حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

    حضرت عائشہؓ آخری نبی حضرت محمد ﷺکی سے سب سے کم عمربیوی تھیں اورآپ ﷺان سے محبت بھی بہت زیادہ کیاکرتے تھے، وہ ایک ذہین، زیرک اورباشعور خاتون تھیں، ذیل  میں اختصارکے ساتھ ان کی زندگی پرروشنی ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

خاندان

حضرت عائشہؓ کے والدکانام عبداللہ ابوبکرصدیق ؓ بن ابوقحافہ عثمان تھا، ماں کا نام ام رومان بنت عامرتھا، یہ اپنے والدکی طرف سے نسباً قریشیہ تیمیہ اوروالدہ کی طرف سے کنانیہ تھیں،والدکے نسب کے اعتبارسے ساتویں آٹھویں پشت پرحضور ﷺ سے جاکرمل جاتاہے، جب کہ ماں کی طرف سے گیارہویں بارہویں پشت پر ملتا ہے۔

حضرت ابوبکرؓ نبی کریمﷺکے دوست تھے اورنبوت کے بعددست راست بن گئے، آپؓ کوسفرہجرت میں بھی ہم رکابی کاشرف حاصل ہوااورثانی اثنین اذہمافی الغارکے قرآنی لقب سے ملقب ہوئے، حضورﷺ کی وفات کے بعدخلیفۂ اول منتخب ہوئے اورتیرہ ہجری(۱۳ھ)میں وفات پائی، والدہ مکرمہ ام رومانؓ حضرت عثمانؓ کی خلافت تک زندہ رہیں۔

پیدائش

آپؓ کی پیدائش کی صحیح تاریخ کی تعیین کرتے ہوئے سیدالطائفہ علامہ سید سلیمان ندویؒ لکھتے ہیں:

’’اصل یہ ہے کہ سیدہ عائشہؓ کی عمرکے متعلق چندباتیں متفقہ طورپرثابت ہیں: ہجرت سے تین برس پہلے 6؍ برس کی عمرمیں بیاہی گئیں، شوال ۱ھ میں۹؍برس کی تھیں کہ رخصتی ہوئی، ۱۸؍سال کی عمرمیں یعنی ربیع الاول ۱۱ھ میں بیوہ ہوئیں، اس لحاظ سے ان کی ولادت کی صحیح تاریخ نبوت کے پانچویں سال کاآخری حصہ ہوگا، یعنی شوال ۹؍قبل ہجرت، مطابق جولائی 614ء(سیرت عائشہؓ،ص: ۲۲)۔

تربیت وپرورش

حضرت عائشہؓ کی تربیت اورپرورش جس گھرمیں ہوئی، وہ گھراسلام کے ابتدائی دنوں سے ہی سعادت بختیوں کامرکزرہا، حضرت ابوبکرؓ حضورﷺ کے دوست تھے، جب اللہ کے رسولﷺنے ان کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی توبغیرکسی پس وپیش کے انھوں نے اسلام قبول کرلیا، حضرت ابوبکرؓ نے براہ راست حضورﷺسے تربیت پائی اوراسی تربیت کی روشنی میں حضرت عائشہؓ پلی بڑھیں،حضورﷺکاآناجانابھی اپنے دوست کے گھرہوتارہتاتھا، ظاہرہے کہ یہ بھی تربیت کاایک بڑاذریعہ تھا، وہ خود فرماتی ہیں:

’’جب سے میں نے اپنے والدین کوپہچانا، انھیں مسلمان پایااورکوئی دن ایسانہیں گزرتا، جس کے دونوں حصے صبح وشام میں حضورﷺہمارے گھرتشریف نہ لاتے‘‘۔(صحیح البخاری،باب المسجدیکون فی الطریق من غیرضرر بالناس، حدیث نمبر: 476)

رخصتی کے بعدحضورﷺکے زیرتربیت رہیں اورتاریخ شاہدہے کہ حضورﷺکی تربیت میں جورہا،اس کی زندگی سنورگئی، تربیتی نقطۂ نظرسے اس میں کسی نقص وکمی کا امکان ہی نہیں۔

نکاح

حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی نسبت بچپن ہی میں مطعم بن عدی کے بیٹے سے طے کررکھی تھی؛چنانچہ حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد جب حضرت خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا آپﷺکی خدمت میں حاضرہوکرعرض گزارہوئیں: ائے اللہ کے رسول ﷺ! آپ نکاح کیوں نہیں فرمالیتے؟ آپﷺ نے پوچھا: کس سے کروں؟ انھوں نے کہا: ناکتخدا(کنواری)بھی موجودہے اورشوہردیدہ بھی۔ آپ ﷺنے سوال کیا: ناکتخدا کون؟ انھوں نے جواب دیا: آپ کے محبوب دوست کی بیٹی عائشہ۔ آپﷺنے پھرپوچھا: اورشوہردیدہ کون؟ جواب دیا: سودہ بنت زمعہ۔

اس دریافت حال کے بعد آپ ﷺ نے پیغام رسانی کی ذمہ داری انہی کے سپردکی، وہ سب سے پہلے حضرت ابوبکرؓ کے گھرگئیں اورحضرت ابوبکرؓ کی اہلیہ ام رومان سے کہا:’’کیاہی خیروبرکت اللہ نے تم پراتاری ہے‘‘، ام رومان نے پوچھا: وہ کیا؟ جواب دیا: مجھے اللہ کے رسولﷺ نے عائشہ کی نسبت پیغام دینے کے لئے بھیجاہے! حضرت ابوبکرؓ اس وقت گھرپرنہیں تھے؛ اس لئے ام رومان نے کہا: ابوبکرکاانتظارکرنابہتر ہے،جب حضرت ابوبکرؓ گھرآئے توان کی اہلیہ نے آپﷺ کے پیغام کاتذکرہ کیا،(چوں کہ عرب میں منھ بولوں کواپنے سگے کا درجہ دیاتھا؛ اس لئے) انھوں نے کہا: عائشہ توآپﷺ کی منھ بولی بھتیجی ہے(ان سے نکاح کیسے درست ہوسکتاہے؟)،حضرت خولہ فوراً آپﷺ کی خدمت میں حاضرہوئیں اور حضرت ابوبکرؓ کے اس سوال کاجواب چاہا، آپﷺنے فرمایا: ان سے کہو! تم میرے دینی بھائی ہواورتمہاری بیٹی میرے لئے حلال ہے۔(دیکھئے: الإصابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، باب العین المہملۃ: 4/27، تاریخ الطبری: 2/412، اسد الغابۃ، عائشۃ بنت ابی بکرالصدیق:1/1383)

  اس لئے آپﷺ کے اس جواب کے بعد حضرت ابوبکرؓ مطعم بن عدی کے گھرگئے اوران سے اس نسبت کی بابت دریافت کیا، مطعم بن عدی کی بیوی نے یہ سن کرکہا: اگرتمہاری بیٹی سے میرے بیٹے کا نکاح ہوگیا تومیرابیٹا بھی صابی (بد دین)ہوجائے گا(اس لئے یہ نکاح نہیں ہوسکتا)، حضرت ابوبکرؓ یہ جواب سن کر واپس گھرآئے اورآپﷺکے پیغام کوقبول فرمالیا(السیرۃ النبویۃ لإبن کثیر: 2/143، السیرۃ الحلبیۃ لعلی بن برہان: ۲/۲۵۳)،پیغام قبول کرلینے کے بعد ہجرت سے تین سال پہلے حضرت ابوبکرؓ نے شوال دس نبوی میں آپﷺ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح کردیا، اس وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمرچھ سال تھی۔( سبل السلام: 1/86، طبقات ابن سعد: 8/60، تاریخ الرسل والملوک للطبری: ۲/۱۰۰)

ہجرت ورخصتی

نکاح کے تین سال بعد ہجرت کا واقعہ پیش آیا۔آپﷺ نے حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ ہجرت فرمایا اورانصارکے یہاں قیام پذیرہوئے، کچھ دنوں کے بعد حضرت ابوبکرؓ کے گھرانے نے بھی ہجرت کی اوریہ لوگ بنوحارث بن خزرج میں خیمہ زن ہوئے، ہجرت کے بعد بہت سارے لوگوں کو مدینہ کی آب وہواراس نہ آئی اور بیمار ہوگئے، حضرت ابوبکر بھی بیمارہوئے اوران کی بیٹی عائشہ بھی اس کی لپیٹ میں آئی، اس بیماری کی وجہ سے حضرت عائشہ کے سرکے بال جھڑگئے،ابھی بال اُگنے بھی نہ پائے تھے کہ رخصتی کی گھڑی آگئی؛ چنانچہ ایک دن یہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ جھولا جھول رہی تھیں کہ ان کی والدہ ام رومان نے آوازدی ، وہ دوڑتی ہوئی ان کے پاس آئیں، ام رومان انھیں اپنے ساتھ لے کرگھرکی جانب بڑھیں، دروازے پر ٹھہرا کران کی سانس کودرست کرایا،منھ پرپانی کے چھینٹے ڈالے اوربالوں کی اصلاح کرائی، پھراندرونِ خانہ لے گئیں، وہاں انصارکی چند خواتین بیٹھی ہوئی تھیں، انھوں نے ان کودیکھ کر’’خیروبرکت اوراچھائی پر‘‘کی دعادی۔(بخاری، باب تزویج النبی ا عائشۃ وقدومہاالمدینۃ وبنائہابھا، حدیث نمبر: 3481، سنن البیہقی، باب ماتقول النسوۃ للعروس، حدیث نمبر: 14216)

اس موقع پرنہ ہی اونٹ ذبح کئے گئے اورناہی بکریاں حلال کی گئیں؛ بل کہ آپ ﷺ کی خدمت میں صرف ایک پیالہ دودھ پیش کیاگیا، جسے آپ نے نوش جان کرنے کے بعدحضرت عائشہ کے پاس بھیجوادیا(البدایۃ والنہایۃ: ۳/۱۳۲، مسند احمد، حدیث نمبر: ۲۵۸۱۰)اوراس طرح حضرت عائشہ کی رخصتی عمل میں آئی، یہ واقعہ شوال ۱؍ہجری میں پیش آیا۔

تعلیم

حضرت عائشہؓ کی جس وقت شادی ہوئی، ان کی عمرچھ سال کی تھی اور رخصتی کے وقت وہ نوسال کی تھیں، اس اعتبارسے دیکھاجائے توان کی تعلیم کی اصل عمرشادی کے بعدشروع ہوئی، تاہم جب تک اپنے والدکے گھررہیں، تعلیم سے بالکل دوری نہیں رہی، حضرت ابوبکرؓ خودعلم انساب اورشعرکے ماہرتھے؛ اس لئے علم انساب کی واقفیت اورشاعری کاذوق ان کاخاندانی ورثہ تھا، نیزحضورﷺان کے گھرتشریف لاتے رہتے تھے اوریہ بھی تعلیم کاایک ذریعہ تھا۔

جب کاشانۂ نبوت میں پہنچیں توعلوم دینیہ کے سیکھنے کابھرپورموقع میسرآیا، معلم شریعت خودگھرمیں تھااوردن ورات اس کی صحبت میسرتھی؛ اس لئے علوم دینیہ کی تعلیم کاکوئی وقت مخصوص نہ تھا، ضروریات دین سے واقفیت، اسرار شریعت سے آگاہی، اخلاق کاتزکیہ، کلام الٰہی کی معرفت اوراحکام نبوی کاعلم اسی کاشانۂ نبوت حاصل کی۔

علوم دینیہ کے علاوہ تاریخ، ادب اورطب میں بھی ان کویدطولیٰ حاصل تھا، تاریخ وادب کی تعلیم توخوداپنے والدمحترم سے حاصل کی تھی، جب کہ طب کافن ان وفودعرب سے سیکھا، جواطرف ملک سے بارگاہ نبوت میں آیاکرتے تھے(سیرت عائشہ، ص:33-36)، حضرت ہشام بن عروہ اپنے والد عروہ سے نقل کرتے ہیں کہ وہ کہتے تھے:

’’میں نے حضرت عائشہؓ سے زیادہ شعر، طب اورفقہ کاجاننے والانہیں دیکھا‘‘ (الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب، ترجمۃ عائشۃ بنت الصدیق: ۲؍۱۰۹)۔

معاشرتی زندگی

شادی کے بعدایک نئی زندگی کاآغازہوتاہے اورعورت کے حق میں یہی اس کی اصل زندگی ہوتی ہے؛ کیوں کہ یہاں بات بن گئی تودین اوردنیا دونوں سنورگئی، حضرت عائشہؓ زوجہ نبی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک خاتون بھی تھیں؛ اس لئے معاشرتی اعتبارسے انھوں نے بھی وہ تمام امورانجام دئے، جو ایک خاتون اپنے سسرال میں انجام دیتی ہے، شوہرکی خدمت اور گھریلوکام کی انجام دہی ان کاموں بنیادی کام ہیں، حضرت عائشہؓ بھی یہ کام کیاکرتی تھیں۔

حضرت عائشہؓ سے حضورﷺ بہت محبت بھی فرمایاکرتے تھے، ہنسی مذاق، کھیل کود، قصہ گوئی، عبادت کی ترغیب اورغلطی پرروک ٹوک ، یہ سب شادی شدہ زندگی کے وہ حسین امورہیں، جن کی وجہ سے معاشرتی زندگی کاحسن دوبالا ہوجاتاہے اورحضوراکرم ﷺمعاشرتی زندگی ، دوسروں کی معاشرتی زندگی سے کئی گناحسین تھی اورایساکیوں نہ ہو؟ خودآقاکافرمان ہے:’’تم میںاچھاوہ ہے، جواپنی بیوی کے لئے سب سے اچھاہے اورمیںاپنی بیویوںکے لئے تم سب سے اچھاہوں‘‘۔(سنن الترمذی، باب فضل زواج النبیﷺ، حدیث نمبر: ۳۸۹۵)

واقعۂ افک

مدینہ اس لحاظ سے مکہ سے بہت مختلف تھا کہ یہاں دشمنوں کاایک نیاگروہ پیدا ہوگیاتھا، جن کی زبانیں توشہد سے زیادہ شیریں ہواکرتی تھیں؛ لیکن ان کے دل کڑواہٹ میں’’کریلے پرنیم چڑھا‘‘تھے، انھیں دشمنی نکالنے کاموقع نہیں مل پارہا تھا اوریہ بات مسلم ہے کہ دشمن کوجب کوئی موقع دشمنی نکالنے کا ہاتھ نہیں لگتاہے تووہ کوئی ایسی اوچھی حرکت کرتاہے، جوبراہ راست دل کوزخمی کرتاہے،یہاں بھی یہ موقع مل گیا۔

شعبان پانچ ہجری کی بات ہے، آں حضرتﷺکویہ خبرملی کہ بنومصطلق کے سردارحارث بن ابی ضراراپنی قوم اورآپﷺ سے جنگ خواہش مندلوگوں کے ایک گروہ کے ساتھ جنگ کے لئے نکل چکاہے، آپﷺبھی صحابہ کولے کرتیزی کے ساتھ روانہ ہوئے، اس میں منافقین کی بھی بڑی تعداد تھی، جواس یقین کے ساتھ آئے تھے کہ جنگ نہیں ہوگی، بنومصطلق کے سردارسے معمولی جنگ ہوئی ؛ لیکن اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کوفتح سے ہم کنارکیا۔

حضورﷺجب بھی جنگ کے لئے نکلتے تواپنی بیویوں کے نام کاقرعہ نکالتے، جس کانام نکلتا، اسے ساتھ لے کرجاتے، اس غزوہ میں قرعۂ فال حضرت عائشہؓ کے نام نکلا، انھوں نے اپنی بہن حضرت اسماءؓ سے عاریتاً ہارلیااورآپﷺ کے ساتھ چلی گئیں، جنگ ختم ہونے کے بعد کوچ کے وقت سے پہلے حضرت عائشہؓ ضروریات کے لئے خیمہ سے کچھ دوراس یقین کے ساتھ چلی گئیں کہ قافلہ کی روانگی سے پہلے واپس آجائیں گی؛ لیکن وہاں ان کاہارگم ہوگیا اوروہ تلاش کرنے میں لگ گئیں، جس کی وجہ سے تاخیرہوگئی، چوں کہ حضرت عائشہؓ دبلی پتلی تھیں؛ اس لئے ساربانوں کومحمل اٹھاتے وقت اندازہ نہیں ہوسکا کہ وہ اندرہیں یانہیں؟ 

حضرت عائشہؓ جب واپس آئیں توقافلہ جاچکاتھا، وہ وہیں پڑی رہیں کہ کوئی نہ کوئی تلاش میں ضرور آئے گا، صفوان بن معطلؓ صحابی کی ذمہ داری باقی ماندہ اور چھوٹے ہوئے سامان لے جانے کی تھی، وہ جب وہاں پہنچے توحضرت عائشہؓ کو پہچان لیا کہ پردہ کے احکام نازل ہونے سے پہلے انھیں دیکھاتھا، فوراً اپنی سواری بٹھادی اوراس پرسوارکرکے خودنکیل پکڑے ہوئے چلے، دوپہرکے قریب جب قافلہ پڑاؤ ڈال رہاتھا، یہ بھی وہاں پہنچ گئے، اس معمولی واقعہ کو منافقین کے سردارعبداللہ بن ابی بن سلول نے نمک مرچ سے بھردیا اوریہ مشہورکردیاکہ (نعوذ باللہ) حضور ﷺ کی زوجہ محترمہ پاک دامن نہیں رہیں، یہی وقعہ ’’افک‘‘ یعنی بہتان کے نام سے جاناجاتاہے۔

مسلمانوں میں سے سوائے تین افراد(وہ بھی غلط فہمی کاشکارہوکر)کے کوئی اس افواہ میں ملوث نہ ہوا؛ البتہ منافقین نے خوب بغلیں بجائیں؛ لیکن اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ سے حضرت عائشہؓ کی پاک دامنی کی گواہی دی، ارشادہوا: 

’’ جن لوگوں نے بہتان باندھا ہے تم ہی میں سے ایک جماعت ہے اُس کو اپنے حق میں بُرا نہ سمجھنا بلکہ وہ تمہارے لئے اچھا ہے ان میں سے جس شخص نے گناہ کا جتنا حصہ لیا اُس کیلئے اتنا وبال ہے اور جس نے اُن میں سے اس بہتان کا بڑا بوجھ اٹھایا ہے اُ س کو بڑا عذاب ہو گا ۔۱۱۔ جب تم نے وہ بات سنی تھی تو مومن مردوں اور عورتوں نے کیوں اپنے دلوں میں نیک گمان نہ کیا اور کیوں نہ کہاکہ یہ صریح طوفان ہے ۔۱۲۔ یہ (افتراء پرداز) اپنی بات (کی تصدیق) کے (لئے) چار گواہ کیوں نہ لائے؟ تو جب یہ گواہ نہیں لا سکے تو اللہ کے نزدیک یہی جھوٹے ہیں ۔۱۳۔ اور اگر دنیا و آخرت میں اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو جس بات کا تم چرچا کرتے تھے اُس کی وجہ سے تم پر بڑا (سخت) عذاب نازل ہوتا ۔۱۴۔ جب تم اپنی زبانوں سے اُس کا ایک دوسرے سے ذکر کرتے تھے اور اپنے منہ سے ایسی بات کہتے تھے جس کا تمہیں کچھ علم نہ تھا اور تم اُسے ایک ہلکی بات سمجھتے تھے اور اللہ کے نزدیک وہ بڑی بھاری بات تھی ۔۱۵۔ اور جب تم نے اُ سے سنا تو کیوں نہ کہا کہ ہمیں شایاں نہیں کہ ایسی بات زبان پر لائیں (اللہ!) تو پاک ہے یہ تو (بہت) بڑا بہتان ہے ۔۱۶۔ اللہ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ اگر مومن ہو تو پھر کبھی ایسا (کام) نہ کرنا ۔۱۷۔ اور اللہ تمہارے (سمجھانے کیلئے) اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان فرماتا ہے اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے ۔۱۸۔ اور جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مومنوں میں بے حیائی (یعنی تہمت کی خبر،  بدکاری ) پھیلے ان کو دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہو گا اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے‘‘ ۔(النور: ۱۱-۱۹)

بیوگی

حجۃ الوداع سے واپسی کے بعدآں حضرتﷺنے سفرآخرت کی تیاری شروع کردی اورتسبیح وتحمید اورتوبہ واستغفارمیں مشغول ہوگئے،۱۱؍ ہجری ماہ صفرکے اخیرعشرہ میں ایک رات اہل بقیع کے استغفارکے لئے جنت البقیع تشریف لے گئے، واپسی کے بعداچانک سردرداوربخارکی شکایت پیداہوگئی، جب مرض میں شدت ہوئی توازواج مطہرات سے اجازت لے کرحجرۂ عائشہؓ میں منتقل ہوگئے، جب تک طاقت رہی،خود نمازپڑھاتے رہے، وفات سے چاردن پہلے جمعرات کو ظہرکی نمازکے بعد ایک طویل خطبہ دیا، جوآپﷺ کاآخری خطبہ تھا، اسی دن کی مغرب نماز آپ ﷺ کی آخری نمازکے طورپر پڑھائی، اس کے بعدمرض کی شدت کی وجہ سے مسجد تشریف نہ لے جاسکے اورحضرت ابوبکرؓ کواپنی جگہ امامت کرنے حکم فرمایا، سنیچریا اتوارکومرض میں کچھ افاقہ ہواتوحضرت عباسؓ اورحضرت علی ؓکے سہارے مسجد تشریف لائے، اس وقت حضرت ابوبکرؓ ظہرکی نمازپڑھارہے تھے، آپ ﷺ حضرت ابوبکرؓکی بائیں جانب بیٹھ گئے اوربقیہ نماز کی امامت آپﷺنے فرمائی، حضرت ابوبکرؓ بھی آپﷺکے مکبرمقتدی بن گئے؛ چنانچہ لوگوں نے انہی کی تکبیرپرنمازاداکی، پیرکی صبح آپﷺ نے حجرہ کاپردہ اٹھایا تولوگوں کو صبح کی نماز میں مشغول دیکھ کرمسکرائے، حضرت ابوبکرؓ نے پیچھے ہٹنے کا ارادہ کیاتوآں حضرتﷺنے اشارہ سے منع فرمادیا، کمزوری کی وجہ سے زیادہ دیرکھڑے نہ رہ سکے اورپردہ گراکرحجرہ تشریف لے آئے۔

نمازسے فراغت کے بعدحضرت ابوبکرؓ آپﷺکے حجرہ میں تشریف لائے توپرسکون دیکھ کراطمینان کااظہارکیا، جب حضرت علیؓ حجرہ سے باہرآئے تو لوگوں آپﷺکی خیریت دریافت کی، اطمینان بخش جواب پاکرلوگ منتشرہوگئے، کچھ دیرگزری تھی کہ وقت نزع شروع ہوا، حضرت عائشہؓ کی گودمیں سررکھ کرلیٹ گئے، اتنے میں حضرت عائشہؓ کے بھائی عبدالرحمن بن ابوبکرہاتھ میں مسواک لئے داخل ہوئے، آپﷺان کی طرف دیکھنے لگے، حضرت عائشہؓ نے پوچھاکہ کیاآپ کے لئے مسواک لے لوں؟ آپﷺنے اشارہ سے ہاں فرمایا، حضرت عائشہؓ نے مسواک لیااوراسے چباکرنرم کرکے آں حضرتﷺکودیا۔

آپﷺکے قریب میں پانی کاایک پیالہ رکھاہواتھا، تکلیف سے بے تاب ہوکر اس میں ہاتھ ڈالتے اورمنھ پرپھیرلیتے اورکہتے جاتے: لاالہ الااللہ، إن للموت سکرات (اللہ کے سواکوئی معبودنہیں، بے شک موت کی بڑی سختیاں ہیں)، پھرچھت کی طرف نگاہ اٹھائی اورہاتھ اٹھاکرفرمایا: اللہم فی الرفیق الأعلی(اے اللہ! میں رفیق اعلی میں جاناچاہتاہوں)، زبان مبارک سے ان کلمات کے اداہوتے ہی روح مبارک عالم بالا کوپرواز کرگئی اوردست مبارک نیچے گرگیا، یہ روح فرساواقعہ پیرکے دن دوپہر۱۲؍ ربیع الاول کوپیش آیا، فصلی اللہ علی النبی الکریم وآلہ الطیبین الطاہرین۔

آپﷺکی وفات کے ساتھ تمام ازواج مطہرات بیوہ ہوگئیں، انھیں میں حضرت عائشہؓ بھی تھیں، اس وقت ان کی عمر اٹھارہ(۱۸) برس تھی، بیوگی کی حالت میں تقریباً چالیس سال انھوں نے گزارے۔

والدکی وفات

آں حضرتﷺکی وفات کے بعد حضرت ابوبکرؓ خلیفۃ المسلمین بنائے گئے، ان کازمانہ تقریباً دوسال رہا، ۱۳؍ہجری میں انھوں نے وفات پائی اوراس طرح شوہرکی وفات کے دوسال بعدہی والدمحترم کے انتقال کاصدمہ بھی حضرت عائشہؓ کوجھیلناپڑا۔

جنگ جمل

حضرت ابوبکرصدیقؓ کے بعدحضرت عمرؓ مسندخلافت پرجلوہ افروز ہوئے، ان کادورخلافت امن وشانتی کے ساتھ گزرا؛ یہاں تک کہ انھوں نے جام شہادت نوش فرمایا، اب حضرت عثمان ؓ خلیفہ منتخب ہوئے، ابتدائی زمانہ توٹھیک ٹھاک رہا؛ لیکن پھرشورش ہونے لگی؛ یہاں تک کہ کچھ بدمعاشوں نے حضرت عثمانؓ کوان کے گھر میں شہیدکردیا، یہ زمانہ حج کاتھااورحضرت عائشہؓ اسی مقدس سفرمیں تھیں، واپسی پرحضرت عثمان ؓ کی شہادت کی اطلاع ملی، کچھ آگے بڑھیں توحضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓملے ، انھوں نے مدینہ شورش زدہ حالات سے باخبرکیاتووہ واپس مکہ آگئیں، لوگوں کوجب معلوم ہواتوہرطرف سے وہاں پہنچنے لگے، حضرت عائشہؓ نے اصلاح کی طرف لوگوں کوبلایا۔

اس کے لئے لوگوں میں منادی ہوئی اورایک بڑی جماعت حضرت عائشہؓ کے ساتھ چلنے کے لئے تیارہوگئی، مکہ سے وہ لوگ بھی شریک ہوگئے، جوفتنہ پرور تھے، حضرت عائشہؓ کے قافلہ نے بصرہ کارخ کیا، ان کااصل مقصداصلاح کی دعوت اورحضرت عثمانؓ کے قاتلین کی بیخ کنی تھا،جب حضرت علی ؓ کواس لشکر کا علم ہواتووہ بھی بصرہ کے اردے سے نکلے، دونوں فوجیں آمنے سامنے خیمہ زن ہوگئیں، دونوں طرف لوگ ایسے تھے، جوصلح وآشتی چاہتے تھے، ایک رئیس کی کوشش سے دونوں فریق صلح پرراضی ہوگئے اورایک دوسرے سے مطمئن ہوگئے؛ لیکن دشمنان اسلام اس بات سے کیسے خوش ہوسکتے تھے؟ چنانچہ سبائی فرقہ نے اس وقت حضرت عائشہؓ کی فوج پرشب خوں مارا، جب سب چین کی نیندسورہے تھے، حضرت عائشہؓ کے لوگوں نے یہ سمجھاکہ ادھرکے لوگوں نے بدعہدی کی ہے، وہ بھی میدان میں ہتھیارلے کرکودے، اس جنگ میں حضرت عائشہؓ ایک اونٹ پر سوار تھیں، جب اس کے پیرکاٹ دے گئے اوروہ بیٹھ گیا ، تب جاکرجنگ کایہ شعلہ بجھا، حضرت عائشہؓ کے اونٹ پرسواررہنے کی وجہ سے ہی اس جنگ کانام’’جنگ جمل‘‘پڑا۔

وفات

اس کے بعدسے لے کروفات تک خاموشی ہی کی زندگی گزاری، حضرت علی ؓ کی خلافت کے بعدحضرت امیرمعاویہؓ تخت نشین ہوئے اوربیس سال تک حکومت کی، انھیں کے دوراقتدارمیں سن ستاون(۵۷)ہجری میں وفات پائی، إنا للہ وإناإلیہ راجعون۔

اخلاق وعادات

آپ قناعت پسند، دوسروں کے معاون ومددگار، شوہرکی اطاعت گزار، غیبت سے دوررہنے والی، خودستائی سے احتیاط کرنے والی، خوددار، بہادر، فیاض اورسخی، رقیق القلب، اللہ تعالیٰ ڈرنے والی، عبادت الٰہی میں مشغول رہنے والی،پردہ کا اہتمام کرنے والی اور خادموں اورغلاموں پرشفقت کرنے والی تھیں، رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی