میاں بیوی ---- حقوق ا ورذمہ داریاں (قسط نمبر: 6)

میاں بیوی ---- حقوق ا ورذمہ داریاں

(قسط نمبر: 6)

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی

اخلاقی فرائض

    کچھ اموروہ ہیں، جوبیوی پراخلاقی اعتبارسے واجب ہیں، ان اخلاقی ذمہ داریوں کی ادائے گی سے نہ صرف یہ کہ میاں بیوی کے تعلقات مضبوط ومستحکم ہوتے ہیں؛ بل کہ سسرال میں بھی اس کی ساکھ مضبوط ہوتی ہے، سسرال کے لوگ اس سے خوش رہتے ہیں اورجب ساراسسرال ہی خوش رہے تولازماً اسے بھی کسی قسم کی کوئی پریشانی اٹھانی نہیں پڑے گی،اخلاقی اعتبارسے واجب ہونے والی ذمہ داریاں درج ذیل ہیں:

۱- شوہرکی خدمت

    بیوی کوشریعت نے ’کام والی‘ بناکرشوہرکے سرنہیں منڈھاہے؛ بل کہ اس کی حیثیت توایک ملکہ کی ہے اورجب وہ ملکہ ہے تو’خدمت‘ اس کے ذمہ واجب نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ اگرشوہربیوی کی خدمت نہ کرنے پرمقدمہ دائرکرے تواس کی شنوائی نہیں ہوگی؛ لیکن یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ ’خدمت‘ دل جیتنے کا سبب ہوا کرتی ہے؛ حتی کہ اردوکامشہورمثل ہے: ’’خدمت ِخلق سے خدا ملتا ہے‘‘،معلوم ہواکہ اگرشوہرکی خدمت کی جائے توشوہرمکمل طورپربیوی کومل جائے گا، خودازواج مطہرات اپنے شوہر حضوراکرمﷺکی خدمت کیاکرتی تھیں؛ چنانچہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں:

’’نبی کریمﷺجب اعتکاف کرتے تواپناسرمیرے قریب کرتے ؛ تاکہ میں کنگھی کروں‘‘(مسنداحمد، حدیث نمبر: ۲۵۴۸۴)۔

    ایک دوسری حدیث میں ہے، حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں:

’’میں رسول اللہﷺکوعمدہ ترین خوشبوملتی تھی؛ یہاں تک کہ میں آپ کے سراورریش مبارک میں خوشبوکی چمک پاتی‘‘(صحیح البخاری، باب الطیب فی الرأس واللحیۃ، حدیث نمبر: ۵۹۲۳)۔

    مذکورہ دونوں حدیثوں سے معلوم ہواکہ بیوی کوشوہرکی خدمت کرنی چاہئے، یہی وجہ ہے کہ فقہائے کرام نے شوہر کی خدمت کواخلاقی طورپرواجب قراردیاہے، مشہورحنفی فقیہ ابن مازہؒ لکھتے ہیں:

’’امام ابوحنیفہؒ نے فرمایا: جب کوئی شخص اپنی بیوی کوخدمت کے لئے کوماہانہ اجرت پرلے تویہ جائزنہیں ہے؛کیوں کہ بیوی پرشوہرکی خدمت حسن ِ معاشرت کے اعتبارسے دیانۃ واجب ہے‘‘(المحیط البرہانی، فصل فی الاستئجارللخدمۃ: ۷؍۴۵۱)۔

ساس سسراوردیورونندکی خدمت

    اوپرکی گفتگوسے معلوم ہواکہ بیوی پرقانوناً شوہرکی خدمت کرنا واجب نہیں؛ البتہ اخلاقاً واجب ہے اورجب شوہرکی خدمت واجب نہیں توقانوناًساس سسرکی خدمت کیسے واجب ہوسکتی ہے؟ ہاں! بسااوقات ساس سسر کی خدمت بھی بیوی پراخلاقاً واجب ہوجاتی ہے؛ لیکن شوہراس پرنہ توبیوی کومجبورکرسکتاہے اورناہی اس کے ترک پر بیوی کے ساتھ مارپیٹ کرنے کی گنجائش ہے، تاہم بیوی کوساس سسر کی خدمت سعادت اوراپنے شوہرکاتعاون سمجھ کرکرنی چاہئے، استاذگرامی حضرت مولاناخالدسیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی لکھتے ہیں:

’’شوہرکے والدین کی خدمت عورت پراس وقت دیانۃ واجب ہوگی، جب کوئی اورخدمت کرنے والامیسرنہ ہو، اگرکوئی دوسراخدمت کرنے والامیسرہو، تب بھی عورت کوچاہئے کہ اپنے ساس سسر کی خدمت سے دامن نہ کھینچے کہ یہ اس کااپنے شوہرکے ساتھ تعاون ہے؛ کیوں کہ اصل میں والدین کی خدمت اس کے شوہرپرواجب ہے اورشوہراپنی بیوی اور اس کے بچوں کی ضروریات کے لئے مشغول ہے، تواخلاق ودیانت کاتقاضہ ہے کہ وہ اس فریضہ کی ادائے گی میں شوہرکی مددکرے،شوہرکے بھائی بہنوں کی خدمت عورت پرواجب نہیں --- بہرحال! اس مسئلہ میں اعتدال اورمیانہ روی کی ضرورت ہے، نہ یہ درست ہے کہ گھرمیں دوسری خواتین کام نہ کریں اورپوری ذمہ داری بہو پر ڈال دیں اورنہ یہ صحیح ہے کہ بیوی اپنے شوہراورضرورت مندساس سسرکی خدمت سے بھی دامن کش ہوجائے‘‘ (کتاب الفتاوی: ۴؍ ۴۰۹-۴۱۰)۔

۲- رضاعت

    بچہ کی صحت کے لئے سب سے مفیدغذا ماں کادودھ ہے؛ لیکن شریعت نے ماں پرلازم نہیں کیاہے کہ وہ ہرحال میں اسے دودھ پلائے (سوائے بعض صورتوں کے، جس کاذکرپیچھے گزرچکاہے)؛ کیوں کہ نسبت کے اعتبارسے بچہ باپ کاہوتاہے؛ اس لئے اس کی دیکھ ریکھ اورغذاپانی کی ذمہ داری بھی اسی پرہے، محمدبن احمد سمرقندیؒ لکھتے ہیں:

’’پھرماں، اگرچہ کہ وہ پرورش کی زیادہ حق دارہے؛ لیکن اس پربچہ کادودھ پلاناواجب نہیں کہ یہ نفقہ کے درجہ میں ہے اوربچہ کانفقہ والدکے ساتھ خاص ہوتاہے‘‘(تحفۃ الفقہاء، باب الحضانۃ: ۲؍ ۲۳۳)۔

    تاہم ماں کابھی توایک گنا اس پرحق ہے؛ اس لئے شریعت نے اخلاقی اعتبارسے اس پرذمہ داری ڈالی ہے کہ وہ بچہ کودودھ پلائے، ملاعلی قاریؒ لکھتے ہیں:

’’کیوں کہ اس پراخلاقاً دودھ پلاناواجب ہے‘‘(فتح باب العنایۃ بشرح النقایۃ: ۳؍۴۵۶)۔

۳- گھریلوکام

    گھریلوکام کاج، جیسے: گھرکی صفائی، کپڑوں کی دھلائی، کھانا پکاناوغیرہ بھی قانوناًبیوی کی ذمہ داری نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ اگربیوی کھاناپکانے سے انکارکردے تو شوہراس کومجبورنہیں کرسکتا، علامہ کاسانیؒ لکھتے ہیں:

’’لیکن انکارکرنے پر بیوی کوکھاناپکانے پرمجبورنہیں کیاجاسکتا؛ بل کہ شوہرکوحکم دیاجائے گا کہ بیوی کے لئے تیارشدہ کھانالائے‘‘(بدائع الصنائع، فی بیان مقدارالواجب من النفقۃ: ۴؍۲۴)۔

    البتہ فقیہ ابواللیث سمرقندیؒ نے مذکورہ مسئلہ کودوصورتوں پرمحمول کیاہے:

۱- بیوی کسی وجہ (جیسے: بیماری)سے کھانانہ بناسکتی ہو۔

۲- بیوی کاتعلق ایسے خاندان سے ہو، جہاں کی عورتیں کھانانہیں بناتیں؛ بل کہ خادم کھانابناتاہو---ان دوصورتوں کے علاوہ میں بیوی کوکھانابنانے پرمجبورکیاجاسکتاہے (بدائع الصنائع، فی بیان مقدارالواجب من النفقۃ: ۴؍۲۴)۔

    بہرحال! اصل تویہی ہے کہ یہ امورقانونی اعتبارسے بیوی پرلازم نہیں ہیں ؛ لیکن اخلاقی اعتبارسے اس پرضروری ہے کہ یہ کام بھی انجام دے کہ ان کاتعلق ’خدمت‘ کے قبیل سے ہے، لہٰذا عام حالت میں ان سے دست کش ہونادرست نہیں، امام ابن ما زہ ؒ لکھتے ہیں:

’’اسی لئے گھرکے کام اس پردیانۃً واجب ہیں‘‘(المحیط البرہانی، الفصل الثالث: فی نفقۃ ذوی الأرحام: ۳؍۵۶۴)۔

    مذکورہ عبارتوں سے معلوم ہواکہ بیوی اگرگھرکے کام کاج کرتی ہے توگواپنااخلاقی فریضہ اداکرتی ہے؛ لیکن ہم پروہ احسان کرتی ہے؛ کیوں کہ قانوناً یہ اس کی ذمہ داری نہیں ہے، لہٰذا ایسی صورت میں دوباتوں کاخاص خیال رکھناچاہئے:

۱- گھرکاساراکام بہوکے سرپرنہیں ڈالناچاہئے کہ وہ نوکرانی نہیں ہے؛ بل کہ گھرکےدیگرافرادکوبھی ہاتھ بٹاناچاہئے، اس سے بہوکوحوصلہ ملے گا اورکام کرنے میں اکتاہٹ محسوس نہیں کرے گی۔

۲- جب بہوکاکام کاج کرناایک طرح سے ہم پراحسان ہے تواحسان کابدلہ ضروردیناچاہئے، اب بدلہ دینے کی دوصورتیں ہیں:

(الف) زبان سے اس کاشکراداکرناچاہئے؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ کاارشادہے:

’’اگرتم شکراداکروگے تومیں تمہیں مزیددوں گا‘‘(ابراہیم:۷)۔

    نیزاللہ کے رسولﷺنے فرمایا:

’’جس نے لوگوں کاشکرادانہیں کیا، اس نے اللہ کاشکرادانہیں کیا‘‘(سنن الترمذی، باب ماجاء فی الشکرلمن أحسن إلیہ، حدیث نمبر: ۱۹۵۵)۔

    اس لئے گھرکے افرادکوچاہئے کہ کام کاج کرنے پربہوکاضرورشکراداکریں۔

(ب) گھرکے بڑے افرادکوچاہئے کہ وہ کبھی کبھارکچھ تحفے تحائف دیں، اس سے جہاں محبت پیداہوتی ہے ، وہیں قدردانی کااحساس ہوتاہے، جس کے نتیجہ میں بہو بڑے سے بڑاکام بغیرکسی ہچکچاہٹ کے کرڈالنے کی کوشش کرتی ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے، آمین!

۴- بچوں کی تربیت:

    بچے نسب کے اعتبارسے چوں کہ باپ کے ہوتے ہیں اوراس میں عورت کی بھلائی کوہی پیش نظررکھاگیاہے؛ اس لئے بچوں کی تربیت کی اصل ذمہ داری توباپ پرہی عائد ہوتی ہے، اسی لئے اللہ کے رسولﷺنے فرمایا:

’’کسی والدنے اپنے بچہ کوحسن ِادب سے زیداہ بہترتحفہ نہیں دیا‘‘(مسنداحمد، حدیث نمبر: ۱۵۴۰۳)۔

    لیکن چوں کہ بچہ کایک گونہ تعلق ماں سے بھی ہے اورتربیت میں ماں کاجورول ہوتاہے، وہ کسی سے مخفی نہیں؛ اس لئے اخلاقی اعتبارسے بچہ کی اچھی تربیت بھی اس کی ذمہ داری ہے، اس ذمہ داری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ کے رسولﷺنے فرمایا:

’’عورت اپنے شوہرکے گھروالوں اوراس کے بچہ کی دیکھ ریکھ کرنے والی ہے اوراس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھ ہوگی‘‘(صحیح البخاری، باب قول اللہ: وأطیعوا اللہ وأطیعوا الرسول، حدیث نمبر: ۷۱۳۸)۔

    معلوم ہواکہ بیوی پراخلاقی لحاظ سے بچہ کی تربیت اوراس سلسلہ میں فکرکرناواجب ہے، جس کوادانہ کرنے کے نتیجہ میں وہ گناہ گارہوگی۔

(جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی