غزوۂ احد ۔۔۔۔ اسباق ودروس

 معرکۂ احد  ------  اسباق ودروس

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

سن دوہجری میں مشرکین اورمسلمانوں کے درمیان بدرکے میدان میں جوخون آشام جنگ ہوئی، اس میں قلت ِتعدادکے باوجودمسلمانوں کاپلڑا بھاری رہا، جب کہ کثرت ِعددکے باوجودکفارقریش کوبھاری نقصان اٹھاناپڑا،قریش کے وہ صنادیدبھی اس جنگ کی بھٹی میں راکھ بن گئے، جن کی وجہ سے رَن کانپتا تھا۔

میدانِ بدرکی شکست وریخت نے اہلِ مکہ کوپہلے سے زیادہ آتشِ غضب بنادیا؛ چنانچہ ان لوگوں نے اپنے غیظ وغضب کوپرسکون کرنے کے لئے مسلمانوں کے ساتھ ایک ایسی جنگ کا فیصلہ کیا، جواِن کی کمرتوڑدے، عکرمہ بن ابوجہل، صفوان بن امیہ، ابوسفیان بن حرب اورعبداللہ بن ربیعہ معرکہ آرائی کے اس معاملہ میں پیش پیش تھے،ان لوگوں نے قریش سے اُس تجارتی منافع کوجنگ میں استعمال کرنے کا مشورہ دیا، جوغزوۂ بدرکے موقع پرشام سے حاصل ہواتھا،انھوں نے لوگوں سے کہا:’’اے قریش کی جماعت! محمدنے تمہارے بہترین سورماؤوں کو موت کے گھاٹ اتاردیاہے، لہٰذا تم اس کے خلاف جنگ کی تیاری میں اپنے اس مال کے ذریعہ امداد کرو، شاید ہم اپنے مرنے والے ساتھیوں کا انتقام لے کرکچھ تدارک کرسکیں‘‘(الروض الأنف ، غزوۃ أحد: ۳: ۲۴۰، السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، غزوۃ أحد: ۱؍۱۱۳)۔

  قریش نے ابوسفیان کے اِس مشورہ کوقبول کیا اورہرایک نے اپنے تجارتی نفع کوجنگ کی تیاری کے لئے وقف کردیا، پھروہ سب ایک ایسی جنگ کی تیاری میں مصروف ہوگئے، جومسلمانوں کے لئے حقیقی انتقام بن سکے، سال پوراہوتے ہوتے قریش کی تیاریاں مکمل ہوگئیں اورقریشیوں کے علاوہ ان کے حلیفوں اور احابیش (یعنی بنومصطلق اوربنوہون بن خزیمہ،جوقریش کے حلیف تھے) کو ملاکر جنگجوؤں کی تعداد تین ہزارتک پہنچی، انھوں نے عورتوں کوبھی اپنے ساتھ رکھ لیا؛ تاکہ عزت وناموس کی حفاظت کاجذبہ رجوعِ قہقریٰ کا خیال تک نہ آنے دے(سیرۃ ابن ھشام: ۲؍۶۲)، حضرت عباس ؓ قریش کی ساری نقل وحرکت کابغورمطالعہ کرتے رہے اورجوںہی قریشی لشکرمدینہ کے لئے حرکت میں آئی، انھوں نے ایک خط لکھ کرتیز رفتارقاصدکے ذریعہ آں حضرتﷺ کواطلاع بھجوائی، اس خبرکے پہنچتے ہی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ناگہانی حملہ سے بچنے کے لئے مدینہ کے راستوں پرطلایہ گردی شروع کردی، حضرت انس اورحضرت مونس دونوں بھائیوں کوقریشی لشکرکاپتہ لگانے کے لئے بھیجا، ان لوگوں نے لشکر کو مقام ’’عقیق‘‘ میں موجودپایا، یہ لوگ لوٹ کرآئے اورآں حضرتﷺکواس کی خبر دی اور بتلایاکہ ان کے اونٹوں اورگھوڑوں نے ’’عریض‘‘کے کھیتوں کاصفایاکردیاہے، آپﷺنے حضرت حباب بن منذرؓ کوقریشی لشکرکے بارے میں صحیح تحقیقِ حال کے لئے دوبارہ روانہ فرمایا، انھوں نے ان کی تعداداورسازوسامان کابھی اندازہ لگا کر بتایاتوحضورﷺنے فرمایا:’’ ان کے بارے میں کسی بات کاتذکرہ نہ کرو، اللہ ہمارے لئے کافی اوربہترین کارساز ہے، اے اللہ! ہم تیرے نام سے جست لگاتے ہیں اورتیرے ہی نام سے حملہ کرتے ہیں‘‘(سبل الہدی والرشاد فی سیرۃ خیرالعباد، الباب الثالث عشر: فی غزوۃ أحد: ۴؍۱۸۳)۔

پھرآپﷺنے دفاعی حکمت ِعملی کے لئے صحابہ سے مشورہ فرماتے ہوئے اپنے خواب کاتذکرہ کیا:’’میںنے خواب میںایک مضبوط زرہ اورکچھ ذبح کی ہوئی گایوںکودیکھا، میںنے مضبوط زرہ کی تاویل ’’مدینہ‘‘ سے کی اورگایوںسے وہی مرادلئے(بعض روایتوں میں ہے کہ اس کی تاویل ’’مصیبت ‘‘سے فرمائی، دیکھئے(المعجم الکبیرللطبرانی: ۱۱؍۳۹۴)، باقی اللہ خیر‘‘(مسند احمدعن جابربن عبداللہ: ۱؍۲۷۱)،ابن اسحاق کہتے ہیں کہ آپﷺنے یہ بھی فرمایا:’’ اگرتم چاہوتومدینہ میں ہی اقامت کرواوران کو ان کے خیموں میں چھوڑدو، اگروہ وہیں رہے تووہ بری اقامت گاہ ہوگی ؛ لیکن اگر انھوں نے مدینہ کارخ کیا توہم ان سے جنگ کریں گے‘‘(السیرۃ النبویۃ، غزوۃ أحد: ۱؍۱۱۳)؛ تاہم مشورہ میں آخری فیصلہ یہ طے ہواکہ مدینہ سے باہر نکل کرکھلے میدان میں معرکہ آرائی کی جائے، یہ را ئے بالخصوص ان لوگوں کی تھی، جوغزوۂ بدر میں شریک نہ ہوسکے تھے؛ چنانچہ ان لوگوں نے آں حضرتﷺکومخاطب کرکے کہا: ’’اے اللہ کے رسول ا! ہمیں لے کردشمنوں کے مقابلہ میں نکلئے،دشمن کہیں یہ نہ سوچیں کہ ہم بزدل یاکمزورہیں‘‘(السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، غزوۃ أحد: ۱؍۱۱۳) ۔

اکثریت کی رائے کااعتبارکرتے ہوئے آپﷺایک ہزار جمعیت کے ساتھ مدینہ سے نکلے اور’’شیخان‘‘نامی مقام پرپہنچ کرلشکرکامعائنہ فرمایااورجوکم سن تھے، انھیں واپس فرمادیا، شام ہونے کی وجہ سے یہیں پرآپﷺنے شب باشی فرمائی؛ البتہ پچاس صحابہ کومنتخب فرماکرنگرانی پرمامورفرمایا، صبح صادق سے پہلے ہی یہاں سے کوچ فرمایااور’’شوط‘‘نامی مقام پر نمازِفجرادافرمائی، یہیں عبداللہ بن اُبی کی منافقت کھل کرظاہرہوئی اوراس نے یہ کہہ کرکہ ’’محمد(ﷺ)نے میری رائے پرعمل نہیں کیا‘‘ اپنے تین سوہمراہیوں کولے کرعلاحدہ ہوگیا، شایداس کی غرض یہ تھی کہ عین موقع پرمسلمانوں کے اندرکھلبلی مچ جائے اورمشرکین کو فائدہ حاصل ہوجائے، اب حضورﷺ باقی ماندہ سات سولوگوں کے ساتھ اُحدکی گھاٹی میں پہنچے اوروہیں لشکرکا کیمپ لگوایا(الرحیق المختوم، غزوۃ أحد،ص: ۲۱۶)، پھر لشکرکی ترتیب وتنظیم فرمائی اورسب سے پہلے پچاس ماہر تیراندازوں کومنتخب کرکے وادی قناۃ کے جنوبی کنارے پرواقع ایک چھوٹی سی پہاڑی(جسے ’جبلِ رُماۃ‘ کہاجاتاہے) پرمتعین فرمایا؛ تاکہ دشمن کالشکرادھر سے حملہ آورنہ ہوسکے اور انھیں حکم دیتے ہوئے فرمایا:’’ہماری پشت کی حفاظت کرو؛کیوں کہ ادھرسے دشمنوں کے آنے کااندیشہ ہے، اورہماری فتح مندی دیکھ لینے کے باوجوداپنی جگہ سے جنبش نہ کرنا،اسی طرح اگردشمنوں کوہمیں قتل کرتے ہوئے دیکھوتوبھی ہماری مددکونہ آنا، اے اللہ! میں تجھے ان پرگواہ بناتاہوں، اوردشمن کے گھوڑوں کو تیراندازی کے ذریعہ روکوکہ گھوڑے تیرسے آگے نہیں بڑھ سکتے‘‘ (مغازی الواقدی، غزوۃ أحد:۱؍۲۲۶)۔

پھرآپﷺنے لشکرکی صف بندی کی اورراہِ خدا میں جاںبازی اورشہادت پر وعظ فرمایا، مشرکین نے بھی ترتیب قائم کی، پھردونوں فوجیں آمنے سامنے آئیں اورمشرکین کی طرف سے طلحہ بن طلحہ عبدری (جسے مسلمان ’کبش الکتیبۃ‘ (لشکر کامینڈھا)کہاکرتے تھے)دعوتِ مبارزت دیتے ہوئے نکلا، حضرت زبیرؓ تیزی سے لپکے اورمہلت دئے بغیراس کے اونٹ پرجاچڑھے، پھراسے لے کرکودے اور اس کوذبح کرڈالا، یہ منظر دیکھ کرآپ انے فرطِ مسرت سے نعرۂ تکبیربلندکی، اب عام حملہ شروع ہوگیا، مسلمان کفن بردوش مشرکینِ مکہ کی صفیں اُلٹتے اورآگے بڑھتے جارہے تھے، شیرِخداحضرت حمزہؓ حقیقتاً شیرِنربنے ہوئے تھے، بڑے سے بڑا بہادربھی اُن کے سامنے ٹک نہیں پاتاتھا، انھوں نے جنگ بدرمیں بھی کارہائے نمایاں انجام دی تھیں، جنگ ِبدرمیں انھوں نے جُبیربن مطعم کے چچا طُعَیمہ بن عدی کوواصل جہنم کیاتھا، لہٰذا جبیربن مطعم نے اپنے غلام وحشی بن حرب کوحضرت حمزہؓ کے قتل پرمامورکیااورکہا کہ اگرانھیں قتل کردوتوتمہیں آزادکردیاجائے گا، وحشی ایک ماہرنیزہ باز تھا، جواس جنگ میں صرف انھیں کوقتل کرنے کے لئے شریک ہواتھا، وہ مسلسل اسی تاک میں رہااورجب حضرت حمزہؓ مشرکینِ مکہ کی صفیں زیروزبرکرتے ہوئے اس جگہ پرپہنچے، جہاں وحشی انھیں کے گھات میں تھا، وحشی نے نیزہ تول انھیں مارا، جوناف کے نیچے پارہوگیا، انھوں نے پلٹنے کی کوشش کی؛ لیکن گرپڑے اورزندۂ جاویدہوگئے(الروض الأنف: ۳؍۲۵۴،مغازی الواقدی، غزوۃ أحد:۱؍۲۲۶)، اس کے باوجودمسلمانوں کے جنگ کا پلڑابھاری رہا؛ یہاں تک کہ مشرکین پسپاہوتے ہوتے راہِ فراراختیارکرنے لگے اورمسلمان تعاقب میں جٹ گئے، ایسے موقع پر’جبلِ رُماۃ‘ کے تیراندازوں سے خوفناک غلطی ہوئی؛ چنانچہ ان میں سے بعض نے یہ سمجھاکہ جنگ ختم ہوچکی ہے اورمسلمان مالِ غنیمت لوٹنے میں مصروف ہیں؛ اس لئے کچھ وہاں سے مال ِ غنیمت لوٹنے کے لئے اترپڑے، حضرت خالدبن ولیدگویااسی تاک میں تھے، انھوں نے پیش قدمی کرتے ہوئے باقی ماندہ تیر اندازوں کوشہید کرڈالا اورپشت سے مشرکینِ مکہ کے تعاقب میں مصروف مسلمانوں پراس طرح حملہ کیاکہ جیتی ہوئی بازی ہارمیں تبدیل ہونے کے قریب پہنچ گئی، شکست خودرہ مشرکین کی ہمت جٹ گئی اوروہ اپنی ساکھ کی بقاکی جنگ میں مصروف ہوگئے، مسلمان مکمل طورپرمشرکین کے نرغے میں آگئے، خود مسلمانوں کی سمجھ میں نہیں آرہاتھاکہ کیاکریں، اتنے میں کسی کافرنے یہ خبراڑادی کہ محمد (ﷺ) قتل کردئے گئے، اس خبرسے بہت سارے مسلمانوں کے رہے سہے حوصلے بھی ٹوٹ گئے، بالآخرآپﷺکی آواز پرمسلمان مجتمع ہوئے ؛ لیکن تب تک آپﷺکے گردکئی جاںبازشہیداور خود آں حضرتﷺزخمی ہوچکے تھے، پھرآپﷺمشرکینِ مکہ کے حصارکوناکام بناتے ہوئے گھاٹی کے اس حصے کی طرف بڑھنے لگے، جہاں کیمپ لگوایا تھا اور ہزار رکاوٹوں کے باوجودصحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ خودبھی اپنے کیمپ میں پہنچے اوردیگرصحابہ کے لئے بھی راستہ ہموارکردیا، نیچے کفارمکہ مسلمان شہداء کومثلہ کرنے کے ساتھ ساتھ مکہ کے لئے واپسی کی تیاری کرنے لگے، قریش کی واپسی کے بعدمسلمان اپنے زخمیوں اورشہیدوں کی طرف متوجہ ہوئے، خودآں حضرتﷺبھی ان کے معائنہ کے لئے نکلے، شہداء کے بارے حکم دیا کہ ان کے ہتھیاراوربوستین اتارلئے جائیں اورغسل کے بغیرانھیں دفنادیاجائے، حضرت حمزہؓ کی حالت دیکھ کرسخت غم گین ہوئے، پھر حضرت عبداللہ بن جحش ؓ کے ساتھ دفن کرنے کاحکم فرمایا، وہ آپﷺ کے بھانجے بھی تھے اوررضاعی بھائی بھی ، شہداء کی تدفین کے بعدآپﷺنے مدینہ کا رخ فرمایااور۷؍شوال بروزشنبہ سن۳ھ کوسرشام مدینے پہنچے، غزوۂ احد میں تقریباً سترمسلمان شہیدہوئے، جن میں اکثریت انصارکی تھی، مہاجرین میں صرف چار صحابہ نے جام شہادت نوش فرمایا(السیرۃ الحلبیۃ، غزوۃ أحد: ۲؍۴۹۹)۔

یہ تھی معرکۂ احد پر ایک سرسری نظر! اب آیئے، اس معرکہ سے حاصل ہونے والے اسباق ودروس کوبھی دیکھتے چلیں:

ناگہانی حملہ سے بچاؤ کی تدبیر

حضورﷺکوجیسے ہی قریشی لشکر کی روانگی کی خبرپہنچی، آپﷺنے ناگہانی حملہ سے بچنے کے لئے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک جماعت کے ذریعہ مدینہ کے راستوں پرطلایہ گردی شروع کرادی؛ تاکہ جانی ومالی نقصان سے دوچارنہ ہوناپڑے، آں حضرتﷺکے اس عمل سے ہمیں بھی یہ سبق ملتاہے کہ اچانک آپڑنے والی مصیبت سے نمٹنے کے لئے تیاری رکھیں، بالخصوص ایسی جگہوں میں، جہاں اعداء اسلام کی طرف سے آئے دن کچھ نہ کچھ ہنگامہ آرائی جارہی رہتی ہے۔

آج ہم اپنے معاشرہ کاجائزہ لیں اوردیکھیں کہ کیا ہم نے پیش آمدہ خطرات کی حصاربندی کررکھی ہے؟کیا ہمیں معلوم نہیں کہ ’خطرہ‘ ہمارے سروں پرچیل کے منڈلانے کی منڈلارہاہے؟ نہ جانے کتنی مرتبہ جانی ومالی نقصانات سے ہمیں دوچار ہونا پڑا، پھربھی کیوں کوئی تدبیرنہیں کرتے؟مؤمن ایک سوراخ سے دومرتبہ نہیں ڈساجاتا، پتہ نہیں ہمیں کتنی مرتبہ ڈساجاچکاہے اورہم صرف مارگزیدہ کی طرح سوائے تڑپنے کے کچھ نہیں کرتے؛ حالاں کہ ہمیں خوب معلوم ہے کہ محض تڑپنے سے زہرکااثرختم نہیں ہوتا، اس کے لئے ہمیں تریاق چاہئے، کاش !حضوراکرمﷺ کے اس اسوہ پرہم عمل پیراہوتے!!!

خبرکی مکمل تحقیق

جب کفارقریش کے کوچ کی خبرآپﷺکومعلوم ہوئی توآپﷺنے حضرت انس، حضرت مونس اور حضرت حباب بن منذرؓ کوقریشی لشکرکے بارے میں صحیح تحقیقِ حال کے لئے روانہ فرمایا، ان حضرات نے آکرمکمل تحقیق پیش کی اورلشکر کی تعدادکی تخمینہ بھی بتایا، نبی کریمﷺکے اس فعل سے ہمیں یہ درس ملتاہے کہ کسی بھی خبرکے بارے میں کوئی فیصلہ لینے سے پہلے پوری تحقیق ہونی چاہئے؛ تاکہ ہم اس خبرکے تعلق سے اپنے آپ کوتیارکرسکیں، نیز بعد میں کسی قسم کی پشیمانی نہ اٹھانی پڑے۔

غورکیجئے! کیا ہم بھی خبرکی پوری تحقیق کے بعد کوئی قدم اٹھاتے ہیں؟کیا ایسا نہیں ہوتاکہ تحقیق سے پہلے ہی ہم خبرکوپھیلادیتے ہیں؟ اس قسم کی سیکڑوں مثالیں شوشل میڈیامیں دیکھنے کوملتاہے؛ حتی کہ بعض دفعہ بے بنیاد خبرکی وجہ سے کافی جانی ومالی نقصانات بھی ہوجاتے ہیں، ہمیں چاہئے کہ آج کے دور میں خصوصاً خبرکی پہلے تصدیق کریں، پھراس کے مقابلہ میں تیاری کرکے سامناکریں، اللہ ہمیں توفیق دے، آمین!

اللہ پراعتماد

آں حضرتﷺکوجب ان کے لشکر کی تعدادکی خبردی گئی توآپﷺنے فرمایا: ’’ ان کے بارے میں کسی بات کاتذکرہ نہ کرو، اللہ ہمارے لئے کافی اور بہترین کارساز ہے‘‘، آپﷺکے ان جملوں میں اللہ تعالیٰ پرکلی اعتمادکی مکمل جھلک موجودہے، ورنہ مشرکین ِمکہ کے مقابلہ میں مسلمانوں کی تعداد بھی کم تھی اورآلاتِ حرب وضرب بھی نہیں کے برابرتھے، اس کے باوجودخوف واندیشہ کی کوئی لہرآپﷺکے روئے اطہرپرنہیں تھی، یہ صرف اللہ تعالیٰ پرمکمل بھروسہ کی وجہ سے ہی تھا۔

آج ہم اپناجائزہ لیں، کیاہمارااعتمادبھی اللہ پرکلی ہے؟ کیاہمارے ہرعمل کے پیچھے سبب وتدبیرکی حیثیت درجۂ اول کی نہیں؟اگرہم بھی آج اسی اعتماد کے ساتھ میدانِ عمل میں قدم رکھتے، جس اعتمادکے ساتھ اللہ کے رسولﷺاوران کے صحابہ نے عملی میدان میں قدم رکھاتھاتودشمن ہمارے سامنے کبھی بھی ٹک نہیں سکتے، کاش! ہم ایسا کرسکتے!!!

مشورہ پرعمل

آپﷺکی رائے مدینہ میں رہ کرہی مشرکین مکہ کے ساتھ دودوہاتھ کرنے کی تھی ؛ لیکن مشورہ میں آخری فیصلہ یہ طے ہواکہ مدینہ سے باہر نکل کر کھلے میدان میں معرکہ آرائی کی جائے؛ لیکن اکثریت کی رائے کااعتبارکرتے ہوئے آپ ﷺنے مدینہ سے باہر نکل کرمقابلہ کرنے کا حکم فرمایااوراپنی رائے کو قبول کرنے پرلوگوں کومجبورنہیں کیا؛ حالاں کہ آپﷺنبی تھے، لوگ بھی آپﷺکی خاطرجان کی بازی لگانے کے لئے تیارتھے، اگرچاہتے تواپنی بات پر بآسانی منواسکتے تھے، حضورﷺکے اس عمل سے ہمیں درس ملتاہے کہ مشورہ میں جوبات طے ہوجائے، اس پرعمل کرناچاہئے اوراس سلسلہ میں کسی حیلہ وحجت سے نہ توکام لیناچاہئے اورناہی اپنی ہی بات پرعمل درآمدگی کے سلسلہ میں اصرار کرنا چاہئے۔

غورکریں، ہم میں سے کتنے لوگ ہیں(بالخصوص عہدوں پرفائزافراد)، جو مشورہ کرتے ہیں اورمشورہ پراپنی بات کوترجیح دیناپسند نہیں کرتے؟بل کہ حقیقت یہ ہے کہ آج’’اطلاع‘‘کومشورہ کانام دیاجاتاہے، وہ بھی اس لئے کہ اگرکسی مصیبت میں پھنس گئے تواپنی سبکی نہ ہو، کاش! ایسے لوگ آں حضرتﷺکے عمل کو دیکھتے اوراس پرخودبھی عمل پیراہونے کی کوشش کرتے۔

غیرمتزلزل اقدام

مشرکین مکہ کے ساتھ مقابلہ آرائی کے سلسلہ میں جورائے آپﷺکی تھی، وہی رائے رأس المنافقین عبداللہ بن ابی کی بھی تھی؛ لیکن اکثریت کا اعتبارکرتے ہوئے آپﷺنے مدینہ سے باہر نکل کرمقابلہ کرنے کا فیصلہ فرمایا، یہ بات عبداللہ بن ابی کے ’’سانپ بھی مرجائے اورلاٹھی بھی نہ ٹوٹے‘‘ والے حربے کے بالکل خلاف تھی؛ چنانچہ عین اس وقت، جب کہ مسلمانوں کونفری کی سخت ضرورت تھی، عبداللہ بن اُبی کی منافقت کھل کرظاہرہوئی اوراس نے یہ کہہ کرکہ ’’محمد(ﷺ)نے میری رائے پرعمل نہیں کیا‘‘ اپنے تین سوہمراہیوں کولے کرعلاحدہ ہوگیا، شایداس کی غرض یہ تھی کہ عین موقع پرمسلمانوں کے اندرکھلبلی مچ جائے اورمشرکین کو فائدہ حاصل ہوجائے؛ لیکن آں حضرتﷺاورصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے پائے ثبات پرکسی قسم کی ڈگمگاہٹ تک نہیں آئی ، اس سے ہمیں یہ سبق ملتاہے کہ دینی کام کے دوران اگرکچھ ہمراہی علاحدگی اختیارکرلیں توان کی وجہ سے کام کے اندرکوئی حرج نہیں ہونا چایئے اورناہی امیدمنقطع کرکے اس کام سے دست کش ہوناچاہئے؛ بل کہ اللہ پربھروسہ کرکے کام کوجاری رکھناچاہئے۔

حکم عدولی کاخمیازہ

مسلمانوں کی فتح مندی تقریباًیقینی ہوچکی تھی اورمسلمان مشرکین مکہ کو کھدیڑ نے میں لگے ہوئے تھے کہ’جبل رُماۃ‘ کے تیراندازوں سے خوفناک غلطی ہوئی؛ چنانچہ ان میں سے بعض نے یہ سمجھاکہ جنگ ختم ہوچکی ہے اورمسلمان مالِ غنیمت لوٹنے میں مصروف ہیں؛ اس لئے کچھ تیرانداز وہاں سے مال ِ غنیمت لوٹنے کے لئے اترپڑے، یہ سراسرآں حضرتﷺکے حکم کی خلاف ورزی تھی، جس کا خمیازہ بری طرح سے بھگتناپڑا، (حضرت)خالدبن ولید (جو اس وقت تک مسلمان نہ ہوئے تھے)نے پیش قدمی کرتے ہوئے باقی ماندہ تیراندازوں کو شہید کر ڈالا اورپشت سے مشرکینِ مکہ کے تعاقب میں مصروف مسلمانوں پراس طرح حملہ کیا کہ جیتی ہوئی بازی ہارمیں تبدیل ہونے کے قریب پہنچ گئی،مسلمان مکمل طور پر مشرکین کے نرغے میں آگئے، ان کی سمجھ میں نہیں آرہاتھاکہ کیاکریں،آں حضرت ﷺ کوبھی چوٹیں آئیں اوردندانِ مبارک شہیدہوگئے، کئی مسلمان بری طرح سے زخمی ہوئے اورکئی نے جامِ شہادت نوش جان کیا  ------  جیتی ہوئی جنگ میں یہ کایا پلٹ صرف اس لئے ہوئی کہ بعض تیراندازوں نے اجتہادی غلطی کرتے ہوئے آں حضرتﷺکے حکم کی خلاف ورزی کی، اس سے ہمیں یہ سبق ملتاہے کہ نبی ﷺ کے حکم کی خلاف ورزی میں ناکامی، نامرادی اورتباہی ہے۔

آج معاشرہ پرنظرڈالیں، کیاہماری اکثریت نبی اکے حکموں پرعمل پیراہے؟کیا ہماری اکثریت علی الاعلان خلاف ورزی کی مرتکب نہیں ہے؟ حکم نبی کی خلاف ورزی کی وجہ سے جیتی ہوئی بازی ہارنے کے قریب ہوگئی ، جب کہ نبی سراپا موجود ہے، توہم پرکیوں نہیں بموں کی بارش ہوگئی؟ ہم کیوں نہیں قتل وقتال کی بھٹی میں جھونک دئے جائیں گے؟ جب کہ ہمارااکثرکام فرمانِ نبی کے خلاف ہی ہے، ہمیں بھی خمیازہ بھگتناپڑے گا، کاش ! اس واقعہ سے ہم کچھ عبرت ونصیحت حاصل کرتے اورارشاداتِ رسول پرعمل درآمدگی کویقینی بناتے، کاش! ہم ایسا کرلیتے!!!

جاں نثاری

(حضرت) خالدبن ولیدکی رہنمائی میں مسلمانوں کی پشت سے جوکاری وار کیا گیا، جس میں مسلمان ایک طرح حواس باختہ ہوگئے تھے؛ لیکن پھر سنبھلے اور جاں نثاری کے ایسے نقوش پیش کئے، جن کانمونہ ملنامشکل ہے، بعضوں نے تو امید ِشہادت میں کفارقریش کی صفوں کوچیر ڈالااورکشتوں کے پشتے لگادئے، جب کہ بعضوں نے آں حضرتﷺکی حفاظت کی خاطراپنے آپ کوہی ڈھال بنادیا، یہ سب اسلامی حمیت کے نتیجہ ہی میں تھا، صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی ان جاں نثاریوں سے ہمیں یہ درس ملتاہے کہ دین کی خاطر’’سرکٹاسکتے ہیں؛ لیکن سرجھکاسکتے نہیں‘‘۔

کیاہمارے اندربھی جاں نثاری کی یہ صفت پائی جاتی ہے؟ کیاہمارے اندربھی سرکٹاسکنے بھراسلامی حمیت موجودہے؟کیاہم میں سے ایسے نہیں ہیں، جوروپیوں کے بدلہ دینی غیرت اوراسلامی حمیت کوبیچ دیتے ہیں؟کاش! غزوۂ احدکی جاں نثار یوں کوہم یادکرتے اوراپنے اندربھی سرفروشی کی تمنا پیدا کرسکتے!!!

اظہارِ غم کاطریقہ

اس غزوہ میں مسلمانوں کی کئی قیمتی جانوں نے جام شہادت نوش کیا،خود آں حضرتﷺکے محبوب چچا حضرت حمزہؓ سعادتِ شہادت سے مشرف ہوئے، ایک خاتون ایسی بھی تھیں، جن کے تین مضبوط سہارے(شوہر، بیٹا اوربھائی) زندۂ جاوید ہوگئے؛ لیکن اظہارِغم میں کہیں سے بھی جزع فزع کی آواز نہیں آئی، دکھ اورتکلیف ضرور ہوئی؛ لیکن صبروشکیبائی کادامن ہاتھوں سے جانے نہیں -دیاگیا۔

آج معاشرہ کودیکھیں، کیاہمارے یہاں بھی صبرکی ایسی مثال نظرآتی ہے؟ کیاہم مصیبت کے وقت جزع فزع سے رکتے ہیں؟ ہم توادنی تکلیف کی گھڑی میں کیا ہنگامہ برپاکردیتے ہیں، کاش! غزوۂ احدکے اس ماتمی گھڑی سے ہم کچھ سبق لیتے!!!

٭٭٭

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی