غزوۂ بدر ----- عبرت وموعظت کے کچھ پہلو

غزوۂ بدر---عبرت وموعظت کے کچھ پہلو


محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

غزوۂ بدر---سبب اورتیاری

ریاستِ کفرسے نکلنے کے بعدمسلمانوں نے چین کی سانس لینی اوراُن جراحتوں کی مرہم پٹی کرنی شروع کی، جوسنگ دِلانِ مکہ کی طرف سے اُنھیں پہنچائی گئی تھی اورشایداُنھیں یہ خیال بھی ہوچلاہوگاکہ اب اہلِ مکہ درپئے آزارنہ ہوں گے اوریہ لوگ طمانینتِ قلب کے ساتھ ریاضت وعبادت میں مشغول ہوسکیں گے؛ لیکن یہ صرف ایک خوش فہمی ثابت ہوئی؛ کیوں کہ چندہی دنوں کے بعدوہ لوگ مسلمانوں کے خلاف سازشیں رچنے اورمنصوبے بنانے لگے؛ حتیٰ کہ مدینہ کے ایک سردارعبداللہ بن ابی کوایک دھمکی آمیزخط بھی لکھاکہ:’’تم نے ہمارے آدمی کواپنے ہاں پناہ دی ہے، ہم خداکی قسم کھاتے ہیں کہ یاتوتم اُن کوقتل کرڈالو یامدینہ سے نکال دو، ورنہ ہم سب لوگ تم پرحملہ کریں گے اورتمہارے جنگجوؤوں کوقتل کرکے تمہاری عورتوں پر تصرف کریں گے‘‘(ابوداود، باب فی خبرالنضیر، حدیث نمبر: 3006)، اسی کے ساتھ ساتھ عرب کے تقریباً تمام قبائل میں گھوم پھرکراسلام اورمسلمانوں کے خلاف آتشِ غضب کوبھڑکایااورجرأت کی حدتواس وقت پار کردی، جب مکہ کے ایک رئیس کرزبن جابرفہری نے اپنے سواروں کے ساتھ مدینہ کی چراگاہ پرحملہ کرکے آں حضرت ﷺ کے مویشی لوٹ لے گیا۔

حضورﷺاب مکمل طورپرچوکناہوگئے اورصحابہ کی ٹکڑیاں بناکرمدینہ کے قرب وجوارمیں گشت لگوانی شروع کی؛ تاکہ ناگہانی حملہ سے بچاجاسکے، حضرت عبداللہ بن جحش ؓ کوبارہ آدمیوں کے ساتھ’ بطنِ نخلہ‘کی طرف یہ حکم دے کرروانہ کیاکہ وہاں قیام کرکے قریش کے حالات سے آگہی حاصل کی جائے، اتفاق یہ کہ شام سے تجارتی اموال لے کرآتے ہوئے قریش کے چندافرادکاگزراِدھرہی سے ہوا، حضرت عبداللہ ؓ نے اُن پراس لئے حملہ کیاکہ مبادا یہ قریش کوہماری اطلاع بہم پہنچادیں، جس کے نتیجہ میں عمروبن الحضرمی واصلِ جہنم ہوا، جب کہ دوگرفتارہوئے اورمالِ غنیمت ہاتھ لگا، جب اس کی اطلاع حضورﷺ کوہوئی توآپﷺ نے برہم ہوکرفرمایا:’’ میں نے تم کواس کی اجازت نہیں دی تھی‘‘اورمالِ غنیمت میں سے کچھ لینے سے انکار کردیا، چوں کہ یہ ماہِ رجب کے آخری ایام تھے اورعربوں میں یکساں طورپرمحترم سمجھے جاتے تھے، لڑائی جھگڑے سے بھی وہ لوگ اس ماہ میں پرہیزکرتے تھے؛ اس لئے صحابہ بھی برافروختہ ہوئے اوراُن سے کہا: ’’تم نے وہ کام کیا، جس کاتمہیں حکم نہیں دیا گیا تھا، تم نے محترم مہینہ میں جنگ کی؛ حالاں کہ تمہیں اس کا حکم نہیں دیاگیاتھا‘‘(تاریخ الطبری:2/16)۔

حضرمی کے قتل کی خبرمکہ میں جنگل کی آگ کی طرح پہنچی، جس کی وجہ سے پورے مکہ میں انتقام وقصاص کی آتشِ نمرودبھڑک اٹھی، اِدھررسول اللہ ﷺ کوخبرملی کہ ابوسفیان کی سرکردگی میں قریش کا تجارتی قافلہ مال ومتاع سے لداپھندا شام سے واپس آرہاہے؛ چنانچہ حضورﷺ نے صحابہ کومخاطب کرکے فرمایا:’’یہ قریش کاقافلہ ہے، جس میں ان کے اموال ہیں، چلو، شایداللہ تعالیٰ اس میں سے کچھ تمہیں دلادے‘‘( السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، غزوۃ بدرالکبری:۳ ؍ ۳۵۱، عیون الأثر: ۱ ؍ ۳۲۱)، مسلمان اس قافلہ کی تلاش میں نکل پڑے، اُن کے سان گمان میں بھی نہیں تھاکہ طاقت آزمائی کی نوبت آئے گی۔

  حضورﷺ نے مدینہ سے نکلتے وقت نماز پڑھانے کی ذمہ داری حضرت عبداللہ ابن ام مکتومؓ کے سپردکی، جب ’روحاء‘ کے مقام پرپہنچے توحضرت ابولبابہ بن منذرؓ کومدینہ کا حاکم مقرر کر کے واپس مدینہ بھیجا، جب کہ عالیہ(مدینہ کی بالائی آبادی) پرعاصم بن عدی کومتعین فرمایا، اِن اہم ذمہ داریوں کی تعیین کے بعد آپﷺ آگے بڑھے، جب مقام’صُفراء‘پہنچے تو دو رازجوؤوں بسبس بن عمروجہنی اورعدی بن ابی الرغباء کوقافلہ کی رازجوئی کے لئے بھیجا، یہ لوگ بدر کے کنویں پرپہنچے، جہاں دوعورتیں اپنے لین دین کی بات کرتے ہوئے کہہ رہی تھیں کہ کل پرسوں تک یہاں قافلہ پہنچ جائے گا، جس میں محنت مزدوری کرکے ہم قرضہ چکتاکردیں گے، جب دونوں رازجوؤوں نے عورتوں کی یہ باتیں سنیں تواپنے جانوروں کوپانی پلاکربعجلت واپس ہوئے اورحضورﷺ کے سامنے پوری بات کہہ سنائی۔

ان دونوں کے جانے کے بعدابوسفیان بھی مخبری کرتے ہوئے یہاں پہنچا، جب کنویں کے قریب مینگنیاں دیکھیں تواسے اٹھاکرتوڑا، جس میں کھجورکی کٹھلی نظرآئی، کھجورکی کٹھلی دیکھ کروہ سمجھ گیاکہ مدینہ کے مسلمان اس کی تاک میں ہیں، فوراً پلٹااورقافلہ کے رخ کوساحل کی جانب کردیا، پھرضمضم بن عمرو غفاری کوہرکارہ بناکرمکہ بھیجاکہ تمہاراقافلہ معرضِ خطرمیں ہے، لہٰذا قافلہ کی حفاظت کے لئے دوڑو۔

ابھی اہلِ مکہ کے سینے حضرمی کے قتل پرفگارہی تھے کہ ابوسفیان کایہ پیغام ملا، جس نے جلتی پرتیل کاکام کیااورپورامکہ ثاروانتقام کی آگ میں جل اٹھا؛ چنانچہ زرہ پوش وہتھیاربنداورگھڑسواروں پرمشتمل ہزار افراد کی جمعیت بڑے طمطراق کے ساتھ اسلام اوراہلِ اسلام کی بیخ کنی کے لئے نکل پڑی، قریش کے تمام سربرآوردہ لوگ بھی اس میں شامل تھے، جب یہ لوگ مقام ’جحفہ‘ تک پہنچے توابوسفیان کادوسراخط ملا کہ: ’’ تم جس ارادہ سے نکلے تھے، وہ پوراہوگیا، قافلہ صحیح سالم نکل چکاہے؛ اس لئے تم لوگ بھی واپس آجاؤ‘‘، تمام لوگوں نے واپسی کاارادہ بھی کیا؛ لیکن ابوجہل نے قسم کھائی کہ ہم اسی شان سے بدرتک جائیں گے اوراونٹوں کوذبح کرکے خودبھی کھائیں گے اوردوسروں کوبھی کھلائیں گے؛ تاکہ سارے عرب پر ہمارا دغدغہ بیٹھ جائے، لہٰذا عدی وزہرہ اورقریش کے کچھ لوگوں کے علاوہ تمام لوگ بدرکے ایک کنارے خیمہ زن ہوئے(عیون الأثر: ۱ ؍ ۱۳۳)۔

غزوۂ کے بارے میں مشورہ

آپﷺ کوبھی یہ خبرمل چکی تھی کہ قریش اپنے قافلے کی حفاظت کے لئے لاؤ لشکرکے ساتھ نکل پڑے ہیں؛ چنانچہ آپ ﷺنے صحابہ سے مشورہ کیا، حضرت ابوبکرؓوعمرؓ نے مستعدی ظاہرکی؛ لیکن آپ ﷺکا روئے خطاب انصار کی طرف تھا؛ چنانچہ حضرت سعدبن معاذؓ نے کھڑے ہوکرعرض کیا:’’بخداآپﷺ کاروئے خطاب ہماری طرف ہے اے اللہ کے رسولﷺ! آپ ﷺنے فرمایا: ہاں، حضرت سعدؓ نے کہا: بلاشبہ ہم آپ پرایمان لائے اورہم نے آپ کی تصدیق کی، ہم نے گواہی دی کہ آپ کی لائی ہوئی چیزبرحق ہے، ہم نے اس سلسلہ میں سمع وطاعت پرعہد وپیمان بھی باندھاہے، لہٰذا آپ جوچاہیں کریں، ہم آپ کے ساتھ ہیں، اس ذات کی قسم ، جس نے آپ کوحق کے ساتھ مبعوث فرمایاہے اگرآپ ہم سے اس سمندرمیں داخل ہونے کامطالبہ کریں توہم آپ کے ساتھ داخل ہونے کے لئے تیارہیں، ہم میں سے ایک بھی فرد کوآپ پیچھے نہیں پائیں گے، میدانِ کارزارمیں ہمیں ثابت قدم اوردشمن سے مڈبھیڑکے وقت باعزم پائیں گے، شایداللہ تعالیٰ ہمارے کارناموں سے آپ کی آنکھوں کوبھی راحت پہنچادے، لہٰذا آپ اللہ کانام لے کرآگے بڑھئے‘‘(الاکتفاء بماتضمنہ من مغازی رسول اللہ، غزوۃ بدرالکبریٰ: 2 ؍ 14)۔  

حضرت مقدادبن اسودؓ نے کہا:’’ہم آپ کو اس طرح جواب نہیں دیں گے، جس طرح بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ کودیاتھاکہ ’آپ اپنے رب کے ساتھ جاکرجنگ کریں‘؛ بل کہ ہم آپ کے دائیں بائیں اورآگے پیچھے جاں نثار ہونے کوتیارہیں‘‘(صحیح بخاری،باب قول اللہ تعالیٰ: اذتستغیثون ربکم فاستجاب لکم…،حدیث نمبر: ۳۹۵۲)، انصارکی طرف سے یہ جواب سن اورآمادگی کودیکھ کرآپ ﷺکاروئے مبارک چمک اُٹھا، پھرفرمایا:’’آگے بڑھواورخوش خبری قبول کرو، اللہ تبارک وتعالیٰ نے دونوں میں سے ایک جماعت (پرفتح یابی) کامجھ سے وعدہ کیاہے، بخدا گویاکہ میں قومِ(قریش) کی پٹخنیاں کھانے کی جگہ دیکھ رہاہوں‘‘(الروض الأنف، الرسول یستشیر:۳ ؍ ۵۷)۔

میدان بدر میں

اب آ پﷺ اپنی مختصرجماعت کے ساتھ آگے بڑھے اورکچھ دورجانے کے بعدلشکرکامعائنہ فرماکر چھوٹے بچوں کوواپس کرنے کاحکم دیا، چھوٹے عمیربن ابی وقاص اس حکم کوسن کرروپڑے، آخرکارآں حضرت ﷺ نے شرکت کی اجازت مرحمت فرمائی، چوں کہ کفارقریش پہلے ہی بدرپہنچ چکے تھے؛ اس لئے مسلمانوں کوبدرکے اِسی کنارے پرپڑاؤ ڈالناپڑا، جہاں کی زمین اس قدر ریتیلی تھی کہ پاؤں دھنس دھنس جاتے تھے، نیزپانی کاکنواں بھی اہلِ مکہ ہی کی طرف تھا، ایسے میں حضرت حباب بن منذرؓ نے حضورﷺ سے عرض کیا: یہاں پرقیام وحی کے ذریعہ سے ہے یا فوجی تدبیر؟ آپﷺ نے جواب دیا: وحی کے ذریعہ سے نہیں ہے، حضرت حبابؓ نے کہا: توپھرآگے بڑھ کرچشمہ پرقبضہ کرلیاجائے اورآس پاس کے کنویں بیکارکردئے جائیں، حضرت حباب ؓ کی یہ رائے دربارِنبوت میں پسندکی گئی، ایسے میں اللہ تعالیٰ نے کرم کامعاملہ کرتے ہوئے بارانِ رحمت بھی برسادیا، جس سے مسلمانوں کودوفائدے حاصل ہوئے، ریتیلی زمین بیٹھ گئی اورچلنا پھرناآسان ہوگیا، نیز وضووغسل کے لئے پانی کاذخیرہ کرلیاگیا، یہ پانی تودراصل مسلمانوں کے ذاتی استعمال کے لئے تھا؛ لیکن رحمۃ للعالمینی نے انسانیت نوازی کاثبوت دیتے ہوئے مشرکینِ مکہ کوبھی ذخیرہ شدہ پانی سے استفادہ کی اجازت مرحمت فرمادی۔

شام کے وقت حضرت علی، حضرت زبیربن العوام اورحضرت سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہم کوقریش کے حالات سے باخبری کے لئے روانہ فرمایا، یہ حضرات بدرکے چشمہ پرآئے، جہاں قریش کے دوغلام پانی بھر رہے تھے، دونوں کوگرفتارکے حضورﷺ کی خدمت میں پیش کیا، آپﷺ نے ان دونوں سے لشکرکی تعداد کے بارے میں پوچھاتوانھوں نے جواب دیا: بہت ہیں،تعداد ہمیں نہیں معلوم، آپﷺ نے دریافت کیا کہ روزانہ کتنے اونٹ ذبح کئے جاتے ہیں؟ جواب دیا: ایک دن نواورایک دن دس، یہ سن کرآپﷺ نے فرمایا: لشکرکی تعداد نوسوسے ہزارکے درمیان ہے، پھرآپﷺ نے سوال کیا: لشکرکے ساتھ اشرافِ مکہ میں سے کون ہیں؟ جواب دیا: عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ابوالبختری بن ہشام، حکیم بن حزام، نضربن حارث، زمعہ بن اسود، ابوجہل بن ہشام، نوفل بن خویلداورحارث بن عامروغیرہ، ان کے نام سن کرآپﷺ نے صحابہ سے فرمایا: ’’مکہ نے اپنے جگرپاروں کوتہمارے پاس بھیجدیاہے‘‘(دلائل النبوۃ للبیہقی، حدیث نمبر: ۸۹۰)۔

آج کی رات صحابہ دل کھول کرسوئے، بس ایک ذات تھی، جس کی آنکھوں میں نہ نیندکاغلبہ تھا اورناہی اونگھ کاحملہ، وہ بس تسبیح وتہلیل اوردعاوابتہال میں مشغول تھی، وہ ذات حضوراکرم ﷺ کی ذات تھی، جب صبح ہوگئی توصحابہ کونماز کے لئے بیدارکیا، نمازکے بعدمختصراً راہِ خدامیں جاںبازی اورسرفروشی کی ترغیب دی، حضرت سعد بن معاذ ؓ نے ایک چھپربلند ٹیلہ پربنانے کی پیش کش کی؛ تاکہ آں حضرتﷺ وہاں سے میدانِ کارزار کامشاہدہ کرسکیں، بعدازاں آپﷺ نے صحابہ کی صفوں کومرتب اوردرست فرمایا، صف آرائی کے وقت دستِ مبارک میں ایک تیرتھا، جس کے ذریعہ سے صف سے نکلے ہوئے سوادبن غزیہؓ کے بیٹ میں ہلکاسے کوچہ دے کردرست ہونے کوفرمایا، سوادؓنے عرض کیا:’’آپ نے مجھے تکلیف پہنچائی ہے، اس ذات کی قسم، جس نے آپ کوحق کے ساتھ نبی بناکربھیجاہے، مجھے بدلہ دیجئے‘‘، آپﷺ نے اپنے پیٹ سے کپڑا ہٹالیا اورفرمایا: بدلہ لے لو، حضرت سواد چمٹ گئے اورآپﷺ کے پیٹ کابوسہ لیا، حضورﷺنے دریافت فرمایا : تم نے ایسا کیوں کیا؟ جواب دیا: اللہ کاحکم آچکاہے اورمجھے اپنی شہادت کی امید ہے، میں نے سوچاکہ آخری مرتبہ آپ کے ساتھ معانقہ کرلوں‘‘ (مغازی الواقدی، بدر القتال: ۱ ؍ ۵۷)۔

دوسری طرف سے کفارقریش بھی نخوت ونخرے میں ڈوبے ہوئے ،اکڑفوں دکھاتے ہوئے اور پورے طور پرآلاتِ حرب وضرب میں لپٹے ہوئے نکلے، آپﷺ انھیں دیکھ کربارگاہِ ایزدی میں عرض کناں ہوئے:’’یہ قریش کے لوگ غروروتکبرکے ساتھ تیری مخالفت کرتے ہوئے اورتیرے رسول کوجھٹلاتے ہوئے مقابلہ آرائی کے لئے نکلے ہیں، اے اللہ!اپنی نصرت نازل فرما، جس کاتونے مجھ سے وعدہ کیاہے اورانھیں ہلاک کر‘‘(سیرۃ ابن ہشام، ارتحال قریش: 1 ؍ 621)۔

جنگ کاآغاز

جب دونوں طرف صف بندی ہوگئی توقریش کی طرف سے عتبہ، شیبہ اورولیددعوتِ مبارزت دیتے ہوئے نکلے، مسلمانوں کے لشکرسے حضرت عوف، حضرت معاذ اورحضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم ان کی مقاومت کے لئے نکلے، عتبہ نے پوچھا: تم کون ہو؟جواب ملا:ہم انصار ہیں، عتبہ نے کہا:’’ہمیں تم سے کوئی سروکارنہیں‘‘،پھرآں حضرت ﷺ سے بلندآواز میں کہا:’’ اے محمد! ہماری قوم کے ہم سروں کو بھیجو‘‘، آپﷺ نے حضرت حمزہ، حضرت علی اورحضرت عبیدہ رضی اللہ عنہم کوان کے مقابلہ کے لئے بھیجا، جب یہ حضرات اُن سے قریب ہوئے تو انھوں نے پوچھا: تم کون ہو؟ جب انھوں نے اپنانام بتایاتواُن لوگوں نے کہا: ’’ہاں! اب یہ ہمارے صحیح جوڑہیں‘‘؛ چنانچہ حضرت علیؓ ولیدکے ساتھ مزاحم ہوئے اوراس کاقصہ پاک کیا، حضرت حمزہؓ شیبہ سے نبردآزماہوئے اوراس کاکام تمام کیا، جب کہ حضرت عبیدہؓ عتبہ کے ساتھ مقابلہ آرا ہوئے؛ لیکن خود زخمی ہوگئے، حضرت علیؓ نے لپک کر عتبہ کے لہوکاجوش ٹھنڈاکردیا(السنن الکبری للبیہقی، باب المبارزۃ، حدیث نمبر: 18344)۔

اب عام حملہ شروع ہوگیا، تیروں کے مینھ برسنے لگے، تلواروں کی جھنکارسنائی دینے لگی اور گھوڑوں کی ہنہناہٹ دِہاکے دینے لگی، فریقین اس طرح ایک دوسرے میں گھس گئے، جیسے تشبیک کے وقت ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ میں داخل کی جاتی ہیں، مرنے لگے اورمارنے لگے، مقابلہ آنکڑے کا تھا، ایک طرف تین سوتیرہ کی تعداد،نہ سواری کے لئے گھوڑے ، نہ لڑنے کے لئے مناسب ہتھیار؛ لیکن دین کی خاطرکفن دوش اوربرسرِپیکار، دوسری طرف ہزار کی جمعیت، سواری کے لئے گھوڑے، آلاتِ حرب وضرب سے لیس، لہٰذا اللہ کے رسول ﷺذکرواذکار، تسبیح وتہلیل اوردعا وابتہال کرتے ہوئے  مکمل طو ر پر اپنے رب کے دربارمیں پہنچ گئے، کبھی سائلانہ ہاتھ پھیلاپھیلا فتح وکامیابی کی دعامانگتے، کبھی فقیرانہ دست درازکرکرکے نصرت وشادکامی کی صدالگاتے، کبھی جبینِ مبارک سجدہ ریز، کبھی چشمہائے مسعود تلاطم خیز، محویت واستغراق کایہ عالم کہ ردائے مبارک شانہ سے ڈھلک ڈھلک جاتی، آپﷺ کہتے جاتے:’’اے اللہ! جس چیزکاتونے مجھ سے وعدہ فرمایاہے، اسے پورافرما، اے اللہ! اگرمسلمانوںکی یہ جماعت ہلاک ہوگئی توپھرروئے زمین پرتیری عبادت نہ ہوسکے گی‘‘(مسلم، باب الإمداد بالملائکۃ فی غزوۃ بدر، حدیث نمبر: 1763)، پھرآں حضرت ﷺنے ایک مٹھی سنگریزہ زمین سے اٹھاکر’’شاہت الوجوہ‘‘ پڑھ کراس پردم کیا اورکافروں کی طرف پھینکا، جوتمام جنگجوانِ کفارکی آنکھوں میں پڑا، وہ آنکھ ملنے لگے، جب کہ مسلمان اُنھیں قتل کرنے لگے(صحیح ابن حبان، باب المعجزات، حدیث نمبر: 6520)۔

گھمسان کے اس رزم میں دوجوان معاذ بنت عفراء اورمعوذ بنت عفراء ابوجہل کوتلاش کرتے پھررہے تھے، جیسے ہی اس کی نشاندہی کی گئی، باز کی طرح جھپٹ کراس پرٹوٹ پڑے اورتلواروں کے وارسے اس کی جہالت کی آخری سانس قفسِ عنصری سے نکال دی، دم خَم کے ساتھ نکلے ہوئے تقریباً سارے صنادیدِعرب ایک ایک کرکے مارے گئے اورکبروغرورکے ساتھ مسلمانوں کے مقابلہ پرنکلاہوا لشکرشکست وریخت سے بری طرح دوچارہوا، تقریباً سترافراد مشرکینِ مکہ کے قتل ہوئے اوراتنے ہی کوپابہ جولاں مدینہ لایاگیا، جب کہ مسلمانوں میں سے بائیس شہیدہوئے۔

رن پڑنے سے پیشترآں حضرت ﷺ نے یہ فرمایاتھا کہ بنوہاشم اوردیگرقبائل کے کچھ لوگ بادلِ نخواستہ اِس جنگ میں شریک ہوئے ہیں، لہٰذا اُنھیں قتل نہ کیاجائے،ابوالبختری بن ہشام اورعباس بن عبدالمطلب کوقتل نہ کیاجائے(الروض الأنف، غزوۃ بدر: ۳ ؍ ۳۷)، بنوہاشم نہ صرف یہ کہ طوعاً وکرہاً جنگ میں آئے تھے؛ بل کہ شعب ابی طالب میں بھی آپﷺ کے لئے تکلیفیں برداشت کی تھیں، ابوالبختری نے کئی مرتبہ شعب ابی طالب میں کھاناپہنچایا تھا، نیزمقاطعہ کے ختم کرنے میں بھی اس کااہم رول تھا، جب کہ آپﷺ کے چچاحضرت عباس ایک قول کے مطابق مسلمان ہوچکے تھے؛ لیکن آں حضرتﷺ کے حکم سے مکہ ہی میں مقیم رہے؛ تاکہ ان کی خبریں پہنچاسکیں۔

جب باقی ماندہ کفارکوقیدکرلیاگیاتوآپ ﷺنے انسانیت کے احترام کوملحوظ رکھتے ہوئے مقتولین کوکنویں میں ڈلوادیااوراوپرسے مٹی پاٹ دی گئی، پھربدرہی میں تین دن تک قیام فرمایا(جیساکہ آپ کی عادتِ شریفہ تھی)، تین دن کے بعدآں حضرت ﷺنے زینیں کسنے کاحکم فرمایا، پھرقلیبِ بدر کے منڈیرپرکھڑے ہوکرمقتولین کومخاطب کرکے فرمایا:’’کیاتم نے اپنے رب کے وعدہ کوسچ پایا؟ میں نے تواپنے رب کے وعدے کوبرحق پایا‘‘، آپﷺ نے مزیدفرمایا:’’تم لوگ اپنے نبی کے حق میں برے قبیلہ کے آدمی ثابت ہوئے، تم لوگوں نے مجھے جھٹلایا، جب کہ دوسروں نے میری تصدیق کی، تم نے مجھے بے گھرکیا، جب کہ دوسروں نے پناہ دی، تم نے میرے ساتھ مقابلہ آرائی کی، جب کہ دوسروں نے میری مددکی‘‘(سیرۃ ابن ہشام، طرح المشرکین فی القلیب: 1 ؍ 638)،پھرآپ ﷺ نے مدینہ خوش خبری کاپیغام بھجوایااوروہاں سے روانہ ہوکرمقامِ صفراء میں نزول اجلال فرمایا اورمالِ غنیمت کوتقسیم فرمایا۔

مدینہ پہنچ کرآپ ﷺنے قیدیوں کوصحابہ کے درمیان یہ حکم دیتے ہوئے تقسیم فرمایا:’’قیدیوں کے ساتھ بھلائی کاسلوک کرو‘‘؛ چنانچہ حضرت مصعب بن عمیرؓ کے ماں شریک بھائی ابوعزیزکہتے ہیں: ’’میں بدر کے قیدیوں میں انصارکے حصہ میں تھا، وہ لوگ آپﷺ کے اس حکم کی وجہ سے صبح وشام مجھے روٹی کھلاتے ، جب کہ خودکھجورکھاتے تھے‘‘ (المعجم الکبیرللطبرانی، حدیث نمبر: ۹۷۷)،قیدیوں میں آپﷺ کے داماد ابوالعاص بن ربیع اورآپﷺ کے چچاحضرت عباس بھی تھے، رشتہ داری کاخیال نہ رکھتے ہوئے ان کے ساتھ بھی وہی سلوک روارکھاگیا، جوعام قیدیوں کے ساتھ رکھاگیا۔

چندروزکے بعداسیرانِ بدرکے سلسلہ میں آپﷺ نے صحابہ سے مشورہ کیا،حضرت ابوبکرصدیقؓ نے عرض کیا: یہ ہمارے بھائی اورخاندان کے لوگ ہیں، میری رائے ہے کہ انھیں فدیہ لے کرچھوڑدیاجائے، ہوسکتاہے اللہ تعالیٰ انھیں ہدایت دیدے اورکل کفارکے مقابلہ میں یہ ہمارے مددگاربن جائیں،  حضرت عمرؓ نے عرض کیا: میری رائے تویہ ہے کہ اِن قیدیوں کوہمارے حوالہ کیاجائے اورہم میں سے ہرشخص اپنے رشتہ دارکی گردن قلم کرے؛ کیوں کہ یہی لوگ کفرکے مقتدااورپیشواہیں، آں حضرت ﷺنے حضرت ابوبکرؓ کی رائے کوپسند فرمایا(صحیح مسلم، باب الإمداد بالملائکۃ فی غزوۃ بدر …،حدیث نمبر: 1763) اورصاحبِ استطاعت قیدیوں سے فدیہ لے کراورغیرمستطیع کو بلافدیہ آزادفرمادیا؛ البتہ جوغیرمستطیع بڑھے لکھے تھے، انھیں حکم دیاکہ وہ دس دس مسلمان بچوں کوتعلیم دیں اورآزادہوجائیں (سیرۃ ابن ہشام، ثمن الفداء: 1 ؍ 659)۔

اِس غزوہ میں عہدوپیمان اورمیثاق ووعدہ کا ایک عجیب نمونہ سامنے آیا، جس کی نظیرتاریخ کے خزاں دیدہ اوراق کے کسی ورق میں نہیں ملتی، دشمن کے اس جم غفیرکے مقابلہ میں مسلمانوں کی تعدادکی کوئی حیثیت نہ تھی اورمسلمانوں کواس بات کی سخت ضرورت تھی کہ ان کے لشکرمیں ایک آدمی ہی کااضافہ ہوجائے، ایسے موقع پرحضرت حذیفہ اورحضرت ابوحسیل رضی اللہ عنہماکوکہیں سے آتے ہوئے کفارراہ میں روکتے ہیں کہ محمد(ﷺ) کی مددکوجارہے ہیں، یہ انکارکرتے ہیں اورعدم تعاون کاوعدہ کرتے ہیں، کفار انھیں جانے کی اجازت دیدیتے ہیں، یہ دونوں حضورﷺ کی خدمت میں حاضرہوکرپوری بات بتاتے ہیں توآپ ﷺ ان سے ہرحال میں وعدہ وفاکرنے کوکہتے ہیں اورجنگ میں شریک ہونے کی اجازت مرحمت نہیں فرماتے (صحیح مسلم، باب الوفاء بالعہد، حدیث نمبر: ۱۷۸۷)۔

غزوۂ بدر کے اسباق

یہ تھی اسلام کی باقاعدہ پہلی جنگ کی جھلک، اب آیئے اس پہلی جنگ سے حاصل ہونے والے دروس واسباق پربھی نظرڈالتے چلیں:

چوکسی

مدینہ پہنچ کرآپﷺ اطمینان کی سانس لیتے ہوئے بیٹھ نہیں گئے؛ بل کہ مشرکینِ مکہ کے حرکات وسکنات کی برابرواقفیت حاصل کرتے رہے اور جب مکہ کے ایک رئیس کرزبن جابرفہری نے اپنے سواروں کے ساتھ مدینہ کی چراگاہ پرحملہ کرکے آں حضرت ﷺ کے مویشی لوٹ لے گیاتوآپ ﷺنے چوکسی میں اور اضافہ کردیا، بسااوقات اس کے لئے مدینہ سے کافی دوردورتک گشتی ٹکڑیاں بھی بھجتے تھے، آں حضرت ﷺ کے اس عمل سے ہمیں بھی چوکس رہنے کی تعلیم ملتی ہے۔

آج جب ہم اپناجائزہ لیتے ہیں تواپنے کواس سے بہت دورپاتے ہیں، باوجودیہ کہ ہمارے سیکڑوں گھر نذر آتش ، معصوم بچوں کوقتل، عزت مأب ماؤوں اوربہنوں کی چادرعصمت تارتاراوربھائیوں کوذبح وقتل کئی کئی مرحلوں میں کیاجاچکاہے اورکیاجارہاہے؛ لیکن پھربھی ہم آج تک چوکس نہیں ہوسکے ہیں، غزوۂ بدر سے ہمیں ایک سبق چوکسی کی بھی ملتی ہے، کاش! ہم اس کواپنالیتے!!!

غلطی پربرہمی

آں حضرتﷺ نے جن گشتی ٹکڑیوں کوبھیجاتھا، ان میں ایک حضرت عبداللہ بن جحشؓ بھی تھے، آپﷺ نے انھیں صرف خبرگیری کے لئے بھیجاتھا اورکسی بھی طرح کی لڑائی اورجھگڑے کی اجازت نہیں دی تھی؛ لیکن حضرت عبداللہ ؓ نے قریش کے ان چندآدمیوں پراس لئے حملہ کیاکہ مبادایہ قریش کوہماری اطلاع بہم پہنچادیں، جوتجارتی اموال کے ساتھ شام سے واپس آرہے تھے ، جس کے نتیجہ میں عمروبن الحضرمی واصلِ جہنم ہوا، جب کہ دوگرفتارہوئے اورمالِ غنیمت ہاتھ لگا، جب اس کی اطلاع حضورﷺ کوہوئی تو آپ ﷺ نے برہم ہوکرفرمایا:’’ میں نے تم کواس کی اجازت نہیں دی تھی‘‘اورمالِ غنیمت میں سے کچھ لینے سے انکارکردیا، آں حضرت ﷺ کے اس عمل سے ہمیں یہ درس ملتاہے کہ ہم اپنی غلطیوں کااعتراف کریں اورغلطی کرنے والے کی پیٹھ نہ تھپ تھپائیں، بالخصوص جب حالات ایسے ہوں، جہاں معمولی معمولی حیلے بھی نزاع کاسبب بن سکتے ہوں۔

آج بہت سے ایسے مواقع پیش آتے ہیں، جہاں غلطی خودہماری ہوتی ہے، جس کی بناپرفساداٹھ کھڑا ہوتا ہے؛ لیکن چوں کہ غلطی کرنے والاہمارا آدمی ہوتاہے؛ اس لئے سات خون معاف ہوجاتاہے،یہ اسلامی تعلیم کے سراسرخلاف ہے؛ بل کہ ایسی صورت میں ہمیں اپنی غلطی کااعتراف کرناچاہئے اورغلطی کرنے والے کی پشت پناہی کرنے کے بجائے اس سے اپنی ناراضگی اوربرہمی کااظہاربھی کرناچاہئے، نہ یہ کہ غلطی کرنے والے کی بیساکھی بن کرکھڑے ہوجائیں کہ وہ اس طرح کی مزیدغلطیاں کرتارہے اورقوم نقصانات اٹھاتی رہے۔

مشاورت

کسی بھی کام میں مشورہ کرناچاہئے، اس کے بڑے فائدے ہوتے ہیں، بالخصوص اجتماعی کام میں تو ضرورہی کرناچاہئے، حضوراکرم ﷺ کی عادتِ شریفہ یہی تھی، اس جنگ میں بھی آپﷺ نے صحابہ سے مشورہ کیا؛ حالاں کہ آپﷺ نبی تھے، جوحکم دیتے،صحابہ بجالانے کوتیارتھے، اس کے باوجودرسول اللہ ﷺ نے مشورہ کیا، اس سے مشورہ کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔

آج کے دورمیں ہم بہت سارے امورمیں اپنے کوخودمختاراورمشورہ کرنے کوکسرِشان سمجھتے ہیں، بالخصوص جب ہمیں ذمہ دارتسلیم کیاجاتاہے، ہم واقعۃً اپنے کوبڑے تصورکرنے لگتے ہیں اوردوسرے سے مشورہ کرنے کے بجائے حکم یااطلاع دینے پراکتفاکرتے ہیں، بسااوقات اس کے بڑے نقصان بھی سامنے آتے ہیں، مشورہ میں چوں کہ سراسرخیرہوتاہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وشاورہم فی الأمرکے ذریعہ حضور ﷺ اورمسلمانوں پرایک طرح سے مشورہ کولازم قراردیاہے؛ اس لئے خواہ ہم کتنے ہی عقل مندکیوں نہ ہوں، مشورہ ضرورکرناچاہئے، غزوۂ بدرسے ایک سبق ہمیں یہ بھی ملتاہے۔

بچوں کی اسلامی نہج پرتربیت

جب آں حضرتﷺ نے لشکرکامعائنہ کرنے کے بعدچھوٹے بچوں کولوٹنے کاحکم فرمایاتوچھوٹے عمیربن ابی وقاص روپڑے، ایسانہیں ہے کہ چھوٹے عمیرکویہ معلوم نہ تھاکہ یہ جماعت کہاں جارہی ہے؟ البتہ یہ اسلامی نہج پرتربیت کانتیجہ تھاکہ کمسن بچہ بھی بغیرکسی ہچکچاہٹ کے جامِ شہادت نوش جان کرنے کے لئے تیارہے اوریہ کوئی ایک واقعہ نہیں ہے؛ بل کہ ایسے کئی واقعات تاریخ کے صفحات میں نمایاں لکھے ہوئے ہیں، جہاں اسلامی نہج پرتربیت پانے کی وجہ سے بچے شہادت کے شوق میں بڑھ چڑھ کرحصہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔

آج جب ہم اپنے معاشرہ کاجائزہ لیتے ہیں تواپنے بچوں کوایسے جذبوں سے بے نیازپاتے ہیں، اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان کی تربیت اسلامی نہج پرنہیں ہوتی، ان کی پوری تعلیم ایسے اداروں میں ہوتی ہے، جہاں اسلام کے نام سے انھیں برگشتہ کیاجاتاہے، ظاہرہے کہ ایسے بچوں سے ہم چھوٹے عمیر کی طرح توقع کرہی نہیں سکتے، غزوۂ بدرکے اس واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتاہے کہ ہم اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت اسلامی نہیج پرکریں، ورنہ وہ دن دورنہیں، جب ہمارے بچے ذہنی وفکری اعتبارسے ہمارے ہی مقابلے پرکھڑے ہوں گے، اللہ تعالیٰ ہمیں اسلامی نہج پراپنے بچوں کی تربیت کی توفیق دے، آمین!!!

چھوٹے کامشورہ

جب آں حضرت ﷺبدرمیں ایسی جگہ پرخیمہ زن ہوئے، جوجنگی اعتبارسے مناسب نہ تھا، اس وقت حضرت حباب بن منذرؓ نے حضورﷺ سے عرض کیا: یہاں پرقیام وحی کے ذریعہ سے ہے یا فوجی تدبیر؟ آپ ﷺ نے جواب دیا: وحی کے ذریعہ سے نہیں ہے، حضرت حبابؓ نے کہا: توپھرآگے بڑھ کرچشمہ پرقبضہ کرلیا جائے اورآس پاس کے کنویں بیکارکردئے جائیں، حضرت حباب ؓ کی یہ رائے دربارِنبوت میں پسندکی گئی، باوجودیہ کہ حضورﷺ نبی تھے اور مسلمانوں کے قائدتھے ؛ لیکن اپنے سے چھوٹے کے اچھے مشورہ کو قبول کیا، جس سے ہمیں یہ درس ملتاہے کہ چھوٹوں کے تمام مشورے ردی کے ٹوکرے میں ڈالنے کے لئے نہیں ہوتے؛ بل کہ بعض دفعہ وہی مناسب ہوتے ہیں۔

ہم اپناجائزہ لیں کہ ہم میں سے کتنے لوگ ایسے ہیں، جوچھوٹوں کے مشورے کوکلیۃً غلط نہیں سمجھتے؟ بل کہ بعض تویہ کہہ بیٹھتے ہیں کہ آج کابچہ مجھے مشورہ دینے چلاہے؛ حالاں کہ ایساممکن ہے کہ جو مشورہ آج کابچہ دے رہاہے، اسی کے مطابق عمل کرنے میں فائدہ ہو؛ اس لئے چھوٹوں کے مشورہ کوبالکل ہی بے کارنہ سمجھناچاہئے۔

دشمنوں کے ساتھ رعایت

حضرت حبابؓ کے مشورے پرعمل کرتے ہوئے آں حضرت ﷺ نے چشمہ پرقبضہ کرلیا، اگرچاہتے توکسی کافرکو، جوخودانہی کے ساتھ مقابلہ آرائی کے لئے بھی آیاہواہو، ایک گھونٹ پانی نہ دیتے؛ لیکن قربان جایئے رسول اللہ ﷺپر! کہ کافروں کوپانی لینے کی عام اجازت دیدی۔

کیاہم بھی اپنے دشمنوں کے ساتھ ایساہی رویہ اپناتے ہیں؟کیاہم اپنے دشمن کے بارے میں ہروقت ایذا رسانی کے لئے نہیں سوچتے رہتے؟ کیا ہم ان کے درہپئے آزارنہیں رہتے؟حضوراکرم ﷺکے عمل سے ہمیں یہ سبق ملتاہے کہ ہم اپنے دشمنوں کے ساتھ بھی رعایت رکھیں اوربالخصوص زندگی سے متعلق ایسی عام چیزوں سے قطعاً نہ روکیں، جوایک انسان کے لئے نہایت ضروری ہو۔

بدلہ کے لئے تیار

صف آرائی کے وقت دستِ مبارک میں ایک تیرتھا، جس کے ذریعہ سے صف سے نکلے ہوئے سوادبن غزیہؓ کے بیٹ میں ہلکاسے کوچہ دے کردرست ہونے کوفرمایا، سوادؓنے عرض کیا:’’آپ نے مجھے تکلیف پہنچائی ہے، اس ذات کی قسم، جس نے آپ کوحق کے ساتھ نبی بناکربھیجاہے، مجھے بدلہ دیجئے‘‘، آپﷺ نے اپنے پیٹ سے کپڑاہٹالیااورفرمایا: بدلہ لے لو۔

آج ہم اپنااحتساب کریں کہ ہم میں سے کتنے ایسے ہیں، جواپنے چھوٹوں کوبدلہ دینے کے لئے تیاررہتے ہیں؟ ہم تویہ سمجھتے ہیں کہ چھوٹوں کومارنا ہماراحق ہے، پھربدلہ کیسا؟ لیکن نبی کریم ﷺ نے اپنے اس عمل سے واضح کردیاکہ چھوٹوں کوتکلیف پہنچانے پراگروہ بدلہ کامطالبہ کریں توانھیں بدلہ دے دینا چاہئے، کاش!  ہم آپﷺ کے اس عمل کواپناسکتے!!!

محسنین کے ساتھ حسنِ سلوک

رن پڑنے سے پیشترآں حضرت ﷺ نے یہ فرمایاتھا کہ بنوہاشم اوردیگرقبائل کے کچھ لوگ بادلِ نخواستہ اِس جنگ میں شریک ہوئے ہیں، لہٰذا اُنھیں قتل نہ کیاجائے،ابوالبختری بن ہشام اورعباس بن عبدالمطلب کوقتل نہ کیاجائے، بنوہاشم نہ صرف یہ کہ طوعاً وکرہاً جنگ میں آئے تھے؛ بل کہ شعب ابی طالب میں بھی آپ ﷺ کے لئے تکلیفیں برداشت کی تھیں، ابوالبختری نے کئی مرتبہ شعب ابی طالب میں کھاناپہنچایا تھا، نیز مقاطعہ کے ختم کرنے میں بھی اس کااہم رول تھا، یہ سارے آپ ﷺاورمسلمانوں کے محسنین تھے، لہٰذا آں حضرت ﷺنے ان احسان کااس طرح بدلہ چکایا۔

اب ہمیں سوچناہے کہ اپنے محسن کا کتناخیال رکھتے ہیں؟ کیاایسانہیں ہوتاکہ اپنے ذاتی مفادکی خاطرہم اپنے محسن کی ٹانگ نہیں کھینچتے؟ ہم میں سے تو بہت سارے ایسے بھی ہیں، جواپنے محسن ہی کے دشمن بن جاتے ہیں، کاش! حضورﷺکے اس طرز کاہم بھی کچھ پاس ولحاظ رکھ لیتے!!!

انسانیت کا احترام

جب جنگ ختم ہوگئی توآپ ﷺنے مقتولین کوکنویں میں ڈلوادیااوراوپرسے مٹی پاٹ دی گئی، یہ محض انسانیت کے احترام میں تھا  ---  کیاآج کی جنگوں میں انسانیت کے اس احترام کوملحوظ رکھاجاتاہے؟ہماری جنگوں میں توقصداً نعشوں کوبے گوروکفن چٹیل میدان میں چھوڑدیاجاتاہے؛ تاکہ انسانیت کا جوتھوڑااحترام باقی رہ گیا ہے، اسے جانورمل کرختم کردیں، چیرپھاڑکرنے والے پرندے ودرندے اسے گھسیٹتے پھریں، اس کے بغیرہماراکلیجہ ٹھنڈابھی ہوتو نہیں ہوتا، کاش ! حضورﷺ کے اس عمل کرسامنے رکھ کرانسانیت کااحترام کرنا سیکھتے!!!

قیدیوں کے ساتھ حسنِ سلوک

مدینہ پہنچ کرآپ ﷺنے قیدیوں کوصحابہ کے درمیان یہ حکم دیتے ہوئے تقسیم فرمایا:’’قیدیوں کے ساتھ بھلائی کاسلوک کرو‘‘، جس کانتیجہ تھا کہ صحابہ ان کی رسیوں کوہلکی گرہ لگاتے؛ تاکہ تکلیف نہ ہو، نیز خودتوموٹاجھوٹاکھاتے؛ لیکن قیدیوں کوحسب ِاستطاعت عمدہ کھلانے کی کوشش کرتے، ان کاہرطرح سے خیال رکھتے۔

اس کے برخلاف آج قیدیوں کے جانوروں سے بھی بدترسلوک کیاجاتاہے، ان پرکتے چھوڑے جاتے ہیں، بجلی کاشاٹ دیاجاتاہے، ناخن کھینچ لیاجاتاہے، پتھرکی سلوں پرمسلسل لٹایاجاتاہے، تیزروشنی کردی جاتی ہے؛ تاکہ قیدی پلک بھی نہ جھپکاسکے، مسلسل کھڑے رہنے پرمجبورکیاجاتاہے، کھانے پینے کے لئے ترسایا جاتا ہے، سخت سردی کے موسم ٹھنڈے پانی میں ڈبوکمرتک ڈوبے رہنے پرمجبورکیاجاتاہے، بے لباس کردیاجاتاہے؛ حتی کے اخلاقی سطح سے مکمل طورپرنیچے کرہم جنس پرستی پرمجبورکیاجاتاہے، کاش! یہ لوگ آخری نبی ﷺکے قیدیوں کے ساتھ سلوک کامطالعہ کرتے اورایک انسان کے احترام کوملحوظ رکھتے ہوئے آں حضرت ﷺ اورصحابہ کے عملی نمونہ کواپناتے، کاش…کاش…!!!

رشتہ داری کی عدم رعایت

قیدیوں میں آپﷺ کے دامادابوالعاص بن ربیع اورآپﷺ کے چچاحضرت عباس بھی تھے، رشتہ داری کاخیال نہ رکھتے ہوئے ان کے ساتھ بھی وہی سلوک روارکھاگیا، جوعام قیدیوں کے ساتھ رکھاگیا۔

کیاہم ہرجگہ رشتہ داری کوترجیح نہیں دیتے؟ اگررشتہ دارکوئی گناہ کرے توہم اس کونظراندازکردیتے ہیں یا پھردوسروں کے مقابلہ ہلکی سزااس کے لئے تجویز کرتے ہیں، کیا ہم نے دین سے بھی زیادہ رشتہ داری کواہمیت نہیں دے رکھی ہے؟ ایساکرنے والے کاش ! نبی کریم ﷺ کے عملی نمونہ کوسامنے رکھتے اور اپنے اورغیرکے درمیان فرق کرنے سے بچتے!!!

عہد ووفاکا لحاظ

اس جنگ میں مسلمانوں کی تعداددشمنوں کے مقابلہ میں نہایت ہی کم تھی اورایک آدمی کااضافہ بھی باعث تسکین ہوتا، ایسے موقع پرحضرت حذیفہ اورحضرت ابوحسیل رضی اللہ عنہماکوکہیں سے آتے ہوئے کفارراہ میں روکتے ہیں کہ محمد(ﷺ) کی مددکوجارہے ہیں، یہ انکارکرتے ہیں اورعدم تعاون کاوعدہ کرتے ہیں، کفار انھیں جانے کی اجازت دیدیتے ہیں، یہ دونوں حضورﷺ کی خدمت میں حاضرہوکرپوری بات بتاتے ہیں توآپ ﷺ ان سے ہرحال میں وعدہ وفاکرنے کوکہتے ہیں اورجنگ میں شریک ہونے کی اجازت مرحمت نہیں فرماتے۔

ہم اپناتجزیہ کریں کہ کیاہم بھی وعدہ کا اس قدرپاس رکھتے ہیں کہ سخت ضرورت کے وقت بھی اس سے نہ پھریں؟ ہماراحال تواس بہت براہے، وعدہ پروعدہ کرتے ہیں؛ لیکن وعدہ خلافی بھی ہماراشیوہ ہے، ہم تومعمولی معمولی باتوں پروعدہ کوتوڑبیٹھتے ہیں، کاش! حضورﷺ کے اس عمل سے ہم بھی وعدہ کو وفا کرنا سیکھتے!!!

ہر معاملہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف مراجعت

یہ جنگ بے سروسامانی کی حالت لڑی گئی، اسلامی لشکرکی تعداد بھی نہایت کم تھی، مسلمانوں کاجوش وجذبہ اپنی جگہ؛ لیکن حضورﷺظاہری اسباب سے ہٹ کراپنے رب کے سامنے عاجزانہ گڑگڑاتے رہے اورفتح ونصرت کی دعاکرتے رہے۔

آج جب ہم اپناجائزہ لیتے ہیں تواللہ تعالیٰ کی طرف مراجعت کے بجائے ظاہری اسباب پرزیادہ بھروسہ کرتے ہوئے اپنے آپ کوپاتے ہیں، آں حضرت ﷺ کے اس عمل سے ہمیں یہ درس ملتاہے کہ ہم بھی سارے معاملات میں اللہ تعالیٰ ہی سے رجوع ہوں، اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے، آمین یارب العالمین!!!

یہ تھے غزوہ بدرسے حاصل ہونے والے کچھ کچھ موٹے موٹے اسباق ودروس، ورنہ گیرائی کے ساتھ اگرمطالعہ کیاجائے تواوربھی بے شماراسباق ہمیں مل سکتے ہیں، اللہ تعالیٰ ہمیں آں حضرت ﷺ کے عملی نمونے پرچلنے کی توفیق دے، آمیں یارب العالین۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی