اللہ تعالیٰ کے حقوق (حقوق اللہ)

اللہ تعالیٰ کے حقوق

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی


اللہ تعالیٰ کے حقوق(Rights) سے مراد وہ امورہیں، جن کے ذریعہ سے اس کی قربت اور اس کی عظمت کاحصول اوراس کے دین کے شعائر (Rituals) کوانجام دیا جاسکے، اللہ تعالیٰ کے یہ حقوق دنیاکے تمام حقوق پرمقدم اورلائق ذکراورقابل توجہ ہے؛ کیوں کہ کائنات کاپیداکرنے والا، اس کے نظام کودرستگی کے ساتھ چلانے والا اورکائنات کی ہرچھوٹی بڑی چیزکوقابل ذکرشئی بنانے والاوہی ہے، وہ خود فرماتا ہے:

''اللہ ہی ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے اور وہی ہرچیز کا نگران ہے٭ اسی کے پاس آسمانوں اور زمین کی کنجیاں ہیں اور جنہوں نے اللہ کی آیتوں کفر کیا وہی نقصان اٹھانے والے ہیں"(الزمر: ۶۲-۶۳)۔

دوسری جگہ ارشادہے:

’’اور اللہ ہی نے تمہیں تمہاری ماؤں کے شکم سے پیدا کیا کہ تم کچھ نہیں جانتے تھے اور اس نے تمہیں کان اور آنکھیں اور دل (اور ان کے علاوہ اور) اعضاء بخشے تاکہ تم شکر کرو‘‘(النحل: ۷۸)۔

لہٰذا آیئے اس ذات کے حقوق کوجانتے چلیں، جس نے ہمیں پیدا کیا، جس نے ہمارے تمام اعضاء درست بنائے ، جس نے دیکھنے کے لئے آنکھیں دیں، سننے کے لئے کان دئے، بولنے کے لئے زبان دی، کھانے کے لئے منھ دیا، سونگھنے کے لئے ناک دی، چلنے کے لئے پیردئے، کام کاج اور چیزوں کوپکڑنے کے لئے ہاتھ دئے، کھانے کوہضم کرنے کے لئے معدہ دیااورسوچنے وسمجھنے کے لئے عقل سے نوازا؛ تاکہ ہم اتنے سارے احسانات پرشکرتو اداکرسکیں:

پہلا حق: معرفت

یہ اللہ تعالیٰ کاسب سے پہلا اوراہم حق ہے، جس کی ادائے گی ہرشخص پرضروری ہے، معرفت سے مراداللہ تعالیٰ کی ذات کے سلسلہ میں ایسی واقفیت ، جو دل سے ہواورجس کی وجہ سے اس کی اطاعت وفرماں برداری کاجذبہ پیداہواورجس کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کی لائی ہوئی شریعت کو اپنے تمام معاملات میں ثالثی اورفیصل بنانے کا ولولہ اورشوق انگڑائی لے۔

معرفت کے طریقے

اللہ تعالیٰ کی معرفت کے دوبنیادی طریقے ہیں:

(الف) مخلوقات میں غوروفکر:کائنات کے اندرجتنی بھی چیزیں ہیں، ان پر غورکرنے سے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوگی، قرآن مجیدمیں کئی جگہ اللہ تعالیٰ نے اس کوواضح کیاہے، ایک جگہ ارشادہے:

’’بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کے بدل بدل کر آنے جانے میں عقل والوں کیلئے نشانیاں ہیں ٭ جو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے (ہر حال میں) اللہ کو یاد کرتے اور آسمان اور زمین کی پیشدائش میں غور کرتے (اور کہتے) ہیں کہ اے رب! تو نے اس (مخلوق) کو بے فائدہ پیدا نہیں کیا، تو پاک ہے تو (قیامت کے دن) ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچانا‘‘(آل عمران: ۱۹۰-۱۹۱)۔

دوسری جگہ ارشادہے:

’’کیا یہ لوگ اونٹوں کی طرف نہیں دیکھتے کہ کیسے (عجیب) پیدا کئے گئے ہیں؟ ٭ اور آسمان کی طرف کہ کیسا بلند کیا گیا ہے؟ ٭ اور پہاڑوں کی طرف کہ کس طرح کھڑے کئے گئے ہیں٭ اور زمین کی طرف کہ کس طرح بچھائی گئی ہے٭ تو تم نصیحت کرتے رہو کہ تم نصیحت کرنے والے ہی ہو‘‘(الغاشیۃ: ۱۷-۲۱)۔

ایک اورجگہ فرمایاگیاہے:

’’کیا اُنہوں نے آسمان اور زمین کی بادشاہت میں اور جو چیزیں اللہ نے پیدا کی ہیں اُن پر نظر نہیں کی اور اس بات پر (خیال نہیں کیا) کہ عجب نہیں اُن (کی موت) کا وقت نزدیک پہنچ گیا ہو تو اس کے بعد وہ اور کس بات پر ایمان لائیں گے‘‘(الأعراف: ۱۸۵)۔

(ب) آیات واحادیث اوراحکام میں غوروفکر: ان میں غوروفکرکرنے سے اللہ کی معرفت حاصل ہوتی ہے؛ کیوں کہ ان کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کی عظمت شان، عزت سلطان ، خصائص میں انفرادیت اورشرک سے براء ت معلوم ہوجاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مکہ کے مشرکین کوچیلنج کرتے ہوئے فرمایا:

’’کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ پیغمبر نے اس کو اپنی طرف سے بنا لیا ہے؟ کہہ دو کہ اگر سچے ہو تو تم بھی اس طرح کی ایک سورت بنا لاؤ اور اللہ کے سوا جن کو تم بلا سکو بلا بھی لو‘‘(یونس: ۳۸)۔

لہٰذاانسان ان آیات میں جتنازیادہ غورکرتاہے، اس کی معرفت میں پختگی آتی جاتی ہے، اللہ تعالیٰ کاارشادہے:

’’اور یقین کرنے والوں کے لئے زمین میں (بہت سی) نشانیاں ہیں٭ اور خود تمہارے نفوس میں تو کیا تم دیکھتے نہیں؟‘‘(الذاریات: ۲۰-۲۱)

معرفت کی قسمیں

پھراس معرفت میں دوچیزیں شامل ہیں:

۱- ذات کی معرفت: ذات درحقیقت ظاہرکانام ہے اورذات کی معرفت کامطلب یہ ہواکہ ظاہری وجودکودیکھ کراس کوجانااورپہچاناجائے؛ لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات ایسی نہیں ہے کہ اس کے ظاہری وجودکے ذریعہ اس دنیامیں پہچاناجاسکے؛ کیوں کہ اس دنیامیں کوئی آنکھ ایسی نہیں ہے، جواس کے وجودکاادارک کرسکے، اللہ تعالیٰ خودفرماتاہے:

’’(وہ ایسا ہے کہ) نگاہیں اُس کا ادراک نہیں کر سکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کر سکتا ہے اور وہ بھید جاننے والا خبردار ہے‘‘(الأنعام: ۱۰۳)۔

لہٰذا ہم اتنایقین رکھیں گے کہ اس کاوجودہے؛ لیکن کیساہے؟ نہیں معلوم؛ کیوں کہ کوئی چیزاس کے مثل نہیں ہے:

’’اس جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ دیکھتا سنتا ہے‘‘(الشوری: ۱۱)۔

۲-صفات کی معرفت: اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے اوراس کے پہچاننے کے لئے اس دنیامیں جوذریعہ ہے، وہ اس کی صفات ہیں، انھیں کے ذریعہ سے اس کوجاناجاسکتاہے، اب سوال یہ ہے کہ اس کی صفات کیاہیں؟ تواس تعلق سے ہمیں یہ جاننا چاہئے کہ لفظ’’اللہ‘‘اس کاذاتی نام ہے، اس کے علاوہ جن آسماء سے اس کوپکاراجاتاہے، وہ اس کے صفاتی نام ہیں، حدیث میں ان کی تعداد نناوے بتائی گئی ہے؛ چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:

’’اللہ تعالیٰ کے نناوے نام ہیں، جوان کوشمار(یاد)کرلے گا، وہ جنت میں داخل ہوگا‘‘(بخاری، حدیث نمبر: ۲۷۳۶، مسلم، حدیث نمبر:۲۶۷۷)۔

صفات کی قسمیں

اللہ تعالیٰ کے تمام صفات کوپانچ بڑے گروپوں میں تقسیم کیاگیاہے (www.mubashirnazi.org/PD/Urdu/PU01-0041-Maarifat.htm)؛ تاکہ سمجھنے اوریادرکھنے میں آسانی ہو:

پہلاگروپ: رحم الٰہی

اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق پربے پناہ مہربان ہے، خودفرماتاہے:

’’بس اللہ ہی بہترمحافظ ہے اوروہ سب سے زیادہ رحم کرنے والاہے‘‘(یوسف: ۶۴)۔

دنیامیں اگررحم ومہربانی کاعنصرتلاش کرناہوتواسے ’’ماں‘‘کے اندرتلاش کیا جاتاہے،ماں کے اندرجورحم ومہربانی ہوتی ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی اس مہربانی کے ایک حصہ کا ذرہ ہے، جواس نے دنیامیں سوحصے میں سے ایک حصہ اتاراہے، اس ایک حصہ کے ایک جزء کی مہربانی کی مثال پیش کی جاتی ہے، توپھرجس اللہ کے پاس اس مہربانی کا نناوے حصہ موجودہے، وہ اپنی مخلوق پرکتنامہربان ہوگا؟ اس کی ایک جھلک کوبتانے کے لئے حدیث میں اللہ تعالیٰ کی مہربانی کے تعلق سے یہ فرمایاگیاہے کہ :

’’اللہ تعالیٰ کے پاس سورحمتیں ہیں، اس نے ان میں سے ایک رحمت جنات، انسان، حیوانات اورحشرات الارض(کیڑے مکوڑے)میں اتارا، جس وہ ایک دوسرے پرشفقت اوررحم کرتے ہیں اوراسی کے ذریعہ سے وحشی جانوراپنے بچوں پررحم کرتے ہیں، اوراللہ تعالیٰ نے نناوے رحمتوں کوبچارکھاہے، جن سے قیامت کے دن وہ اپنے بندوں پررحم فرمائے گا‘‘(مسلم، حدیث نمبر:۲۷۵۲)۔

رحم الٰہی کے مظاہر

رحم الٰہی کی اس صفت کومندرجہ ذیل ذیلی اکائیوں میں تقسیم کیاجاسکتاہے:

(الف) شفقت ومہربانی: اس کی وضاحت کے لئے درج ذیل الفاظ آتے ہیں:

۱- الرحمٰن(سرپارحمت) ۲- الرحیم(مہربانی، جس میں تسلسل ہو)

۳- الکریم( کرم کرنے والا) ۴- الودود(محبت کرنے والا)

۵- الرؤوف(شفقت کرنے اورترس کھانے والا) ۶- الشکور(قدردان)

۷- الحلیم(بردبار) ۸- الحمید(قابل تعریف)

۹-الوہاب(بے غرض اوربے عوض دینے والا)۱۰- البَرّ(احسان کرنے والا)

(ب) امن وسلامتی: اس کوبتانے کے لئے درج ذیل الفاظ آتے ہیں:

۱- السلام(راحت واطمینان دینے والا)۲- المؤمن(امان اورپناہ دینے والا)

۳-المہیمن(نگراں ومحافظ) ۴- الصمد(پناہ کی چٹان/مضبوط پناہ دینے والا)

۵- الولی(دوست ومددگار) ۶- المولیٰ(حامی ومددگار)

۷- المستعان(جس سے مددمانگی جائے) ۸- النصیر(مددداورفتح وینے والا)

(ج) عفوودرگزر: اس کے اظہارکے لئے درج ذیل الفاظ آتے ہیں:

۱- العَفُوُّ(درگزرکرنے والا) ۲- الغفار(بخشنے والا)

۳- الغفور(مغفرت کرنے والا) ۴- التواب(توبہ قبول کرنے والا)

(د) ہدایت: اس کے لئے درج ذیل الفاظ آتے ہیں:

۱- النور(ظاہراورروشن، جس دوسروںکوروشنی ملے)

۲- الہادی(راستہ دکھانے والا)

دوسراگروپ : قدرت الٰہی

اس کائنات کواللہ تعالیٰ نے پیداکیا، ظاہرہے کہ ایسی کائنات بنانے والازبردست طاقت والاہوگا، اسی لئے اس کی ذات کوقادرمطلق کہاجاتاہے، اس کے ذیکی اکائی درج ذیل ہیں:

(الف) عظمت: قدرت الٰہی کاایک پہلوعظمت شان وشوکت ہے، جس کے اظہارکے لئے درج ذیل الفاظ آتے ہیں:

۱- المَلِک(بادشاہ) ۲- العظیم(صاحب عظمت)

۳- المتکبر(کبریائی والا/تکبرکرنے والا) ۴- العلی(بہت بلند)

۵- الوکیل(کارساز/کام بنانے والا) ۶- الکبیر(بڑااوربلند)

۷- المجید(بڑابزرگ) ۸- الغنی(بے نیاز)

۹- القدوس(نقص وعیب سے پاک) ۱۰- الممیت(موت دینے والا)

۱۱- الحی(زندۂ جاوید) ۱۲- القیوم(قائم بالذات/ ہمیشہ رہنے والا)

۱۳- ذوالجلال(رعب وجلال والا) ۱۴- المتعال(بہت بلندہستی)

۱۵- الأول(اول، یعنی زمانی لحاظ سے) ۱۶- الآخر(آخر، زمانی لحاظ سے)

۱۷- الظاہر(کھلاہوا/عیاںہستی) ۱۸- الباطن(مخفی اورپوشید)

(ب) طاقت وغلبہ: اس صفت کوبتانے کے لئے درج ذیل الفاظ آتے ہیں:

۱- العزیز(عزت والا/صاحب قدرت) ۲- الجبار(زورآور)

۳- القہار(غلبہ اورقابورکھنے والا) ۴- القاہر(غلبہ والا)

۵- القوی(طاقت ور) ۶- المتین(شدیدقوت والا)

۷- القادر(قدرت والا) ۸- المقتدر(عظیم قدرت والا)

۹- القدیر(توانا/طاقت کامالک) ۱۰- الجامع(جمع کرنے والاقیامت کے دن)

۱۱- المالک(آقا) ۱۲- الوارث(باقی رہنے والا)

۱۳- الحَکَم(فیصلہ کرنے والا) ۱۴- الحاکم(حکم نافذ کرنے والا)

۱۵- الحق(سچا) ۱۶- قائم بالقسط(انصاف کے ساتھ قائم ہونے والا)

تیسراگروپ : علم الٰہی

اس کے دوپہلوہیں:

(الف) ذرائع: اس کے تعلق الفاظ درج ذیل ہیں:

۱- السمیع(بہت زیادہ سننے والا) ۲- البصیر(دیکھنے والا)

۳- الخبیر(خبررکھنے والا) ۴- القریب(قربت رکھنے والا)

۵- الرقیب(نگراں)

(ب) نوعیت: اس کے لئے درج ذیل الفاظ ہیں:

۱- العالم/العلیم(بہت زیادہ جاننے والا) ۲- اللطیف(باریک بیں)

۳- الحفیظ(نگراں) ۴- الحسیب(حساب کتاب رکھنے والا)

۵- الشہید(حاضروناظر) ۶- المجیب(دعاقبول کرنے والا)

۷- الحکیم(حکمت والا)

چوتھا گروپ : تخلیق وربوبیت

(الف) تخلیق کے تعلق سے درج ذیل الفاظ ہیں:

۱- الخالق(پیداکرنے والا)۲- الباری(بلااصل وبغیرخلل کے پیداکرنے والا)

۳- البدیع(موجد) ۴- المصور(صورت بنانے والا)

۵- المحیی(زندگی دینے والا)

(ب) ربوبیت کے تعلق سے درج ذیل الفاظ ہیں:

۱- الرب(پرورش کرنے والا) ۲- الرزاق(رزق عطاکرنے والا)

پانچواں گروپ : توحید

اس کامطلب یہ ہے کہ اللہ ایک ہے، اس جیسا کوئی نہیں، وہ بے مثال ہے، اس کے لئے درج ذیل الفاظ ہیں:

۱- الأحد(تن تنہا) ۲- الواحد(تنہا)

دوسرا حق: ایمان

اس کا مطلب یہ ہے کہ اس بات کا پختہ یقین ہوکہ اللہ تعالیٰ ہرچیز کارب اور مالک ہے، وہی ہرچیزکاخالق ہے، وہی نظام کائنات کوچلانے والا ہے، وہی تن تنہا عبادت کامستحق ہے، وہ ہمیشہ سے ہے اورہمیشہ رہے گا، وہی موت وحیات کامالک ہے، وہی اولا ددینے اورواپس لینے پرقادرہے، بیماری بھی اسی کی طرف سے آتی ہے اورشفابھی وہی دیتاہے، روزی دینے والابھی ہے اورفقرومحتاجگی بھی اسی کی طرف سے آتی ہے، بارش برسانے والی ذات بھی اسی کی ہے، وہ اکیلااورتن تنہاہے، اس کاکوئی شریک نہیں، اللہ تعالیٰ کے سلسلہ میں ان باتوں پراس طرح پختہ یقین ہو، جس طرح ایک انسان کواپنے وجودپریقین ہو، یہی مطلب ہے ایمان باللہ کا!

ایمان کن چیزوں پر؟

مذکورہ مطلب سے یہ بات واضح ہوگئی ہوگی کہ ایمان باللہ چارامورمشتمل ہے:

۱- اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پرایمان: اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پرایمان لانے کامطلب یہ ہے کہ انسان اس بات پرمکمل یقین رکھے کہ اللہ ایک ہے، اس کاکوئی ساتھی اورشریک نہیں، وہ اپنے رب کوافعال، اسماء، صفات، ربوبیت کے اموراورعبادات کے باب میں اکیلامانے، ان میں کسی کوبھی شریک قرار نہ دے۔

۲- اللہ تعالیٰ کی ربوبیت پرایمان:اس کامطلب یہ ہے کہ بندہ اس بات کودل سے تسلیم کرے کہ دنیاکی تمام چیزوں کاپیداکرنے والااللہ ہے، وہی تمام کوروزی بھی دیتا ہے، وہی سب کی پرورش بھی کرتاہے، قانون اورشریعت بنانابھی اسی کاکام ہے۔

۳- اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات پرایمان:اسماء وصفات پرایمان کامطلب یہ ہے کہ اس بات پریقین رکھاجائے کہ جواسماء اورصفات اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے یا رسول اللہ ﷺ نے اللہ کے لئے بیان کئے ہیں، وہ سب بغیرکسی کیفیت، تعطیل، تحریف اورتمثیل کے ثابت ہیں۔

۴- اللہ تعالیٰ کی الوہیت پرایمان:یعنی اس بات پرایمان لاناکہ الٰہ اورمعبودصرف اللہ کی ذات ہے اورعبادت کی جتنی شکلیںہوسکتی ہیں، وہ سب صرف اسی کے لئے جائزہیں۔

تیسرا حق: عبادت

اللہ تعالیٰ کاتیسراحق یہ ہے کہ عبادت صرف اسی کی کی جائے، یہاں سوال یہ ہے کہ عبادت ہے کیا؟ جواب یہ ہے کہ عبادت اپنے اندرایک وسیع معنی رکھتاہے، جس کاحقیقی تصوریہ ہے کہ اس کے ہرحکم کوبرضاورغبت اس طرح بجالایاجائے کہ اس کے انکارکی مجال نہ ہو، وہ جوبھی حکم دے، اس پربلاچوں وچراعمل کیا جائے، عبادت کی اسی حقیقی تصورکوقرآن اس طرح بیان کرتاہے:

’’ نیکی یہی نہیں کہ تم مشرق یا مغرب (کو قبلہ سمجھ کر ان) کی طرف منہ کر لو بلکہ نیکی یہ ہے کہ لوگ اللہ پر اور روزِ آخرت پر اور فرشتوں پر اور (اللہ کی) کتابوں پر اور پیغمبروں پر ایمان لائیں اور مال باوجود عزیز رکھنے کے رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں اور مانگنے والوں کو دیں اور گردنوں (کے چھڑانے) میں (خرچ کریں) اور نماز پڑھیں اور زکوٰۃ دیں اور جب عہد کر لیں تو اُس کو پورا کریں اور سختی اور تکلیف میں اور (معرکہ) کارزار کے وقت ثابت قدم رہیں یہی لوگ ہیں جو (ایمان میں) سچے ہیں اور یہی ہیں جو (اللہ سے) ڈرنے والے ہیں‘‘(البقرۃ: ۱۷۷)۔

دوسری جگہ ارشادہے:

’’(یہ بھی) کہہ دو کہ میری نماز اور میری عبادت اور میرا جینااور میرا مرنا سب اللہ رب العالمین ہی کیلئے ہے ٭ جس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی بات کا حکم ملا ہے اور میں سب سے اوّل فرمانبردار ہوں‘‘(الأنعام:۱۶۲-۱۶۳)۔

حق عبادت کوبتانے کے لئے اللہ کے رسولﷺ نے ایک مرتبہ حضرت معاذؓ سے اس وقت پوچھا، جب کہ وہ نبی ﷺ کے پیچھے گدھے پر سوار تھے: اے معاذ! کیاتمہیں معلوم ہے اللہ کابندہ پرکیاحق ہے؟ انھوں نے جواب دیا: اللہ اوراس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، تواللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:

’’بندہ پراللہ کاحق یہ ہے کہ وہ (بندے) اس (اللہ) کی عبادت کریںاوراس کے ساتھ کسی کوشریک نہ کریں‘‘(بخاری، کتاب التوحید، حدیث نمبر:۷۳۷۳، مسلم، حدیث نمبر:۳۰)۔

مخلوق کائنات میں سے انسان اورجنات کوپیداکرنے کااصل سبب یہی ہے کہ یہ اس کی عبادت کریں، بقیہ امورکی انجام دہی کاحکم ضمنی طورپرہے، اللہ تعالیٰ کاارشادہے:

’’میں نے جنوں اورانسانوں کومحض اپنی عبادت کے لئے پیداکیا‘‘(الذاریات: ۵۷)۔

تخلیق کے اس مقصدکویاددلانے کے لئے ہی نبیوں کاسلسلہ شروع کیا اورتقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزارنبی اس دنیامیں بھیجے(مشکوۃ المصابیح،باب بدء الخلق وذکرالأنبیاء، الفصل الثالث، حدیث نمبر:۵۷۳۷)، دنیامیں آنے والے نبیوں کاپیغام یہی تھا کہ:

’’اور ہم نے ہر جماعت میں پیغمبر بھیجا کہ اللہ ہی کی عبادت کرو اور بتوں (کی پرستش) سے اجتناب کرو تو اُن میں بعض ایسے ہیں جن کو اللہ نے ہدایت دی اور بعض ایسے ہیں جن پر گمراہی ثابت ہوئی سو زمین میں چل پھر کر دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا‘‘(النحل:۳۶)۔

اللہ تعالیٰ جس کے لئے بندوں کوپیداکیا، اس کام کاحکم جگہ جگہ پردیاہے، ایک جگہ ارشادہے:

’’اور ان کو حکم تو یہی ہوا تھا کہ اخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت کریں ـ(اور) یکسو ہو کر اور نماز پڑھیں اور زکوٰۃ دیں اور یہی سچا دین ہے‘‘(البینۃ:۵)۔

دوسری جگہ فرماتاہے:

’’اورتمہارے رب نے یہ فیصلہ کردیاہے کہ تم صرف اس کی عبادت کرو‘‘(الإسراء: ۲۳)۔

ایک اورجگہ ارشادہے:

’’ اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم (اس کے عذاب سے) بچو‘‘(البقرۃ: ۲۱)۔

ہم بندے بھی اپنی زبان سے اقرارکرتے رہتے ہیں کہ بس تیری ہی عبادت کریں گے، قرآن میں اس کی حکایت کی گئی ہے، ارشادہے:

’’ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیںاورتجھ ہی سے مددچاہتے ہیں‘‘(الفاتحۃ:۵)۔

اللہ تعالیٰ کے اس حق کاتقاضایہ ہے کہ ہرقسم کی عبادت صرف اسی کے لئے کی جائے۔

عبادت کی قسمیں

اس عبادت کوہم درج ذیل پانچ اکائیوں میں تقسیم کرسکتے ہیں:

۱- عبادات قلبیہ : جیسے: محبت، خود، امیداورتوکل سب اسی سے ہو۔

۲- عبادات لسانیہ : جیسے: دعا، پناہ طلبی اورفریادطلبی وغیرہ اسی سے ہو۔

۳- عبادات بدنیہ : جیسے: نماز، روزہ، طواف، رکوع اورسجدہ وغیرہ سب اسی کے لئے ہو۔

۴- عبادات مالیہ : جیسے: زکات وصدقات، قربانی اور نذر وغیرہ اسی کے لئے ہو۔

۵- عبادات بدنیہ ومالیہ : جیسے: حج وغیرہ اسی کے لئے ہو۔

چوتھا حق: اطاعت

اطاعت اللہ تعالیٰ کی حقیقی بندگی کے مظاہرمیں سے ایک مظہرہے، جس کے بغیراللہ کے حکم پرعمل نہیں ہوسکتا، اطاعت کاسیدھامعنی ’’بات ماننا‘‘ہے اور ظاہر ہے کہ بات مانے بغیرحکم کوانجام نہیں دیاجاسکتا، اللہ تعالیٰ کاارشادہے:

’’ اور جو شخص اللہ اور اس کے پیغمبر کے فرمان پرچلے گا اللہ اس کو بہشتوں میں داخل کرے گا جن کے تلے نہریں بہہ رہی ہیں اور جو رُوگردانی کرے گا اسے بُرے دکھ کی سزا دے گا‘‘(الفتح: ۱۷)۔

اطاعت کے پہلو

پھراطاعت کے دوپہلوہیں:

۱- مثبت پہلو : اس سے مرادیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جتنے احکام عمل کرنے کے تعلق سے دئے ہیں، ان پرکیاجائے، اصطلاح میں ان کو’’اوامر‘‘ (Orders) کہا جاتا ہے، اس کے لئے کئی طرح کے الفاظ آتے ہیں، جیسے:

۱- أطاع(بات ماننا) ۲- اتَّبَع(پیروی کرنا) ۳- فَرَضَ(فرض کرنا)

۴- کَتَبَ(لکھ دینا) ۵- قضی(فیصلہ کرنا) ۶- حَکَمَ(حکم دینا)

۷- أمَرَ(حکم دینا) ۸- أوجب(لازم کرنا) ۹- وجب(لازہونا)

۱۰- حتم(لازم کرنا) ۱۱- علیکم(تم پرلازم ہے)

۲- منفی پہلو : اس سے مرادیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں سے روکاہے، ان سے رک جایاجائے، اصطلاح میں ان کو’’نواہی‘‘ (Prohibitions)کہتے ہیں، اس کے لئے کئی طرح کے الفاظ آتے ہیں:

۱- حَرَّمَ(حرام کرنا) ۲- کَرِہَ(ناپسندکرنا) ۳- اوپرالفاظ کوجب نفی کے ساتھ ذکرکیاجائے، جیسے: لم یأمر(اس نے حکم نہیں دیا)

اطاعت کے برعکس ’’نافرمانی‘‘ ہے، جس کے معنی بات نہ ماننے اورگناہ کرنے کے آتے ہیں، قرآن میں اس کی بھی صراحت کی گئی ہے اوربتایاگیا ہے کہ جواطاعت کرتاہے، وہ جنت میں جائے گااورجونافرمانی کرتاہے، وہ جہنم میں جائے گا۔

پانچواں حق: شکر

اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پربہت سارے احسانات کئے ہیں، ظاہرہے کہ ان کا اعتراف ہوناچاہئے اورشکراداکرناچاہئے، شکرادا کرنے کوہم (Thanks)بولنابھی کہہ سکتے ہیں، دنیامیں جب کوئی شخص کسی کے کام آتاہے تووہ اس کااحسان مند ہوتا ہے، اسے Thanksکہتاہے، اللہ تعالیٰ کاایک حق یہ بھی ہے کہ اس کے احسانات کے بدلہ ہم بھی اس کاشکراداکریں، جس کافائدہ یہ ہوگاکہ وہ مزیدنعمتوں سے ہمیں نوازے گا، خوداللہ تعالیٰ کاارشادہے:

’’ اور جب تمہارے رب نے (تم کو) آگاہ کیا کہ اگر شکر کرو گے تو میں تمہیں زیادہ دوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو (یاد رکھو کہ) میرا عذاب (بھی) سخت ہے‘‘(إبراہیم: ۷)۔

دوسری جگہ ہے:

’’(اور) اسے رستہ بھی دکھا دیا (اب) خواہو شکرگزار ہو خواہ ناشکرا(الدہر:۳)۔

شکرکے پہلو

اللہ تعالیٰ کے شکرکی ادائے گی کے تین پہلوہیں:

۱- زبان سے : زبان سے شکراداکرنے کامطلب یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کے احسانات کااعتراف کرے اورزبان سے الحمدللہ اورلک الحمد ولک الشکرکہے۔

۲- دل سے : دل سے شکراداکرنے کامطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احسانات کا استحضارہواورانھیں یادرکھاجائے اوراس کے نتیجہ میں اس سے محبت رکھے۔

۳- اعضاء وجوارح سے: اعضاء وجوارح سے شکراداکرنے کامطلب یہ ہے کہ اس کے احسانات کے بدلہ میں اس کی اطاعت کی جائے اور اس کے ہرحکم کو بجالایاجائے۔

ان تینوں پہلؤوں سے اللہ تعالیٰ کاشکراداکرناچاہئے؛ تاکہ وہ ہم سے خوش ہوجائے اورخوش ہوکرمزیدانعامات سے نوازے۔

چھٹاحق: توکل

توکل کے معنی اعتماد اوربھروسہ کے ہیں اوراللہ تعالیٰ پرتوکل کامطلب یہ ہوا کہ دنیاوآخرت کے تمام نفع ونقصان کے تعلق سے اس پر بھروسہ رکھاجائے، اگر کوئی توکل رکھتاہے تواللہ تعالیٰ اس کے لئے کافی ہوجاتاہے، خوداللہ تعالیٰ کاارشادہے:

’’اور جو اللہ پر بھروسا رکھے گا تو وہ اس کو کفایت کرے گا اللہ اپنے کام کو (جو وہ کرنا چاہتا ہے) پورا کر دیتا ہے اللہ نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کر رکھا ہے‘‘(الطلاق: ۳)۔

توکل یہ مطلب نہیں ہے کہ بندہ ہاتھ پرہاتھ رکھ کربیٹھ جائے؛ بل کہ توکل یہ ہے کہ پہلے تدبیرکی جائے ، پھراللہ پربھروسہ کیاجائے، ایک صحابی نے رسول ﷺ کی خدمت میں حاضرہوکر پوچھا:اے اللہ کے رسول! اسے باندھ کربھروسہ کروں یا کھلاچھوڑکربھروسہ کروں؟تو اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:

’’اسے باندھواوراللہ پربھروسہ کرو‘‘(سنن الترمذی، حدیث نمبر: ۲۵۱۷)۔

اس سے واضح طورپریہ بات معلوم ہوتی ہے کہ تدبیرکے بغیربھروسہ کافی نہیں؛ بل کہ پہلے تدبیرہونی چاہئے، پھرتقدیرپربھروسہ ہوناچاہئے، اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

’’اور اپنے کاموں میں اُن سے مشورہ لیا کرو اور جب (کسی کام کا) عزمِ مصمم کر لو تو اللہ پر بھروسا رکھو بیشک اللہ تعالیٰ بھروسا رکھنے والوں کو دوست رکھتا ہے‘‘(آل عمران: ۱۵۹)۔

توکل کے پہلو

توکل کے درج ذیل پہلوہیں:

۱- جلب منفعت میں: اس سے مراد یہ ہے کہ دنیاوی لحاظ سے جتنے بھی ضروریات اور منافع ہوسکتے ہوں، ان میں اللہ پربھروسہ کیاجائے؛ لیکن یہ بھروسہ تدبیر کے ساتھ ساتھ ہو، جیسے: تجارت کررہے ہیں توتجارت کے لوازمات پہلے اختیارکئے جائیں، پھراللہ پربھروسہ ہو۔

۲- دفع مضرت میں: یہ یقین رکھاجائے کہ بندہ پرجوبھی نقصانات آسکتے ہیں، وہ اللہ کی مرضی کے بغیرنہیں آسکتے، پھرنقصان سے حفاظت کی تدبیراختیارکی جائے، اس کے بعدان تدابیرکوبذات خود مؤثرنہ مانتے ہوئے اللہ پربھروسہ کیاجائے، اس حقیقت کوواـضح کرتے ہوئے حضرت عمرؓ نے حجراسودکومخاطب کرکے فرمایا:

’’میں خوب جانتاہوں کہ توایک پتھرہے، نہ نقصان پہنچاسکتاہے اورناہی نفع، اگرمیں نے رسول اللہ ﷺ کوتجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا توتجھے بوسہ نہ دیتا‘‘(بخاری، باب ماذکرفی الحجرالأسود، حدیث نمبر: ۱۵۹۷ )۔

۳- محبت وخوش نودی کے حصول میں: یہ یقین رکھاجائے کہ بندہ جوبھی عبادت اوراطاعت کے اعمال انجام دیتاہے، اس سے اللہ تعالیٰ کی محبت اوراس کی خوش نودی حاصل ہوگی، اس پربھروسہ ہوناچاہئے۔

ساتواں حق: استعانت

استعانت کے معنی ’’مددچاہنے‘‘ کے آتے ہیں، حقیقی اعتبارسے مددکرنے والا اللہ کی ذات ہے، دنیا یاآخرت کے کسی بھی کام کی تکمیل کے لئے اصل مددتواسی سے مانگنی چاہئے، ہم اسی کااعتراف کرتے ہیں اوراپنی زبان سے کہتے ہیں:

’’ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیںاورتجھ سے ہی مددچاہتے ہیں‘‘(الفاتحۃ:۴)۔

استعانت کی قسمیں

یہ بات بھی ذہن نشین رکھنے کی ہے کہ بسااوقات ہم بندوں سے بھی مددمانگتے ہیں توکیا یہ استعانت کے منافی ہے؟ اس کاجواب یہ ہے کہ استعانت کی دوقسمیں ہیں:

۱- حقیقی استعانت : حقیقی استعانت کامطلب یہ ہے کہ ہماراکوئی بھی کام اللہ تعالیٰ کی توفیق اورمددکے بغیرپایۂ تکمیل کونہیں پہنچ سکتا، خواہ جتنی بھی تدبیر اختیارکرلیں، اسی استعانت کے تعلق سے اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:

’’ہروہ کام، جسے اللہ کے حمدسے شروع نہ کیاجائے تووہ ناقص رہتاہے‘‘(شعب الإیمان للبیہقی، حدیث نمبر: ۴۳۷۲)۔

۲-سببی استعانت : اس کامطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسرے مددطلب کی جائے؛ لیکن حقیقی استعانت سمجھ کرنہیں؛ بل کہ سبب سمجھ کرکیاجائے، جیسے: مریض کی شفایابی کے لئے ڈاکٹرسے استعانت، ظاہرہے کہ اس میں استعانت حقیقی نہیں، سببی ہے، ڈاکٹرکوسبب ہی سمجھاجاتاہے اور شفایابی کے لئے حقیقی استعانت اللہ سے کی جاتی ہے۔

یہ تھے اللہ تعالیٰ کے وہ حقوق، جنھیں بندوں کوادا کرناچاہئے؛ تاکہ ہمارا پیدا کرنے والا ہم سے راضی اورخوش ہوجائے، اللہ ہمیں اس کی توفیق دے، آمین!


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی