حلف الفضول کی عصری معنویت

معاہدۂ حلف الفضول کی عصری معنویت

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی 


نظم ونسق کوبرقراررکھنے اوراقتصادی ترقیات کے لئے بعض دفعہ اڑوس پڑوس اوربعض دفعہ دورکے لوگوں کے ساتھ عہدوپیمان کئے جاتے ہیں، اس میں بعض امور کی انجام دہی اوربعض امورکے نہ کرنے کی بات پر عمل درآمدگی کا عہداورمعاہدہ ہوتاہے؛ چوں کہ ہرفردکی فطرت میں’’ہل من مزید‘‘ کی صفت ودیعت کی گئی ہے؛ اس لئے کسی بھی کام کی انجام دہی میں انسان ’’زیادتی‘‘کاطالب ہوتاہے۔

معاہدہ کی ضرورت کیوں؟

دولت مندشخص کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ اس کے پاس اورزیادہ دولت آئے، اس کے لئے وہ غصب اورجھوٹ کابھی بسااوقات سہارالے لیتا ہے، ایک بادشاہ کی چاہ یہ ہوتی ہے کہ اس کے ملک کے رقبہ میں دوچنداضافہ ہو، اس کے لئے وہ جنگ وجدال اورقتل وقتال کابازاراگرم کرنے سے بھی نہیں چوکتا،جان ومال کاضیاع کے ساتھ ساتھ اس کانتیجہ یہ ہوتاہے کہ طاقت ورکمزورپرچڑھ بیٹھتاہے،ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں کسی ایسے معاہدہ کی ضرورت ہوتی ہے، جس کی روسے باہم دست وگریباں ہونے سے بچاجاسکے، کوئی کسی پرظلم نہ کرے؛ بل کہ اپنے اپنے دائرہ میں رہتے ہوئے ترقی کی راہیں تلاشتے رہیں۔

حلف الفضول کا معاہدہ

’’حلف الفضول‘‘بھی ایک معاہدہ کانام ہے، جس میں ظلم کے خلاف متحدہ آوازاٹھانے کاعہدکیاگیاتھا،اس کاسبب یہ بتایاجاتاہے کہ یمن کاایک زبیدی ایک شخص نے بنوسہم کے عاصی بن وائل کے ہاتھ اپناسامان فروخت کیا، اس نے سامان لے لیا اوررقم ادا نہیں کی، یہ دیکھ کریمنی نے سامان کامطالبہ کیاتواس نے دینے سے انکارکردیا ، اب یمنی نے آخری چارۂ کارکے طورپرمقام حِجرمیں آکر دہائی لگائی اورقریش کے لوگوں کومخاطب کرکے کہاکہ: ایک مظلوم پردیسی کی مددکرو، جس کا سامان بنوسہم کے ایک شخص نے لے لیاہے، نہ قیمت دیتاہے اورناہی سامان واپس کرتاہے(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام:۱؍۱۷۹، الوفابتعریف فضائل المصطفی لابن الجوزی:۱؍۹۸)۔

اس دہائی کوسن کرعبداللہ بن جدعان اورزبیربن مطلب نے ایک بیٹھک عبداللہ بن جدعان کے گھررکھی، جس میں بنوہاشم، بنومطلب،بنو اسدبن عبدالعزی،بنوزہرہ بن کلاب اوربنوتیم بن مرہ نے شرکت کی(السیرۃ الحلبیۃ:۱؍۲۸۵،سیرۃ ابن ہشام:۱؍۱۳۳)، اس بیٹھک میں اس بات پرمعاہدہ کیاگیاکہ کمزوروں اورمظلوموں کی حمایت کی جائے گی؛ یہاں تک کہ ہرانسان اپنے مال ومتاع اوراہل وعیال پر مطمئن ہوگا(القول المبین فی سیرۃ سید المرسلین لمحمدطیب النجار،ص: ۹۹)۔

حلف الفضول اور نبی کریم ﷺ

اس معاہدہ کے وقت آپ ﷺ تقریباً بیس سال کے تھے اوراس معاہدہ میں آپ بنفس نفیس شریک تھے، یہ معاہدہ چوں کہ مظلوموں کی حمایت جیسے اہم امرتھا؛ اس لئے نبوت کے بعدبھی آپﷺ اس کاتذکرہ بہت ہی اہمیت کے ساتھ کرتے اور فرماتے:’’میں عبداللہ بن جدعان کے گھرہونے والے معاہدہ میں شریک تھا، (اس کے مقابلہ میں) مجھے یہ پسند نہیں کہ میرے لئے عمدہ کے قسم کے اونٹ ہوں اوراگرآج بھی حالت اسلام میں اس (جیسے)معاہدہ کے لئے مجھے بلایاجائے تومیں ضرور آؤں گا‘‘(سنن الکبری للبیہقی، حدیث نمبر: ۱۳۴۶۱)۔

حلف الفضول کی عصری معنویت

آج جب ہم اپنے معاشرہ ؛ بل کہ پوری دنیاکاجائزہ لیتے ہیں تویہ بات کھل کرسامنے آجاتی ہے کہ آج اُس زمانہ سے کہیں زیادہ حلف الفضول جیسے معاہدہ کی ضرورت ہے، آج قدم قدم پرکمزورں کوستایاجارہاہے، طاقت والے لوگ بے طاقت والوں چڑھے جارہے ہیں، جرم کے بجائے صرف شبہ کی بنیادپرلوگوں کوموت کے گھاٹ اتاردیاجارہا ہے، بسااوقات نہتے شخص پرکئی کئی آدمی پل پڑرہے ہیں اور پوری بھیڑ تماش بیں بن کررہ جاتی ہے، کوئی ایک فردبھی آنکھوں کے سامنے خون کی ہولی کھیلنے سے نہیں روکتا، کمزورشخص دہائی دیتارہتاہے، مددکے لئے پکارتارہتاہے؛ لیکن کوئی زبیربن مطلب اورعبداللہ بن جدعان بن کرنہیں کھڑاہوتا۔

اُس زمانہ کولوگ علم کے اعتبارسے تاریک ترین دور(Dark age)اورجہالت کا دورکہتے ہیں، اس جہالت کے باوجودلوگ کے دلوں میں انسانیت باقی تھی، ظلم کے خلاف ایک آواز میں کئی قبائل کے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے، آج کادورعلم کا دورکہلاتاہے، آج کادورتحقیق کادورکہلاتاہے؛ لیکن انسانیت سے لوگ دورہوتے جارہے ہیں، نوبت بہ ایں جارسید کہ لوگوں کااژدحام ظلم کی ویڈیوگرافی میں مشغول رہتا ہے، مظلوم کی مددکے لئے کوئی ہاتھ نہیں بڑھتا، ستم رسیدہ کے لئے کوئی آوازتک نہیں بلند کرتا۔

آج عالمی پیمانے پرروزانہ کسی نہ کسی ملک کاکسی نہ کسی ملک کے ساتھ مختلف معاملات پرمعاہدے ہوتے ہیں، اگرکسی ملک کاکسی ملک کے ساتھ معاہدہ نہیں ہوتاتووہ ظلم کے خلاف معاہدہ نہیں ہوتا، کوئی اس بابت سوچتاتک نہیں، بہت زیادہ اگرکوئی سوچتاہے تووہ اپنے مذہب اورمسلک کے لوگوں کے بارے میں محدودپیمانہ پرسوچتاہے، انسانیت کے نام پرپوری انسانیت کے لئے کوئی نہیں سوچتا، کیاعلم کے دورمیں لوگ انسانیت بھول جاتے ہیں؟ پھرتوجہل کادورزیادہ اچھاہے۔

آج سے ساڑھے چودہ سوسال پہلے جس عبداللہ بن جدعان کے گھرمظلوموں کی حمایت کے لئے لوگوں نے عہدوپیمان کیا، آج ضرورت ہے کہ پھراسی طرح ظالموں کے خلاف مظلوموں کی حمایت میں عہدوپیمان کیاجائے؛ تاکہ علم وتحقیق کے دورکی انسانیت تاریک اورجہل کے دورکی انسانیت کے سامنے شرم سارنہ ہو، کاش! ایساہوجائے!!!

 

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی