میاں بیوی کے حقوق ا ورذمہ داریاں (قسط نمبر:3)

میاں بیوی ---- حقوق ا ورذمہ داریاں

(قسط نمبر: 3)

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی

۵- حسن معاشرت

نکاح کاایک اہم مقصد باہمی سکون اورطمانینتِ قلب ہے، ارشادباری ہے:

’’اللہ کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہی میں سے تمہارے لئے بیویاں پیدا کیں؛ تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرسکو اورتمہارے درمیان رحمت ومودت قائم فرمائی‘‘(الروم:۲۱)۔

ظاہرہے کہ یہ باہمی سکون ، طمانینتِ قلب اورآپسی الفت ومحبت اسی وقت ممکن ہے، جب ’حسنِ معاشرت‘ کاوجودہوگا، جس کاقرآن مجید میں تاکیدی حکم آیا ہواہے، ارشادہے:

’’ان(بیویوں)کے ساتھ معروف طریقہ پرمل جل کررہو‘‘(النساء: ۱۹)۔

حسن معاشرت ایک دوطرفہ حق ہے؛ چنانچہ جس طرح شوہرپرحسن معاشرت ضروری ہے ، اسی طرح بیوی پربھی ضروری ہے، اللہ فرماتاہے:

’’ان عورتوں کومعروف طریقہ کے مطابق ویسے ہی حقوق حاصل ہیں، جیسے (مردوں کو)ان پرحاصل ہیں‘‘(البقرۃ: ۲۲۸)۔

اس کی اہمیت کااندازہ اس سے لگایاجاسکتا ہے کہ جھوٹ عام حالت میں جائز نہیں؛ لیکن بیوی کوخوش کرنے کے لئے جائز ہے، حضرت ام کلثوم بنت عقبہؓ فرماتی ہیں:

’’میں نے اللہ کے رسولﷺکوتین چیزوں کے علاوہ کسی میں جھوٹ کی اجازت دیتے ہوئے نہیں سنا، آپﷺفرماتے تھے: میں اسے جھوٹ نہیں سمجھتا، ایک وہ شخص، جولوگوں کے درمیان صلح کرائے، وہ جھوٹ صرف صلح کی غرض سے کہتاہے، دوسراوہ، جوجنگ میں جھوٹ بولتاہے اورتیسراوہ ، جواپنی بیوی سے جھوٹ کہتاہے اوربیوی اپنے شوہرسے جھوٹ کہتی ہے‘‘(أبوداود، باب فی إصلاح ذات البین، حدیث نمبر: ۴۹۲۱)۔

مسنداحمدکی روایت میں یہ لفظ ہے:

’’آدمی کااپنی بیوی کوخوش کرنے کے لئے جھوٹ بولنا‘‘(مسنداحمد، حدیث نمبر: ۲۷۶۰۸)۔

اس سے معلوم ہوا کہ جھوٹ کی گنجائش بیوی کی تطییب خاطر(خوش کرنے) کے لئے ہو، کسی اورمقصد سے نہ ہو، بالخصوص کسی ایسے مقصد کے لئے تو ہرگز نہ ہو، جس کی وجہ سے میاں بیوی میں سے کسی کوکوئی نقصان پہنچے؛ کیوں کہ نکاح ایک ایسا معاملہ ہے، جس میں میاں بیوی کی طرف سے یہ معاہدہ ہوتاہے کہ ایک دوسرے کونقصان سے بچائیں گے، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے الفاظ میں:

’’اس طورپر کہ دونوں میں سے ہرایک دوسرے کے نفع ونقصان کواپنانفع اورنقصان سمجھے‘‘(حجۃ اللہ البالغۃ: ۱؍۸۹)۔

حسن معاشرت کامطلب صرف یہ نہیں کہ نفقاتِ واجبہ کی ادائے گی کردے اور بس؛ بل کہ صرف اس کے ساتھ کچھ لمحات ایسے گزارے، جس میں اللہ کے سوا کوئی چوتھا نہ ہو، اس کے اندرموجودہ زمانہ کے لحاظ سے یہ بھی داخل ہے کہ کبھی کبھارسیروتفریح کے لئے بھی لے جایاجائے؛ لیکن ایسی تفریح سے بچناضروری ہے، جس میں حرام کے ارتکاب کی نوبت آتی ہو، کبھی شاپنگ اورکبھی آئس کریم پارلر وغیرہ بھی جاناچاہئے کہ موجودہ زمانہ کے اعتبارسے یہ بھی تطییبِ خاطرمیں شامل ہیں، غالباً نبی کریمﷺکے جامع اوربلیغ الفاظ(کیوں باکرہ سے شادی نہیں کی کہ تم اس سے اوروہ تم سے اٹکھیلیاں کرتے؟‘‘(مسلم، باب بیع البعیر واستثناء رکوبہ،حدیث نمبر:۱۱۰)سے بھی اس کی طرف اشارہ ملتاہے۔

آج ہمیں اپنے معاشرہ کاجائزہ لیناہے کہ کیاہم بھی اس طرح حسن معاشرت کا خیال رکھتے ہیں؟ کیاہم نے بیویوں کوصرف گھریلوکام کاج کا ایک روبوٹ نہیں سمجھ رکھاہے، جہاں اس کی ذراسی چوک پرہم آپے سے باہرہوجاتے ہیں؟ کاش! ہم بھی اسلامی تعلیمات کے مطابق حسن معاشرت رکھنے والے بن جاتے، اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے، آمین یارب العالمین!!

۶- خلع

خلع کے لغوی معنی ’’اتارنے ‘‘کے ہیں،قرآن مجیدمیں میاں بیوی کو ایک دوسرے کے لئے ’’لباس‘‘ قراردیاگیاہے، خلع کی صورت میں چوں کہ یہ لباس اتار لیاجاتاہے؛ اس لئے اسے بھی ’خلع ‘ سے تعبیرکرتے ہیں،اصطلاح میں خلع ’’مالی عوض کے بدلہ میں ملکیت نکاح کو(عمومی طورپر)لفظ خلع کے ذریعہ سے ختم کرنے‘‘ کوکہتے ہیں(دررالحکام، باب الخلع: ۱؍۹۸۳)، یہ کبھی لفظ ِ مبارأت(یعنی جملہ حقوق سے بری کرنے کے عوض میں)، کبھی لفظ ِبیع وشراء اورکبھی لفظ ِ طلاق بالمال (مثلاً: شوہرکہے: پانچ ہزارکے بدلہ میں نے تجھے طلاق دی اوربیوی کہے : میں نے قبول کیا)کے ذریعہ سے بھی وجودمیں آتاہے (الدرالمختارعلی ہامش ردالمحتار: ۲؍ ۷۶۶)۔

خلع ملکیتِ نکاح سے خلاصی کاایک ذریعہ ہے، جوطلاق کے مقابلہ میں عورت کاخاص حق اس اعتبارسے ہے کہ وہ بھی شوہرکی رضامندی سے خلع یافتہ ہوسکتی ہے (اور خصوصی حالت میں شوہرکی رضامندی کے بغیرقاضی کی طرف سے مقررکردہ حکم کے ازخودتفریق کردینے سے بھی وہ خلع یافتہ ہوسکتی ہے[جدیدفقہی مسائل:۳؍۲۰۸])، جب کہ تفویض کے بغیروہ طلاق یافتہ نہیں ہوسکتی،اس کامطالبہ عورت اس وقت کرتی ہے، جب کسی وجہ سے شوہرسے اس کی نہیں بنتی اورشوہر طلاق دینے کے لئے تیارنہیں ہوتا، ایسی صورت میں کچھ مال کا فدیہ دے دلاکرشوہرسے چھٹکارہ حاصل کیاجاتاہے، یہ مال عورت پرظلم کی وجہ سے نہیں ہے؛ بل کہ یہ اس مال کے عوض میں ہے، جوشوہرنے شادی کے موقع پرخرچ کئے تھے اورچوں کہ شوہرخودسے طلاق نہیں دے رہاہے؛ بل کہ عورت کی یہ خواہش ہے؛ اس لئے اتنے مال کی قربانی اسے دینی ہوگی، جس پرشوہرطلاق دینے کے لئے راضی ہوجائے، یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہئے کہ خلع کی پیش کش مردکی جانب سے بھی ہوسکتی ہے، مثلا:شوہرکہے کہ : میں نے مہرکے عوض تم کوخلع دیااوربیوی کہے: میں نے قبول کیا توخلع واقع ہوجائے گا (الفقہ الإسلامی وأدلتہ: ۷؍۴۸۰ ومابعدہا، مجموعۂ قوانین اسلامی، ص: ۱۸۱)۔

شادی کامقصدچوں کہ سکون قلبی ہے، لہٰذا جب یہ سکون ختم ہوجائے اور مفاہمت ومصالحت کے ذریعہ سے بھی بات بنتی نظرنہ آئے توزندگی بھرچخ چخ کے بجائے میاں بیوی کے درمیان جدائے گی ہی بہتر ہے؛ چنانچہ عورت کی طرف سے مطالبۂ حلع کی صورت میں مردکی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس کے مطالبہ کو بہ سہولت پوراکردے؛ تاکہ دونوں کی زندگی اُس سکون واطمینان کے ساتھ گزرسکے ، جوشریعت کامطلوب اورمقصودہے۔


(جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)



Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی