اسلام میں پڑوسیوں کے حقوق کی رعایت
محمد جمیل اخترجلیلی ندوی
انسان کی شخصیت کااندازہ اس بات سے لگایاجاتاہے کہ اس کا رہناسہناکس جگہ اور اُٹھنابیٹھناکس کے ساتھ ہوتاہے؟ ایک شریف آدمی کبھی بھی یہ پسند نہیں کرتا ہے کہ اس کا گھرغنڈہ گردی، چوری ڈکیتی اورقحبہ گری کرنے والوں کے آس پاس ہو؛ کیوں کہ اس سے خود اس کی عظمت کو ٹھیس پہنچتی ہے اور اس کے بال بچوں پر ان بُرے لوگوں کے بُرے اثرات مرتب ہونے کا قوی امکان ہوتاہے، یہی وجہ ہے کہ تمام ملکی قوانین میں لوگوں کو ’’حقِ جوار‘‘ (پڑوس کا حق) حاصل ہوتاہے؛ تاکہ ہرشخص اپنے پڑوسی سے ہرطرح مطمئن اورمامون رہے؛ اسی لئے آپ ﷺ نے بُرے پڑوسی سے اللہ کی پناہ مانگی ہے، حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺنے یہ دعاء مانگی:’’ائے اللہ ! میں تجھ سے پناہ مانگتاہوں وطن میں بُرے پڑوسی سے کہ بادیہ(جنگل)کے پڑوسی توبدلتے رہتے ہیں‘‘(مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الأدب، حدیث نمبر: ۲۵۹۳۰)۔
قرآن میں پڑوسی کے حق کا ذکر
شریعت ِ اسلامی نے دوسری بہت ساری اہم تعلیمات کی طرح اپنے ماننے والوں کو ایک سبق’’ پڑوسیوں کے حقوق کی رعایت‘‘ کے سلسلہ میں بھی دیاہے، چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:’’اور حسنِ سلوک (رکھو)والدین کے ساتھ، اور قرابت داروں کے ساتھ، اور یتیموں اورمسکینوں کے ساتھ، اور پاس والے پڑوسی اور دور والے پڑوسی اورہم مجلس کے ساتھ‘‘(النساء: ۳۶)، اس آیت میں اللہ تبارک وتعالی نے والدین کے ساتھ ساتھ دورونزدیک دونوں طرح کے پڑوسیوں کے خیال رکھنے کا حکم دیاہے، اور اس خیال رکھنے میں مسلم وغیرمسلم کی تفریق بالکل بھی نہیں کیا گیا ہے، چنانچہ بقول علامہ آلوسی’’نزدیکی پڑوسی ‘‘سے مرادنسبی رشتہ دار کے ساتھ ساتھ مسلم پڑوسی اور’’ پہلوکے پڑوسی‘‘ سے غیر رشتہ دار اگرچہ کہ وہ مشرک ہو، مرادہے(روح المعانی: ۴/۴۲، نیز دیکھئے: تفسیرابن کثیر: ۲/۴۷)، مفسر قرطبی اس آیت کے ضمن میں لکھتے ہیں:’’اس آیت سے معلوم ہوا کہ پڑوسی خواہ مسلمان ہویاکافر، اس کے ساتھ حسن ِسلوک مامور اور مندوب ہے‘‘(تفسیرقرطبی: ۳/۱۲۶)۔
احادیث میں پڑوسی کے حق کاذکر
پڑوسی کے ساتھ حسن ِسلوک کے سلسلہ میں احادیث بھی کثرت سے وارد ہوئی ہیں، چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ ا ٓپ ﷺ نے تین مرتبہ فرمایا:’’بخدا وہ مومن نہیں ہوسکتا، بخدا وہ مومن نہیں ہوسکتا، بخدا وہ مومن نہیں ہوسکتا‘‘،پوچھاگیا: کون ائے اللہ کے رسولﷺ! آپ ﷺنے فرمایا:’’وہ، جس کاپڑوسی اس کے شرسے محفوظ نہ رہتاہو‘‘۔ (بخاری، کتاب الأدب، حدیث نمبر: ۶۰۱۶)، ایک دوسری حدیث میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:’’اللہ کے نزدیک بہترین ساتھی وہ ہے، جو اپنے ساتھی کے لئے بہترہو، اور اللہ کے نزدیک بہترین پڑوسی وہ ہے، جواہنے پڑوسی کے حق میں بہترہو‘‘(ترمذی،ابواب البر والصلۃ، حدیث نمبر: ۱۹۴۴)، ایک جگہ آپﷺنے پڑوسی کوتکلیف نہ دینے کوایمان کی بات بتائی، فرمایا:’’جوشخص اللہ پراورآخرت کے دن پرایمان رکھتاہو، وہ اپنے پڑوسی کوتکلیف نہ دے‘‘(بخاری، کتاب الأدب، حدیث نمبر: ۶۰۱۸)،پڑوسیوں کے ساتھ حسن ِسلوک کے سلسلہ میں خود حضرت جبریل ؑبرابرآپﷺکو وصیت کرتے رہے، آپﷺ فرماتے ہیں: ’’پڑوسیوں کے سلسلہ میں جبریل ؑ برابرمجھے وصیت کرتے رہے، یہاں تک کہ میں نے یہ گمان کرلیاکہ عنقریب اسے وارث بنادیں گے‘‘(مسلم،کتاب البر والصلۃ، حدیث نمبر:۶۶۸۷)، اس حدیث سے پڑوسیوں کے ساتھ بہتررویہ رکھنے کی سخت تاکید معلوم ہوتی ہے کہ جس طرح خونی رشتہ دار وارث بننے کے مستحق ہوتے ہیں، پڑوسی اچھے سلوک کے سلسلہ میں ان سے کسی طرح بھی کم نہیں؛ کیوں کہ ظاہر ہے کہ صرف پڑوسی ہونے کے ناطہ انھیں حقیقۃًوارث نہیں بنایاجائے گا، چنانچہ علامہ عینیؒ لکھتے ہیں:’’یہ بات پڑوسی کے حق کی شدت کے ساتھ حفاظت کے سلسلہ میں مبالغہ کے طور پرآئی ہے‘‘(عمدۃ القاری: ۱۵/۱۷۹)۔
پڑوسی کےحق میں مسلمان اورکافر برابر
قرآن وحدیث کی ان صریح ہدایات سے معلوم ہوگیاکہ اسلام میں پڑوسیوں کو کتنی اہمیت حاصل ہے، نیز یہ بھی معلوم ہواکہ پڑوسی کا لفظ عام ہے، خواہ پڑوسی مسلمان ہویاغیرمسلم، ہرحال میں حقِ جوار اسے حاصل رہے گا،حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں:’’جار(پڑوسی) کالفظ مسلم، کافر، عابد، فاسق، دوست، دشمن، شہری، نفع پہنچانے والا، نقصان دینے والا، رشتہ دار، اجنبی اورقریب ودور گھروالاسب اس میں شامل ہیں‘‘(فتح الباری: ۱۳/۵۰۴)،یہ حق اسے پڑوس میں رہنے کی وجہ سے حاصل ہے، دین ومذہب اور رشتہ وپیوند کی وجہ سے نہیں، یہی وجہ ہے کہ ایک مرتبہ جب حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے لئے ایک بکری ذبح کی گئی تو انھوں نے اپنے غلام سے پوچھا: کیاتم نے میرے یہودی پڑوس کوبھی بھیج دیاہے؟ کیوں کہ میں نے آپ ﷺ کوفرماتے ہوئے سناہے:’’ پڑوسیوں کے سلسلہ میں جبریل ؑ برابرمجھے وصیت کرتے رہے، یہاں تک کہ میں نے یہ گمان کرلیاکہ عنقریب اسے وارث بنادیں گے‘‘(ترمذی،ابواب البر والصلۃ، حدیث نمبر: ۱۹۴۳)۔
پڑوسی کے خیال رکھنے کامطلب؟
پڑوسیوں کے خیال رکھنے کاصرف یہ مطلب نہیں کہ انھیں تکلیف نہ دیاجائے؛ بل کہ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ان کا حق ہے کہ انھیں اچھے کاموں کی طرف رہنمائی کی جائے، برے کاموں سے روکاجائے، اگرپڑوسی بیمار ہوجائے تواس کی عیادت کی جائے، مصیبت کے وقت اس کوتسلی دی جائے، خوشی کے موقع پر مبارک بادی پیش کی جائے، پڑوسی سے اگر لغزش ہوجائے تومعاف کردیاجائے، اپنے گھروں کی چھتوں سے ان کے گھروں میں تاک جھانک نہ کیاجائے، ان کے بچوں کے ساتھ شفقت ومحبت کا برتاؤکیاجائے، اگر وہ آپ کی دیوارپرگھونٹی گاڑے تواس سے نہ روکاجائے، گندے پانی کی نکاسی اس کی طرف نہ کی جائے، اور خدا نخواستہ اگرپڑوس میں کوئی ایسی بات پیش آجائے، جس سے ان کی عزت پر حرف آتا ہوتوہرگزہرگزاسے عام نہ کیاجائے، غرض ایک پڑوسی کواپنے پڑوسی کے حق میں سراپارحمت ہوناچاہئے نہ کہ زحمت۔
پڑوسی کے بارے میں ہمارا رویہ
لیکن افسوس! آج ہماراعمل بالکل اس کے برخلاف ہے، ہماری دلی خواہش یہ ہوتی ہے کہ ہماراپڑوسی کسی آفت میں گرفتاررہے، اسے کسی طورترقی نصیب نہ ہو، اس کے بچے پڑھ لکھ نہ سکیں؛ بل کہ اس کے بچے آوارہ گردی کے شکار ہوجائیں، ہم اپنے گھروں کی چھتوں پر چڑھتے ہی اس لئے ہیں تاکہ پڑوس کی حرمت پر تیرنگاہی کرسکیں، گندے پانی کی نکاسی قصداً پڑوس کے دروازے سے کرتے ہیں، رات رات بھراونچی آواز میں ڈیگ بجاکرپڑوس کی نیندیں حرام کرتے ہیں، اور آج تو ہماری حالت (خصوصاًشہروں میں) یہ ہوگئی ہے کہ ہمیں یہ تک معلوم نہیں ہوتا کہ ہمارے پڑوس میں کون رہتا بستاہے؛ چہ جائیکہ ہم اس کے غم شریک ہوکر اسے تسلی دیں اور خوشی کی محفل میں حاضر ہوکراس کی خوشی کودوبالاکردیں، کاش! آج بھی اگر ہم اسلامی تعلیمات پرعمل پیرا ہوجائیں توفرشتے راستوں میں ہمیں سلام کریں اور دنیاکی کوئی طاقت ہماری طرف غلط نگاہ اُٹھاکردیکھنے کی ہمت نہ کرے، کاش! ہم ایساکرلیں!!!
ایک تبصرہ شائع کریں