ٹریفک نظام-- احکام و مسائل(قسط نمبر:3 آخری قسط) Traffic system - rules and issues (Last Part:3)

 ٹریفک نظام-- احکام و مسائل

(قسط نمبر:3 آخری قسط)

محمد جمیل اخترجلیلی ندوی

سڑک حادثہ اور تاوان

شریعت اسلامی میں جان و مال کی حفاظت کی بڑی اہمیت ہے ، قانونِ اسلامی میں حدود و قصاص کا باب خاص اسی مقصد کے لئے ہی رکھا گیا ہے کہ اگر کوئی ناحق کسی کی جان لے لے تو قصاصاً اسے بھی قتل کیا جائے گا ، الا یہ کہ مقتول کے وارثین صلح پر راضی ہوجائیں ، حجۃ الوداع کے موقع سے اسی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا  :

’’تمہارا خون اور تمہارا مال اسی طرح محترم ہے ، جس طرح آج کا دن‘‘(بخاری : کتاب الحج ، باب الخطبۃ أیام منیٰ، حدیث نمبر : ۱۶۵۴ ، مسلم : کتاب الحج ، باب حجۃ النبیؐ ، حدیث نمبر : ۲۹۴۱ ، ابوداؤد : کتاب الحج ، حدیث نمبر : ۱۹۰۵ ، ابن ماجہ ، حدیث نمبر : ۳۰۷۴) ۔

آج کل جس کثرت سے سڑک حادثات رونما ہورہے ہیں ، شاید اس سے پہلے کبھی ہوتے رہے ہوں ، اب سوال یہ ہوتا ہے کہ کیا ان حادثات پر کچھ تاوان بھی ہے ؟

دراصل سڑک پر ہونے والے حادثات کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں اور ہر صورت کا حکم بھی مختلف ہوگا ، یہاں کچھ صورتیں اور ان کے احکام درج کئے جاتے ہیں  :

اچانک یا پنکچرہوجانے کی وجہ سے ٹکرمارنے حکم

۱-  گاڑی چلانے والا ٹریفک قوانین کی پوری رعایت کرتے ہوئے گاڑی چلارہا تھا کہ اچانک ایک شخص سامنے آگیا اور ڈرائیور کو اتنا بھی موقع نہیں مل سکا کہ بریک لگائے ، کیا اس صورت میں ڈرائیور پر تاوان ہوگا ؟

اس کا جواب یہ ہے کہ چوںکہ یہ صورت ایسی ہے ، جس میں ڈرائیور کی طرف سے قصور نہیں پایا جارہا ہے ؛ بلکہ یہ ڈرائیور کے بس سے باہر کی چیز ہے اور اُصول فقہ کا ایک قاعدہ ہے ، ’’ مالا یمکن الإحتراز عنہ ، لاضمان فیہ‘‘ کہ جس چیز سے بچنا ممکن نہیں ، اس پر ضمان نہیں ہوگا ؛ اس لئے ایسی صورت میں ڈرائیور پر ضمان نہیں ہوگا ، ڈاکٹر وہبہ زحیلی لکھتے ہیں  :

’’اگر جانور بدک جائے یا اپنے سائس سے چھوٹ جائے ، پھر فوری طورپر کچھ نقصان کردے تو اس پر ضمان نہیں ہوگا‘‘(الفقہ الاسلامی وأدلتہ : ۶؍۳۷۳) ۔

یہی حکم اس صورت میں بھی ہوگا ، جب کہ معتدل رفتار سے گاڑی چل رہی ہو اور اچانک پنکچر ہوجائے اور اس سے جانی یا مالی نقصان پہنچے ؛ کیوں کہ گرچہ اس کا ڈرائیور متسبب ( بالواسطہ سبب ) ہے ؛ لیکن قاعدہ یہ ہے کہ متسبب پر اس وقت ضمان ہوتا ہے ، جب کہ تعدی ( زیادتی ) اس کی طرف سے پائی جائے ، ’’ ألمتسبب لا یضمن إلا بالتعدی‘‘ ( مجمع الضمانات : ۱۶۵) اور یہاں ڈرائیور کی طرف سے تعدی نہیں پائی گئی ہے ؛ اس لئے اس پر ضمان نہیں ہوگا ۔

ٹریفک کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ٹکرمارے کاحکم

۲-  ٹریفک کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ، لال بتی کے اشارہ کو توڑ کر گاڑی آگے بڑھانے کی کوشش میں اگر کسی شخص کو ہلاک کردے یا کسی گاڑی سے ٹکرادے تو وہ نقصان کا ضامن ہوگا ؛ کیوں کہ نقصان پہنچانے والا ’’ مباشر ‘‘ ہے اور قاعدہ ’’ ألمباشر ضامن ، وإن لم یکن متعدیاً‘‘ (مجمع الضمانات : ۱۶۵) مباشر یعنی براہ راست نقصان پہنچانے والا ضامن ہوگا ، اگرچہ کہ اس نے تعدی نہ کی ہو ، چنانچہ ’’ مباشر ‘‘ ہونے کی وجہ سے ڈرائیور ضامن ہوگا ؛ لیکن چوں کہ کسی کو مارنے کی نیت نہیں تھی ؛ اس لئے یہ صورت قتل عمد میں داخل نہیں ہوگی اور قصاص کا موجب قرار نہیں پائے گا ؛ البتہ یہ شکل قتل خطاء کی ہے ؛ اس لئے اس پر دو طرح کی سزائیں لازم ہوں گی : ایک حقیقی ( اصلی ) دوسری : ضمنی ( تبعی ) ۔

حقیقی سزا

اس کے تحت دو سزائیں آتی ہیں  :

(الف)  دیت : اور یہ اس کے عاقلہ ( قریبی رشتہ دار یا ہم پیشہ افراد ) پر ہوگی، اس پر فقہاء کا اجماع ہے ۔ (دیکھئے : الإجماع ، لابن المنذر : ۷۴ ، الإفصاح ، لابن ہبیرہ : ۲؍۱۷۵ )

( ب )  کفارہ : یہ خود ڈرائیور کے مال میں لازم ہوگا ؛ کیوںکہ کفارہ ہوتا ہی اس لئے ہے کہ مرتکب کا گناہ ختم ہوجائے یا اس میں کمی آجائے اور یہ چیز دوسرے کے عمل سے حاصل نہیں ہوسکتی ، اس پر بھی اہل علم کا اتفاق ہے ۔ (دیکھئے : درمختار : ۷؍۵۷۴ ، القوانین الفقہیہ : ۳۷۷، مغنی المحتاج : ۴؍ ۱۱۷ ، المغنی : ۱۲ ؍ ۲۲)

ضمنی سزا

اس کے تحت بھی دو طرح کی سزائیں آتی ہیں  :

(الف)  وراثت سے محرومی : مارنے والا ، مرنے والا کا وارث ہے تو وہ ایسی صورت میں وارثت سے محروم کردیا جائے گا ؛ جمہور فقہاء کا یہی نقطۂ نظر ہے ( دیکھئے : بدائع الصنائع : ۷ ؍ ۳۳۷ ، روضۃ الطالبین : ۶؍ ۳۱ ، منار السبل : ۲؍ ۳۱)؛ البتہ مالکیہ اس بات کے قائل ہیں کہ قتل خطاءمیں قاتل وارث بھی ہوگا اور وصیت کا مستحق بھی قرارپائے گا ، اگر اس کے لئے وصیت کی گئی ہو ۔ (دیکھئے : الشرح الکبیر بحاشیۃ الدسوقی : ۶؍۴۹۰، ۵۸۸ ، حاشیۃ العدوی علی شرح الرسالۃ : ۲؍۳۵۶)

ان حضرات کی دلیل آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا قول ’’ لیس لقاتل میراث‘‘قاتل کے لئے کوئی میراث نہیں ہے ۔ (مسند احمد : ۱؍۴۹ ، ابن ماجہ : کتاب الدیات ، حدیث نمبر : ۲۶۴۶)

دوسری بات یہ بھی ہے کہ آج کل پراپرٹی حاصل کرنے کے لئے بسااوقات وارثین جلد بازی سے بھی کام لینے کی کوشش کرتے ہیں ، چنانچہ اگر وراثت سے محروم نہ کیا جائے تو اس طرح کے حادثات کی حوصلہ افزائی ہوگی ، اور خدا ناترس لوگ اپنے مورث کو کسی نہ کسی تدبیر سے دنیا سے رخصت کرنے کی کوشش کریں گے ؛ اس لئے بھی ایسے لوگوں پر سزا لازم ہونی چاہئے ۔

( ب )  وصیت کا استحقاق : ایسے شخص کی وصیت کے استحقاق کے بارے میں فقہاء کی دو رائیں ہیں  :

۱-  ایسا شخص بھی --- اگر اس کے لئے وصیت کی گئی ہے --- تو وصیت کا مستحق قرار پائے گا ، یہ رائے حضرت امام مالکؒ اور حضرت امام شافعیؒ کی ہے ، ان کا کہنا ہے کہ وصیت ایک ایسی تملیک ہے ، جو عقد کے ذریعہ منعقد ہوتی ہے ؛ اس لئے یہ ہبہ کے مشابہ ہے اور جس طرح ہبہ کردینے کے بعد لوٹایا نہیں جاسکتا ، اسی طرح وصیت کردینے کے بعد وصیت رد نہیں ہوگی ، برخلاف وراثت کے ، کہ اس کی تملیک عقد کے بغیر شرعی حکم کے ذریعہ لازم ہوتی ہے ۔ (روضۃ الطالبین : ۶؍۱۰۷ ، حاشیۃ العدوی علی شرح الرسالۃ : ۲؍۲۰۶)

۲-  وراثت کی طرح وصیت سے بھی محروم کردیا جائے گا ، یہ رائے احناف اور حنابلہ کی ہے ، ان حضرات کا کہنا ہے کہ خواہ قتل عمداً ہو یا خطاء ً، بہر صورت وراثت اور وصیت دونوں سے محرومی ہوگی ، ورنہ لوگ اسی کی آڑ لے کر وراثت حاصل کرنے کے لئے قتل کا ارتکاب کرتے رہیں گے ؛ البتہ قصاصاً کسی نے قتل کیا ہے تو ایسا قاتل نہ وراثت سے محروم ہوگا اور نہ ہی وصیت سے ۔ (الدر المختار : ۶؍۶۵۶ ، منار السبل : ۲؍۳۹)

۳-  راہ چلتے ہوئے درگاڑیاں آپس میں ٹکر ا جائیں تو فقہاء کا اس بات پر تو اتفاق ہے کہ دونوں پر ضمان ہوگا  :

’’جب دو سوار آپس میں ٹکرا جائیں اور دونوں کی موت ہو جائے تو دونوں کے عاقلہ پر دیت ہوگی‘‘(ہدایہ : ۴؍۶۱۱) ۔

تاہم فقہاء کا اس بات پر اختلاف ہے کہ ضمان پورا ہوگا یا نصف ؟ حنابلہ اور احناف کا مسلک تو یہی ہے کہ دونوں پر پورا ضمان ہوگا ۔ ( دیکھئے : تکملہ البحر الرائق : ۹؍۱۳۴ ، الإختیار : ۵؍۴۹ ، المغنی : ۱۲؍۵۴۵ ، کشف القناع : ۶؍۷۸ ، المبسوط : ۲۶؍۱۹۳)

ان حضرات کی دلیل وہ روایت ہے ، جو حضرت علی ؓ سے مروی ہے  :

’’دوآدمیوں میں سے ایک اپنے ساتھی کوٹکر ماردے تووہ دیت کاضامن ہوگا‘‘(مصنف عبد الرزاق : ۱۰؍۵۴ ، حدیث نمبر : ۱۳۲۸ ، نیز دیکھئے : مصنف ابن ابی شیبۃ : ۵؍۴۲۳ ، حدیث نمبر : ۲۷۶۲۳

جب کہ مالکیہ اور شوافع کی رائے یہ ہے ہر ایک نصف کا ضامن ہوگا اور نصف دیت عاقلہ (قریبی رشتہ دار یا ہم پیشہ افراد ) پر ہوگی ۔

’’دو سوار یا پیدل چلنے والے ٹکرا جائیں اور دونوں کی موت ہوجائے تو دونوں کے عاقلہ پر نصف دیت ہوگی اور نصف دیت ساقط ہوگی ، یہی امام مالک اورزفر کی بھی رائے ہے‘‘(البیان : ۱۱؍ ۴۶۵ ، نیز دیکھئے : المجموع : ۲۰؍ ۳۴ ، المغنی : ۱۲؍ ۷۵۴۶ ) ۔

یہ مسئلہ اس صورت میں ہے ، جب کہ سڑک بغیر حد (Divider) کے ہو ، عام طورپر جیساکہ دیہاتوں کی سڑکیں ہوتی ہیں ؛ لیکن شہروں کی سڑکیں اس سے مختلف ہوتی ہیں ، درمیان میں حد فاصل ہوتی ہے ، ایک طرف سے آنے کا اور دوسری طرف سے جانے کا نظام ہوتا ہے ، یا پھر (One way) سڑکیں ہوتی ہیں ، ایسی سڑکوں میں حادثہ کا ضمان اس شخص پر ہوگا ، جو غلط سمت پر ہو ، مثلاً آنے کا نظام بائیں سے ہے ، اب اگر کوئی بائیں کے بجائے دائیں سے آئے یا ون وے سڑک میں الٹی سمت سےآئے تو ایسی صورت میں غلط سمت پر آنے والا ذمہ دار ہوگا ۔

نابالغ باشعور بچہ کے ٹکرمارنے کاحکم

۴-  اگر نابالغ باشعور بچہ گاڑی ڈرائیور کرتے ہوئے کسی کو نقصان پہنچادے تو اس کا حکم بالغ شخص کی طرح ہوگا ، یعنی اسے ضامن قرار دیا جائے گا ، ابن نجیم فرماتے ہیں  :

’’صبی محجور ( وہ بچہ جس کو ابھی تصرفات کا اختیار حاصل نہ ہو ) کے افعال قابل مؤاخذہ ہیں ، چنانچہ اگر وہ مال ضائع کردے تو وہ اس کا ضامن ہوگا اور اگر کسی کو قتل کردے تو اس کی دیت اس کے عاقلہ پر ہوگی‘‘(الأشباہ والنظائر ، الفن الثانی اول کتاب الحجر : ۳۰۱ ، نیز دیکھئے : درمختار : ۶؍۱۴۶) ۔

علامہ عمرانی شافعیؒ لکھتے ہیں  :

’’یہ بات ثابت شدہ ہے کہ بچہ اور مجنون دوسرے کے مال کو ضائع کردیں تو ان پر ضمان ہوگا‘‘(البیان : ۶؍۲۳۳ ، نیز دیکھئے : المغنی : ۶؍۶۱۱ ، شرح منتہی الإرادات : ۴؍۱۷۰ ، الشرح الکبیر بحاشیۃ الدسوقی : ۴؍۴۸۰ ، القوانین الفقہیۃ لإبن الجزی : ۳۶۱

اگرکھڑے شخص کوپیچھے سے کوئی ٹکر ماردے؟

۵-  ٹریفک کھلنے کے انتظار میں چوراستہ پر کھڑا تھا کہ پیچھے سے کسی گاڑی والے نے آکر ٹکر ماردی تو تمام فقہاء کے نزدیک پیچھے کی گاڑی والا ضامن ہوگا ۔

’’کوئی شخص جانور ہانک رہا تھا کہ کسی نے اس کو بدکا دیا ، ہانکنے والے کے قابو سے نکل کر کسی کو نقصان پہنچادے ، تو اس نقصان کا ضمان ناخس پر ہوگا‘‘(ہندیہ : ۶؍۵۱ ، نیزدیکھئے : بدائع الصنائع : ۶؍۳۴۷ ، ط : دارالفکر ، بیروت ، نہایۃ المحتاج : ۸؍ ۳۹ ، المغنی : ۱۲؍ ۵۴۴ ، ہدایہ : ۸؍ ۱۴۲ ، کتاب الجنایات ، ط : ادارۃ القرآن ، کراچی ، الذخیرۃ : ۱۲؍۲۶۵) ۔ 

یہی فتویٰ مکہ مکرمہ کے لجنۃ الائمۃ للبحوث العلمیۃ والإفتاء نے بھی دیا ہے ۔ (دیکھئے : مجلہ البحوث الاسلامیہ ، شمارہ : ۲۶ ، شائع شدہ : ۱۴۱۰- ۱۴۰۹ھ )

اسی صورت میں پیچھے کی گاڑی کی ٹکر کی وجہ سے کئی گاڑیاں ٹکرا جائیں تو پہلی جس گاڑی نے ٹکر دی ، اس کا ڈرائیور ضامن ہوگا ۔

’’اگر ( ٹکرانے والے ) سواروں کی تعداد کئی ہوجائے تو ضمان پہلے والے پر ہوگا‘‘(الشرح الصغیر : ۴؍۵۰۹ ) ۔

مذکورہ بالا صورتیں قتل عمد کی نہیں ہیں ؛ بلکہ یہ قتل خطاء کے تحت آتی ہیں؛ اس لئے ان صورتوں میں ضمان کے طور قتل خطاء کی سزائیں لازم ہوں گی ، تاہم اگر قتل عمد کی کوئی شکل پیش آجائے اور جان بوجھ کر مارنے کی نیت ہی سے ٹکر ماری جائے تو پھر اس صورت میں ایسے شخص پر قتل عمد کی سزا یعنی قصاص لازم ہوگا یا پھر مقتول کے ورثہ صلح کے ذریعہ دیت پر راضی ہوجائیں تو دیت لازم ہوگی اور اگر بالکل معاف کردیں تو کچھ بھی لازم نہ ہوگا ۔ (دیکھئے : الإفصاح : ۲؍۱۵۸ ، رحمۃ الأمۃ فی اختلاف الأئمۃ : ۲۶۲)

یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہئے کہ چوں کہ ہندوستان اسلامی مملکت نہیں ہے اور اکثر و بیشتر ایسے حادثات میں حکومت مالی جرمانہ عائد کرتی ہے ؛ لہٰذا حکومت کے قانون پر عمل کرتے ہوئے مال ہی لیا جائے گا اور اگر حکومت خود بھی اپنی طرف سے مال دے تو اسے بھی لینا جائز اور درست ہے ، مفتی عبد الرحیم لاجپوریؒ فرماتے ہیں  :

’’اگر یہ ثابت ہوجائے کہ اسکوٹر سوار بالکل بے قصور تھا ، ٹرک ڈرائیور ہی قصوروار تھا تو عدالت اگر مجرم سے کچھ رقم دلوائے تو بقدر نقصان رقم لینا جائز ہے‘‘ ۔ (فتاویٰ رحیمیہ : ۱۰؍۴۵۱)

یہ تھا ٹریفک نظام کے تعلق سے شریعت کی رہنمائی، اب ہم پرضروری ہے کہ اس رہنمائی کا لحاظ کرتے ہوئے ڈرائیونگ کریں اوراگرخدا نخواستہ کوئی حادثہ پیش آجاتاہے(اللہ نہ کرے کہ ایسا ہو)تومذکورہ شرعی رہنمائی پر عمل کریں، اللہ ہمیں توفیق دے، آمین، واﷲ اعلم بالصواب !



Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی