میاں بیوی کےحقوق ا ورذمہ داریاں (قسط نمبر: 5)

میاں بیوی ---- حقوق ا ورذمہ داریاں

(قسط نمبر: 5)

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی

بیوی کے فرائض

    شریعت ِاسلامی نے جس طرح بیویوں کے حقوق بتلائے ہیں، اسی طرح ان کے اوپربھی کچھ ذمہ داریاں عائد کی ہیں، جنھیں ہم’’فرائض‘‘سے تعبیر کرتے ہیں، یہ دراصل شوہرکے حقوق ہیں، جن کی ادا ئے گی بیوی پراسی طرح ضروری ہیں، جس طرح بیوی کے حقوق کی ادائے گی شوہرپرضروری ہیں، ان کے حقوق جان لینے کے بعدآیئے اب ان کے ذمہ عائد ہونے والے فرائض کوبھی دیکھتے ہیں، یہ فرائض دوطرح کے ہیں: (۱) لازمی فرائض (۲) اخلاقی فرائض۔

لازمی فرائض

    لازمی فرائض (یعنی جس کے انجام دئے بناچارہ نہیں)کیاکیاہیں؟ اس کے جاننے سے پہلے ضروری معلوم ہوتاہے کہ خودفرض کی حقیقت کوواضح کردیاجائے؛ تاکہ اس کی انجام دہی میں کسی طرح کی کوئی کوتاہی نہ ہونے پائے۔

فرض کی تعریف اوراس کی اہمیت

    ’فرائض‘عربی زبان کاایک لفظ ہے، جو’فریضۃٌ‘ کی جمع ہے، اس کے معنی ’’وہ کام، جس کاکرناضروری ہو‘‘ کے آتے ہیں، اصطلاح میں فرائض سے مراد’’وہ امورہیں، جن کی انجام دہی کواللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پرضروری قراردیاہے‘‘(قواعدالفقہ لعمیم الاحسان المجددی، ص۴۱۰)، فرائض کی تعریف سے ہمیں جوسب سے اہم بات معلوم ہوئی، وہ یہ ہے کہ ’’اس کاکرناضروری ہے‘‘، کئے بناچھٹکارہ نہیں، اگرکوئی شخص اس کوانجام نہیں دیتاہے تواس شخص کی طرح ہی گناہ گارہوگا، جس طرح فرض نماز چھوڑنے والاگناہ گارہوتاہے، لہٰذا فرائض کی ادائے گی میں کوتاہی ہرگزنہ کیاجائے۔

    فرائض کی حقیقت سے واقف ہوجانے کے بعدآیئے اب فرائض کی فہرست پربھی نظرڈالتے چلیں؛ تاکہ کوئی بھی فرض ہم سے چھوٹنے نہ پائے، اس سلسلہ میں سب سے پہلے لازمی فرائض کوذکرکیاجائے گا، لازمی فرائض سے مرادیہ ہے کہ ان کی ادائے گی نہ کرنے کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے یہاں پوچھ ہوگی اورنہ کرنے کی وجہ سے عام اصول کے مطابق سزابھی دی جائے گی،لازمی فرائض درج ذیل ہیں:

۱- شوہرکی اطاعت

    اللہ تعالیٰ کے بعددنیامیں عورت کے لئے سب کچھ شوہرہے، اس کااندازہ اس سے لگایاجاسکتاہے کہ اللہ کے رسولﷺنے فرمایا:

’’اگرمیں کسی کوحکم دیتاکہ وہ کسی شخص کوسجدہ کرے توبیوی کوحکم دیتا کہ وہ اپنے شوہرکوسجدہ کرے‘‘(سنن الترمذی، باب ماجاء فی حق الزوج علی المرأۃ، حدیث نمبر:۱۱۵۹)۔

    یعنی سجدہ تواللہ کے سواکسی اورکے لئے درست ہی نہیں، اگرایسی کوئی اجازت ہوتی توسب سے پہلے شوہرکویہ حق حاصل ہوتاکہ اسے سجدہ کیاجائے، اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ کے بعد شوہرکی بات ماننا اوراس کی اطاعت کرنابیوی پرضروری ہے، ملاعلی قاریؒ لکھتے ہیں:

’’اس میں انتہائی مبالغہ سے بتلایاگیاہے کہ بیوی کے لئے شوہرکے حق میں اطاعت ضروری ہے؛ کیوں کہ سجدہ اللہ کے علاوہ کسی کے لئے جائزنہیں‘‘(مرقاۃ المفاتیح، باب عشرۃ النساء ومالکل واحدۃ من الحقوق، الفصل الثانی: ۶؍۳۶۹)۔

شوہر کی اطاعت کن چیزوں؟

    اب سوال یہ ہے کہ شوہرکی اطاعت کن چیزوں میں ضروری ہے؟اس سلسلہ میں درج ذیل اموربتلائے گئے ہیں:

(الف) استمتاع میں

    استمتاع کے معنی’’فائدہ اٹھانے اورلطف اندوزہونے‘‘ کے ہیں، یہاں استمتاع سے مراد’’جماع اوراس کے مقدمات‘‘ ہیں، یعنی میاں بیوی کاآپس میں خصوصی تعلق قائم کرنااوراس کے لئے مس ولمس اوربوس وکنارکے ذریعہ لطف اندوزہونے کونکاح کے باب میں’’استمتاع‘‘ سے تعبیرکرتے ہیں؛ چنانچہ اگرشوہربیوی کو اپنے پاس بلائے اور بیوی معذورنہ ہو توشوہرکی بات مان کراس کے پاس جاناضروری ہے، اللہ کے رسولﷺکاارشادہے:

’’جب شوہربیوی کواپنی ضرورت کے لئے بلائے تواسے ضرورآناچاہئے، اگرچہ کہ وہ تنور(چولہے)پرہی کیوں نہ ہو‘‘(سنن الترمذی، باب ماجاء فی حق الزوج علی المرأۃ، حدیث نمبر: ۱۱۶۰)۔

    اس حدیث کی تشریح میں علامہ مناوی ؒ لکھتے ہیں:

’’مرادیہ ہے کہ بیوی پرشوہرکی اطاعت ضروری ہے، اگرچہ وہ کسی ضروری کام میں مشغول ہو؛ البتہ عذرنہ ہوناچاہئے، مثلا: حیض، یامال کاضیاع، جیسے: روٹی کاجلنا‘‘(التیسیر بشرح الجامع الصغیر، حرف الہمزۃ: ۱؍۶۸)۔

    یعنی اگرعذرنہ ہواورمال کے ضائع ہونے کااندیشہ نہ ہوتوخواہ کتناہی ضروری کام میں بیوی کیوں نہ مشغول ہو، شوہرکے بلانے پران تمام کوچھوڑ کرآنا ضروری ہے؛ حتی کہ ابن ملکؒ کے بقول :

’’اگرروٹی شوہرکے لئے بنارہی ہواورشوہراسے آوازدے توروٹی کے جلنے کی پرواہ کئے بغیرجائے؛ کیوں کہ اس وقت بلانے کامطلب یہ ہے کہ شوہراپنے مال کوضائع کرنے پربھی راضی ہے اورکیوں نہ ہوکہ شوہرکے زنامیں مبتلاہونے کے مقابلہ میں اس کامال ضائع ہونابہترہے‘‘ (مرقاۃ المفاتیح، باب عشرۃ النساء ومالکل واحدۃ من الحقوق، الفصل الثانی: ۶؍۳۶۹)۔

    اگربیوی اس مسئلہ میں اپنے خاوندکی اطاعت نہیں کرتی ہے تووہ نہ صرف یہ کہ گناہ گارہوگی؛ بل کہ فرشتوں کی لعنت بھی اس پرپڑے گی، اللہ کے رسولﷺ کاارشادہے:

’’جب شوہربیوی کوبسترپربلائے اوروہ آنے سے انکارکردے توفرشتے صبح تک اس پرلعنت کرتے ہیں‘‘(صحیح البخاری، باب إذاباتت المرأۃ مہاجرۃ فراش زوجہا، حدیث نمبر: ۳۹۱۵)۔

    ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ایک خاتون اللہ کے رسوﷺکی خدمت میں حاضرہوئی اوراستفسارکیاکہ بیوی پرشوہرکاکیاحق ہے؟ اللہ کے رسولﷺنے جواب دیا:

’’اپنے نفس کونہ روکے، اگرچہ کہ وہ اونٹ کی پیٹھ پرسفرکررہی ہو‘‘(السنن الکبری للبیہقی، باب ماجاء فی بیان حقہ علیہا، حدیث نمبر: ۱۴۷۱۳)۔

    چوں کہ شادی کاایک اہم مقصد نفسانی خواہش کی تکمیل کرکے گناہ سے بچنابھی ہے؛ اس لئے احادیث میں شوہرکی طرف سے استمتاع کی دعوت پرلبیک کہنے کے سلسلہ میں اتنی تاکیدواردہوئی ہے، اب اگربیوی بغیرکسی عذرکے آنے سے انکارکردے توظالم اورگناہ گارہوگی، یحی بن ہبیرہ شیبانیؒ لکھتے ہیں:

’’اس حدیث میں مفہوم یہ ہے کہ مردجب بیوی کوبستر پربلاتاہے اوروہ انکارکرتی ہے تواپنے کواس سے روک کراس کے حق کے سلسلہ میں ظلم کرنے والی ہوتی ہے اوراس طرح وہ حق کوروکنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی نافرمان ہوجاتی ہے … (اسی وجہ سے فرشتے لعنت بھیجتے ہیں)‘‘(الإفصاح عن معانی الصحاح: ۷؍۲۰۷۷)۔

(ب) گھرسے باہرجانے میں

    دوسراامر، جس میں بیوی کے لئے شوہرکی بات مانناضروری ہے، وہ گھرسے باہرجانے کے سلسلہ میں ہے، بیوی کے لئے شوہرکی اجازت کے بغیر گھرسے باہرجانادرست نہیں؛حتی کہ سفرحج کے لئے بھی اجازت ضروری ہے، اللہ کے رسول ﷺنے ایک خاتون کے استفسارپرشوہرکے حقوق کاتذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’اس کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ بیوی اس کی اجازت کے بغیر اس کے گھرسے باہرنہ نکلے‘‘(مسندابی داودالطیالسی، حدیث نمبر: ۲۰۶۳)۔

    علامہ ابن ہمام ؒ لکھتے ہیں:

’’اگرشوہرنے مہرعطاکردیاہے تواس کی اجازت کے بغیرگھرسے نکلنادرست نہیں‘‘(فتح القدیر،کتاب النفقۃ: ۴؍۳۵۸)۔

    تاہم چندامورایسے ہیں، جن میں بیوی کوگھرسے نکلنے کی اجازت دینی چاہئے، وہ اموردرج ذیل ہیں:

۱- والدین کی زیارت، عیادت ، اور تعزیت کے لئے۔

۲- محرم رشتہ داروںکی زیارت کے لئے۔

۳- مجلس علم میں شرکت کے لئے۔

    بعض امورایسے ہیں، جن میں شوہرکی اجازت کے بغیربھی نکلنے کی گنجائش ہے، وہ اموردرج ذیل ہیں:

۱- اگربیوی دائی یامیت کوغسل دینے کاکام کرتی ہو۔

۲- اگربیوی کاکسی کے اوپرکوئی حق ہویابیوی پرکسی کاحق ہو۔

۳- مہرکی ادئے گی سے قبل ضروریات اورقریبی رشتہ داروں کی زیارت کے لئے۔

۴- مسئلہ پوچھنے کے لئے، اگرشوہرپوچھ کرنہ بتائے ۔

۵- حج فرض کے لئے، اگرمحرم ساتھ میں ہو------ان تمام امورمیں شوہرکی اجازت کے بغیربھی باہرجانے کی گنجائش ہے(الدرر المباحۃفی الحضر والإباحۃ، لخلیل بن عبدالقادرالنحلاوی،الباب الخامس: فی الأخلاق، والصفات الذمیمۃ، وغوائلہا، مطلب فی المواضع التی یجوز للرجل أن یأذن لامرأتہ بالخروج إلیہا: ۱؍ ۲۷۲، تبیین الحقائق، باب النفقۃ: ۳؍۵۸، فتح القدیر: ۴؍۳۵۸)۔

عورت کے گھرسےباہرجانے کے لئے شرطیں

    البتہ جن مواقع پربھی باہرنکلنے کی اجازت دی گئی ہے، خواہ شوہرکی اجازت سے ہویابغیراجازت کے، ان میں درج ذیل شرطوں کاملحوظ رکھناضروری ہے:

۱- زیب و زینت کے بغیرہو، اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

’’پہلی جاہلیت کی طرح غیر مردوں کوبناؤسنگھار دکھاتی نہ پھرو‘‘(الأحزاب: ۲۳)۔

۲- ساترلباس پہن کرہو؛ کیوں کہ خاتون کاپوراجسم عورت(چھپانے کے لائق )ہے، لہٰذا جسم کاکوئی حصہ(سوائے ہتھیلی کے) ظاہرکرنادرست نہیں، علامہ عینیؒ فرماتے ہیں:

’’اس میں اختلاف نہیں ہے کہ ازواج مطہرات کے علاوہ خواتین کے لئے جائز امور کی ضرورت سے نکلنادرست ہے، اس شرط کے ساتھ کہ وہ بدہیئت، کھردرے کپڑے میں ملبوس، بے خوشبوہو، اعضاء ڈھکے ہوئے ہوں، زیب وزینت کے بغیراورآواز بلندکرنے والی نہ ہو‘‘(عمدۃ القاری: ۱۹؍۱۲۵)۔

۳- خوش بوکے بغیرہو؛ کیوں کہ خوش بولگاکرنکلنے کومنع کیاگیاہے، اللہ کے رسولﷺنے فرمایا:

’’جب تم میں سے کوئی مسجدحاضرہوتوخوش بواستعمال نہ کرے‘‘(صحیح ابن خزیمۃ، باب الزجرعن شہودالمرأۃ المسجدمتعطرۃ، حدیث نمبر: ۱۶۸۰)۔

    دوسری حدیث میں خوشبولگاکرنکلنے والی خاتون کو’زانیہ‘ قراردیاگیاہے، اللہ کے رسولﷺکاارشادہے:

’’جوعورت خوش بولگاکرکسی قوم کے پاس سے اس لئے گزرے کہ وہ لوگ خوش بومحسوس کریں تویہ عورت زانیہ ہے اورہرآنکھ زانیہ ہے‘‘(صحیح ابن خزیمۃ، باب الزجرعن شہودالمرأۃ المسجدمتعطرۃ، حدیث نمبر: ۱۶۸۱)۔

    مذکورہ دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ عورت کے لئے خوش بو لگاکرنکلناصرف درست ہی نہیں؛ بل کہ سخت گناہ کاباعث بھی ہے۔

۴- اگرمسافت ِسفر(سواستترکلومیٹر)تک جاناہوتومحرم بھی ساتھ میں ہو، اللہ کے رسولﷺکاارشادہے:

’’کسی مسلمان عورت کے لئے جائز نہیں کہ وہ ایک رات (ودن) کی مسافت کاسفرکرے، مگریہ کہ اس کے ساتھ کوئی محرم شخص ہو‘‘(سنن ابی داود، حدیث نمبر: ۱۷۲۳، مسنداحمد، حدیث نمبر: ۷۲۲۲)۔

۵- راستہ مامون ہو، اگرراستہ غیرمامون ہوتوعورت کانکلنادرست نہیں، شیخ صالح عبدالسمیع الآبی الازہری لکھتے ہیں:

’’(شرائط میں سے یہ بھی ہے کہ) راستہ فسادکے وقوع سے مامون ہو، ورنہ نکلناحرام ہوگا‘‘(جواہرالإکلیل:۱؍۸۱)۔

۶- بذات ِخوداس عورت کے نکلنے سے فتنہ کااندیشہ نہ ہو،اگراس کے نکلنے سے فتنہ کااندیشہ ہو تونکلنادرست نہیں، احمدبن غنیم بن سالم ازہری لکھتے ہیں:

’’اس کے نکلنے سے فتنہ کاخوف نہ جاتاہو‘‘(الفواکہ الدوانی: ۲؍۴۰۹)۔

اگران شرطوں کوملحوظ رکھ کرعورت نکلتی ہے توبیان کردہ امورکے لئے نکلنادرست ہے، ورنہ نہیں۔

(ج) نوافل کی انجام دہی میں

    تیسراامر، جس میں شوہرکی اطاعت ضروری ہے، وہ ’نوافل کی انجام دہی‘ ہے، اگرشوہرگھرپرموجودہوتوبیوی کے لئے درست نہیں کہ اس کی اجازت کے بغیرایسے نوافل کااہتمام کرے، جس کی وجہ سے شوہرکوپریشانی لاحق ہوجائے؛ کیوں کہ شوہرکے حق کی ادائے گی واجب ہے اورواجب کی ادائے گی نفل کی ادائے گی سے زیادہ ضروری ہے، اللہ کے رسولﷺنے فرمایا:

’’شوہرکی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیربیوی روزہ نہ رکھے‘‘(صحیح البخاری، باب صوم المرأۃ بإذن زوجہا تطوعاً، حدیث نمبر: ۵۱۹۲)۔

    ایک دوسری حدیث میں’نفل‘ کی صراحت کے ساتھ اس طرح وارد ہوئی ہے:

’’رمضان کے علاوہ کسی دن شوہرکی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیربیوی نفلی روزہ نہ رکھے‘‘(سنن الدارمی، باب النہی عن صوم المرأۃ تطوعاً إلابإذنہ، حدیث نمبر: ۱۷۶۱)۔

    جمہورعلماء کے نزدیک روزہ نہ رکھنے کایہ حکم لازمی ہے، حافظ ابن حجرؒ لکھتے ہیں:

’’ بیوی پرمذکورہ روزہ کے حرام ہونے پرروایت الباب دلیل ہے‘‘(فتح الباری، باب لاتأذن المرأۃ فی بیت زوجہا لأحد؛ إلابإذنہ،حدیث نمبر:۵۱۹۲)۔

(د) شوہرکامال کسی کونہ دینے میں

    چوتھاامر، جس میں شوہرکی بات ماننا ضروری ہے، وہ ’شوہرکامال کسی کونہ دینا‘ہے، یعنی جس مال کی پوری ملکیت شوہرکوحاصل ہو، اس مال میں اس کی اجازت کے بغیربیوی کے لئے تصرف کرنادرست نہیں، اللہ کے رسولﷺکافرمان ہے:

’’سن لو، کسی خاتون کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے شوہرکامال اس کی اجازت کے بغیرکسی کودے‘‘(مسندأبی داودالطیالسی، حدیث نمبر: ۱۲۲۳، السنن الکبری للبیہقی، حدیث نمبر: ۷۸۵۶)۔

(ھ) فرائض کی ادائے گی میں

    پانچویں چیز، جس میں شوہرکی بات ماننی ضروری ہے، وہ ’فرائض کی ادائے گی‘ میں ہے، اگرشوہرفرائض کی ادائے گی کاحکم دے رہاہے تواس کی ادائے گی ضروری ہے، جیسے: نماز وروزہ کی تلقین ، اگران امورمیں بیوی شوہرکی بات نہیں مانتی ہے توشوہرکوحق تادیب حاصل ہے، ابراہیم حلبیؒ لکھتے ہیں:

’’اسی طرح شوہرکوحق ہے کہ وہ بیوی کونماز اورغسل(فرض) کے ترک پرمارے‘‘(حلبی صغیر،ص:۲۷۰)۔

(ط) حرام امور سے بچنے میں

    چھٹی چیز، جس میں شوہرکی بات ماننی ضروری ہے، وہ ’حرام سے بچنے میں‘ ہے، اگرشوہرحرام چیزوں سے بچنے کاحکم دے تواس کی بات ماننا ضروری ہے،جیسے: بے پردگی سے روکے تورکناضروری ہے، اگربیوی اس سلسلہ میں شوہرکی بات نہ مانے تووہ گناہ گارہوگی۔

    مذکورہ اموروہ ہیں، جن میں شوہرکی اطاعت بیوی پرلازم ہے، اطاعت نہ کرنے کی صورت میں وہ گناہ گارہوگی؛ البتہ اگرشوہرشریعت کے خلاف کسی کام کوانجام دینے کاحکم دے توایسی صورت میں بیوی پرشوہرکی اطاعت لاز م نہیں، اللہ کے رسولﷺکاارشاد ہے:

’’پسندیدہ وناپسندیدہ چیزوں میں مسلمان شخص پراس وقت تک سمع وطاعت لازم ہے، جب تک کہ گناہ کاحکم نہ دیاجائے، اگرگناہ کاحکم دیاگیاتوسمع وطاعت لازم نہیں‘‘(سنن الترمذی، باب ماجاء لاطاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق، حدیث نمبر: ۱۷۰۷)۔

    ایک دوسری حدیث میں ہے، نبی کریم انے فرمایا:

’’اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرکے مخلوق کی اطاعت نہیں ہوگی‘‘(مسنداحمد، حدیث نمبر: ۱۰۹۵)۔

    لہٰذا اگرشوہرشریعت کے خلاف کسی بات کاحکم دے توبیوی کے لئے شرعی طورپراس کاماننادرست نہیں ۔

۲- عزت وعصمت کی حفاظت

    عورت کے لئے سب سے قیمتی شئی اس کی عزت ہوتی ہے، اسی عزت کی حفاظت کے لئے ہی بالغ ہونے کے بعد شادی کی سنت ادا کی جاتی ہے، شادی کے بعداللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کی حصاربندی خواہش کی تکمیل کے جائز طریقہ سے کردی ہے، لہٰذا ایسی صورت میں اس طریقہ کے علاوہ کسی اورطریقہ پرخواہش کی تکمیل کرناشناعت اورجرم دونوں اعتبارسے کئی گنابڑھاہواہے، یہی وجہ ہے کہ شادی کے بعد بدکاری کی صورت میں’’سنگ سار‘‘کرنے کی سزادمتعین کی گئی ہے،اللہ کے رسولﷺکی خدمت میں ایک شخص حاضرہوااوراس نے چارمرتبہ اقرارکیاکہ اس نے زناکیاہے تواللہ کے رسولﷺنے صحابہ سے فرمایا:

’’اس کولے کرجاؤ اورسنگ سارکردو‘‘(صحیح البخاری، حدیث نمبر: ۷۱۶۷)۔

حضرت عمرؓ کاارشادہے:

’’سنو! شادی شدہ زناکرنے والے کے لئے رجم کی سزابرحق ہے، جب کہ گواہی قائم ہوجائے، یاحمل ظاہرہوجائے یاوہ اعتراف کرلے‘‘(صحیح البخاری، حدیث نمبر: ۶۸۲۹)۔

    شادی کے بعدعورت پرلازم ہے کہ وہ اپنی عزت صرف اپنے شوہرکے حوالہ کرے، کسی اورکے سامنے ہرگزہرگزاپنی عزت نیلام نہ کرے، اللہ کے رسولﷺ نے عورت کے اس لازمی ذمہ داری کوبتلاتے ہوئے فرمایا:

’’تمہاراان(بیویوں)پرحق یہ ہے کہ وہ اپنے بستروں کوکسی ایسے شخص سے نہ رُندوائیں، جس کوتم ناپسندکرتے ہو‘‘(صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۱۲۱۸)۔

    یعنی کسی اجنبی شخص(غیرمحرم) کوہرگزاپنے گھرآکراپنے بستروں پربیٹھنے کی اجازت نہ دیں، علامہ خطابیؒ فرماتے ہیں:

’’اس کے معنی یہ ہیں کہ مردوں میں سے کسی کوداخل ہونے کی اجازت نہ دیں کہ وہ ان کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرے‘‘(معالم السنن: ۲؍۲۰۰)۔

    جب اجنبی(غیرمحرم) کے لئے گھرکے اندرلانے کی اجازت نہیں تواس کے پاس عزت نیلام کرنے کی اجازت کیسے ہوگی؟لہٰذا عورت پرفرض ہے کہ وہ اپنی عزت وعصمت کی حفاظت کرے کہ اب صرف تنہااس کی عزت نہیں رہی؛ بل کہ اس کے شوہرکی عزت بھی بن چکی ہے؛ حتی کہ اگروہ شوہرکی اجازت کے بغیرکسی غیرمحرم کوگھرکے اندرداخل ہونے کی اجازت دیدے توشوہرکوشریعت کی طرف سے یہ حق حاصل ہے کہ اس کی تادیب کرے، اللہ کے رسولﷺنے فرمایا:

’اگروہ دوسروں کوگھرآنے کی اجازت دیں توانہیں چوٹ نہ پہنچانے والی مارمارو‘‘(صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۱۲۱۸)۔

۳- رضاعت (بچہ کودودھ پلانا)

    عورت کی ایک ذمہ داری یہ بھی ہے کہ بچہ کودودھ پلائے، اللہ تعالیٰ ارشادہے:

’’اورمائیں اپنے بچوں کوپورے دوسال تک دودھ پلائیں‘‘۔(البقرۃ: ۲۳۳)

    یہ ذمہ داری واجبی ہے یانہیں، اس سلسلہ میں علماء کے درمیان اختلاف پایاجاتاہے؛ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ درج ذیل صورتوں میں اس ذمہ داری کااداکرناواجب بن جاتاہے:

۱- ماں کے علاوہ دودھ پلانے والی کوئی دوسری خاتون موجودنہ ہو۔

۲- بچہ ماں کے علاوہ کسی اورکادودھ نہ پیتا ہو ----- امام رازی ؒ لکھتے ہیں:

’’عدم وجوب کاحکم اس وقت تک ہے، جب تک بچہ کی حالت اضطراری کیفیت تک نہ پہنچے؛ لیکن اگربچہ کی حالت اضطراری کیفیت تک پہنچ جائے، جیسے: دودھ پلانے والی ماں کے علاوہ کوئی نہ ہو، یابچہ ماں کے علاوہ کسی کادودھ نہ پیتاہو، ایسی صورت میں بیوی پرواجب ہے کہ وہ بچہ کودودھ پلائے‘‘(مفاتح الغیب:۶؍۴۶۹)۔

۳- اسی طرح با پ اتناتنگ دست ہوکہ کہ بچہ کے دودھ کی اجرت ادانہ کرسکتاہو--علامہ شامیؒ فتاوی خانیہ کے حوالہ سے لکھتے ہیں:

’’اگرباپ اوربچہ کے پاس مال نہ ہوتوبالاتفاق ماں کوبچہ کے دودھ پلانے پرمجبورکیاجائے گا‘‘(رد المحتار، مطلب فی إرضاع الصغیر: ۵؍۳۴۷)۔

۴- سوگ

    جب مردوعورت رشتۂ زواج میں منسلک ہوجاتے ہیں تووہ ایک دوسرے کے لئے لباس بن جاتے ہیں، ہرایک دوسرے کے دکھ دردمیں شریک ہوتاہے، ظاہرہے کہ اس طرح کا جیون ساتھی اگردنیاسے چلاجائے توفطری طورپرغم ہوگا، اس غم کوہلکاکرنے اوررحم کی فراغت کے لئے شریعت نے بیوی پرسوگ کاحکم دیاہے، اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

’’اورتم میں سے جووفات پاجائیں اور بیویاں چھوڑکرجائیں تووہ بیویاں اپنے آپ کوچارمہینے دس دن انتظارمیں رکھیں گی‘‘(البقرۃ:۲۳۴)۔

    نیزاللہ کے رسولﷺکاارشادہے:

’’کسی ایسی عورت کے لئے جائز نہیں، جواللہ اوریوم آخرت پرایمان رکھتی ہوکہ وہ کسی میت پرتین دن سے زیادہ سوگ منائے سوائے شوہرکے، کہ اس کے لئے چارمہینے دس دن سوگ منائے گی‘‘(صحیح البخاری، باب إحداد المرأۃ علی غیرزوجہا، حدیث نمبر: ۱۲۸۰)۔

    شوہرکی وفات پرچارمہینے دس دن کایہ سوگ مناناشرعی اعتبارسے بیوی پرواجب ہے، علامہ ابن بطالؒ لکھتے ہیں:

’’قرآن اس بات پردلیل ہے کہ شوہروالیوں پرچارمہینے دس دن سوگ مناناواجب ہے‘‘(شرح صحیح البخاری ، باب إحدادالمرأۃ علی زوجہا: ۳؍ ۲۶۹)۔

(جاری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی