میاں بیوی کےحقوق ا ورذمہ داریاں (قسط نمبر: 7)

میاں بیوی ---- حقوق ا ورذمہ داریاں

(قسط نمبر: 7)

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی

شوہرکے کچھ خاص حقوق

    یہ بات پیچھے گزرچکی ہے کہ جوحقوق بیوی کے ہیں، وہی شوہرکی ذمہ دارویاں ہیں اورجوبیوی کے فرائض اوراس کی ذمہ داریاں ہیں، وہ شوہرکے حقوق ہیں، یہاں شوہرکے وہ خاص حقوق ذکرکئے جارہے ہیں، جوبیوی کے فرائض میں سے نہیں ہیں۔

۱- حق تادیب

    تادیب کے معنی’’ ادب سکھانے ‘‘کے ہیں، اس سے مرادشوہرکاوہ حق ہے، جس میں وہ بیوی کی غلطیوں پر مختلف طریقوں سے ادب سکھاتاہے ،فقہائے کرام نے ادب سکھانے کے اعتبارسے حقوق کی دوقسمیں کی ہیں:

(۱) شوہرکے حقوق۔

(۲) اللہ تعالیٰ کے حقوق۔

    پھرشوہرکے حقوق کے تعلق سے بیوی کی تادیب کے جائز ہونے پر فقہائے کرام کا اتفاق ہے ، موسوعہ فقہیہ میں ہے:

’’فقہاء کااس پراتفاق ہے کہ شوہرکوبیوی کی نافرمانی اورحقوق زوجیت سے متعلق امورمیں حق تادیب حاصل ہے‘‘(الموسوعۃ الفقہیۃ، نکاح: ۴۱؍۳۱۵)۔

    البتہ حقوق اللہ میں شوہربیوی کی تادیب کرسکتاہے یانہیں؟ اس میں اختلاف ہے؛ چنانچہ احناف وشوافع کے نزدیک شوہرحقوق اللہ میں بیوی کی تادیب نہیں کرسکتا(ردالمحتار: ۳؍۱۸۹، مغنی المحتاج: ۴؍۱۹۳)، جب کہ حنابلہ ومالکیہ کے نزدیک کرسکتاہے(المغنی لابن قدامۃ: ۷؍۴۷، حاشیۃ الدسوقی: ۴؍۳۵۴)۔

بیوی کی تادیب کے طریقے

    شوہراپنے جن حقوق کے سلسلہ میں بیوی کی تادیب کرسکتاہے، ان میں درج ذیل ترتیب کوملحوظ رکھاجائے گا(دیکھئے: بدائع الصنائع، فصل: ولایۃ التأدیب للزوج إذالم تطعہ:۲؍ ۳۳۴ ) :

(الف) وعظ ونصیحت

    اگربیوی شوہرکی اطاعت نہ کرے توشوہرکوچاہئے کہ سب سے پہلے اسے نرمی کے ساتھ نصیحت کرے اوراسے سمجھائے کہ نیک وصالح بن کررہو، بدتمیزی کے ساتھ پیش نہ آؤ، اگریہ نصیحت بیوی کی سمجھ میں آجائے اوروہ اطاعت شعاربن جائے توبہت اچھی بات ہے، مزیدتنبیہ کی ضرورت نہیں۔

(ب) ترکِ تعلق کی دھمکی

    اگروعظ ونصیحت بیوی کی سمجھ میں نہ آئے توترکِ تعلق کی دھمکی دے اورکہے کہ دیکھو! اگرتم بات نہیں مانوگی تومیں تم سے دوری اختیارکرلوں گا، نہ تمہارے ساتھ سؤوں گا اورناہی جسمانی تعلق قائم کروں گا، اگریہ دھمکی کارگرہوجائے تومزیدکسی چیز کی ضرورت نہیں۔

(ج) ترکِ تعلق

    لیکن اگردھمکی سے کام نہ چلے توپھرحقیقتاً ترکِ تعلق کرلیناچاہئے، شوہرنہ تواس کے ساتھ جسمانی تعلق قائم کرے اورناہی اس کے ساتھ بسترپرسوئے اوراگرضرورت پڑے توبات چیت بھی بندکردینی چاہئے اورا س کے لئے وقت اوردن کی قید بھی نہیں ہے، شوہرجتنے دن مصلحت سمجھے، اتنے دن گفتگوبندکرسکتاہے، علامہ خطابیؒ لکھتے ہیں:

’’جہاں تک باپ کابیٹے کے ساتھ اورشوہرکابیوی کے ساتھ ، اسی طرح وہ تمام، جوان کے ہم معنی ہیں، کاترکِ تعلق کی بات ہے تواسے تین دن سے زائدپرتنگ نہیں کیاجاسکتا؛ حالاں کہ خوداللہ کے رسولﷺنے اپنی ازواج کے ساتھ ایک مہینہ تک ترکِ تعلق کوقائم رکھا‘‘(معالم السنن، باب النہی عن التہاجر: ۴؍۱۲۲)۔

(د) مارپیٹ

    اگرترکِ تعلق سے بھی کام نہ چلے تواب بیوی کے ساتھ مارپیٹ کرنے کی گنجائش ہے، قرآن مجیدکے اندرخودوعظ ونصیحت ، ترک تعلق اورمارپیٹ کاتذکرہ موجودہے، ارشادربانی ہے:

’’اورجن عورتوں(بیویوں)کی نافرمانی کاتمہیں اندیشہ ہو، انھیں نصیحت کرو، بستروں میں چھوڑے رکھواورانھیں مارو‘‘(النساء: ۳۴)۔

بیوی کے ساتھ مار پیٹ کے حدود

    لیکن مارکے لئے ایک دائرہ ہے، جس کاخیال رکھناازحدضروری ہے،چوں کہ عموماً اس سلسلہ میں شوہرکی طرف سے بڑی کوتاہی ہوتی ہے؛ اس لئے مار کے دائرہ کوتفصیل کے ساتھ نقل کیاجارہاہے،جس کی طرف خود حضوراکرمﷺنے بھی توجہ دلائی ہے،تفصیل یہ ہے:

۱- تکلیف دہ مارنہ ماراجائے؛ چنانچہ حجۃ الوداع کے موقع سے مردوعورت کے حقوق کی وضاحت کرتے ہوئے بنی کریمﷺنے فرمایا:

’’ان پرتمہاراحق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستروں کوایسے لوگوں سے نہ رندوائیں، جن کوتم ناپسندکرتے ہو، اگروہ ایساکریں توغیرتکلیف دہ مارمارو‘‘(مسلم، باب حجۃ النبی ﷺ، حدیث نمبر: ۱۲۱۸)۔

۲- جانوروں اورغلاموں کی طرح نہ ماراجائے؛ چنانچہ بخاری شریف کی ایک حدیث میں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:

’’تم میں سے کوئی شخص کیوں اپنی بیوی کوجانوریاغلام کی طرح مارتاہے؟شایدکے اس کے ساتھ معانقہ کرے‘‘(بخاری،باب قول اللہ تعالیٰ: یاأیہا الذین آمنوالایسخرقوم من قوم …، حدیث نمبر: ۶۰۴۲)۔

اس حدیث کی تشریح میں علامہ صنعانیؒ لکھتے ہیں:

’’یہ(حدیث) مارکے جواز پردلالت کرتی ہے؛ البتہ غلاموں اورجانوروں کی طرح نہیں نہ ماراجائے‘‘(سبل السلام، باب القسم بین الزوجات: ۳ ؍ ۱۶۵)۔

ایک دوسری حدیث میں آپﷺکاارشادہے:

’’تم میں سے کوئی اپنی بیوی کوغلام کے مارنے کی طرح نہ مارے‘‘(بخاری، باب مایکرہ من ضرب النساء، حدیث نمبر: ۵۲۰۴)۔

حافظ ابن حجرؒ اس کی تشریح میں لکھتے ہیں:

’’اگر(تادیب میں)مارضروری ہوتوہلکی مارسے ہونی چاہئے‘‘(فتح الباری، باب مایکرہ من ضرب النساء: ۹ / ۳۰۳) ۔

۳- چہرے پرنہ ماراجائے؛ کیوں کہ یہ اُن نازک اعضاء میں سے ہے، جس سے انسان کاحسن وجمال متعلق ہوتاہے، یہی وجہ ہے کہ آپﷺنے فرمایا:

’’جب تم میں سے کوئی جھگڑاکرے توچہرے سے بچے‘‘(بخاری، باب إذاضرب الوجہ فلیجتنب، حدیث نمبر: ۲۵۵۹، مسلم، باب النھی عن ضرب الوجہ، حدیث نمبر: ۲۶۱۲)۔

اس حدیث کے ضمن میں امام نوویؒ لکھتے ہیں:

’’علماء فرماتے ہیں: یہ چہرے پرمارنے کی ممانعت کی صراحت ہے؛ کیوں کہ یہ (تمام)محاسن کوجمع کرنے والاعضوہے، اس کے اجزاء نہایت لطیف ونفیس ہیں، جن کے ذریعہ سے عمومی طورادراک حاصل ہوتاہے؛ چنانچہ چہرے پرمارنایا کلیۃً اس کے حسن کوختم کردے گایااس میں کمی پیداکرے گا، جب کے بعض دفعہ اس کے وجہ سے چہرہ بگڑجاتاہے،نیزچوں کہ بالکل نمایاں رہنے والاعضوہے، اس کابگاڑواضح ہوگااورجب بھی چہرے پرماراجائے گا، بگاڑسے عموماً خالی نہ ہوگا‘‘(شرح النووی علی مسلم، باب النھی عن ضرب الوجہ، حدیث نمبر: ۲۶۱۲)۔

۴- چہرے کے علاوہ نازک اعضاء جیسے: پیٹ، شرم گاہ، سینہ،کان کے نچلا حصہ، اوراعضائے رئیسہ جیسے: سر، نیز جوڑوں پربھی نہ ماراجائے،حضرت علی ؓ کے بارے میں منقول ہے کہ اُن کے پاس ایک شرابی کولایاگیاتوآپؓ نے کوڑے مارنے کاحکم دیتے ہوئے فرمایا:

’’مارواورہرعضوکواس کا حق دو، اورچہرے اورشرم گاہ سے بچو‘‘(مصنف ابن ابی شیبہ، باب ماجاء فی الضرب فی الحد، حدیث نمبر: ۲۹۲۶۸)۔

    تادیب کے طورپرمارناایک قسم کی تعزیرہے اورتعزیراً مارنے کی صورت میں اعضائے رئیسہ اورنازک اعضاء سے اجتناب ضروری ہے، امام ابوبکر بن علی بن محمدالحداد یمنیؒ لکھتے ہیں:

’’(سوائے سر، چہرہ اورشرم گاہ کے) …کیوں کہ شرم گاہ میں مارناہلاکت کاباعث ہوتاہے، جب کہ سرحواس(خمسہ)کامرکز ہے؛ چنانچہ سرمیں مارنے سے سماعت، بینائی، قوت شامہ، یاپھرذوقِ حس کے ختم ہوجانے کا قوی امکان ہے،( نیز)پیٹ اورسینہ پرمارنے سے بھی بچاجائے؛ کیوں کہ یہ بھی ہلاکت کاباعث ہے‘‘(الجوہرۃ النیرۃ، کتاب الحدود: ۲ / ۲۴۱)۔

علامہ بہوتی ؒلکھتے ہیں:

’’چہرے سے اس کی شرافت اور احترام کی وجہ سے بچاجائے، اسی طرح پیٹ اوراُن نازک جگہوں سے بھی بچاجائے، جوہلاکت کاباعث ہوتے ہیں، نیز حسن وجمال کی جگہوں سے بھی بچاجائے؛ تاکہ حسن ختم نہ ہوجائے‘‘( کشاف القناع للبھوتی، فصل فی النشوز: ۴ ؍ ۱۸۴، نیز دیکھئے :حاشیۃ الدسوقی: ۴ ؍۳۵۴، رد المحتار: ۶ ؍ ۱۳۱،المہذب: ۲ ؍ ۸۹، تحریرالمقال، ص: ۷۳، الرسالۃ المفصلۃ للقابسی، ص: ۱۷۰ - ۱۷۱)۔

۵- اس بری طرح سے نہ ماراجائے، جس سے بیوی زخمی ہوجائے، یا خون نکل آئے، یا جسم پرداغ پڑجائے، یا پھرہڈی ٹوٹ جائے، چنانچہ فقہائے کرام نے صراحتاً ’’ضربِ فاحش‘‘ سے منع کیاہے، علامہ ابن عابدین شامیؒ لکھتے ہیں:

’’مارکوفاحش سے یہ بتانے کے لئے مقیدکیاکہ تادیب میں’ضرب فاحش‘ درست نہیں، اور’ضرب فاحش‘ یہ ہے کہ اس سے ہڈی ٹوٹ جائے، یاجلد پھٹ جائے، یا کالی ہوجائے‘‘(ردالمحتار: ۶ ؍ ۱۳۱، نیزدیکھئے: المجموع: ۱۸ ؍ ۱۳۸، بلغۃ السالک لأحمدالصاوی: ۱ ؍ ۴۰۷، تحریرالمقال، ص: ۷، المغنی: ۹ ؍ ۷۴۴)۔

۶- ڈنڈے اور چمڑے کے پیلٹ وغیرہ سے نہ ماراجائے؛ بل کہ اس کے لئے پتلی پتلی چھڑیاں استعمال کی جائیں، اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوبؑ کو اپنی قسم پوری کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:

’’اوراپنے ہاتھ میں پتلی چھڑیاں لو، پھراس سے مارو‘‘(ص: ۴۴)۔

    دراصل حضرت ایوب علیہ السلام نے اپنی اہلیہ کوکسی کام کاحکم دیا، جس کی انجام دہی میں تاخیرہوگئی اورحضرت ایوب علیہ السلام ناراض ہوئے اورکہا: بیماری سے شفایابی کے بعدمیں ضرور سومارماروں گا(تفسیررازی، برتفسیر سورۂ ص:۴۴) ----- مارنے کی یہ قسم تنبیہ کے لئے ہی تھا؛ چنانچہ مفسر قرطبیؒ لکھتے ہیں:

’’یہ آیت مردکااپنی بیوی کوتادیب کے طورپرمارنے کے جوازکوشامل ہے‘‘(الجامع لأحکام القرآن: برتفسیر سورۂ ص: ۴۴:۱۵ / ۲۱۳)۔

    چوں کہ حضرت ایوب علیہ السلام کویہ خدشہ لاحق ہواکہ سومارمارنے سے کہیں زیادہ نقصان نہ ہوجائے؛ اِس لئے اللہ تعالیٰ نے ایک ترکیب بتلائی کہ سو’ضغث‘ لے کرمارو، اس طرح قسم پوری ہوجائے گی، اور’’ضغث‘‘کسے کہتے ہیں؟ امام ابوبکرجصاص رازیؒ لکھتے ہیں:

’’ضغث‘‘ سے مرادمٹھی بھرلکڑی، کوڑے یاپتلی شاخیں ہیں(احکام القرآن، ۵ / ۲۵۸)۔

    اِس آیت سے جہاں دوسری چیزیں ثابت ہوتی ہیں، وہاں یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ بطورتنبیہ کے پتلی پتلی چھڑیاں استعمال کی جانی چاہئے ----- علامہ بہوتی ؒلکھتے ہیں:

’’اسے(اپنی بیوی کو)معمولی قسم کے کوڑے یاکپڑاموڑکرمارے، کوڑے اورلکڑی سے نہ مارے؛ کیوں کہ مقصودتادیب اورتنبیہ ہے، لہٰذا سہل سے سہل ترین چیزسے ابتداکرے‘‘(کشاف القناع: ۴/۱۸۵)۔

’’درۃ‘‘سے مرادکیاہے؟ علامہ شمس الحق عظیم آبادیؒ لکھتے ہیں:

’’دِرَّہ‘( دال کے زیر اورراء کی تشدیدوفتح کے ساتھ)سے مرادوہ ہے، جس کے ذریعہ ماراجاتاہے، اوریہ اس ’درۃالکتاب‘(معلمین کادرہ)کے مشابہ ہوتاہے، جس سے معلم بچوں کی تادیب کرتے ہیں، گویااس کے چھوٹے ہونے کی طرف اشارہ ہے‘‘(عون المعبود، باب فی تزویج من لم یولد: ۶ / ۹۳)۔

۷- ایسی چیز سے نہ ماراجائے، جس سے بیو ی کی توہین ہوتی ہو، مثلاً: جوتے چپل سے نہ ماراجائے؛ چنانچہ امام سرخسی اورابو الیسررحمہما اللہ نے سرکے پچھلے حصے پراہانت کی وجہ سے ہی مارنے کوناپسندکیاہے، ابن نجیم مصریؒ ان کے حوالہ سے لکھتے ہیں:

’’ابوالیسر اورسرخسی (رحمہماللہ) نے ذکرکیاہے کہ ’’صفع‘‘(سرکے پچھلے حصے پر مارنا) درست نہیں؛ کیوں کہ اہانت کی یہ انتہائی قسم ہے، لہٰذا اہل قبلہ کواس سے بچایاجائے گا‘‘(البحرالرائق، فصل فی التعزیر: ۵ / ۶۸)۔

    حدیث سے بھی اس کی طرف واضح اشارہ ملتاہے؛ چنانچہ حضورﷺنے عورتوں کے حقوق کوبتلاتے ہوئے فرمایا:

’’اورنہ توچہرے پرمارو اورناہی برابھلا کہو‘‘(جامع الأصول فی أحادیث الرسول،الکتاب السابع: فی الصحبۃ، الفرع الثانی: فی حق المرأۃ علی الزوج، حدیث نمبر: ۴۷۱۹)۔

    اس حدیث کے ضمن میں محمدبن صالح بن عثیمنؒ لکھتے ہیں:

’’برابھلاکہنے میں حسی اورمعنوی کی ممانعت بھی شامل ہے‘‘(شرح ریاض الصالحین، باب الوصیۃ بالنساء: ۱ / ۳۲۷)۔

    اورظاہرہے کہ جوتے اورچپل سے مارنابرابھلاکہنے سے بڑھ کرہے؛ اس لئے اس کی ممانعت تو بدرجۂ اولیٰ ہوگی۔

۸- ایک ہی جگہ پرمسلسل نہ ماراجائے؛ کیوں کہ اس سے کئی قسم کے نقصانات ہوسکتے ہیں، علامہ ابن مازہؒ لکھتے ہیں:

’’(مارتے وقت) مختلف اعضاء پرمارناضروری ہے؛ تاکہ ایک ہی جگہ مارنے کی وجہ سے کوئی خرابی لازم نہ آئے‘‘(المحیط البرھانی: ۴ / ۴۹۸، الحاوی فی فقہ الشافعی، باب نشوز المرأۃ: ۹ / ۵۹۹)۔

۹- انتقامی جذبہ کے تحت یا غصہ کی حالت میں نہ ماراجائے؛ کیوں کہ ایسی صورت میں شوہرراہِ سداد سے دور ہٹ سکتاہے ، جس کے نتیجہ میں بیوی کی تنبیہ مفقود ہوسکتی ہے کہ عضہ آگ کاانگارہ ہوتا ہے، جواپنے راستہ کی ہرچیزکو راکھ کرسکتاہے، یہی وجہ ہے کہ نبی کریمﷺنے غصہ کی حالت فیصلہ کرنے سے منع فرمایاہے، ارشاد ہے:

’’کوئی حاکم(ثالثی) غصہ کی حالت ہرگزفیصلہ نہ کرے‘‘(بخاری، باب ہل یقضی القاضی أویفتی، وہوغضبان؟حدیث نمبر: ۷۱۵۸)۔

    اس حدیث کے ضمن میں علامہ عینیؒ امام مہلب کے حوالہ سے لکھاہے:

’’اِس ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ غصہ کی حالت میں حد سے تجاوزجائے گا؛ اس لئے منع کیاگیاہے‘‘(عمدۃ القاری، باب ہل یقضی القاضی أویفتی، وہوغضبان؟حدیث نمبر: ۷۱۵۸)۔

اورابن دقیق العید ؒ لکھتے ہیں:

’’اس حدیث میں غصہ کی حالت میں فیصلہ کرنے کی ممانعت ہے؛ کیوں کہ ایسی حالت میں مزاج بدل جاتاہے، جوغوروفکرمیں خلل اندازہوجاتاہے‘‘(فتح الباری، باب ہل یقضی القاضی أویفتی، وہوغضبان؟۱۳/۱۳۷)۔

(جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی