عصری تعلیم کی شرعی حیثیت

عصری تعلیم اور اس کی شرعی حیثیت

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

تعلیم عصرحاضرمیں کسی بھی قوم کی ترقی کے لئے وہی حیثیت رکھتی ہے، جوجسم انسانی کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی ہے، اگرریڑھ کی ہڈی نہ ہوتوایک انسان سوائے لاش کے اورکچھ نہیں رہ جاتا، یہی حال آج کے زمانہ میں’’تعلیم‘‘کاہے؛ چنانچہ جوشخص تعلیم سے کورا ہو، وہ آج کے انسانی معاشرہ کے لئے ایک لاش سے کم نہیں، اس کے لئے زندگی گزارنے کے راستے اگرمسدود نہ بھی ہوں توکم از کم تنگی وترشی کا سامنااسے ہرموڑپر ضرورکرناپڑتا ہے۔

قوموں کا عروج اور اقبال تعلیم ہی میں پنہاں ہے،خریطۂ عالم میں عرب کے قبائل کو سب سے زیادہ اُجٹ سمجھا جاتا تھا؛یہاں تک کہ دنیاکی کوئی طاقت ان پر حکومت کرنے کے لئے تیار نہیں تھی؛ لیکن بعثت ِمحمدیﷺکے بعد جب تعلیمی سفر کا آغاز ہواتو دنیا نے چشم ِ حیرت سے دیکھاکہ لوٹ مار پر زندگی بسر کرنے اور قتل وغارت گری پر فخر کرنے والوں نے دنیاکو ایک ایسا روشن اور چمکدار تمدن عطا کیا،جس کی ضیاء پاش کرنیں ڈیڑھ ہزار سال سے زائدعرصہ گزرجانے کے باوجودآج بھی اُسی طرح سطحِ زمین کو منور کر رہی ہیں،جس طرح کل کر رہی تھیں اور علم وہنر کے متوالے انھیں کر نوں کی مدد سے تحقیق وجستجواورتلاش وکھوج کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔

سولہویں صدی عیسوی سے پہلے خود یورپ کا حال بھی یہی تھا،وہاں نہ تہذیب تھی،نہ تمدن،نہ تعلیم اورنہ ہنر؛بل کہ اس دور کو یورپ کا تاریک دور (Dark age) کہا گیا ہے،تشنہ گانِ علوم وفنون اسی طرح عالم ِاسلام کے لئے رخت ِ سفر باندھا کرتے تھے،جس طرح آج کل ہم ’’اعلیٰ‘‘ تعلیم کے حصول کے لئے امریکہ اور لندن کارخ کرتے ہیں؛لیکن جب یورپ کا بخت بیدار ہوا اور نصیبۂ سکندری ٹوٹ کران کی آغوش میں گر پڑاتو وہ عروج کے اس بام پر جا پہنچے،جہاں تک پہنچنے کے لئے ہماری کمندیں بھی چھوٹی پڑنے لگیں؛لیکن حقیقت یہ ہے کہ علوم وفنون کے اس منزل پر پہنچنے کے لئے اُنھیں ہماری ہی وراثت کا سہارا لینا پڑاہے؛کیوں کہ کوئی بھی ایسا موضوع نہیں تھا، جس پر ہمارے آبا واجداد نے بیش بہا کتابیں نہ لکھی ہوں،ریاضی ہو یافلسفہ،سائنس ہویاطب، منطق ہویا فلکیات،ہرہرموضوع پر گراں قدر تصنیفات کیں،اس کا اعتراف انھیں خود بھی ہے؛ چنانچہ مارش لائبریری کے مطبوعہ کیٹلاگ میں ابنِ سینا پر جو تبصرہ ہے ،وہ کچھ یوں ہے:

’’ابنِ سینا نے طب،ریاضی،منطق،فلکیات اورفلسفہ پر سو سے زائد کتابیں لکھی ہیں،اس کی مشہور کتاب’’قانونِ طب‘‘کو یورپ کی یونیورسیٹیوں میں’’حکمت کاخزانہ‘‘قرار دیا گیا اور وہ سترہویں صدی کے وسط تک نصابی کتاب کی حیثیت سے پڑھائی جاتی رہی‘‘(The wisdom of the East:Morsh's oriental books,P:17بحوالہ: دنیامرے آگے،ص:262)۔

اسلام کاتعلیمی نظریہ

مذاہب ِعالم میں اسلام ہی وہ مذہب ہے،جس نے کسی بھی مذہب کے مقابلہ میں واضح اور صریح الفاظ میں حصول ِعلم کا حکم دیاہے،چنانچہ ایک بے پڑھے لکھے قوم میں پرورش پائے ہوئے نوجوان(محمدﷺ)پر سب سے پہلے وحی کی شکل میں جو چیز نازل ہوئی،وہ سورۂ علق ابتدائی پانچ آیتیں ہیں:

’’پڑھواس رب کے نام سے، جس نے پیداکیا، جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیداکیا، پڑھو اور تمہارا رب باعزت ہے، جس نے قلم کے ذریعہ علم سکھایا، جس نے انسان کووہ سکھایا، جو وہ نہیں جانتاتھا‘‘۔(العلق:۱-۵)

پھر اس امی شخص (محمد ﷺ) کی زبان ِمبارک سے تعلیم کے سلسلہ میں جو فرمان جاری ہوا،وہ بھی تعلیم کے لزوم ( Necessity)کاحامل ہے،ارشادہے:

’’علم کا حاصل کرناہرمسلمان(مردوعورت) پرفرض ہے‘‘۔(سنن ابن ماجۃ، باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم، حدیث نمبر: 224)

فرض علوم

مذکورہ حدیث سے تویہ بات معلوم ہوئی کہ علم کا حاصل کرنافرض ہے، اب سوال یہ ہے کہ فرض علم میں کون کون سے علوم شامل ہیں؟ اس کاجواب مشہور اسلامی فلاسفرامام غزالیؒ نے یہ دیا ہے کہ فرض علم میں تین طرح کے علوم داخل ہیں:

۱- اعتقادات سے متعلق علم: جس کوہم مختصراً’’ایمانِ مجمل‘‘میں پڑھتے ہیں، یعنی اللہ ، رسول، ملائکہ، کتاب، آخرت کے دن، تقدیرکے اچھے وبُرے اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر(ان کی تمام تفصیلات کے ساتھ، جن کوطوالت کی وجہ سے یہاں بیان نہیں کیاجاسکتا) ایمان لانا۔

۲- عملیات سے متعلق علم: ایمان واعتقاد کے بعد’’عمل‘‘کانمبرآتاہے، یعنی ان چیزوں سے واقفیت، جن کے کرنے کا ہمیں حکم دیاگیاہے اورنہ کرنے کی صورت میں ’’عذابِ ألیم‘‘ (دردناک عذاب)کی وعید سنائی گئی ہے، جیسے: نماز، روزہ، زکوۃ اورحج وغیرہ سے متعلق جان کاری۔

۳- تَرْکیات سے متعلق علم: ’’ایمان ‘‘و’’عمل‘‘ سے متعلق علم جان لینے کے بعد اب ہمیں ان ممنوعات کے بارے میں جاننا ضروری ہے ،جن کے کرنے سے ہمیںروکاگیاہے اور کرلینے کی صورت میں سزاکامستحق قراردیاگیاہے، امام غزالیؒ رقم طراز ہیں:

’’خلاصہ کے طورپر یہ کہنامناسب ہے کہ علم کی دوقسمیںہیں، ایک علم معاملہ اوردوسرے علم مکاشفہ اور یہاں علم معاملہ ہی مرادہے اور معاملات میںسے تین طرح کے علوم کاعاقل بالغ شخص کومکلف کیاگیاہے، اعتقادی، عملی اور ممنوعی‘‘۔(إحیاء علوم الدین: ۱؍۳۱)

یہ تین طرح کے علوم ’’فرض‘‘کہلاتے ہیں، جن کے حاصل کئے بغیرایک مسلمان سے صحیح اسلامی زندگی کا تصورنہیں کیاجاسکتا۔

فرض کفایہ علوم

مذکورہ تین علوم کے علاوہ جوعلوم دنیاوی امورکی درستگی کے لئے ضروری ہیں،وہ ’’فرض کفایہ‘‘ کے تحت آتے ہیں، جیسے: زراعت، صناعت، حرفت، ڈاکٹری، انجینئرنگ، ریاضی وغیرہ ، امام غزالیؒ اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’جہاں تک فرض کفایہ کاتعلق ہے تووہ ایساعلم ہے، جس سے دنیاوی امورکی درستگی میں بے نیازی نہیں برتی جاسکتی، جیسے: طب کہ یہ جسموں کی بقا کی خاطر ضروری ہے، اورجیسے: حساب کہ یہ معاملات اوروصایا ومواریث کی تقسیم میں ضروری ہے، یہ وہ علوم ہیں کہ اگرشہراس سے خالی ہوتواہل شہرمشقت میں پڑ جائیں گے اوراگرکوئی ایک اس کوانجام دے دے توکافی ہوگا اوردوسروں سے فرض ساقط ہوجائے گا، لہٰذا ہمارے قول کہ ’حساب اورطب فروض کفایات میں سے ہیں‘سے تعجب نہیں ہونا چاہئے؛ کیوں کہ اصول صناعات بھی فروض کفایات میں سے ہیں، جیسے: کاشت کاری، سیاست؛ بل کہ حجامہ اورسلائی بھی؛ چنانچہ اگرحجام سے شہرخالی رہے گا توہلاکت میں تیزرفتاری آئے گی اورلوگ اپنے آپ کوہلاکت کے قریب لے جاکرمشقت میں پڑجائیں گے، پس جس نے بیماری اتاری ہے، اسی نے دوا بھی اتاری ہے اور اس کے استعمال کی طرف رہنمائی بھی کی ہے اوراس کے لئے اسباب بھی تیارکردیاہے، پس کوتاہی کرکے اپنے آپ کوہلاکت کے لئے پیش کرناجائز نہیں‘‘۔( إحیاء علوم الدین:1؍34)

اس زمانہ کے جدید علوم سائنس،ٹیکنالوجی اور آئی ٹی آئی وغیرہ کی تعلیم بھی اسی زمرہ میں شامل ہیں،کیوں کہ بہ قول علامہ نوویؒ’’دین کی حفاظت کے لئے جو علوم ضروری ہوں،ان کا حصول فرضِ کفایہ ہے‘‘(المجموع:1؍48)اور ظاہرہے کہ آج جب کہ تمام باطل طاقتیں یک جُٹ ہو کر اسلام اور مسلمانوں کو دنیا کے نقشہ سے ہی مٹادینے کے درپے ہیں،ان علوم کا حاصل کرناکسی بھی دور سے زیادہ ضروری ہے،اگر ہم آگے بڑھ کر باطل کے خرمن کوراکھ کا ڈھیر نہیں بناسکتے توکم ازکم دُشمن کے تیروتفنگ سے اپنے آپ کو محفوظ تورکھ سکیں گے،اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ڈاکٹر یٰسین مظہر صدیقی لکھتے ہیں:

’’سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم بھی کسی قوم کی ریڑھ کی ہڈی کو مضبوط رکھنے کے لئے ضروری ہے،اور اس سے زیادہ اس کی اہمیت یہ ہے کہ وہ دُشمن اور حریف کو اس کے حدود میں رکھنے کے لئے ناگزیر ہے،عہدِنبوی میں منجنیق جیسی ٹیکنالوجی کی تعلیم و تربیت اور خلافتِ اسلامیہ کے ادوار میں انجینئرنگ، میڈیسن، فلکیات وہندسہ اور جغرافیہ ٰغیرہ کی تعلیم سے پوری دلچسپی ان کی سرفرازی کی باعث بنی تھی اورعہدِانحطاط وزوال امت کی اس سے غفلت ومحرومی ذلت وادبار اور محکومیت لے کر آئی(مارا نصابِ تعلیم کیا ہو؟،ص:42)۔

مذکورہ وضاحت سے یہ بات معلوم ہوئی کہ عصری تعلیم فرض کفایہ ہیں، لہٰذا ان کاحصول بھی فرض کفایہ ہوگا۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی