قربانی __احکام ومسائل

قربانی __احکام ومسائل

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

اللہ تعالیٰ سے تقرب حاصل کرنے کاایک عظیم الشان ذریعہ’’ قربانی ‘‘ہے، قربانی میں چھری توجانورکے حلقوم پرچلائی جاتی ہے؛ لیکن دراصل دلوں کے اندر یہ بات رہتی ہے کہ جس طرح آج اللہ کے راستہ میں جانورکی قربانی دی ہے، موقع آنے پراللہ کی راہ میں اپنے بیٹوں پوتوں؛ بل کہ خود اپنی جان کانذرانہ بھی پیش کردیں گے۔

قربانی کا ثبوت

قربانی کاتذکرہ قرآن وحدیث میں واضح طورپرموجود ہے؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’بلاشبہ میری نماز، میری قربانی، میرامرنااورمیراجینا(سب) دونوں جہان کے پروردگارکے لئے ہے‘‘(الانعام:۱۶۲) ۔حضرت انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں کہ’’ حضور اکرم ﷺ دومینڈھوں کی قربانی کرتے تھے ‘‘ (بخاری، کتاب الأضاحی، حدیث نمبر: ۵۵۵۳)

قربانی حضرت ابراہیم واسماعیل علیہما السلام کی وہ محبوب ترین یادگارہے ، جسے اللہ تعالیٰ نے رہتی دنیاتک کے لئے محفوظ کردیااورامت مسلمہ کواُس یادگارکومنانے کا حکم دیا؛ چنانچہ آج تک اِس سنت ابراہیمی پر عمل جاری ہے، علامہ ابن قدامہ ؒ نے اِس کی مشروعیت پراجماع نقل کیا ہے (المغنی: ۱۱ / ۹۵)۔

قربانی کی فضیلت

قربانی کی کیافضیلت ہے؟ اِس سلسلہ میں حضرت عائشہ ؓ آپ ﷺ کاارشاد نقل کرتی ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: قربانی کے دن ابن آدم کاسب سے بہترین عمل قربانی کرناہے اورقیامت کے دن قربانی کرنے والااپنے جانور کی سینگوں، کھروں اوربالوں کے ساتھ آئے گا(یعنی اُس کے میزانِ عمل میں اُن چیزوں کوبھی تولاجائے گا اوراُن کے بقدر ثواب دیاجائے گا)اورقربانی کے جانورکاخون زمین پرگرنے سے پہلے ہی اللہ کے یہاں محفوظ ہوجاتاہے(جس کابدلہ قیامت کے دن ملے گا)، لہٰذا خوش دلی کے ساتھ قربانی کرو۔(ابن ماجہ، کتاب الأضاحی، حدیث نمبر: ۳۱۲۶)، اِسی طرح ایک دوسری حدیث میں ہے کہ صحابہ نے آپ ﷺسے عرض کیا کہ قربانی کاہمیں کیا (بدلہ) ملے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہربال کے بدلہ ایک نیکی۔(ابن ماجہ، حدیث نمبر:۳۱۲۷)

قربانی کا حکم

حضرت امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک چندشرطوں کے ساتھ قربانی واجب ہے۔

قربانی واجب ہونے کے لئے شرطیں:

قربانی واجب ہونے کے لئے درج ذیل شرطیں پائی جانی چاہئیں:

۱- مسلمان ہو، غیرمسلم پرقربانی واجب نہیں۔

۲- مالدارہو، یعنی کوئی شخص (87.479)گرام سونایا(612.35)گرام چاندی یا اُن دونوں میں سے کسی ایک کے برابرروپے پیسے یازمین جائدادیامال تجارت یا ضرورت سے زائدسامان کاقربانی کے آخری دن کے غروب ِآفتاب سے پہلے پہلے مالک ہوجائے تواُس پر قربانی واجب ہوگی، نیز اگرایسی زمین ہو، جس سے سال بھر کا غلہ حاصل ہوتاہوتواُسے بھی نصاب میں شمارکیاجائے گا(فتاوی بزازیہ مع ہندیہ: ۶ / ۲۸۶)۔

۳- مقیم ہو؛ چنانچہ مسافرپرقربانی واجب نہیں ہوتی۔

قربانی کے جانور

تین طرح کے جانوروں کی قربانی کی جاسکتی ہے:

۱- اونٹ / اونٹنی: جواپنی عمرکے پانچ سال مکمل کرلینے کے بعدچھٹے سال میں قدم رکھ چکے ہوں۔

۲- گائے / بیل / بھینس: جواپنی عمرکے دوسال مکمل کرلینے کے بعدتیسرے سال میں قدم رکھ چکے ہوں۔

۳- بکرا / بکری / مینڈھا / دُنبہ / بھیڑ: جواپنی عمرکے ایک سال مکمل کرلینے کے بعددوسرے سال میں قدم رکھ چکے ہوں؛ البتہ اگرچھ مہینہ کا دُنبہ اتنا موٹا تازہ ہوجائے کہ سال بھرکادکھنے لگے تواُس کی قربانی کی جاسکتی ہے۔

وہ عیوب ، جوقربانی کے لئے رکاوٹ ہیں

اِس سلسلہ میں فقہاء نے ایک اصول بیان کیاہے کہ جانورکے اندراگرعیب اِس طرح ہو، جس سے اُس کی خاص قسم کی منفعت یاظاہری جمال بالکل ختم ہوجائے تواُس جانورکی قربانی درست نہ ہوگی اوراگرایسا نہ ہوتوقربانی درست ہوجائے گی۔(فتاوی ہندیہ: ۵ / ۲۹۹)، جیسے: سینگ جڑسے ٹوٹ گئی ہو، اندھاہو، ایک آنکھ ضائع ہوگئی ہو، اِس طرح لنگڑاہوکہ چل پھرنہ سکتاہو، دونوں کان کٹ گئے ہوں، پوری دُم کٹ گئی ہو، تھن کٹ گیاہویا کوئی بھی عضوتہائی یااُس سے زیادہ کٹ گیاہو وغیرہ۔ایسے عیوب کی موجودگی میں قربانی درست نہ ہوگی۔

قربانی کا وقت اوردن

قربانی کاوقت ۱۰ / ذی الحجہ کے طلوعِ صبح سے شروع ہوکر۱۲ / ذی الحجہ کے غروب ِآفتاب تک رہتاہے؛ البتہ جن علاقوں میں عیدالاضحی کی نماز ہوتی ہے، وہاں نماز سے پہلے قربانی کرنادرست نہیں۔

شرکت کے ساتھ قربانی

بڑے جانوروں جیسے: اونٹ، گائے، بیل وغیرہ میں سات لوگوں کی طرف سے قربانی ہوسکتی ہے؛ لیکن چھوٹے جانورجیسے: بکرا، بکری وغیرہ میں صرف ایک ہی آدمی کی طرف سے قربانی ہوگی؛ البتہ شرکت کے ساتھ قربانی کرنے میں تمام شرکاء کی نیت صرف قربانی کی ہی ہونی چاہئے، گوشت مقصود نہیں ہوناچاہئے۔

گوشت اورچمڑا

قربانی کے گوشت کوتین حصوں میں تقسیم کرناچاہئے، ایک حصہ ذاتی استعمال کے لئے، دوسراحصہ دوست واحباب(خوہ مالدارہوں)کے لئے اورتیسراحصہ فقراء اور مساکین کے لئے؛ تاہم حالات کے مطابق اِن حصوں میں کمی بیشی کی بھی گنجائش ہے۔

چمڑے کو ذاتی طورپراستعمال کرسکتے ہیں، کسی مالداریامسکین کوہدیہ بھی دے سکتے ہیں؛ تاہم بیچنے کی صورت میں اُس کی قیمت کوصدقہ کرناضروری ہے۔

قربانی کا طریقہ

جانورکوقبلہ رولٹاکریہ دعاپڑھے: إنِّیْ وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَالسَّمٰوٰتِ وَالْأرْضَ حَنِیْفاًوَمَاأنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ٭ إنَّ صَلوٰتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ٭ لَاشَرِیْکَ لَہ‘ وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَأنَاأوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ ٭ اَللّٰہُمَّ مِنْکَ وَلَکَ٭یہ دعاپڑھنے کے بعد بِسْمِ اللّٰہِ أللّٰہُ أکْبَرْ کہہ کراچھی طرح سے ذبح کرے، پھراُس کے بعد یہ دعاپڑھے: اَللّٰہُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّیْ کَمَاتَقَبَّلْتَ مِنْ حَبِیْبِکَ مُحَمَّدِِ وَخَلِیْلِکَ اِبْرَاہِیْمَ عَلَیْہِمَا الصَّلوٰۃُ وَالسَّلامُ۔

اگرکسی کودعایادنہ ہوتودل میں صرف یہ کہہ لے کہ میں قربانی کررہاہوں اوربسم اللہ اللہ اکبرکہہ کرجانورذبح کرلے۔

قربانی کے سلسلہ میں بعض اہم مسائل

۱- قربانی کے جانورکے چمڑے کے پیسے اساتذہ کی تنخواہ، نیز مساجد اور مدارس کے تعمیری اخراجات میں نہیں دے سکتے۔

۲- مالدارآدمی قربانی کے دنوں میں قربانی نہ کرسکے تواُس کی قضاء واجب ہوگی، یاتوزندہ جانورکوہی صدقہ کردے یاپھراُس کی قیمت صدقہ کرے۔

۳- اگرمالدارآدمی نے قربانی کی نیت سے جانورخریدلی تھی؛ لیکن قربانی کے دنوں میں قربانی نہ کرسکاتواب عین اُسی جانورکوفقراء و مساکین کوصدقہ کرناواجب ہے۔

۴- اگرکسی مالدارنے قربانی کے لئے جانورخریدا؛ لیکن وہ جانورگُم ہوگیا، پھراُس نے دوسرے جانورکی قربانی کردی، بعدمیں پہلاجانوربھی مل گیاتواب اِس جانورکی قربانی ضروری نہیں۔

۵- اگرکسی غریب آدمی نے قربانی کے لئے جانورخریدا؛ لیکن وہ گُم ہوگیا، پھراُس نے دوسرے جانورکی قربانی کی، بعدمیں پہلاجانوربھی مل گیا تواب اِس جانورکی قربانی بھی ضروری ہوگی۔

۶- قربانی کی نیت سے خریدے ہوئے جانورکواگرکسی عذرکی بناپروقت سے پہلے ذبح کرناپڑجائے تووہ صدقہ کاجانورشمارہوگا، صرف فقراء ہی اُس کے مستحق ہوں گے۔

۷- قربانی کی نیت سے خریدے ہوئے جانورکوبدل کردوسرے جانورکی قربانی کی جاسکتی ہے؛ البتہ ایسانہ کرناچاہئے۔

۸- میت کی طرف سے قربانی کی جاسکتی ہے؛ البتہ اگرمیت کے حکم پرایسا کیاگیاہے تواُس کا گوشت صدقہ کیاجائے گااوراگراپنی طرف سے میت کے لئے قربانی کی ہے توگوشت کا استعمال کیاجاسکتاہے(فتاویٰ غیاثیہ، ص: ۱۳۰)

۹- اُجرت کے طورپرقصائی کوچمڑایاگوشت دینادرست نہیں۔

۱۰- اگرقربانی دینے والا کسی دوسرے ملک میں ہواورقربانی ہندوستان میں ہورہی ہوتو ہندوستان کے وقت اورتاریخ کا اعتبارہوگا۔

۱۱- جانورکوذبح کرنے بعداگراُس کے پیٹ سے زندہ بچہ نکل آئے تواُسے بھی قربانکردیناچاہئے۔

۱۲- قربانی کاگوشت غیرمسلم کودینادرست توہے؛ لیکن بہترنہیں؛ البتہ اگرمعلوم ہوجائے کہ وہ اِس گوشت کوشراب کے ساتھ استعمال کرے گاتوگوشت دینا درست نہیں۔

۱۳- کسی سے اُدھارلے کرقربانی کرنادرست ہے۔

۱۴- مالدارحضرات اگرقربانی کاپوراجانورکسی غریب کوقربانی کے لئے دیں توکوئی حرج نہیں۔

۱۵- فقراء کوقربانی کا جوگوشت ملتاہے، اُسے وہ بیچ بھی سکتے ہیں۔

۱۶- بڑے جانور کے کچھ حصے قربانی کے لئے ہوں اورکچھ حصے عقیقہ کے لئے تواِس کی گنجائش ہے۔

۱۷- اگرمالدار نے قربانی کی نیت سے مکمل ایک بڑاجانورخریدا، پھراُس میں چھ لوگوں کو شریک کرلیاتوتمام لوگوں کی طرف سے قربانی توہوجائے گی؛ البتہ مالدارکے لئے ایساکرنا مکروہ ہے؛ لیکن یہی کام اگرکسی غریب نے کیاتواُس کے لئے ایساکرنادرست نہیں۔

۱۸- اگرکسی پرقربانی کی قضاء ہواوروہ ایک ساتھ ایک جانورمیں دوحصے لے کرایک ادا کے لئے اوردوسراحصہ قضاء کے لئے قربانی کرے تواداقربانی ہوجائے گی، قضاء نہیں ہوگی۔

۱۹- کسی مالدار کاجانورذبح کرتے وقت امام صا حب نے نام بدل دیا، مثلاً:عدیل کی جگہ خلیل کانام لے لیاتوخلیل کی طرف سے ہی قربانی سمجھی جائے گی ، عدیل کی طرف سے نہیں۔

۲۰- کسی غریب کے جانورکوذبح کرتے وقت نام بدل دینے سے قربانی اُسی کے نام سے ہوگی، جس غریب کاجانورہے۔

۲۱- صاحب ِنصاب حاجی پرمقیم ہونے(مثلا:مکہ میں پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کر لینے) کی صورت میںقربانی واجب ہے، اب وہ چاہے تواُس کی قربانی اُس کے وطن میں بھی ہوسکتی ہے اورخود جہاں ہے، وہاں بھی ہوسکتی ہے۔

۲۲- شرکت کے ساتھ قربانی کرنے کی صورت میں گوشت کی تقسیم وزن کے ذریعہ سے ہونی چاہئے؛ تاہم اگرشرکاء اندازہ سے تقسیم کرناچاہیں توکرسکتے ہیں؛ البتہ ایسی صورت میں کسی کوپیر(پائے)، کسی کوچمڑااورکسی کوکوئی دوسری چیز لے لینی چاہئے؛ تاکہ کمی بیشی کی بھرپائی ہوجائے۔


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی