قربانی کا پیغام

قربانی کا پیغام

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی


’’ماہ ذی الحجہ کاایک خاص عمل ’’قربانی‘‘ ہے، جودراصل یادگارہے ایک محبوب ومحب کے انتہائی درجہ کے تعلق کا، ایساتعلق، جس کی نظیرنہ آج تک پیش کی جاسکی اورنہ آئندہ اس کاامکان ہے، یہ یادگارہے اس محبوب کے عمل کا، جنھیں دنیا ’’ابراہیم‘‘(علیہ السلام )کے نام سے جانتی ہے، جب آپ کی عمربڑھاپے کوپہنچی تواللہ تعالیٰ نے ایک بچہ کی سعادت سے سرفراز فرمایا، جب بچہ بڑاہوااورباپ کی آنکھوں کاتارا بن گیاتواُس بچہ کوراہِ خدامیں نذرکردینے کاپیغام دیاگیا، حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی ایک ثابت قدم محبوب نکلے، محب کے ہرامتحان میں اُسی کی توفیق سے کامیاب ہوتے چلے گئے؛ چنانچہ اپنی بے لغزش قدموں سے چلتے ہوئے نورِنظرکوساتھ لے کرمقامِ مِنیٰ پہنچے اورزمین پرلِٹاکربسم اللہ پڑھتے ہوئے حلقوم پرچھُری چلادی،حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ حکم بجا آوری محب کی بارگاہ میں شرفِ قبولیت سے سرفراز ہوئی اورمژدہ سنایاگیا:’’ائے ابراہیم! تو نے اپناخواب سچ کردکھایا‘‘،پھررہتی دنیاتک کے لئے اس کی یادکاجشن منانے کاحکم دے دیاگیا، ارشاد ہوا:’’اپنے رب کے لئے نماز پڑھئے اورقربانی کیجئے‘‘،اللہ تعالیٰ کے اسی امراورحضرت ابراہیم علیہ السلام کی اسی یادکومنانے اوراُس کوتابندہ رکھنے کے لئے نبی آخرالزماں حضرت محمدمصطفیﷺ نے بہ نفسِ نفیس قربانی کااہتمام فرمایا اور امت کوبھی اہتمام کرنے کاحکم فرمایا، ارشاد ہوا:’’گنجائش کے باوجود جوشخص قربانی نہ کرے، وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے‘‘ ۔

قربانی کاپیغام

’’قربانی صرف یہ نہیں ہے کہ ہم مال خرچ کرکے جانورخریدلیں اوراللہ کانام لے کرذبح کردیں؛ بل کہ قربانی میں کئی طرح کی قربانیاں شامل ہیں:

نفس کی قربانی

۱- نفس کی قربانی:سب سے پہلی قربانی تونفس کی قربانی ہے، انسان کی خواہشوں کی فہرست طویل ہوتی ہے، پھران میں گناہ کی طرف میلان کچھ زیادہ ہوتاہے، اسی خواہش اورمیلان کوکچلنا’’نفس کی قربانی‘‘ کہلاتا ہے، جب تک یہ قربانی نہیں پائی جائے گی، اس وقت تک ہم حقیقی طورپرمسلمان بھی نہیں کہلا سکتے ؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ کاحکم ہے: ’’اے ایمان والو! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ‘‘ اورآج ہماراعمل ’’آدھاتیتر، آدھابٹیر ‘‘والاہے، روزہ رکھنے کااہتمام کرتے ہیں تونمازیں جاتی رہتی ہیں، نمازوں کی پابندی کرتے ہیں توزکات رہ جاتی ہے، اگرظاہری طورپرکچھ عمل ہوجاتاہے توباطنی طورپرکچھ نہ کچھ گڑبڑرہتاہے ، نمازروزوں کی حفاظت کرتے ہیں توزمین جائیداد ہڑپ کرنے سے نہیں چوکتے،(الاماشاء اللہ) اوریہ سب نفس کی قربانی چاہتے ہیں، اسی لئے اللہ کے رسولﷺ کے پاس جب کچھ لوگ ایک جہادسے واپس آئے توفرمایا:’’تمہاراآنامبارک ہو، تم چھوٹے جہادسے بڑے جہاد)یعنی بندہ کااپنی خواہشات)کی طرف لوٹ کرآئے‘‘۔

اس سے معلوم ہواکہ نفس کی قربانی بہت اہم اورضروری ہے، جس کاآسان طریقہ’’ تقویٰ‘‘ اختیارکرناہے؛ یہاں تک کہ’’ نفس امارہ‘‘ کی حالت بدل کر’’نفس لوامہ‘‘ میں منتقل ہوجائے اورپھرمزیدترقی کرکے’’ نفس مطمئنہ‘‘ کی منزل تک پہنچ جائے، اس کے لئے ہمیں کوشش کرنے کی ضرورت ہے، اگر ہم کوشش کریں گے تو اللہ تعالیٰ راستہ کھول دے گا، اللہ تعالیٰ کاارشادہے: ’’جولوگ ہمارے سلسلہ میں کوشش کرتے ہیں، ہم ان کے لئے اپنے راستے کھول دیتے ہیں اوراللہ محسنین کے ساتھ ہے‘‘۔

جان کی قربانی

۲- جان کی قربانی:دوسری قربانی جان کی قربانی ہے، جان کی قربانی سے مرادیہ ہے کہ جب دین کو، وطن کو، گاؤں اورمحلہ کواوراپنے گھرکوبچانے کے لئے جان قربان کرنے کاموقع آئے توسرپرکفن باندھ کر، جان ہتھیلی پرلے کرہم پیش پیش رہیں، جبن وبزدلی ہرگزنہ دکھائیں، دشمن کامقابلہ ڈٹ کرکریں، منھ توڑجواب دیں، جانورکی قربانی کرتے وقت اس قربانی کابھی تصورکریں؛ تاکہ ہمارے اندرجان قربان کرنے کاجذبہ پیداہو۔

اولادکی قربانی

۳- اولادکی قربانی:تیسری قربانی اولادکی قربانی ہے، آج مادیت کادورہے، مادیت نے ہرنگاہ کوخیرہ کرکے رکھ دیاہے، ایسے وقت میں بچہ کی پیدائش کے بعد سے ہی والدین یہ فیصلہ لیتے ہیں کہ بچہ کومادیت کے حصول کے طریقے اور گرسکھائیں گے، تعلیم اسی طرزپردلاتے ہیں، ہنراسی کے سکھاتے ہیں، اس چکرمیں اس خالق سے غافل ہوجاتے ہیں، جس نے شئے غیرمذکورسے قابل ذکربنایا، ایسے وقت میں ضرورت ہے کہ اولادکومادیت کے راستے سے ہٹاکراللہ کے راستہ سے جوڑیں، یہ اولادکی قربانی ہے، نیزجب واقعتاً جان لٹانے کی ضرورت پیش آئے تو جگرمیں یہ جذبہ ہوکہ اپنے بچے کوبھی قربان کردے۔

وطن کی قربانی

۴- وطن کی قربانی:چوتھی قربانی وطن کی قربانی ہے، جہاں پیداہوا، جہاں پرورش ہوئی، جس سرزمین کی دھول میں کھیلاکودا، وہاں سے محبت ایک فطری امرہے، بعض دفعہ ایسے وطن کوخیربادکہہ دینے کی ضرورت پڑتی ہے، نبی ﷺاورصحابہ کرام نے اپنے وطن کوخیربادکہاہے، خودحضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپناوطن چھوڑناپڑاہے، ہمیں بھی یہ قربانی دینے کے لئے تیاررہناچاہئے کہ جب دین پرچلنادشوارہوجائے توایسے وطن کوخیربادکہہ کرایسی جگہ کارخ کریں، جہاں دین پرسلامتی کے ساتھ عمل پیرارہ سکیں۔

عیدالاضحی کی قربانی ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ ہم ان سب قربانیوں کے لئے اپنے آپ کوتیاررکھیں اورحسب موقع یہ قربانیاں دینے سے نہ چوکیں، اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطافرمائے، آمین!


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی