میاں بیوی کےحقوق ا ورذمہ داریاں (قسط نمبر: 4)

میاں بیوی ---- حقوق ا ورذمہ داریاں

(قسط نمبر: 4)

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی

مالی حقوق

غیرمالی حقوق کی تفصیلات جان لینے کے بعداب آیئے عورت کے مالی حقوق یعنی شوہرکی مالی ذمہ داریوں پربھی ایک نظرڈالتے چلیں، یہ درج ذیل ہیں:

۱- مہر

یہ عورتوںکاایک بنیادی حق ہے، جس کااداکرناشوہرپر اسی طرح ضروری ہے، جس طرح قرض کی ادائے گی ضروری ہوتی ہے، اللہ تبارک وتعالیٰ کافرمان ہے:

’’اورعورتوں کوان کے مہرخوشی سے دیاکرو‘‘(النساء:۴)۔

ایک دوسری جگہ ارشادہے:

’’ان کو ان کا مقررکیاہوامہراداکرو‘‘(النساء:۲۴)۔

ان دونوں آیتوں میں مہرکی ادائے گی کے لئے امرکے صیغے استعمال کئے گئے ہیں، جووجوب پردلالت کرتے ہیں، یعنی مہرشوہرکے ذمہ ایک ایسی واجب الأدا شئی ہے، جس کے اداکئے بغیرچارہ نہیں؛ حتیٰ کہ نکاح بھی درست نہیں ہوتا، علامہ کاسانیؒ لکھتے ہیں:

’’ہمارے(احناف) کے نزدیک بغیرمہرکے نکاح کاکوئی جواز نہیں‘‘(بدائع الصنائع، فصل فی المہر: ۳؍۴۸۰)۔

نیز مہرکی ادائے گی سے پہلے بیوی کویہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے اوپرشوہرکوقابونہ دے،مشہورحنفی فقیہ برہان الدین ابن مازہؒ لکھتے ہیں:

’’اوراسے شوہرسے اپنے آپ کوروکنے کاحق ہے؛ یہاں تک کہ وہ مہر ادا کردے‘‘(المحیط البرہانی، فی نفقۃ الزوجات: ۳؍۵۱۹)۔

مہر کی مقدار

اب یہاں ایک سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیامہرکے لئے کوئی مقدارمتعین ہے؟ اس سلسلہ میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ مہرکی اکثری(زیادہ سے زیادہ) مقدار کی کوئی تحدیدنہیں ہے، تاہم اس کوپسندیدگی کی نظرسے نہیں دیکھاگیاہے؛ چنانچہ ایک موقع سے حضرت عمرؓ نے فرمایا:

’’سنو! تم لوگ عورتوں کے مہرمیں بے تحاشہ اضافہ نہ کرو؛ کیوں کہ اگریہ دنیامیں عزت یااللہ کے نزدیک تقوی کی بات ہوتی تونبی کریمﷺتم سے زیادہ اس کے حق دارتھے‘‘(مشکل الأثار، اثر نمبر: ۵۰۴۹)۔

البتہ مہرکی کم سے کم مقدارکے سلسلہ میں فقہائے کرام کے مابین اختلاف ہے؛ چنانچہ حضرت امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک کم سے کم مہرکی مقدار دس درہم (احتیاطی طورپربتیس گرام چاندی)ہے، اس سلسلہ میں حضرت علیؓ کے ایک اثر سے استدلال کیاہے:

’’دس درہم سے کم مہرنہیں ہوتا‘‘(مصنف ابن ابی شیبۃ، اثر نمبر:۱۶۳۷۴ )۔

جب کہ حضرت امام شافعیؒ کے نزدیک ہروہ چیز مہربن سکتی ہے، جس کے اندرمبیع بننے کی صلاحیت ہو، ان کی دلیل ایک توقرآن مجیدکی آیت {وأحل لکم ماوراء ذلکم أن تبتغوا بأموالکم}ہے کہ اس کے اندرمطلق مال کاذکرکیاگیاہے، کم سے کم سے یازیادہ سے زیادہ مقدارکاکوئی تذکرہ نہیں کیاگیاہے، نیز حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے ایک صحابی سے فرمایا:

’’(مہر)تلاش کرو، اگرچہ کہ لوہے کی ایک انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو‘‘(بخاری، باب السلطان ولی…، حدیث نمبر:۵۱۳۵)۔

احناف نے اس حدیث کومہرمعجل پرمحمول کیاہے؛ چنانچہ علامہ ابن ہمامؒ لکھتے ہیں:

’’ان تمام احادیث کو، جن سے مہرکے دس درہم سے کم ہونے کی بات معلوم ہورہی ہے، مہرمعجل پرمحمول کیاجائے گا؛ اس لئے کہ عربوں کی عادت دخول سے پہلے مہرکابعض حصہ اداکرنے کی تھی‘‘(فتح القدیر، باب المہر: ۳؍۲۰۶)۔

اس سے یہ نہ سمجھاجائے اگرمہرمعجل ہوتودس درہم سے کم پربھی کام چل جائے گا؛ بل کہ اس کامطلب صرف یہ ہے کہ بیوی کے ساتھ تعلق قائم کرنے سے پہلے مہرکاکچھ حصہ دیاجائے، خواہ اس کی مقداربالکل معمولی ہی کیوں نہ ہو۔

مہر اورہمارا معاشرہ

مہرکے سلسلہ میں ہمارامعاشرہ کارخ کیا ہے؟ یہ کسی اہل نظر سے مخفی نہیں، ہماری اکثریت مہرکومؤجل رکھتی ہے، جس کامطلب ہی یہ سمجھ لیاگیاہے کہ ’’اجَل‘‘(موت) آنے تک بالکل ادانہ کیاجائے اوراس کی موت کے بعد بے چاری کاحق ورثہ سے معاف کروانے کی کوشش کی جاتی ہے اوراپنی موت کے وقت اس کے سامنے آنسوبہاتے ہوئے معافی کامطالبہ کیاجاتاہے، معاشرہ سے اس رخ کودورکرنے کی شدیدضرورت ہے؛ کیوں کہ مہرقرض کی طرح واجب الاداء شئی ہے، لہٰذا اس میں کوتاہی نہیں ہونی چاہئے، ہرشوہرکی خواہش یہ ہوتی ہے کہ اپنی بیوی کے لئے اچھے انتظامات کرے اوراس کے لئے تگ ودو بھی کرتاہے، ایسے شوہروں کوپہلے مہرکی ادائے گی کی فکرکرنی چاہئے، اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے، آمین!

۲- نفقہ

’نَفَقَہ‘انفاق(خرچ کرنا)کااسم ہے، جونفوق سے مشتق ہے، اس کے معنی ’ہلاک ہونے‘ کے آتے ہیں؛ چنانچہ جب جانور ہلاک ہوجائے تو’نفقت الدابۃ‘ کہاجاتاہے؛ چوں کہ انفاق کرنے کی صورت میں مال ہلاک اورخرچ ہوتاہے؛ اس لئے اسے بھی نفقہ کہاجاتاہے، شریعت کی اصطلاح میں نفقہ’’ اس چیزکوکہتے ہیں، جس پر کسی چیز کی بقا موقوف ہو‘‘(دستورالعلماء لقاضی عبدالنبی بن عبدالرسول الأحمد نگری:۳؍۲۸۸) ۔

نفقہ بھی بیوی کاایک بنیادی حق ہے، جوہر شوہرپر واجب ہے، اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

’’بچہ کے پاب پرمعروف طریقہ سے ان عورتوں کانفقہ اورکسوہ ہے‘‘(البقرۃ:۲۳۳)۔

اس سلسلہ میں اللہ کے رسولﷺنے تاکیدی حکم بھی دیاہے؛ چنانچہ آپﷺ نے عورتوں کے حقوق کوبتلاتے ہوئے فرمایا:

’’سنو! تم پران کاحق یہ ہے کہ تم ان کے خورش وپوشش میں حسنِ سلوک کرو‘‘(سنن الترمذی،باب ماجاء فی حق المرأۃ علی زوجہا،حدیث نمبر:۱۱۶۳ )۔

یہی وجہ ہے کہ نفقہ کے وجوب پر اہل علم کااتفاق ہے، علامہ ابن قدامہؒ لکھتے ہیں:

’’جہاں تک اجماع کاتعلق ہے تو شوہروں پر بیویوں کے نفقات کے وجوب پراہل علم کا اتفاق ہے ‘‘(المغنی: ۸؍۱۹۵)۔

چنانچہ اگرکوئی شخص نفقہ کی ادائے گی میں کوتاہی کرتاہے تووہ گناہ گارہوگا، اللہ کے رسولﷺارشادہے:

’’ آدمی کے گنہ گار ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ ان کے حقوق کوضائع کرے، جن کی پرورش کرتاہے‘‘(المستدرک للحاکم، حدیث نمبر: ۸۵۲۶)۔

نفقہ میں شامل چیزیں

اب سوال یہ ہے کہ نفقہ میں کون کون سی چیزیں شامل ہیں؟ اس سلسلہ میں قطعی تحدید وتعیین نہیں کی جاسکتی؛ کیوں کہ اس کاتعلق عرف سے ہے اوراصل چیز ’کفایت‘ ہے، یعنی جن چیزوں سے ضرورت پوری ہوجائے، وہ نفقہ میں شامل ہیں، شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں:

’’جمہورعلماء کے نزدیک درست اورقطعی بات یہ ہے کہ بیوی کے نفقہ کاتعلق عرف سے ہے، یہ شرعی اعتبارسے متعین نہیں ہے؛ چنانچہ علاقہ، زمانہ ، میاں بیوی کے حالات اورعادات کے اعتبارسے مختلف ہوتاہے، اللہ تعالیٰ کاارشادہے: بیویوں کے ساتھ معروف طریقہ پرمعاشرت اختیارکرو‘‘(مجموع الفتاوی: ۹؍۵۴)۔

تاہم پھربھی فقہاء نے ایک حدتک ان کومتعین کرنے کی کوشش کی ہے، جن کی تفصیلات یہ ہیں:

۱- رہائش

شوہرپربیوی کے لئے رہائش کاانتظام کرناواجب ہے، اللہ تعالیٰ کاارشادہے:

’’ان عورتوں کو اپنی حیثیت کے مطابق اسی جگہ رہائش مہیاکرو، جہاںتم رہتے ہو‘‘(الطلاق:۶)۔

رہائش گاہ کے لئے ضروری نہیں ہے کہ وہ شوہرکی ذاتی ملکیت ہو، عاریتاً یا کرایہ پرلیاہوامکان بھی کافی ہے، تاہم معیارکے اعتبارسے مرد وعورت دونوں کی رعایت ہونی چاہئے ، نیز اس مکان میں بیوی کی خواہش کے بغیرکسی اورکورہنے نہ دیا جائے، اسی طرح عصمت وعفت کی حفاظت اورشوہرکے ساتھ استمتاع کے لحاظ سے بھی وہ مامون ہو(بدائع الصنائع:۵؍۱۴۴، فتح القدیر:۴؍۳۵۷)۔

۲- خوراک

خوراک کاانتظام بھی شوہرپرواجب ہے، تاہم اس کی بھی کوئی مقدارمتعین نہیں ہے، بس اس مقدارمیں دیاجائے، جس سے بیوی کی کفایت ہوسکے، اس سلسلہ میں خام سامان بھی دیاجاسکتاہے اورپکاپکایا بھی، اگرعورت کاتعلق ایسے خاندان سے ہے، جہاں کی عورتیں خودکھانابناتی ہیں، وہاں خام سامان فراہم کرنا کافی ہے؛ لیکن اگر اس کاتعلق ایسے خاندان سے ہے، جہاں کی عورتیں خود کھانانہیں بناتیں؛ بل کہ نوکرچاکربناتے ہیں، وہاں پکاپکایا کھانافراہم کرنامردپرضروری ہے۔

سامان فراہم کرنے میں اس بات کابھی خیال رکھاجائے گا کہ پکانے کے لئے جن اشیاء کی ضرورت ہوتی ہے، وہ سب فراہم کئے جائیں، مثلاً: ایندھن اورپانی وغیرہ، اسی طرح خوراک کی فراہمی میں سالن وغیرہ بھی داخل ہے؛ حتیٰ کہ ماحول کے اعتبارسے ہفتہ دس دن یاپندرہ بیس دن میں گوشت کی فراہمی بھی داخل ہے، نیزموجودہ زمانہ میں ریفریجریٹر اورگرانڈروغیرہ بھی نفقہ میں شامل ہیں(المبسوط للسرخسی: ۵؍۱۸۲، قاموس الفقہ: ۵؍۲۰۹)۔

۳- لباس

لباس وپوشاک کاانتظام بھی شوہرپرضروری ہے، اس کے لئے بھی مقداراورنوعیت کی تعیین نہیں کی گئی ہے؛ البتہ سترکے تقاضے کو پورا کرنے والا ہونا ضروری ہے، معیارکے سلسلہ میں بھی مردکی استطاعت اورعورت کے خاندان والوں کی رعایت ضروری ہے، سال میں کم ازکم دو جوڑے بنوا کردیناضروری ہے، کپڑے بنوانے میں موسم کالحاظ رکھنابھی ضروری ہے، اگروقت سے پہلے کپڑاپھٹ جائے توقانوناً شوہرپردوسرابنواکر دینا ضروری نہیں؛ لیکن دیانۃً واجب ہے، لباس میں جوتے چپل اورموسم کی رعایت کرتے ہوئے موزے اوردستانے وغیرہ کی فراہمی بھی شامل ہے(فتح القدیر:۴؍۳۴۸)۔

۴- آرائشی سامان

آرائشی سامان کاانتظام بھی شوہرپرضروری ہے، ان میں سے کچھ چیزوں کاانتظام توواجب درجہ کی ہے، جیسے: تیل، نہانے اوردھونے کاصابن، کنگھی، بدبواوربال زائل کرنے والے کریم وغیرہ، جب کہ بعض چیزیں واجب کے قبیل سے نہیں ہیں، جیسے: سرمہ، کاجل، خضاب وغیرہ، علامہ شامیؒ لکھتے ہیں:

’’اوراس پرصفائی وستھرائی کے سامان اہل شہر کے عرف کے مطابق واجب ہیں، جیسے: کنگھی، تیل، بیری، خطمی، اشنان اورصابون، سرمہ لاز م نہیں، اختیاری ہے، خوشبومیں بدبوکوزائل کرنے والی خوشبوبھی ضروری ہے‘‘(ردالمحتار:۳؍۵۷۹)۔

۵- گھریلوسامان

گھریلوسامان کاانتظام بھی شوہرپرضروری ہے، علامہ حصکفیؒ لکھتے ہیں:

’’شوہرپرآٹاپیسنے کی چکی، پانی کے برتن، پکانے کے برتن، پیالے، گھڑے، دیگچی اورچمچے واجب ہیں‘‘(الدرالمختارمع رد المحتار:۳؍۵۷۹ )۔

۶- خادم کا نظم(اگرعورت ایسے سماج سے تعلق رکھتی ہو، جس میں خدام اورچاکروں سے کام لیاجاتاہو):

گھریلوکام کاج کے لئے بیوی کے خادم کانفقہ بھی شوہرپرواجب ہے؛ البتہ یہ وجوب اس وقت ہے، جب کہ شوہرکی معاشی حالت بہترہو، اگرشوہرکی معاشی حالت بہترنہ ہوتوایسی صورت میں خادم کانفقہ شوہرپرضروری نہیں ، ہدایہ میں ہے:

’’مالدار ہونے کی حالت میںشوہر پر بیوی کے خادم کانفقہ واجب ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ شوہرپراس کی کفایت ضروری ہے اوریہ اس کے اتمام میں سے ہے کہ اس کے لئے ضروری ہے‘‘(ہدایۃ: ۲؍۲۸۷)۔

خادم کے نفقہ میں خوراک ، پوشاک اوررہائش کانتظام شامل ہے۔

موجودہ زمانہ میں خادم اورخادمہ کارواج ختم ہوچکاہے، ایسی صورت میں گھروں میں کام کرنے والے اوروالیوں کی اجرت شوہرکے ذمہ واجب ہے، استاذگرامی حضرت مولاخالدسیف اللہ رحمانی مد ظلہ العالی لکھتے ہیں:

’’موجودہ زمانہ میں جوخادم اورخادمائیں اجرت پررکھے جاتے ہیں، ان کومتعینہ اجرت اداکردیناکافی ہوگا، اسی طرح اس دورمیں بعض ایسی مشینی اشیاء ایجادہوگئی ہیں، جوجزوی اعتبارسے خادم کام کرتی ہیں، جیسے: کپڑے دھلنے کی مشین وغیرہ، توایسے شوہرکے لئے، جومستقل خادم کانظم تونہ کرسکتاہو؛ لیکن اس طرح کی اشیائے ضرورت فراہم کرسکتاہو، تواس کی فراہمی اس پرواجب ہے(قاموس الفقہ: ۵؍۲۰۹)۔

۷- علاج ومعالجہ

بیوی کے علاج ومعالجہ کانفقہ مذاہب اربعہ میں شوہرپرواجب نہیں ہے؛ لیکن یہ اس زمانہ کی بات ہے، جب کہ بیماریاں عام نہیں تھیں اورعلاج کاخرچہ بھی معمولی ہواکرتاتھا؛ اس لئے فقہاء نے علاج کوبنیادی ضرورت میں شمارنہیں کیاتھا؛ لیکن موجودہ زمانہ میں بیماریاں عام ہوچکی ہیں اورعلاج کاخرچہ بھی بہت گراں ہوچکاہے؛ اس لئے عصر حاضر کے علماء نے علاج کے خرچہ کوبھی نفقہ میں شمارکیاہے، ڈاکٹروہبہ زحیلیؒ لکھتے ہیں:

’’میرے سامنے یہ بات ظاہرہوئی کہ علاج گزشتہ زمانہ میں بنیادی ضرورت نہیں تھا؛ چنانچہ انسان کوعموماً علاج کی ضرورت نہ تھی؛ لیکن آج علاج غذا اورکھانے سے زیادہ ضروری ہوچکاہے، لہٰذا ہم شوہرپردواکانفقہ اسی طرح ضروری سمجھتے ہیں، جس طرح دوسرے نفقات ضروریہ کوضروری سمجھتے ہیں‘‘(الفقہ الإسلامی وأدلتہ:۷؍۷۹۴)۔

۸- ہبہ

ہبہ ’’تبرع‘‘ یعنی عطیہ کوکہتے ہیں، شریعت میں ہبہ ’’بلاعوض اشیاء کے مالک بنادینے‘‘ کوکہتے ہیں(الجوہرۃ النیرۃ: ۱؍۳۲۴)، جب آدمی کسی چیزکامالک ہوتواسے اختیارہے کہ وہ کسی کوبھی عطیہ دے، اس میں شرعاً کسی قسم کی کوئی قباحت نہیں۔

شوہراگراپنی زندگی میں بیوی کوکچھ ہبہ کرناچاہے تواس کی گنجائش ہے، نیز اس نیت سے ہبہ کرناکہ میرے بعدبیوی کوکسی قسم کی کوئی مالی پریشانی نہ ہو، ایک مستحسن امرہے؛ البتہ دوسرے رشتہ داروں کومحروم کرکے تمام مال ومتاع بیوی کے نام ہبہ کردینامناسب نہیں، اسی طرح ورثاء کومحروم کرنے کی نیت سے تمام مال بیوی کوہبہ کردیناگناہ کاباعث ہے(مستفادازکتاب الفتاوی: ۶؍۳۱۰ و۳۱۲)۔

موجودہ زمانہ میں چوں کہ بے دینی عام ہے، اخلاقی سطح پربھی لوگوں کاگراف نیچے اتراہواہے؛ اس لئے اگرشوہریہ محسوس کرے کہ اس کی موت کے بعد بیوی کونہ تومیراث دی جائے گی اورناہی مالی اعتبارسے اس کاتعاون کیاجائے گاتوایسی صورت میں شوہرکوذمہ داری محسوس کرتے ہوئے بیوی کے لئے کم از کم میراث کے بقدرضرورہبہ کردیناچاہئے کہ یہ ایک طرح سے بیوی کاحق ہے۔

۹- میراث

میراث میت کے چھوڑے ہوئے ترکہ کوکہتے ہیں، یہاں مرادوہ ترکہ ہے، جوشوہرنے اپنے انتقال کے وقت چھوڑاہو، اس میں دوسرے ورثاء کے ساتھ ساتھ بیوی کابھی حق ہے، شوہرکے ترکہ میں سے بیوی کوجوکچھ بھی ملے گا، اس کی دوصورتیں ہیں:

۱- بیوی کے ساتھ ساتھ شوہرکے بچے بھی ورثاء میں ہوں، ایسی صورت میں بیوی کوترکہ کاآٹھواں حصہ ملے گا۔

۲- بیوی کے ساتھ شوہرکے بچے ورثاء میں نہ ہوں، خواہ دوسرے دیگرورثاء موجودہوں، ایسی صورت میں بیوی کوترکہ کاچوتھائی حصہ ملے گا۔

ترکہ ملنے کی ان دونوں شکلوں کاتذکرہ قرآن مجیدمیں ہے، اللہ تعالیٰ کاارشادہے:

’’بیویوں کے لئے تمہارے ترکہ میں سے اولادکی غیرموجودگی میں ربع(چوتھائی حصہ) ہے اوراولادکی موجودگی میں ثمن(آٹھواں حصہ) ہے وصیت اورقرض کی تکمیل کے بعد(النساء: ۱۲)۔

شوہرکے انتقال کے بعدکے بعداس کے مال میں بیوی کالازمی حصہ ہے، جس کوعلاحدہ کرکے دیناشوہرکے گھروالوں پرضروری ہے، نہ دینے کی صورت میں وہ گناہ گارہوں گے۔

(جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)


1 تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی