ائمۂ اربعہ:مختصرترین سوانح

ائمۂ اربعہ:مختصرترین سوانح

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی


    فقہ وفتاویٰ سے اس طرح تعلق رکھنے والی شخصیات، جن کے پیروکار آج بھی لاکھوں کی تعداد میں دنیا کے اس کونہ سے لے کراس کونہ تک موجود ہیں، ان میں نمایاں ترین نام چارفقہاء کاہے، امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ اورامام احمد بن حنبلؒ ، یہاں انھیں حضرات کامختصرتین تعارف پیش کیا گیا ہے۔

امام ابوحنیفہؒ

     ان کانام نعمان بن ثابت تیمی ہے، سن ۸۹ھ میں کوفہ میں پیداہوئے، وہیں نشوونما ہوئی،ابتدائی علم کلام کی تعلیم وہیں حاصل کی، انھوں نے حمادبن ابوسلیمان(م:۱۲۰ھ) سے فقہ کی تعلیم حاصل کی، اپنے استاذکے ساتھ تقریباً اٹھارہ سال رہے، پھران کی وفات کے بعدان کے مسندتدریس پرجلوہ افروز ہوئے اورتدریس میں نمایاں مقام حاصل کیا، کسب معاش کے لئے کپڑے کی تجارت کیاکرتے تھے، نہایت زیرک اورحاضرجواب تھے، بہت زیادہ متقی اوراللہ سے خوف کھانے والے تھے، اپنے شاگردوں کے ساتھ بہت زیادہ شفقت فرماتے اوران میں سے جومحتاج ہوتے، ان کی مالی امدادبھی کرتے تھے، ولایت قضاء کی ذمہ داری قبول نہ کرنے کی وجہ سے سخت تکالیف کاسامناکرناپڑا، سن ۱۵۰ھ میں کوفہ میں ان کی وفات ہوئی، ان کے نمایاں تلامذہ میں قاضی القضاۃ امام ابویوسف یعقوب بن ابراہیم انصاری (م:۱۸۳ھ)، امام محمدبن الحسن بن فرقد شیبانی ( م: ۱۹۸ھ)، امام زفربن ہذیل بن قیس کوفی بصری( م: ۱۵۸ھ) اورحسن بن زیادکوفی لؤلؤی (م:204ھ)رحمہم اللہ ہیں۔

امام مالکؒ

    ان کا پورانام مالک بن انس بن مالک بن ابوعامراصبحی ہے، ان کاتعلق اصلاً یمن کے ایک قبیلہ’’اصبح‘‘ سے ہے، اس نسبت سے اصبحی کہلائے، ان کے جد امجد مدینہ آکرسکونت پذیرہوگئے تھے، امام مالکؒ کی ولادت سن۹۳ھ میں مدینہ میں ہوئی، انھوں نے عبدالرحمن بن ہرمز، نافع مولیٰ ابن عمر اورابن شہاب زہری رحمہم اللہ سے حدیث، جب کہ ربیعہ بن عبدالرحمن الرائے سے فقہ کی تعلیم حاصل کی، سترشیوخ نے ان کاامتحان لینے کے بعدصرف ۱۷؍سال کی عمرمیں تدریس کی اجازت دیدی، ان کاشہرہ بھی دوردراز تک ہوااورلوگ دوردورسے تحصیل علم کے لئے ان کے پاس آنے لگے، سن ۱۷۹ھ میں ان وفات ہوئی، ان کے نمایاں تلامذہ میں عبدالرحمن بن قاسم مصری(م: ۱۹۱ھ)اور ابومحمدعبداللہ بن وہب مصری(م: ۱۹۷ھ) رحمہم اللہ وغیرہ ہیں۔

امام شافعیؒ

    ان کانام امام ابوعبداللہ محمدبن ادریس بن عباس بن عثمان بن شافع مطلبی ہیں، ان کی پیدائش فلسطین کاعلاقہ غزہ میں ۱۵۰ھ میں ہوئی، آپؒکی نسبت ’’شافعی‘‘ آپ کے جد امجد شافع بن سائب کی طرف منسوب ہے، آپ کے خاندان کااجتماع دسویں پشت (عبد مناف) میں آن حضرت ﷺ سے جاکرملتاہے،پیدائش کے بعد دوسال تک غزہ میں رہے، پھراپنی والدہ کے ساتھ مکہ مکرمہ منتقل ہوگئے، حضرت امام شافعی ؒ کے والد کا انتقال چوں کہ ان کے بچپن ہی میں ہوگیاتھا؛ اس لئے حضرت امام شافعی ؒ کی پوری پرورش ان کی والدہ کے زیرنگرانی یتیمی کی حالت میں ہوئی، سات سال کی عمر میں حفظِ قرآن مجید کی تکمیل کی اوردس سال کی عمرمیں پوری ’’مؤطاامام مالک‘‘ منھ زبانی یاد کرلیا، اسی کے ساتھ ساتھ عربی زبان پرعبور حاصل کرنے کے لئے عرب کے دیہاتوں میں جانے لگے اورخاص طورپرفصاحت میں مشہور’’قبیلۂ ہذیل‘‘ میں کثرت سے آمدورفت ہوتی رہی،پھرفقہ کی طرف متوجہ ہوئے اورمفتی مکہ مسلم بن خالدزنجی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا اورفن فقہ میں بھی صلابت پیداکی، مکہ میں مسلم بن خالدزنجی کے علاوہ داؤدبن عبدالرحمن عطار، خود اپنے چچا محمدبن علی بن شافع، سفیان بن عیینہ، عبدالرحمن بن ابوبکر مُلیکی، سعید بن سالم اورفضیل بن عیاض رحمہم اللہ سے بھی کسبِ فیض کیا، تقریباً ۱۳/سال کی عمر میں حضرت امام مالک ؒ سے اکتسابِ علم کی غرض سے مدینہ کا سفرکیااوروالی ٔمدینہ کی سفارش سے درس میں حاضری ہوئی،پھرکسبِ معاش کی طرف متوجہ ہوئے، اوربڑوں کے مشوروں اوررہنمائی سے یمن کے قاضی مقرر ہوئے، 184ھ میں والی ٔ یمن نے آپ پرشیعیت کا الزام لگایااوردوسرے نولوگوں کے ساتھ دارالخلافہ عراق ہارون رشید کے دربار میں بھیج دیا، جہاں ہارون رشید نے ان کے ساتھ آئے ہوئے تمام نولوگوں کو قتل کرادیا؛ لیکن امام شافعیؒ اپنے دلائل کی پختگی، محمدبن حسنؒ کی گواہی اورفضل بن ربیع کی دفاع کی وجہ سے بری کردئے گئے، جب امام شافعی ؒ عراق پہنچ گئے تو علم کی تشنگی نے انگڑائی لی اوران کے اندر فقہ عراقی حاصل کرنے کاجذبہ پیدا ہوا؛ چنانچہ محمدبن حسنؒ کے درس میں شریک ہوئے اوران سے فقہ عراقی حاصل کی اور اس طرح حضرت امام شافعی ؒ فقہ حجازی اورفقہ عراقی کے جامع بن گئے۔

یہاں سے مکہ مکرمہ واپس آئے اورحرمِ مکی میں درس کاآغاز کیااورتقریباً نوسال تک یہ خدمت انجام دیتے رہے، تدریس کے دوران حجاز وعراق سے کشید کئے ہوئے علوم کے نتیجہ میں اجتہادکے راستے کواپنایااورفقہ حجازی اورفقہ عراقی کے مابین تمیز کرنے والے اصول وقواعدمنضبط کئے، پھر۱۹۵ھ میں دوبارہ بغداد کا سفرکیااوراپنے اس نئے اجتہادی مسلک کی تقریباً دوسال تک نشرواشاعت کرتے رہے،ساتھ ساتھ کتب ورسائل کی تالیف بھی جاری رہی، بغداد کے ہم عصرعلماء سے مباحثے بھی ہوئے ، آپ کی قوت ِ استدلال اورفصاحتِ بیان کی وجہ سے آپ کا حلقۂ درس کافی مشہورہوا، جس کے نتیجہ میں اپنے زمانہ کے بڑے بڑے علماء جیسے: امام احمد بن حنبل، اسحاق بن راہویہ، بشرالمریسی، عبدالرحمن بن مہدی ، ابوثوراورحسین بن علی رحمہم اللہ وغیرہ بھی آپ کے درس میں شریک ہونے لگے اورآپ کی دقتِ نظر، قوتِ استدلال، جلالتِ شان، فصاحتِ بیان اوردفاع عن السنہ والحدیث سے بہت زیادہ متأثرہوئے۔

دوسال کے بعدپھرمکہ لوٹ آئے اوراپنے علم ومذہب اوراصول وقواعدکی تعلیم حرمِ مکی کے صحن میں دینے لگے، ۱۹۸ھ میں تیسری مرتبہ بغداد کاسفرکیا؛ لیکن بعض حکومتی وجوہات کی بنیاد پرصرف آٹھ ماہ ہی وہاں رہ سکے، اس آٹھ ماہ کے دوران اپنے شاگردحسین بن علی کرابیسی کواجازت مرحمت فرمائی، پھر۱۹۹ھ میں بغدادسے مصرکا سفرکیا، مصرپہنچ کرحضرت امام شافعی ؒ کی فقہی زندگی میں نمایاں تبدیلی رونماہوئی، ان کا سابقہ اجتہاد بدل گیااوراُنھوں نے اپنے حجازی اور عراقی اساتذہ کے مسلک سے ہٹ کرایک نئے مسلک کی بنیاد رکھی، دبستانِ حجاز وعراق سے کشید کئے ہوئے علوم کے درمیان چھان پھٹک کی اوران کے مابین تمیز وتصحیح کی راہ اپناتے ہوئے مسجدعمروبن عاص ؓ میں اس کی تدریس شروع کی، یہیں پر اپنی مشہورکتاب’’الأم‘‘ کوبھی اپنے شاگردربیع بن سلیمان مرادی ؒ سے املا کرایا، اپنے شیخ حضرت امام مالک، حضرت امام ابوحنیفہ اورحضرت امام اوزاعی رحمہم اللہ وغیرہ کی آراء پرتنقیدکی اوراپنے مذہب کے اثبات کے سلسلہ میں مناظرے بھی کئے اورفائق وممتاز رہے، مصرمیں جن آراء کوبیان کیا، وہ قولِ جدید کے نام سے موسوم ہوااورمسلک کااصل قول قرارپایا، مصرمیں تقریباً پانچ سال تک آپ اپنے علم وفن اوراصول وقواعدکی نشرواشاعت  کرتے رہے، بالآخر علم وفقہ کا یہ درخشاں سورج رجب 204ھ میں مصر کے اُفق پرغروب ہوگیااورقرافۂ صغریٰ میں ان کی تدفین عمل میں آئی۔

امام احمد بن حنبلؒ

    ان کا نام ابوعبداللہ احمدبن محمدبن حنبل ذہلی شیبانی ہیں، ان کی پیدائش سن164ھ میں علم وفن کے مرکز بغداد میں ہوئی، بچپن ہی میں والد صاحب کاانتقال ہوگیا، حصول علم کے لئے کوفہ، بصرہ، مکہ، مدینہ، شام اوریمن کے علاقوں کاسفر کیا، ابراہیم بن سعداورسفیان بن عیینہ جیسے اصحاب حدیث سے علم حدیث اخذ کیا اور امام شافعیؒ جیسے فقیہ سے فقہ کی تعلیم حاصل کی اوراصول وقواعد میں مہارت پیداکی، خلیفہ مامون، معتصم اورواثق کے زمانہ میں’’خلق قرآن‘‘ کے مسئلہ کی وجہ سے سخت قسم کی آزمائشوں سے گزرناپڑا، ان کی وفات بغداد میں سن 241ھ میں ہوئی، ان کے نمایاں شاگردوں میں ان کابڑابیٹا صالح بن احمدبن حنبل(م: 266ھ)، ابوبکراحمدبن محمدالأثرم(م: ۲۷۳ھ)، عبدالملک بن عبدالحمید بن مہران میمونی(م: 274ھ)، احمدبن محمدابوبکرالمروذی(م: 274ھ)، حرب بن اسماعیل حنظلی کرمانی(م: ۲۸۰ھ) اوران کے دوسرے بیٹے عبداللہ بن احمدبن حنبل (۲۹۰ھ) رحمہم اللہ ہیں۔





Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی