رسول اللہﷺکے حقوق

رسول اللہﷺکے حقوق

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی


اللہ تعالیٰ نے اپنی بہت ساری مخلوقات میں انسانوں کوفوقیت عطاکی ہے، قرآن میں ہے:’’اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ان کو جنگل اور دریا میں سواری دی اور پاکیزہ روزی عطا کی اور اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت دی ‘‘(الإسراء: ۷۰)، پھرانسانوں میں انبیاء اوررسولوں کومنتخب فرمایا، ارشادہے:’’اللہ فرشتوں میں سے پیغام پہنچانے والے منتخب کر لیتا ہے اور انسانوں میں سے بھی، بیشک اللہ سننے والا (اور) دیکھنے والا ہے‘‘(الحج: ۷۵)، پھران میں بعض کوبعض پرفضیلت سے سرفراز فرمایا، ارشاد ربانی ہے:’’یہ پیغمبر (جو ہم وقتًا فوقتًا بھیجتے رہے ہیں) اُن میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے‘‘(البقرۃ:۲۵۳)،دوسری جگہ ہے: ’’اورہم نے بعض نبیوں کو بعض پرفضیلت دی ہے‘‘(الإسراء: ۵۵)۔

انھیں منتخب کئے اورفضیلت دئے ہوئے نبیوں اورسولوں میں آخری نبی حضرت محمدمصطفیﷺبھی ہیں، آپﷺکاارشادہے:’’سات چیزوں کے ذریعہ سے مجھے نبیوں پرفضیلت دی گئی ہے: مجھے جوامع الکلم عطاکیاگیا، رعب کے ذریعہ سے میری مددکی گئی، مال غنیمت کومیرے لئے حلال قراردیاگیا، روئے زمین کومیرے لئے پاک اورمسجدبنایاگیا، تمام مخلوقات کی طرف مجھے بھیجاگیا اور میرے ذریعہ سے نبیوں کے سلسلہ کوختم کیاگیا‘‘(صحیح مسلم،کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، حدیث نمبر:۵۲۳ )، اسی طرح ایک دوسری حدیث میں ہے:’’میں قیامت کے دن اولادآدم کاسردارہوں گا، سب سے پہلے میری قبرکھلے گی، سب سے پہلے میں سفارش کروں گا اورسب سے پہلے میری سفارش قبول کی جائے گی‘‘(صحیح مسلم، باب تفضیل نبیناا،حدیث نمبر: ۲۲۷۸)، ایک اورحدیث میں ہے، اللہ کے رسولﷺنے فرمایا:’’قیامت کے دن میں نبیوں کا امام، ان کاخطیب اوران کی سفارش کرنے والا ہوں گا اوراس میں کوئی فخرکی بات نہیں ہے‘‘(سنن الترمذی، باب فی فضل النبیﷺ، حدیث نمبر: ۳۶۱۳)، ہم اسی افضل نبی کی امتی ہیں، لہٰذا ہمیں اللہ تعالیٰ کے حقوق کے بعدان کے حقوق کے بارے میں ضرورجاننا چاہئے؛ تاکہ ان کی محبت، ان کی عظمت اوران کی اطاعت کاجذبہ ہمارے اندرپیداہو:

پہلا حق: ایمان

ان پرایمان لانے کامطلب یہ ہے کہ ہم اس بات کومانیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں تک اپناپیغام پہنچانے کے لئے بندوں ہی میں سےایک شخص کو چناہے، وہ ہمارے جیسا ہی انسان ہے، بس فرق یہ ہے کہ ان پروحی نازل ہوتی ہے، ان پر کتاب نازل کی گئی ہے، خود اللہ تعالیٰ ان پرایمان لانے کاحکم دیتے ہوئے فرٹاتاہے:

’’ تو اللہ پر اور اس کے رسول پر اور نور (قرآن) پر جو ہم نے نازل فرمایا ہے ایمان لاؤ اور اللہ تمہارے سب اعمال سے خبردار ہے‘‘(التغابن: ۸)۔

دوسری جگہ ارشادہے:

’’مومنو! اللہ پر اور اُس کے رسول پر اور جو کتاب اُس نے اپنے پیغمبر (آخر الزماں) پر نازل کی ہے اور جو کتابیں اس سے پہلے نازل کی تھیں، سب پر ایمان لاؤ اور جو شخص اللہ اور اُس کے فرشتوں اور اُس کی کتابوں اور اُس کے پیغمبروں اور روزِ قیامت سے انکار کرے، وہ رستے سے بھٹک کر دُور جا پڑا‘‘(النساء: ۱۳۶)۔

ایک اورجگہ سچوں کی تعریف کرتے ہوئے ارشادہے:

’’ مومن تو وہ ہیں، جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے، پھر شک میں نہ پڑے اور اللہ کی راہ میں مال اور جان سے لڑے ، یہی لوگ (ایمان کے) سچے ہیں‘‘(الحجرات: ۱۵)۔

ایک نبی امی(بے پڑھے لکھے)پرایمان لانے کاحکم دیتے ہوئے ارشادہے:

’’(اے محمد ا!) کہہ دو کہ لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا بھیجا ہوا (یعنی اُس کا رسول) ہوں، (وہ) جو آسمانوں اور زمین کا بادشاہ ہے، اُس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی زندگی بخشتا اور وہی موت دیتا ہے، تو اللہ پر اور اُس کے رسول پیغمبر اُمّی پر، جو اللہ پر اور اُس کے تمام کلام پر ایمان رکھتے ہیں، ایمان لاؤ اور اُن کی پیروی کرو: تاکہ ہدایت پاؤ‘‘(الأعراف: ۱۵۸)۔

ایک جگہ ارشادہے:

’’اور جو شخص اللہ پر اور اس کے پیغمبر پر ایمان نہ لائے تو ہم نے (ایسے) کافروں کے لئے آگ تیار کر رکھی ہے‘‘(الفتح: ۱۳)۔

اسی طرح ایک حدیث میں فرمایاگیاہے:

’’میری مثال اوراس چیزکی مثال، جس کے ساتھ مجھے مبعوث کیاگیاہے، اس شخص کی طرح ہے، جوایک قوم کے پاس آئے اورکہے: اے میری قوم! میں نے اپنی آنکھوں سے لشکرکودیکھاہے اورمیں کھلاڈرانے والاہوں توبچو، بس ایک قوم نے میری بات مانی اوررات کے ابتدائی حصہ میں نکل پڑے اورسکون کے ساتھ چلتے رہے، توانھیں نجات مل گئی، اوردوسری قوم نے جھٹلایااوراپنی جگہ ٹھہرے رہے، بس صبح کے وقت لشکرنے ان پرحملہ کیااوران تمام کوہلاک کردیا، بس یہ مثال اس شخص کی ہے، جس نے میری اطاعت کی اورمیری لائی ہوئی چیزوں کی پیروی کی اوراس شخص کی ہے، جس نے میری نافرمانی کی اورمیرے لائے ہوئے حق کو جھٹلایا(بخاری،باب الاقتداء بسنن رسول اللہ ﷺ، حدیث نمبر: ۷۲۸۲)۔

ایمان کے مشمولات

پھرنبی پرایمان درج ذیل امورپرمشتمل ہے:

۱- اس بات کی تصدیق کہ انھوں نے اللہ کے پیغام کوبغیرکسی کمی بیشی کے بندوں تک پہنچانے میں کوئی کسرنہیں چھوڑا۔

۲- اس بات کایقین کہ جوسچے اورامانت دار ہیں اوراپنی طرف سے کوئی بات نہیں کہتے، جوکہتے ہیں، اللہ ہی بات کہتے ہیں، قرآن نے اس کی صراحت کی ہے:

’’وہ اپنی خواہش نہیں کہتے، وہ تووحی ہوتی ہے، جوان کی طرف کی جاتی ہے‘‘(النجم: ۳-۴)۔

۳- جھوٹے بڑے ہرطرح کے گناہ سے پاک ہیں۔

۴- ان پرایمان میں یہ بھی داخل ہے کہ ہم اس بات کوبھی تسلیم کریں کہ ان کے بعدکوئی نبی نہیں آنے والا، وہ آخری نبی ہیں، اسی طرح کوئی رسول بھی نہیں آنے والا، نہ کلی، نہ جزئی، نہ ظلی ، نہ بروزی، اللہ تعالیٰ کاارشادہے:

’’محمد (ا) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے والد نہیں ہیں؛ بل کہ اللہ کے پیغمبر اور نبیوں (کی نبوت) کی مہر (یعنی اس کو ختم کر دینے والے) ہیں اور اللہ ہر چیز سے واقف ہے‘‘(الأحزاب: ۴۰)۔

اوراللہ کے رسولﷺسے جب مہرنبوت کے بارے پوچھاگیاتوآپ نے فرمایا:

’’میرے شانوں کے درمیان جویہ تل ہے، وہ مجھ سے پہلے نبیوں کاتل ہے؛ کیوں کہ میرے بعدنہ نبی ہوگااورناہی رسول‘‘(المستدرک علی الصحیحن للحاکم، حدیث نمبر: ۴۱۰۵)۔

دوسرا حق:اطاعت واتباع

نبی کادوسراحق اطاعت واتباع ہے، اس سے مرادیہ ہے کہ نبی کریمﷺنے رب العالمین کی طرف سے جوپیغام ہم تک پہنچایاہے، اس کواس حیثیت سے تسلیم کریں کہ اس میں خودنبیﷺکو بھی کمی بیشی ، یاحلال کوحرام یاحرام کوحلال کرنے کااختیارنہیں، پھررسول اللہﷺنے جوتعلیمات ہمیں دی ہیں، ان کومانیں اوردل سے مانیں، پھران تعلیمات کے مطابق اپنی زندگی گزاریں، دینی اموراورآپ ﷺ کے وہ افعال، جو قانون کادرجہ رکھتے ہیں، ان میں تواطاعت واتباع ضروری ہے، جس کاقرآن وحدیث میں واضح حکم دیاگیاہے، اللہ تعالیٰ کاارشادہے:

’’اے ایمان والو! اللہ اور اُس کے رسول کے حکم پر چلو اور اُس سے روگردانی نہ کرو اور تم سنتے ہو‘‘(الأنفال: ۲۰)۔

دوسری جگہ فرمایاگیاہے:

’’اور جو شخص اللہ اور اس کے پیغمبر کی فرمان برداری کرے گا اللہ تعالیٰ اُس کو جنتوں میں داخل کرے گا جن میں نہریں بہہ رہی ہیں، وہ اُن میں ہمیشہ رہیں گے اور یہ بڑی کامیابی ہے‘‘(النساء: ۱۳)۔

ایک اورجگہ ارشادہے:

’’(اے پیغمبر لوگوں سے )کہہ دو کہ اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میر ی پیروی کرو اللہ بھی تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ معاف کر د ے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے‘‘(آل عمران: ۳۱)۔

حدیث میں فرمایاگیاہے:

’’جس نے میری اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی اورجس نے میری نافرمانی کی، اس نے اللہ کی نافرمانی کی‘‘(بخاری،باب قول اللہ تعالیٰ : وأطیعوااللہ وأطیعوا الرسول وأولی الأمرمنکم، حدیث نمبر: ۷۱۳۷)۔

دوسری حدیث میں ہے:

’’جس نے میری سنت سے اعراض کیا، اس کامجھ سے تعلق نہیں‘‘(کنزالعمال، حدیث نمبر: ۱۸۱۴۶، صحیح ابن خزیمۃ، باب التغلیظ فی ترک سنۃ النبیﷺ رغبۃ عنہا)۔

نبی ﷺ کے وہ افعال، جوقانون نہیں

البتہ آپﷺکے جوافعال قانون کادرجہ نہیں رکھتے، ان میں یہ اطاعت واتباع ضروری نہیں ہے، جن میں درج ذیل امورشامل ہیں:

۱- آپﷺکے وہ افعال، جوتقاضائے بشری کے موافق ہیں، جیسے: اٹھنابیٹھنا، کھانا پینا، چلناپھرناوغیرہ کہ یہ قانون کادرجہ نہیں رکھتے؛ لیکن اگردلیل سے معلوم ہوجائے کہ ان افعال کی اقتداچاہی جارہی ہے، توپھرقانون کادرجہ حاصل ہوجائے گا۔

۲- آپﷺکے وہ افعال، جودنیاوی تجربات سے متعلق ہیں، جیسے: کھیتی باڑی وغیرہ، ان جیسے امورکے لئے خود رسولﷺکافرمان ہے:

’’میں ایک انسان ہوں، جب دین کے تعلق سے کوئی حکم دوں تواسے قبول کرو اورجب اپنی رائے سے کوئی حکم دوں تومیں ایک انسان ہوں‘‘(صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۲۳۶۲)۔

۳- آپﷺکے وہ افعال ، جوآپ کے لئے مخصوص ہیں، جیسے: چارسے زائد شادیاں۔

تیسرا حق: محبت

رسول اللہﷺکاتیسراحق ان سے محبت ہے، یہ ایمان کاجزء ہے، جوشخص ایمان کادعوی کرے اورنبیﷺسے محبت نہ کرے تویہ دعوائے ایمان میں کھوکھلاہے،جب تک آپﷺسے محبت نہ ہو، ایمان کی حلاوت اوراس کی چاشنی مل ہی نہیں سکتی، خودنبیﷺکاارشادہے:

’’جس شخص کے اندرتین چیزیں ہوں گی، اسے ایمان کاحلاوت مل جاگئے گی، (ایک) یہ کہ اس کے نزدیک اللہ اوراس کے رسول کی محبت تمام چیزوں سے بڑھی ہوئی ہو، (دوسرے)یہ کہ کسی سے محبت صرف اللہ کے لئے کرے اور(تیسرا) یہ کہ (اسلام لانے کے بعد) کفرمیں میں واپس جانااسی طرح ناپسند ہو، جیسے آگ میں ڈالا جانا ناپسندہوتاہے‘‘(صحیح البخاری، باب خلاوۃ الإیمان، حدیث نمبر: ۱۶)۔

اللہ تبارک وتعالیٰ نے رسول اللہﷺکی محبت کے تعلق سے فرمایا:

’’کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ اور بیٹے اور بھائی اور عورتیں اور خاندان کے آدمی اور مال جو تم کماتے ہو اور تجارت جس کے بند ہونے سے ڈرتے ہو اور مکانات جن کو پسند کرتے ہو اللہ اور اُس کے رسول سے اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ عزیز ہوں تو ٹھہرے رہو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم (یعنی عذاب) بھیجے اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا‘‘(التوبۃ: ۲۴)۔

دنیاوی اورمجازی دومحبت کرنے والوں کے درمیان جو باہمی ارتباط، میل جول اور شناسائی کی کیفیت ہوتی ہے، وہ کسی سے مخفی نہیں، ناز وانداز وہ اپنایاجاتاہے، جومحبوب کے دل کو بھائے، رفتار وگفتار وہ اختیار کیاجاتاہے، جومحبوب کوپسندہو، انتخاب ِ پوشاک میں بھی پوری پوری اس کی رعایت کی جاتی ہے، گویاہرکام میں اس کی جنبش ِمژگاں کواول کادرجہ دیاجاتاہے، خدانخواستہ محبوب اگرروٹھ جائے تومنانے کی وہ تمام تدبیریں کرلی جاتی ہیں، جوماں باپ کی ناراضگی پربھی کبھی اپنائی نہیں جاتیں؛ لیکن کیا اس محبوب کے بارے میں بھی غورکیا ، جس نے کفر سے نکال کر نورِایمان کی دولت ہمیں عطاکی؟گمراہی سے بچاکر اسلام کے سرسبز وشاداب گلستاں میں ٹھہرایا؟بت پرستی سے نکال کر توحیدکانورعطاکیا؟جس نے ظلم وستم کوعدل ومساوات سے، جوروجفا کو امن وآشتی سے،ظالموں کے پنجہ سے مظلوموں کو چھڑانے والے،بے کسوں اوربے بسوں کوسہارادینے والے،یتیموں کے سروں پر دست ِشفقت رکھنے والے، بیواؤں کی مددکرنے والے،بیماروں کی مزاج پرسی کرنے والے،رنجور وشکستہ دل لوگوں کے ساتھ ہمدردی وغم خواری کرنے والے محبوب؛ بل کہ محبوبوں سے بڑھ کر محبوب، لخت ِجگر اور نور ِنظر سے زیادہ پیارا بھی کوئی ہوسکتاہے؟؟نہیں! نہیں!اللہ کے رسولﷺنے خودفرمادیاہے:

’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن کامل نہیں ہوسکتا، جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے لڑکے، اس کے والد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں‘‘(بخاری، باب حب الرسول من الایمان، حدیث نمبر: ۱۵)۔

محبتِ نبی کاسب سے اہم تقاضایہی ہے کہ ہم زندگی کے تمام شعبوں میں ان کی پیروی کریں؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کوہمارے لئے بہترین اسوہ اورنمونہ قراردیاہے، ارشادہے:

’’تم کو پیغمبر الٰہی کی پیروی (کرنی) بہتر ہے (یعنی) اُس شخص کو جسے اللہ (سے ملنے) اور روزِ قیامت (کے آنے) کی امید ہو اور وہ اللہ کا کثرت سے ذکر کرتا ہو‘‘(الأحزاب: ۲۱)۔

عقل مندی کی بات تویہی ہے کہ بہترین نمونہ کواختیارکیاجائے، نہ کہ غیربہترین کو۔

چوتھا حق: احترام

نبی کریمﷺکاچوتھا حق یہ ہے کہ ان کااحترام کریں؛ کیوں کہ نبیﷺکے ہم پربہت سارے احسانات ہیں، جن کاتذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

’’اللہ نے مومنوں پر بڑا احسان کیا ہے کہ اُن میں انہیں میں سے ایک پیغمبر بھیجا جو اُن کو اللہ کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتا اور ان کو پاک کرتا اور (اللہ کی) کتاب اور دانائی سکھاتا ہے، اور پہلے تو یہ لوگ صریح گمراہی میں تھی‘‘(آل عمران: ۱۶۴)۔

اوردنیاکااصول ہے کہ جوکسی پراحسان کرتاہے، اس کی عزت کی جاتی ہے، توآپﷺکے ان احسانات کاتقاضایہ ہے کہ ہم بھی ان کااحترام کریں، نیز یہ ایمان کابھی تقاـضاہے ؛ کیوں کہ ہم جس نبی کی امتی ہیں، جس کی پیروی اوراطاعت کرنے کاحکم اوپرسے دیاگیاہے اورجس پرایمان لائے بغیر ہماراایمان درست نہیں اورجس سے محبت کئے بغیرہماراایمان مکمل نہیں، ظاہرہے کہ وہ شخصیت قابل احترام بھی ہے اورقابل عظمت بھی، اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

’’تاکہ (مسلمانو!) تم لوگ اللہ پر اور اس کے پیغمبر پر ایمان لاؤ اور اس کی مدد کرو اور اس کو بزرگ سمجھو اور صبح شام اس کی تسبیح کرتے رہو‘‘(الفتح: ۹)۔

دوسری جگہ ارشادہے:

’’وہ جو (محمد ﷺ) رسول (اللہ) کی، جو نبی اُمی ہیں، پیروی کرتے ہیں جن (کے اوصاف) کو وہ اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، وہ انہیں نیک کام کا حکم دیتے ہیں اور بُرے کام سے روکتے ہیں اور پاک چیزوں کو اُن کیلئے حلال کرتے ہیں اور ناپاک چیزوں کو اُن پر حرام ٹھہراتے ہیں اور اُن پر سے بوجھ اور طوق جو اُن (کے سر) پر (اور گلے میں) تھے اتارتے ہیں تو جو لوگ ان پر ایمان لائے اور ان کی رفاقت کی اور انہیں مدد دی اور جو نُور ان کیساتھ نازل ہوا ہے اس کی پیروی کی، وہی مراد پانے والے ہیں‘‘(الأعراف: ۱۵۷)۔

احترام کے مشمولات

پھراحترام میں درج ذیل چیزیں بھی شامل ہوں گی:

۱- ان کانام ادب سے لیاجائے ، اس طرح ان کانام نہ لیاجائے، جیسے ہم آپس میں ایک دوسرے کالیتے ہیں، پھرنام لینے کے بعد صلی اللہ علیہ وسلم کہا اور لکھاجائے، پھراس میں اختصارسے کام نہ چلایاجائے؛ بل کہ پورا پورا لکھا جائے، اللہ تعالیٰ کاارشادہے:

’’مومنو! پیغمبر کے بلانے کو ایسا خیال نہ کرنا جیسا تم آپس میں ایک دوسرے کو بلاتے ہو بیشک اللہ کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں تو جو لوگ ان کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں ان کو ڈرنا چاہئیے کہ (ایسا نہ ہو کہ) ان پر کوئی آفت پڑ جائے یا دردناک عذاب نازل ہو‘‘(النور: ۶۳)۔

خوداللہ تعالیٰ نے بھی لفظ نبی کے ساتھ مخاطب فرمایاہے، ارشادہے:

’’ اے پیغمبر! اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اُس کی زینت و آرائش کی طلبگار ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ مال دوں اور اچھی طرح سے رخصت کر دوں‘‘۔(الأحزاب: ۲۸)۔

دوسری جگہ ارشادہے:

’’اے نبی! ہم نے آپ کے لئے حلال کیاہے…‘‘۔(الأحزاب: ۵۰)

ایک اورجگہ ہے:

’’اے پیغمبر! ہم نے تم کو گواہی دینے والا اور خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے‘‘(الأحزاب: ۴۵)۔

۲- ان کے ارشادات اورفرمودات کاادب کیاجائے، حدیث کی کتابیں باوضو پڑھا جائے، دروس احادیث کی محافل میں ادب سے بیٹھاجائے، دوران درس ادھراُدھرکی گفتگونہ کی جائے، جہاں درس حدیث ہورہاہو، وہاں آواز بلند نہ کی جائے، اللہ تعالیٰ کاارشادہے:

’’مومنو! (کسی بات کے جواب میں) اللہ اور اس کے رسول سے پہلے نہ بول اٹھا کرو ڈرتے رہو بیشک اللہ سنتا جانتا ہے٭ اے اہلِ ایمان! اپنی آوازیں پیغمبر کی آواز سے اونچی نہ کرو اور جس طرح آپس میں ایک دوسرے سے زور سے بولتے ہو (اس طرح) ان کے روبرو زور سے نہ بولا کرو (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے اعمال ضائع ہو جائیں اور تم کو خبر بھی نہ ہو٭جو لوگ پیغمبر الٰہی کے سامنے دبی آواز سے بولتے ہیں اللہ نے ان کے دل تقویٰ کے لئے آزما لئے ہیں ان کے لئے بخشش اور اجرِ عظیم ہے٭ جولوگ تم کو حجروں کے باہر سے آواز دیتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں٭ اور اگر وہ صبر کئے رہتے یہاں تک کہ تم خود نکل کر ان کے پاس جاتے تو یہ ان کے لئے بہتر تھا اور اللہ تو بخشنے والا مہربان ہے‘‘۔(الحجرات: ۱-۵)

۳- احترام میں یہ بھی شامل ہے کہ ان کوان مقام ومرتبہ سے نہ تو اونچا کیا جائے اورناہی نیچا، خوداللہ کے رسولﷺنے فرمایا:

’’مجھے اس طرح بڑھاچڑھاکرپیش نہ کرو، جیساکہ عیسائیوں نے عیسیٰ ابن مریم(علیہ السلام ) کے ساتھ کیا، میں تو اس کابندہ ہوں، لہٰذا مجھے اس کابندہ اوراس کا رسول کہو‘‘(صحیح البخاری، حدیث نمبر: ۳۴۴۵)و۔

پانچواں حق: نصرت

نبی کریمﷺکاپانچواں حق یہ ہے کہ ان کی مددکی جائے، جس کے مندرجہ ذیل طریقے ہوسکتے ہیں:

۱- زندگی کے تمام شعبوں میں ان کی پیروی کی جائے۔

۲- سنتوں کے ا ستہزاء اورمذاق اڑانے سے بچاجائے۔

۳- سنتوں کوزندہ کرنے کی کوشش کی جائے۔

۴- سنتوں کے زندہ ہونے پرخوشی اوران کے مٹنے پرافسوس کااظہارکیاجائے۔

۵- نبیﷺپراعتراض کرنے والوں کاجواب دیاجائے۔

۶- سنتوں پرواردہونے والے اعتراضات کادفاع کیاجائے۔

۷- کتب سیرت کامطالعہ کیاجائے۔

۸- اپنی اولاد کونبی کی محبت پرپروان چڑھایاجائے ۔

چھٹاحق:درود وسلام

حضورﷺ کاایک حق یہ بھی ہے کہ ان پردرودوسلام بھیجاجائے، اللہ تعالیٰ نے اس حکم دیتے ہوئے فرمایا:

’’اللہ اور اُس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں مومنو! تم بھی اُن پر درود اور سلام بھیجا کرو‘‘(الأحزاب: ۵۶)۔

درودبھیجنے سے جہاں ایک طرف نبی کریمﷺکاحق اداہوتاہے، وہیں دوسری طرف درودبھیجنے والے کے لئے باعث اجروثواب بھی ہے، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:

’’جس نے مجھ پرایک درودبھیجا، اللہ اس پردس رحمتیں نازل کرے گا‘‘۔(صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۳۸۴)

ایک دوسری حدیث میں درود نہ بھیجنے والے شخص کوبخیل قراردیاگیاہے، ارشادہے:

’’وہ شخص بخیل ہے، جس کے روبرومیرا ذکرکیاجائے اوروہ مجھ پردرودنہ بھیجے‘‘(مسندأحمد، حدیث نمبر: ۱۷۳۶)۔

دورد وسلام کے آداب

درودبھیجناذکرہے، جس کے لئے کچھ آداب ہیں، جن کی رعایت کی جانی چاہئے:

۱- منھ کی پاکی: منھ پاک ہوناچاہئے، یہ پاکی اگرچہ کہ واجب نہیں ہے؛ لیکن نبی ﷺکی ذات کاتقاضایہ ہے کہ منھ پاک صاف ہوناچاہئے، آج کل پان گٹکے کا جورواج ہے، ان چیزوں کے منھ میں رہتے ہوئے درودمناسب نہیں۔

۲- سترعورت: بالکل ننگے ہوکربھی درودنہیں پڑھاجاناچاہئے؛ بل کہ سترعورت کا ایسے موقع پرخاص خیال رکھاجاناچاہئے۔

۳- غوروفکر اورستحضار: درودپڑھتے وقت یہ استحضارہوناچاہئے کہ ہم کس پردرودبھیج رہے ہیں؟ اورغوروفکربھی ہونی چاہئے کہ ذکرمیں یہ مقصود ہوتاہے۔

پھردرودبھیجنے کا حکم

پھردرودبھیجنے کا حکم بھی جان لیناچاہئے؛ چنانچہ احناف ومالکیہ کے نزدیک آخری تشہد میں درود سنت ہے، ان کے نزدیک زندگی میں ایک مرتبہ درودواجب ہے؛ البتہ امام طحاوی ان تمام اوقات میں واجب قراردیتے ہیں، جب جب آپ کاذکرہو، شوافع اورحنابلہ کے نزدیک ہرنماز کے آخری تشہد اورنمازجنازہ میں دوسری تکبیرکے بعد، اسی طرح عیدین اورجمعہ کے دونوں خطبوں میں بھی واجب ہے، اس کے علاوہ میں واجب نہیں۔

درود کے اوقات

نماز کے باہرتمام اوقات میں درودمستحب ہے، البتہ چندجگہوں پرزیادہ مؤکد ہے، وہ جگہیں درج ذیل ہیں:

۱- جمعہ کی رات اوردن ۲- صبح کے وقت

۳- شام کے وقت ۴- مسجدداخل ہوقت

۵- مسجدسے نکلتے وقت ۶- آپ اکی قبرنزدیک

۷- اذان کاجواب دیتے وقت ۸- دعاسے پہلے اوردعاکے بعد

۹- صفامروہ کی سعی کے وقت ۱۰- آپ ﷺکاجب ذکرہو

۱۱- تلبیہ سے فراغت کے وقت ۱۲- حجراسودکے استلام کے وقت

۱۳- ختم قرآن کے وقت ۱۴- نیندسے بیداری کے وقت

۱۵- قوم کے اجتماع اورجدائیگی کے وقت ۱۶- غم اورمصیبت کے وقت

۱۷- طلب مغفرت کے وقت ۱۸- لوگوںکوتعلیم دیتے وقت

۱۹- وعظ اوردرس کے وقت ۲۰- منگنی کے وقت

ساتواں حق: فیصل اورثالث بنانا

ایک حق یہ بھی ہے کہ اپنی کسی کام ان کوفیصل اورثالث بنایاجائے، جس کامطلب یہ ہے کہ جب کوئی معاملہ درپیش ہوتوسب سے پہلے اس تعلق سے نبی ﷺ کے فرمان پرنظرڈالی جائے کہ انھوں نے اس تعلق سے کیافرمایاہے؟ پھراسی کے مطابق اس معاملہ کوحل کیاجائے، اس میں پھراپنی عقل اوردانش مندی کوجگہ نہ دی جائے، اسی کاحکم اللہ تعالیٰ نے بھی دیایاہے، ارشادہے:

’’مومنو! اللہ اور اُس کے رسول کی فرمانبرداری کرو اور جو تم میں سے صاحب ِ حکومت ہیں اُن کی بھی اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اگر اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اُس میں اللہ اور اس کے رسول (کے حکم) کی طرف رجوع کرو یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کاانجام بھی اچھا ہے‘‘۔(النساء: ۵۹)

دوسری جگہ فرمایاگیاہے:

’’ تمہارے رب کی قسم! یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم کر دو اُس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اُس کو خوشی سے مان لیں تب تک مومن نہیں ہوں گے‘‘(النساء: ۶۵)۔

آٹھواں: آل بیت کی محبت

رسول اللہﷺکاایک حق یہ بھی ہے کہ آپﷺکے آل بیت سے بھی محبت کی جائے اوران سے بھی تعلق خاطر رکھا جائے؛ کیوں کہ رسولﷺسے محبت کا تقاضاہے کہ ان کے چاہنے والوں سے بھی محبت رکھی جائے،حضرت ابوبکرؓ اہل بیت کے تعلق سے فرمایاکرتے تھے:

’’اہل بیت کے تعلق سے محمدا کی رعایت اوراحترام کرو‘‘(بخاری، باب مناقب قرابۃ رسول اللہ…، حدیث نمبر: ۳۷۱۳)۔

محبت کے اسی تقاضے کے تحت درودابراہیمی میں حضوراکرمﷺکے ساتھ ساتھ ان کے گھروالوں کے لئے بھی رحمت کی دعاکی گئی ہے،خود اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے گھروالوں میں حضرت فاطمہؓ کے تعلق سے فرمایا:

’’فاطمہ میراٹکڑاہے، جس نے اسے ناراض کیا، اس نے مجھے ناراض کیا‘‘۔(بخاری، باب مناقب قرابۃ رسول اللہ…، حدیث نمبر: ۳۷۱۴)

نواں حق: صحابہ سے محبت

رسول اللہﷺکاایک حق یہ بھی ہے کہ آپ کے صحابہ سے اسی طرح تعلق خاطررکھاجائے، جس طرح رکھنے کاحق ہے، نہ توان کی شان میں کسی قسم کی گستاخی کی جائے اورناہی مقام صحابیت سے اونچاکرکے پیش کیاجائے، جیساکہ شیعوں نے حضرت علیؓ کے ساتھ کیا، صحابہ کوایک ایسامقدس گروہ ماناجائے،جن کے تعلق سے اللہ تعالیٰ نے رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ کی بشارت سنائی ہے، صحابہ بھی انسان تھے، وہ نبیوں کی طرح معصوم عن الخطاء نہیں تھے؛ لیکن ان کی غلطیوں پرگرفت اورپکڑکرنے والے ہم نہیں، ان کامعاملہ ان کے اللہ کے ساتھ ہے، ہم سے توبس اتنامطالبہ ہے کہ ان کااحترام کریں اوران کے تعلق سے زبان طعن دراز نہ کریں، یہ بھی دراصل رسول اللہﷺکے حقوق کے ہی دائرہ میں آتاہے؛ کیوں کہ اس گروہ کی ترتیبت خونبی کریمﷺنے فرمائی ہے اورظاہرہے کہ ان کی تربیت میں کوئی کمی اورنقص نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ رسول اللہﷺکوامت کے لئے بہترین اسوہ قراردیاگیاہے، ارشاد باری ہے:

’’ تم کو پیغمبر الٰہی کی پیروی (کرنی) بہتر ہے (یعنی) اُس شخص کو جسے اللہ (سے ملنے) اور روزِ قیامت (کے آنے) کی امید ہو اور وہ اللہ کا کثرت سے ذکر کرتا ہو‘‘(الأحزاب: ۲۱)۔

اگرنبی کریمﷺکی تربیت کی کمی رہتی توخودنبیﷺکی ذات کوبہترین اسوہ قرارکیسے دیاجاتا؟ اس لئے صحابہ کے تعلق سے ہمارے لئے خاموشی ہی بہترہے، بس ان کے ساتھ محبت کاتعلق رکھاجائے، خود اللہ کے رسولﷺ کا ارشادہے:

ئئجب میرے صحابہ کاذکرکیاجائے توخاموشی اختیارکرو‘‘(المعجم الکبیرللطبرانی، حدیث نمبر: ۱۰۴۴۸)۔

یہ تھے اللہ کے رسول حضرت محمد مصطفیﷺکے حقوق، جن کی رعایت کرناہمارا ایمانی تقاضاہے، اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطافرمائے، آمین!


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی