گزارکیا، آپﷺ نے فرمایا: اسے طلاق دیدو‘‘(ابوداود، باب فی برالوالدین، حدیث نمبر: ۵۱۴۰

    غالباً حضرت عمرؓ کی ناپسندیدگی کی وجہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی ’’محبت‘‘ تھی،چوں کہ ’’حب الشیٔ یعمی ویصم‘‘ ہوتاہے؛ اس لئے حضرت عمرؓ کواس بات سے یہ اندیشہ ہواہوگا کہ کہیں یہ محبت اللہ سے غافل کرنے کاذریعہ نہ بن جائے؛ اس لئے طلاق دینے کاحکم فرمایا اوراللہ کے رسول ﷺ نے بھی اس کودرست سمجھا؛ اس لئے انھوں نے بھی طلاق دینے کاہی حکم فرمایا، جواس بات کی دلیل ہے کہ اگرشرعی سبب کی وجہ سے والدین طلاق پراصرارکریں توان کایہ اصرار درست اوربیٹے کوان کی بات مانناضروری ہے۔

    البتہ بہتر بات یہ ہے کہ اس طرح کی حرکتوں پر پہلے تنبیہ کی جائے، اگرمان جاتی ہے توفبہا ونعمت، اوراگرنہیں مانتی ہے توطلاق کی بات کی جائے؛ چنانچہ حضر ت وافدؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ انھوں نے آں حضرتﷺ کے سامنے اپنی بیوی کاتذکرہ کیا اورکہا:

’’میری ایک بیوی ہے اوراس کی تکلیفوں کاذکرکیاتوآپﷺ نے فرمایا: اسے طلاق دیدے دو، میں نے کہا: وہ بچہ اورصحبت والی ہے، ارشاد فرمایا: اگراس کے اندرخیرپاکرنصیحت کرسکتے ہو تو کرو‘‘(المعجم الکبیرللطبرانی، حدیث نمبر: ۴۸۳

    دیکھئے! یہاں پراللہ کے رسول ﷺ نے مصائب کی وجہ سے طلاق دینے کاحکم فرمایا؛ لیکن جب صحبت اوربچہ کاحوالہ دیاگیاتونصیحت کرنے کی بات کی، جس معلوم ہوتا ہے کہ فہمائش بھی ہونی چاہئے۔

۶- جب بیوی کے اندرکوئی ایساعیب یاایسی بیماری پائی جائے، جس کی وجہ سے مقاصدنکاح کاتحقق نہ ہوسکے توایسی صورت میں بھی بیوی کوطلاق دینے کی گنجائش ہے، علامہ میدانیؒ لکھتے ہیں:

’’اگربیوی میں عیب ہوتواس کے شوہرکو(تفریق کا)خیارنہیں ہے کہ اس ایسی صورت میں اس کے حق کوباطل کرکے اس کونقصان پہنچاناہے اورشوہرکے ضررکو طلاق کے ذریعہ دورکرناممکن ہے‘‘(اللباب فی شرح الکتاب، کتاب النکاح: ۱؍۲۶۰

۷- جب دونوں کے مابین ایساشقاق پیداہوجائے، جس میں صلح کی گنجائش باقی نہ رہے توبیوی کوکالمعلقہ بناکررکھنادرست نہیں؛ بل کہ طلاق دے کرآزادکردینابہترہے، اللہ تعالیٰ کاارشادہے:

’’پھر رکھنا ہے تو بھلے طریقہ سے رکھ لو، یا چھوڑ دینا ہو تو نیکی اور احسان کے ساتھ رخصت کر دو‘‘(البقرۃ: ۲۲۹)۔

طلاق دینے کا طریقہ

    طلاق کے اسباب جان لینے کے بعدطریقۂ استعمال بھی جانناچاہئے؛ تاکہ افراط وتفریط کے شکارہونے سے بچاجاسکے،آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈنے حالیہ مجلس عاملہ کی میٹنگ کے بعدقرآن وحدیث اورفقہ اسلامی کوسامنے رکھتے ہوئے ایک’’ضوابط برائے طلاق‘‘ جاری کیاہے، ہمیں اس کی پابندی کرنی چاہئے، جس کی تفصیل حسب ِذیل ہے:

۱- اگرشوہروبیوی میں اختلاف پیداہوجائے توپہلے وہ خودآپسی طورپران اختلافات کوختم کرنے کی کوشش کریں اوردنوں اس بات کوسامنے رکھیں کہ ہرانسان میں کچھ کمزوریاں ہوتی ہیں اوربہت سی خوبیاں ہوتی ہیں، لہٰذاشریعت کی روایت کے مطابق ایک دوسرے کی غلطیوں کودرگزرکرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

۲- اگراس طرح بات نہ بنے توعارضی طورپرقطع تعلق کیاجاسکتاہے۔

۳- اگریہ دونوں طریقے ناکام ہوجائیں تودونوں خاندان کے باشعورافرادمل کرمصالحت کی کوشش کریں، یادونوں طرف سے ایک ایک ثالث مقررکرکے (Reconciliation and Arbitration)باہمی اختلافات کوختم کرنے کی کوشش کی جائے۔

۴- اگراس کے باوجودبات نہ بنے توبیوی کوپاکی کی حالت میں شوہرایک طلاق دے کرچھوڑدے؛ یہاں تک کہ ایامِ عدت گزرجائیں، عدت کے دوران اگرمرافقت پیداہوجائے توشوہررجوع کرلے اورپھردونوں میاں بیوی کی طرح زندگی گزاریں، اگرعدت کے دوران شوہرنے رجوع نہیں کیاتوعدت کے بعد خودہی رشتۂ نکاح ختم ہوجائے گا اوردونوں نئی زندگی شروع کرنے کے لئے آزاداورخودمختارہوں گے، اگربیوی اس وقت حاملہ ہوگی توعدت کی مدت وضع حمل ہوگی، طلاق دینے کی صورت میں شوہرکوعدت کاخرچ دیناہوگا اورمہرباقی ہوتووہ بھی فوراً اداکرناہوگا۔

۵- اگرعدت کے بعدمصالحت ہوجائے توباہمی رضامندی سے نئے مہرکے ساتھ دونوں تجدیدِنکاح کے ذریعہ اپنے رشتہ کوبحال کرسکتے ہیں۔

۶- دوسری صورت یہ ہے کہ بیوی کوپاکی کی حالت میں شوہرایک طلاق دے، پھردوسرے ماہ دوسری طلاق دے اورتیسرے ماہ تیسری طلاق دے، تیسری طلاق سے پہلے اگرمصالحت ہوجائے توشوہررجوع کرلے اورسابقہ رشتۂ نکاح بحال کرلے۔

    شوہرکوایک ساتھ تین طلاق ہرگزہرگز نہیں دینی چاہئے؛ کیوں کہ اس کی ضرورت ہی نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ مسلم پرسنل لابورڈ نے ایسے شخص کے خلاف سماجی بائیکاٹ کامطالبہ کیاہے؛ چنانچہ اس کی آٹھویں تجویز میں ہے کہ ’’مسلم سماج کوچاہئے کہ جوشخص ایک ساتھ تین طلاق دے، اس کاسماجی بائیکاٹ کیاجائے؛ تاکہ ایسے واقعات کم ازکم ہوں‘‘۔

۳- حق ِسفر

اس سے مرادیہ ہے کہ شوہربیوی کواس کے شہرسے منتقل کرکے اس شہرمیں لے جائے، جہاں وہ خودرہتاہے، فقہائے احناف کے درمیان شوہرکے اس حق کے سلسلہ میں اختلاف ہے؛ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ درج دیل شرطوں کے ساتھ شوہرحق انتقال حاصل ہے:

۱- مہر اداکرچکاہو: اگرشوہرنے بیوی کاپورامہر(خواہ معجل ہویا مؤجل) اداکردیاہے توشوہرکوحق حاصل ہے کہ وہ بیوی کواس شہرکی طرف منتقل کرے، جہاں وہ خودرہائش پذیرہے؛ لیکن مہرادانہیں کیاہے تویہ حق حاصل نہیں رہے گا۔

۲- راستہ مامون ہو:بیوی کوایک شہرسے دوسرے شہرلے جانے میں اس بات کابھی خیال رکھناضروری ہے کہ سفرکاراستہ مامون ہو، اگرراستہ غیرمامون ہوگا تولے جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔

۳- جس شہر میں منتقل کررہاہے، وہ شہرمامون ہو:راستہ کے مامون ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ شہراورعلاقہ بھی مامون ہو، جہاں بیوی کولے کرجارہاہے، اگروہ جگہ غیرمامون ہے تولے جانے کی اجازت نہیں ---- علامہ حصکفیؒ لکھتے ہیں:

’’مہر(خواہ معجل ہویامؤجل )کی ادائے گی کے بعدبیوی کوسفرپرلے جاسکتاہے، جب کہ اس کے لئے مامون ہو، ورنہ مہرپورادے اورغیرمامون ہونے کی صورت میں اس کوسفرپرنہیں لے جاسکتا‘‘(الدرالمختار معردالمحتار: ۲؍ ۳۶۰)۔

۴- حق اغتسال

بیوی کاحیض ونفاس اورجنابت سے غسل کرناشرعی حق کے ساتھ ساتھ شوہربھی حق ہے کہ اس کے بغیرشوہرکوحق استمتاع سے روکنالازم آتاہے، یہی وجہ ہے کہ فقہاء نے شوہرکے لئے اجازت دی ہے کہ وہ بیوی کوغسل پرمجبورکرے، علامہ ابن قدامہؒ لکھتے ہیں:

’’شوہرکے لئے بیوی کوحیض ونفاس سے غسل پرمجبورکرنے کی اجازت ہے، خواہ بیوی مسلمہ ہویاذمیہ، اسی طرح خواہ وہ آزادہویاباندی؛ کیوں کہ یہ اس استمتاع سے روکتاہے، جواس کاحق ہے‘‘(المغنی، فصل: إجبار زوجتہ علی الغسل من الحیض والنفاس، مسئلہ نمبر: ۵۶۹۴: ۷؍۲۹۴)۔

    البتہ احناف کے یہاں ذمیہ کوغسل پرمجبورکرنے کی گنجائش نہیں، علامہ کاسانیؒ لکھتے ہیں:

’’مسلم شوہرکے لئے گنجائش نہیں کہ وہ اپنی کافرہ بیوی کوحیض ونفاس اورجنابت پرغسل کرنے پرمجبورکرے؛ کیوں کہ غسل قربت(نیک عمل، جس سے خداکی خوشنودی اورقربت حاصل ہو)ہے اورذمیہ قربات کی مخاطب نہیں ہوتی‘‘(بدائع الصنائع، فصل: جواز وإفسادنکاح أہل الذمۃ: ۲؍۲۱۰)۔

    اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ ہم تمام کو حقوق کواداکرنے والااور فرائض کوانجام دینے والابنا ئے، آمین یارب العالمین!!


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی