اردو میں خطبۂ جمعہ

اردو میں خطبۂ جمعہ

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی


خطبۂ جمعہ کے سلسلہ میں ہندوستان کے اکابرعلماء کے درمیان اختلافِ رائے رہا ہے کہ اُسے اردومیں دیاجاسکتاہے یانہیں؟ کیوں کہ خطبہ کا مقصد تذکیر و موعظت ہے اورچوں کہ عامۃ الناس عربی زبان سے ناواقف ہوتی ہے؛ اس لئے خطبہ کا اصل مقصد ہی فوت ہوتانظرآتاہے، لہذاآیئے اس سلسلہ میں ائمۂ اربعہ کے نقاط نظرمعلوم کرتے چلیں۔

مالکیہ کی رائے

حضرت امام مالک ؒ کے یہاں خطبۂ جمعہ کا عربی زبان میں ہوناضروری ہے؛ حتی کہ اگرکوئی بھی ایسا شخص نہ ملے، جوعربی زبان میں خطبہ دینے کی صلاحیت رکھتاہوتوایسی صورت میں تمام لوگوں سے جمعہ ساقط ہوجائے گا اوروہ لوگ نمازظہرہی اداکریں گے؛ چنانچہ علامہ صاوی مالکیؒ لکھتے ہیں:

’’دونوں خطبے عربی زبان میں ہوں، چنانچہ اگرکوئی ایک شخص بھی عربی زبان میںاچھی طرح سے خطبہ دینے والانہ ہوتولوگوںپر جمعہ لازم نہیں‘‘۔(حاشیۃ الصاوی علی ہامش الشرح الصغیر: ۱/۴۹۹، نیز دیکھئے: حاشیۃ الدسوقی علی الشرح الکبیر: ۱/۶۰۱، الخرشی: ۲/۲۸، شرح منح الجلیل علی مختصرخلیل: ۱/۲۶۰) 

حنابلہ کی رائے

امام احمدبن حنبل ؒکے نزدیک اگرعربی زبان پرقدرت ہوتوخطبہ کا عربی میں ہوناضروری ہے، ورنہ ضروری نہیں، علامہ حجاویؒ لکھتے ہیں:

’’عربی پر قدرت کے باوجود غیرعربی میں خطبہ دینا درست نہیں ہوگا،جیساکہ غیرعربی میں قراء ت درست نہیں، اورعربی پرقدرت نہ ہونے کی صورت میں خطبہ غیرعربی میں درست ہوجائے گا؛البتہ قرآن کا غیر عربی میں پڑھنادرست نہیں۔(الإقناع: ۱/۲۹۷)

    تاہم علامہ مرداویؒ نے ایک ضعیف قول یہ بھی نقل کیاہے کہ غیرعربی میں خطبہ دیناصحیح ہے:

’’مذہب کے صحیح قول کے مطابق عربی پر قدرت کے باوجود غیرعربی میںخطبہ دینا درست نہیں، اورکہا گیا ہے کہ غیرعربی میں(بھی) صحیح ہے‘‘۔(الإنصاف: ۵/۲۱۹)

شوافع کی رائے

حضرت امام شافعی ؒ کے مسلک کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ نوویؒ لکھتے ہیں:

’’کیاخطبہ کاعربی زبان میں ہوناشرط ہے؟ اس سلسلہ میں دوروایتیں ہیں، صحیح روایت یہ ہے، جس کو جمہورنے بھی اختیارکیاہے، کہ شرط ہے؛ کیوں کہ خطبہ ایسا ذکرہے، جس کوفرض کیاگیاہے، لہذا اس کا عربی زبان میں ہوناشرط ہے، جیساکہ تشہد اور تکبیراحرام کے لئے عربی شرط ہے۔ 

دوسری روایت : پھراس میں بھی دووجہیں ہیں: ایک تویہی(کہ شرط)ہے، متولی وغیرہ نے اسی کوبیان کیاہے، دوسری وجہ: کہ شرط نہیں ہے؛ بل کہ مستحب ہے؛ کیوں کہ خطبہ کامقصدوعظ ونصیحت ہے‘‘۔(المجموع: ۴/۲۷۳، نیز دیکھئے: البیان: ۲/۵۷۳، شرح المنہاج: ۱/۳۲۸، زاد المحتاج: ۱/۳۲۷ )

احناف کی رائے

خطبۂ جمعہ کے سلسلہ میں حضرت امام ابوحنیفہؒ اوران کے شاگردان امام ابویوسف ؒاورامام محمدؒکے مابین نقاطِ نظرکااختلاف پایاجاتاہے؛ چنانچہ صاحبین کے نزدیک عربیت سے واقف ہونے کے باوجودغیرعربی میں خطبہ دیناصحیح نہیں ہے، جب کہ امام صاحب فرماتے ہیں کہ عربی سے واقف ہونے کے باجود غیرعربی میں خطبہ دینادرست ہے، عربی اورغیرعربی کی یہ بحث فقہ احناف میں دراصل وہاں ذکرکی گئی ہے، جہاں’’افتتاحِ صلوۃ‘‘ کی بحث ہے کہ فارسی وغیرہ میں نماز شروع کرسکتے ہیں یانہیں؟چنانچہ علامہ ابن نجیم مصریؒ لکھتے ہیں:

’’جہاں تک فارسی میں نماز شروع کرنے کاتعلق ہے تو یہ درست ہے، جیساکہ ہم نے واضح کیا کہ تکبیر سے مقصود تعظیم ہے اوروہ خواہ کسی زبان میں ہو، حاصل ہورہاہے، امام محمدؒاس رائے میں توامامصاحبؒ کے ساتھ ہیں کہ اللہ اکبرکے علاوہ جوالفاظِ تعظیمی ہیں، ان سے نماز شروع ہوجائے گی؛ لیکن فارسی (غیرعربی) میں امام ابویوسف ؒکے ساتھ ہیں کہ غیرعربی میں اس شخص کے لئے نماز شروع کرنا درست نہ ہوگا، جو اچھی عربی جانتاہو، یہی اختلاف خطبہ، قنوت اور تشہد کا ہے‘‘۔(البحرالرائق: ۱/۵۳۵، نیز دیکھئے: ردالمحتار: ۲/۱۸۳، الفتاوی الخانیۃ علی ہامش الہندیۃ: ۱/۸۶، مجمع الأنہر: ۱/۹۲-۹۳، الفتاوی الہندیۃ: ۱/۲۸-۲۹)

ائمہ اربعہ کی مذکورہ فقہی عبارتوں سے معلوم ہواکہ:

۱۔   امام مالک ؒکے نزدیک غیر عربی میں خطبہ درست ہی نہیں ہے، خواہ عربی سے ناواقف ہی کیوں نہ ہو۔

۲۔   امام احمد، امام شافعی ، امام ابویوسف اورامام محمدرحمہم اللہ کے نزدیک غیرعربی میں خطبہ اس وقت درست ہے، جب کہ کوئی شخص عربی جاننے والانہ ہو۔

۳۔  امام ابوحنیفہؒ کے یہاں خواہ عربی سے واقف شخص موجود ہو، غیر عربی میں خطبہ بہرصورت درست ہے، چنانچہ فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:

’’اگرفارسی میں خطبہ دے توامام ابوحنیفہؒ کے یہاں ہرحال میں جائز ہے‘‘۔(الفتاوی التاتارخانیۃ: ۲/۶۰)

امام احمدؒ کابھی ایک ضعیف قول یہی ہے، یعنی ائمہ اربعہ میں امام مالک ؒ کے علاوہ ہرایک کے یہاں کچھ نہ کچھ غیرعربی میں خطبہ دینے کی گنجائش بہرحال موجود ہے؛ لیکن سوال یہ ہے کہ جوحضرات غیرعربی میں خطبہ کے عدمِ جواز کے قائل ہیں، ان کی کیا دلیل ہے؟ ان حضرات کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ عہد نبوی سے لے کرخلفائے اربعہ تک؛ بل کہ بعد کے ادوار میں بھی غیر عربی خطبہ دیا جانا ثابت نہیں ہے؛ حالاں کہ فتوحاتِ اسلامی کے بعد عجمی علاقوں میں اس کی ضرورت تھی کہ ان کی زبان میں وعظ ونصیحت کی جائے۔

لیکن امام صاحب کی دلیل اس سلسلہ میں ان حضرات سے زیادہ قوی معلوم ہوتی ہے، دراصل امام صاحب کی نگاہِ دوررس نے خطبہ کی روح کودیکھااوراس کے حقیقی مقصد پرغورکیاہے کہ خطبہ اصل میں ذکراوروعظ ونصیحت ہے، اللہ تعالیٰ نے خودفرمایاہے{ فاسعوا إلی ذکراللہ}(الجمعۃ:۹)اوراکثرمفسرین سے’’ ذکر‘‘سے مرادخطبہ ہی لیاہے؛ چنانچہ مشہورمفسرقرآن امام رازی ؒ فرماتے ہیں:

’’اکثراہلِ تفسیرکے نزدیک ذکرسے مراد’خطبہ‘ ہے‘‘۔(التفسیر الکبیرللرازی: ۱۵/۵۳۶، نیز دیکھئے: الجامع لأحکام القرآن للقرطبی: ۸/۷۰، تفسیر ابن عباس، ص: ۴۷۱، روح المعانی: ۱۵/۱۵۰، الکشاف: ۴/۹۸(برتفسیر سورۂ جمعہ، آیت نمبر:۹))

اورظاہر ہے کہ نصح وتذکیر صرف عربی زبان ہی میں درست ہو، کسی دوسری زبان میں نہیں، یہ عقل وقیاس کے خلاف معلوم ہوتاہے۔

امام صاحب کی دلیل اس لئے بھی زیادہ قوی ہے کہ شریعت کااصل منشا اورمقصد پورے طورپایاجارہاہے، علامہ شامیؒ فرماتے ہیں:    

’’فارسی زبان میں نماز شروع کرنے سے متعلق دلیل امام صاحب ؒ کی زیادہ قوی اورمضبوط ہے؛ کیوں کہ شریعت کامقصود ومطلوب ذکر اورتعظیم ہے اوروہ کسی بھی لفظ اورکسی بھی زبان سے حاصل ہوسکتاہے‘‘۔(رد المحتار: ۲/۱۸۴)

دراصل آیات واحادیث اورکلام کا منشامتعین کرنے میں اہداف ومقاصد کی خاص اہمیت ہوتی ہے، اگرمقاصد سامنے نہ رکھے جائیں توشریعت کااصل منشا پورانہیں ہوسکتا، جیسے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں والدین کی کسی ناگواربات پربھی ’’اف‘‘ کہنے سے منع فرمایاہے؛ چنانچہ ارشادہے: {ولاتقل لہما اف} (بنی اسرائیل: ۲۳)؛  لیکن اس کامطلب ہرگز یہ نہیں کہ انہیں اف تونہ کہے؛ بل کہ مارناپیٹناشروع کردے؛ کیوں کہ شریعت کا مقصد والدین کوتکلیف اوراذیت دینے سے روکناہے؛ البتہ اس کے برعکس اگرکسی قوم میں’’اف‘‘ کہناوالدین کی تعظیم سمجھاجاتاہوتووہاں’’اُف‘‘کہنے میں کوئی حرج ہی نہیں؛ بل کہ (انشاء اللہ)باعثِ ثواب بھی ہوگا، علامہ نظام الدین شاشی لکھتے ہیں:

’’اگرکسی قوم میں ’’اُف‘‘ کہنے کوعزت تصورکیاجاتاہو توان کے لئے اپنے والدین کو’’اُف‘‘ کہناحرام نہ ہوگا‘‘۔(اصول الشاشی،ص: ۳۱)

دوسرے یہ بات بھی قابل لحاظ ہے کہ ائمۂ اربعہ کے یہاں خطبہ میں وعظ کا ہوناضروری ہے، حتی کہ ائمہ ثلاثہ کے نزدیک اگر خطبہ وعظ سے خالی ہوتو درست نہ ہوگا:

’’خطبہ کے فرائض چار ہیں: …تیسری چیز: وعظ ہے؛ کیوںکہ آپ ا وعظ کیاکرتے تھے، اوریہی خطبہ کا مقصد ہے؛ چنانچہ خطبہ کا اس سے خالی ہونادرست نہیں‘‘۔(فقہ مالکی:الکافی: ۱/۴۸۹-۴۹۰، الشرح الکبیر: ۵/۲۲۳، حاشیۃ الدسوقی: ۱/۶۰۱، فقہ حنبلی: الإنصاف: ۵/۲۲۰، فقہ شافعی: المجموع: ۴/۲۶۹، زاد المحتاج: ۱/۲۲۷-۲۲۸)

اب قابل غور امر یہ ہے کہ وعظ ونصیحت کے بغیر جب خطبہ درست نہیں ہے تووعظ ونصیحت کس زبان میں ہونی چاہئے؟ ایاایسی زبان میں، جس کومخاطب سمجھ سکتاہو یاایسی ز بان میں ، جوان کے لئے ناقابل فہم ہو؟ اللہ نے اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایاہے: {وماأرسلنامن رسول إلابلسان قومہ لیبین لہم} ( ابراہیم: ۴)’’ہم نے جتنے بھی رسول بھیجے، ان کی قوم کی زبان میں بھیجے؛ تاکہ رسول ان کے سامنے اپنے پیغام کووضاحت کے ساتھ بیان کرسکے‘‘۔

اگررسول کی زبان ، قوم کی زبان سے مختلف ہوتی توقوم ان کی زبان سمجھ نہیں سکتی، اورجب قوم ان کی زبان سمجھ نہیں سکتی توان کی باتوں پر ایمان کیوں کرلاتی؟ ایک ہندوستانی شخص کوسریانی یاعبرانی زبان میں نصیحت کی جائے تو کیا اس کے دل پرکچھ اثرہوسکتاہے؟

دوسری اہم بات یہ بھی ہے کہ خطبہ کی وہ مقدارکیاہے، جس سے جمعہ صحیح ہوجاتاہے؟ امام ابوحنیفہ ؒ کے یہاں سبحان اللہ، الحمد للہ اورلاإلٰہ إلااللہ سے خطبہ درست ہوجائے گا؛ جب کہ صاحبین ؒ کے نزدیک اتنی مقدار ضروری ہے، جس کوعادۃً خطبہ کہاجاتاہو(الفتاوی التاتارخانیۃ: ۲/۶۳، نیز دیکھئے: مجمع الأنہر: ۱/۱۶۸)

 حضرت امام مالکؒ صاحبین کے ساتھ ہیں؛ چنانچہ ابن قاسمؒ فرماتے ہیں:

’’(خطبہ کی) کم سے کم مقداروہ ہے، جس کوکلام عرب میں خطبہ کہہ سکتے ہوں اور جس کی ابتداء اللہ کی حمد سے ہوتی ہو‘‘۔(بدایۃ المجتہد، الفصل الثالث فی أرکان الجمعۃ: ۱/۱۶۱، نیز دیکھئے: الشرح الصغیر: ۱/۴۹۹)

 جب کہ امام احمد اورامام شافعی رحمہما اللہ کے نزدیک حمد، صلوۃ، تقوی کی وصیت، قرآن کی ایک آیت اورمؤمنین کے حق میں دعاخطبہ کی صحت کے لئے ضروری ہے(فقہ حنبلی: المحرر۱/۱۴۶۔۱۴۷،، نیز دیکھئے:  الفقہ الإسلامی وأدلتہ: ۲/۲۸۷، فقہ شافعی: منہاج الطالبین: ۱/۲۷۰۔۲۷۲،، نیز دیکھئے:  بدایۃ المجتہد: الفصل الثالث فی أرکان الجمعۃ: ۱/۱۶۱ )

اب غور کیاجائے کہ جولوگ غیر عربی میں خطبہ کے قائل ہیں، ان کے یہاں بھی عربی زبان میں اتنی تمہید ہوتی ہی ہے، جس کوخطبہ کہاجاتاہے، لہٰذاغیر عربی زبان میں خطبہ کے درست ہونے میں کوئی شک وشبہ کی گنجائش نہیں رہنی چاہئے؛ چنانچہ حضرت امام ابویوسف ؒسے بھی مروی ہے کہ اگر’’ذکراللہ‘‘ عربی میں ہوتوپھردرست ہوجائے گا:

’’ایک حرف یااس سے زیادہ میں’’ذکراللہ‘‘ عربی میں خطبہ سے پہلے ہوتوذکراللہ سے خطبہ درست ہوجاتا ہے؛ البتہ اس سے زیادہ ہوتوبہترہے‘‘۔(فتاوی التاتارخانیۃ: ۲/۶۰)

اورعلامہ طحطاویؒ جیسے بالغ نظرفقیہ نے تواس سے بڑھ کریہ بات بھی لکھی ہے کہ قرآت کے سلسلہ میں توامام صاحب نے صاحبین کے قول کی طرف رجوع کرلیاتھا؛ لیکن خطبہ میں خودصاحبین نے امام صاحب کے قول کی قول کی طرف رجوع کیاہے(حاشیۃ الطحطاوی، ص: ۱۴۷)

شاید انھیں وجوہ کی بناپرہمارے بہت سے اکابر اہل علم امام صاحب کے قول پرعمل پیراتھے، جن میں سرفہرست مولانامحمدعلی مونگیریؒ(مولانا محمد علی مونگیریؒ نے اس سلسلہ میں’’القول المحکم فی خطابۃ العجم‘‘کے نام سے ایک رسالہ بھی مرتب فرمایاہے، جہاں تفصیلی بحث دیکھی جاسکتی ہے)، مولانامنت اللہ رحمانیؒ، علامہ سید سلیمان ندویؒ اورمولاناقاضی مجاہد الاسلام قاسمی ؒ وغیرہم تھے، علامہ سید سلیمان ندوی ؒ نے جمعیۃ العلماء ہند کے آٹھویں اجلاس منعقدہ۱۹۲۶ء کلکتہ کے خطبۂ صدارت میں(جہاں علامہ انورشاہ کشمیریؒ بھی موجودتھے)ان حضرات کاجواب دیاہے، جوعمل سلف سے استدلال کرتے ہوئے غیر عربی میں خطبہ کو نادرست کہتے ہیں، وہ فرماتے ہیں:

’’عمل سلف کے استدلال کے متعلق عرض ہے کہ طریقۂ سلف کے مطابق خطبہ میں حسب ذیل خصوصیتیں ہوتی تھیں:

(۱) وہ عربی زبان میں ہوتاتھا ۔

(۲) وہ زبانی پڑھاجاتاتھا، کسی کتاب میں دیکھ کر نہیں پڑھاجاتاتھا۔

(۳) اس کی صورت تلاوت ِقرآن کی نہیں ہوتی تھی؛ بل کہ مختصر زبانی تقریر کی ہوتی تھی ۔

(۴) اس میں آیات اوراحادیث کے التزام کے ساتھ مسائل حاضرہ متجددہ پرمسلمانوں کی فہمائش ہوتی تھی، ایک خطبہ لکھا یارٹاہواصدیوں تک پڑھانہیں گیا۔ 

(۵) وہ سلاطین کی مدح وستائش سے پاک ہوتاتھا۔

(۶) اس میں تغنی نہیں ہوتی تھی۔

(۷) وہ مقفی ومسجع بے معنی عبارت نہیں ہوتی تھی، ان تمام خصوصیات کوترک کردینااورعربی کی خصوصیت پرزور دیناقرین صواب نہیں، اگرعربی کی قید نہیں رہے توحصول فوائد کے علاوہ محض ایک بدعت کوقبول کرکے متعددبدعات سے ہم محفوظ ہوجائیں گے۔ (خطبۂ صدارت، ص: ۵۰-۶۰) 

ہمارے خطبوں کا آج بھی یہ حال ہے کہ خریطۂ عالم سے سلطان کاوجود تقریباًساٹھ سترسال پہلے مٹ گیا؛ لیکن آج بھی یہ فقرہ خطبہ میں دہرایاجاتاہے:

السلطان ظل اللہ فی الأرض، من أہانہ ، أہانہ اللہ۔

 پھرکیایہ مناسب ہوگاکہ صرف اسی ایک جہت میں توارث کوواجب قراردیاجائے؟

اس سلسلہ میں مکہ فقہ اکیڈمی کے پانچویں سیمینار-----جس میں مفتیٔ اعظم سعودی عرب شیخ عبد العزیز بن عبداللہ بن باز، ممتاز صاحب علم شیخ محمد محمود الصواف، مفتیٔ اعظم سعودی عرب شیخ صالح بن عثیمن، امام حرم مکی شیخ محمدبن عبداللہ بن السبیل اورممتاز حنفی فقیہ ڈاکٹر مصطفی احمد الزرقاء وغیرہم حضرات شریک تھے-----میں جوتجویز منظورہوئی، وہ کچھ اس طرح ہے:

’’معتدل رائے یہ ہے کہ غیر عرب علاقوں میں جمعہ وعیدین کے خطبہ کے صحیح ہونے کے لئے عربی زبان شرط نہیں ہے؛ البتہ بہتر یہ ہے کہ خطبہ کے ابتدائی کلمات اورقرآنی آیات عربی زبان میں پڑھی جائیں؛ تاکہ غیر عرب بھی عربی اور قرآن سننے کی عادت ڈالیں اورعربی وقرآن سیکھنے کے لئے آسان ہو، پھرخطیب علاقائی زبان میں انھیں نصیحت وتذکیرکرے‘‘۔(المجمع الفقہ الاسلامی، مکہ مکرمہ کے فقہی فیصلے، ص: ۹۹، شائع کردہ: اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا)

اس لئے مناسب یہ ہے کہ اس میں جواز اورعدم جواز کامسئلہ بناکر شدت نہ برتی جائے؛ بل کہ جہاں اس کارواج چلاآرہاہو، وہاں جاری رہنے دیاجائے اورجہاں اس کا رواج نہ ہو، وہاں رواج بھی نہ دیاجائے۔ 

ہمارے یہاں خطبہ سے پہلے جوعلاقائی زبان(اردو، کنڑ، ملیالم ، بنگالی، تمل وغیرہ) میں دین کی باتوں سے لوگوں کوآگاہ کرنے کے لئے تقریرکی جاتی ہے، وہ بھی ایک مناسب طریقہ اورتطبیق کی اچھی شکل ہے،لوگ دین کی باتیں جاننے کے ساتھ ساتھ عربی میں خطبہ کے توارث پربھی عمل ہوجاتاہے؛ اس لئے اسے بھی بدعت سے تعبیر نہیں کیاجاسکتا۔ واللہ اعلم بالصواب ۔  

 





2 تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی