دہشت گردی اوربھارت

دہشت گردی اوربھارت


محمدجمیل اخترجلیلی ندوی


’’آج دنیا کودہشت گردی اوربنیادپرستی سے سب سے بڑا خطرہ ہے، بھارت دہشت گردی کے بارے میں عالمی سطح پرتشویش کااظہارکررہاہے، اجتماعی تعاون سے ہی دہشت گردوں کامضبوط اتحاد توڑاجاسکتاہے، مجرموں کی نشاندہی کی جاسکتی ہے اوران کااحتساب کیاجاسکتاہے اوران کے خلاف سخت کارروائی کی جاسکتی ہے، آسیان ممالک کودہشت گردی کوفروغ دینے، حمایت، مالی اعانت اورانہیں پناہ دینے والوں کے خلاف متحد ہونے کی ضرورت ہے‘‘۔

ان خیالات کااظہاربھارت کے وزیردفاع راج ناتھ سنگھ نے بدھ کی صبح ویڈیوکانفرنسنگ کے ذریعہ آسیان ممالک کے وزارائے دفاع کے آٹھویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا، اس اجلاس میں دس آسیان ممالک اورآٹھ مذاکرات کے شریک ممالک آسریلیا، چین، بھارت، جاپان، نیوزی لینڈ، جمہوریہ کوریا، روس اورامریکہ کے وزرائے دفاع نے شرکت کی۔

وزیردفاع کے یہ خیالات قابل قدر ہیں؛ لیکن ملک کے حالات اوران کے خیالات کے درمیان موازنہ کیاجائے تویہ’’نقش برآب‘‘ کے سواکچھ نہیں، اورنقش برآب کی زندگی ہی کتنی ہوتی ہے؟ لہٰذا ان کے خیالات کی زندگی بھی بس ان کے الفاظ تک ہیں اوربس، تاہم ان کی یہ بات اہم ہے کہ ’’آج دنیا کودہشت گردی اوربنیادپرستی سے سب سے بڑا خطرہ ہے‘‘؛ لیکن اس سے پہلے راج ناتھ سنگھ کویہ جاننابھی چاہئے کہ ’’دہشت گردی‘‘ کسے کہتے ہیں؟اگرانھیں یہ معلوم ہوتاتوشایدکچھ سوچ سمجھ کرایسی تقریرکرتے؛ کیوں کہ یہ تقریر توان کے اپنے ملک میں ہونے والے واقعات کے خلاف ہے۔

دہشت گردی کیاہے؟

دہشت گردی کی تشریح یوں کی جاسکتی ہے: ’’خوف وہراس پیداکرکے اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر ایسا نپاتلاطریقۂ کاریاحکمت عملی اختیارکرنا، جس سے قصورواراور بے قصور کی تمیزکے بغیرعام شہریوں سمیت ہرممکنہ ہدف کوملوث کرتے ہوئے وسیع پیمانے پردہشت وتکلیف اوررعب واضطراب (نفسیاتی ہی سہی)پھیلایاجائے‘‘، یہ ہے دہشت گردی کی تشریح، جس میں کسی کی رورعایت نہیں کی گئی ہے اوردنیا کا ہر سلیم الفطرت شخص دہشت گردی کی اس تشریح کوتسلیم کرے گا، پھردنیاکے واقعات اورحالات کاجائزہ لیں تواس کوکئی قسموں پرتقسیم کیاجاسکتاہے:

دہشت گردی کی قسمیں

۱-  انفرادی دہشت گردی:یہ دہشت گردی انتہائی خطرناک ہوتی ہے، اس کی وجہ سے لوگ خوف وہراس میں مبتلاہوجاتے ہیں، اس میں ایک شخص ملوث ہوتاہے، جویاتوکسی دہشت گرد تنظیم سے متاثرہوتاہے یاپھر فلمیں وغیرہ دیکھ کردہشت گردی کرنے لگتاہے، ایساشخص کسی مسجد، مندر، گرجا، یاپھرکسی بھی عبادت گاہ میں گھس جاتاہے، یاہوٹل، یاشراب خانہ، یاتعلیمی ادارہ وغیرہ میں اسلحہ کے ساتھ داخل ہوجاتاہے اوربے گناہ لوگوں پرگولیوں کی بوچھارکرکے یاپھربم کے ذریعہ سے دسیوں افرادکوہلاک کردیتاہے، ہمارے ملک میں اس کی کئی مثالیں دیکھنے کومل چکی ہیں، مہاتماگاندھی کاقتل، اندراگاندھی کاقتل، راجیوگاندھی کاقتل،مکہ مسجدکابم دھماکہ، مالیگاؤں دھماکہ وغیرہ اسی کی مثالیں ہیں۔

۲-  اجتماعی دہشت گردی:اس میں دہشت گردوں کی ایک جماعت شامل ہوتی ہے، جویا توتربیت یافتہ ہوتی ہے یاغیرتربیت یافتہ، اس میں کوئی تنظیم بھی شامل ہوسکتی ہے اورتنظیم سے متاثرچندافرادبھی، یہ لوگ بھی بے گناہ لوگوں کے قتل کے مرتکب ہوتے ہیں، ہمارے ملک میں اس کی مثالیں ملتی ہیں، 1984ء میں سکھوں کے خلاف جوکچھ بھی ہوا، وہ منظم دہشت گردی تھی، بھاگل پور، جمشید پور، رانچی، راوڑ قلعہ ، جبل پور اور 2002ء میں گجرات میں جوکچھ ہوا، وہ بھی دہشت گردی تھی، اجتماعی دہشت گردی میں آج کل کا’’ہجومی تشدد‘‘ اور’’ہجومی قتل‘‘ بھی شامل ہے، جس میں کچھ افراد نہتے شخص یااشخاص کوموت کے گھاٹ اتاردیتے ہیں اورعجیب بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں جب سے وزیردفاع راج ناتھ سنگھ کی پارٹی کی حکومت اقتدارپرآئی ہے، اس قسم کی دہشت گردی میں اضافہ ہی ہواہے۔

۳-  نظریاتی دہشت گردی:یہ دہشت گردی انفرادی بھی ہوسکتی ہے اورتنظیمی بھی؛ کیوں کہ اس دہشت گردی کاتعلق ’’سوچ‘‘ سے ہوتاہے، جب کسی انسان یاتنظیم کی سوچ اورنظریہ میں تشدد، انتہاپسندی، جبر یاہتھیارکے زورپراپنی بات اوراپنے نظریات منوانے کاعنصرپیداہوجائے یا یہ سوچ پیداہوجائے کہ ہم ہی حق پرہیں، باقی سب باطل ہیں اور باطل کومٹاناضروری ہے تواسے ’’نظریاتی دہشت گردی ‘‘ کہاجاتاہے، اس وقت پوری دنیامیں دہشت گردی کاجوبازارگرم ہے، وہ اسی قسم سے تعلق رکھتی ہے، ہمارے ملک میں بھی اس کی مثالیں موجودہیں؛ بل کہ اس ملک میں جوبھی دہشت گردی کے واقعات رونماہوئے یاہورہے ہیں، وہ سب اسی وجہ سے ہورہے ہیں، جتنے فسادات ہوئے، جتنے ہجومی تشددکے واقعات پیش آئے، سب اسی قسم سے تعلق رکھتے ہیں۔

۴-  ریاستی دہشت گردی:کسی بھی ریاست کااپنے ماتحت علاقہ کے لوگوں پرظلم وتشددکرنا، ان پرلاٹھی چارج کرنا، مارناپیٹنا، بلاوجہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلنا ’’ریاستی دہشت گردی‘‘ کہلاتی ہے، یہ توسب جانتے ہیں کہ پوری دنیا میں اورخصوصیت کے ساتھ جمہوری ممالک میں عوام کوپرامن احتجاج کاحق حاصل ہوتاہے، جب تک یہ احتجاج پرامن رہے، ریاست کوحق نہیں کہ لوگوں پرجبراورتشدد کرے، ان پرلاٹھی جارچ کرے، ان پرآنسوگیس کی گولیاں برسائے، ان پرواٹرکین کے ذریعہ بارش کی بوجھار کرے،اگراحتجاج پرامن ہو، اس کے باوجود ریاست اپنی طاقت کامظاہرہ کرتے ہوئے عوام کواس احتجاج سے روکنے کی کوشش کرے اورعوام کواپنی بات رکھنے کاموقع نہ دے تو یہ کھلی ہوئی ریاستی دہشت گردی ہے، ہمارے ملک میں ابھی چند سالوں میں اس کی کئی مثالیں دیکھنے کوملیں، جے این یواور ان کے ساتھ ملک کی مختلف یونیورسیٹیوں میں جب طلبہ نے اپنے حق کے لئے آواز بلند کی تواسے مختلف طریقوں سے دبانے کی کوشش کی گئی، سی اے اے کے خلاف جب ملک کے مختلف صوبوں میں شاہین باغ قائم ہوئے توباوجودیہ کہ وہ سب پرامن تھے، ریاستی دہشت گردی کی گئی اوراسی پربس نہیں کیاگیا؛ بل کہ بہت سارے افرادکوجیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی دھکیل دیاگیا، زرعی قوانین کے خلاف بھی کئی طرح کے حربے اپنائے گئے، یہ سب ریاستی دہشت گردی کی ہی مثالیں ہیں۔

۵-  معاشی دہشت گردی :حکمراں طبقہ، اعلیٰ سرکاری عہدہ دار اوردولت مندلوگ اپنے اختیارات اورتعلقات کاناجائزفائدہ اٹھاکرکمیشن یاکرپشن وغیرہ کے ذریعہ سے غیرقانونی طورپر مال کماتے ہیں اورمختلف ذرائع سے بیرون ممالک میں جمع کرتے ہیں یاپھران پیسوں کومتعددطریقوں سے سفیدبناکرواپس ملک میں لاتے ہیں اوران کے ذریعہ سے بڑی بڑی جائیدادیں خریدتے اورکمپنیاں قائم کرتے ہیں، ان لوگوں کایہ عمل ’’معاشی دہشت گردی‘‘ میں شامل ہے کہ اس طرح سے یہ لوگ ملک کی معیشت کوزبردست نقصان پہنچاتے ہیں، ہمارے ملک میں بھی اس کی دسیوں مثالیں موجودہیں، نیرو مودی، میہوال، لالویادو، رافیل اورحدتویہ ہے کہ رام کے نام پربھی یہ دہشت گردی انجام دیدی گئی، ظاہرہے کہ یہ کھلی ہوئی معاشی دہشت گردی ہے۔

بھارت کی حالت

دہشت گردی کی تشریح ، اس کی اقسام اورتطبیقات کی روشنی میں وزیردفاع کے بیان کولیناچاہئے، بات توانھوں نے بڑی اچھی کی ہے اوران کی پارٹی کی یہ سب سے بڑی خصوصیت ہے کہ وہ بات بڑی اچھی کرتے ہیں، بہارالیکشن میں بہارکوکوویڈ اسپتال دینے کی بات خود پرائم منسر نے کی تھی، جوآج تک وعدہ ٔ فردا ہے، اب بنگال کواسپتال دینے کی بات کرہے ہیں، پندرہ لاکھ کی بھی بات کی تھی، اورسب سے بڑی بات یہ ہے کہ 2014ء میں مہنگائی کولے کریہ حکومت اقتدارپرآئی تھی، اورعجیب بات یہ ہے کہ جس وقت حکومت آئی تھی، اس وقت ملک کی جی ڈی پی 9+تھی؛ لیکن اس وقت کہاں ہے؟ بتانے میں بھی شرم آتی ہے، اس وقت پٹرول ساٹھ پینسٹھ کے درمیان تھی اورگیس چارسو کے قریب؛ لیکن یہی پارٹی اوراس کے نیتا سڑکوں کوسیلنڈرلے لے کراحتجاج کرتے نظرآرہے تھے، آج پٹرول سوسے پارہے، کھانے کاتیل دوسوکے قریب اورسلینڈرہزارکے قریب؛ لیکن یہ پارٹی اوراس کے نیتا اس پر بات کرنے سے کتراتے ہیں؛ بل کہ بات بھی کرتے ہیں توایسی مضحکہ خیز کہ ہنسی چھپائے نہ بنے۔

ان تمام چیزوں کوسامنے رکھتے ہوئے سب سے پہلے وزیردفاع کواپنے گھرکی فکرکرنی چاہئے، جہاں دہشت گردی کی مذکورہ تمام قسمیں پائی جاتی ہیں اوریہ بھی عجیب بات ہے کہ سب سے زیادہ ان ہی کے اپنے لوگ اس میں ملوث پائے جاتے ہیں، ایسے میں آسیان ممالک کی بات کرنااوران کودہشت گردی سے مقابلہ کے لئے تیارکرنا اوراپنے کو اس کے لئے پرعزم بتانا بس ایسی ہی بات ہے، جیسے آپ کے ہی ایک فرد نے پندرہ لاکھ دینے کی بات کی تھی، پہلے اپنے گھرکوسدھارنے کی فکرکریں، پھراڑوس پڑوس کی طرف جھانکھیں، یوں بھی آپ کے ’’انکل سام‘‘ کی طرف سے اوردیگرکئی تنظیموں کی طرف سے بھارت کے اس طرح کے دہشت گردانہ حالات پرتشویش کااظہارکیاجاچکاہے۔
jamiljh04@gmail.com
 

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی