میاں بیوی کے حقوق اور ذمہ داریاں(قسط نمبر: 1)

میاں بیوی ---- حقوق ا ورذمہ داریاں

(قسط نمبر: 1)

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی


انسانی فطرت کاایک خاصہ یہ بھی ہے کہ وہ ایسے ہم مزاج وہم مذاق کی جستجوکرتاہے، جوایک طرف اس کی انبساط کی محفل کوسنواراورخوشی کی بزم کوسجاسکے، مزاح کی مجلس کو آراستہ اورمذاق کی انجمن کوپیراستہ کرسکے تودوسری طرف اس پرٹوٹے ہوئے کوہِ الم کے تحمل میں تعاون اورغم کے چھائے ہوئے بادل کودورکرسکے، روٹھی ہوئی مسکراہٹ کوبحال اور رنج کے اشکوں کوٹال سکے، اس کے دردکادرماں اوراس کے دکھ کامداوابن سکے، ظاہرہے کہ ایسااسی وقت ہوسکتاہے، جب دونوں کے درمیان کے تعلقات اپنی انتہاکواس طرح پہنچ جائے، جسے ہم ’’دوقالب، ایک جان‘‘سے تعبیرکرسکیں۔

اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجیدمیں میاں بیوی کے تعلق سے ایسا ہی کچھ فرمایاہے، ارشادہے:’’وہ (بیویاں) تمہارے لئے لباس ہیں اورتم (شوہر)ان کے لئے لباس ہو‘‘(البقرۃ: ۱۸۷)، لباس انسان کودھوپ کی تمازت اورسردی کی شدت سے بچاتاہے، سورج سے نکلنے والی ضرررساں شعاعوں سے اس کے جسم کی حفاظت کرتاہے، اس کے ان اعضاکی سترپوشی کرتاہے، جن کوظاہرکرناایک سلیم الفطرت انسان کے لئے باعث شرم وعارہے، ان جسمانی عیوب کوبھی چھپاتاہے، جن کی وجہ سے بعض انسان کی طبیعت میل جول سے اباکرتی ہے، اس کے اس حسن وجمال کے لئے پردہ کاکام کرتاہے، جس کی وجہ سے نظربد اورہوس کاشکار ہونے سے بچ جاتاہے، پھریہ لباس اس کے لئے زیب وزینت کاسامان بھی بنتاہے۔

میاں بیوی بھی ایک دوسرے کے عیوب کوچھپاتے ہیں، غم کی دھوپ اور مصیبت کی شدت سے بچاتے ہیں، ضرررساں اورتکلیف دہ چیزوں سے حفاظت کرتے ہیں، ایک دوسرے کی خوشی میں شریک اورغم میں ساتھی ہوتے ہیں؛ لیکن یہ اسی وقت ہوتاہے، جب ہرایک دوسرے کے حقوق کاخیال رکھنے کی بھرپورکوشش کرتاہے کہ اس کے بغیر’’دو قالب، ایک جان‘‘ کی تعبیردرست نہیں ہوسکتی، پھر حقوق کاخیال رکھنا اسی وقت ممکن ہے، جب دونوں کومعلوم ہوکہ ایک دوسرے کے وہ حقوق کیاہیں، جن کی ادائے گی سے تعلقات میں گہرائی بھی پیداہوتی ہے؟ اورجب تعلقات میں گہرائی آجائے گی توزندگی کی گاڑی روانی کے ساتھ اورہچکولے کھائے بنا اپنی پٹری پرچلتی رہے گی، یہاں تک کہ دونوں منزل مقصود تک پہنچ جائیں گے۔

یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ میاں بیوی کا آپسی تعلق ’’ایک دوسرے کے لئے لباس ‘‘کی طرح ہے، لہٰذا جوبیوی کے حقوق ہوں گے، وہ شوہرکی ذمہ داری اوراس کے فرائض ہوں گے اورجوبیوی کی ذمہ داری اوراس کے فرائض ہوں گے، وہ شوہرکے حقوق ہوں گے، یہاں لیڈیز فرسٹ کاخیال رکھتے ہوئے پہلے بیوی کے حقوق لکھے گئے ہیں، جودراصل شوہرکی ذمہ داری ہے، ان حقوق کودو حصوں میں تقسیم کیاجاسکتاہے:

(۱) مالی حقوق (۲) غیرمالی حقوق۔

ان حقوق پربات کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ’’حق‘‘ کو سمجھاجائے؛ تاکہ حقوق کی اہمیت ہمارے دل میں صحیح طورپرجاگزیں ہوجائے اور ہم اس کی ادائے گی میں کسی طرح کی کوتاہی سے بچ سکیں، اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ راہِ سدادکی توفیق دے، آمین !

حق کی تعریف

لغت میں حق کے معنی’’ایسی ثابت شدہ چیزکے ہیں، جس کے انکارکی گنجائش نہیں‘‘(التعریفات للجرجانی، ص: ۸۹)، فقہی اصطلاح میں حق’’شریعت کی طرف سے مقررکردہ ذمہ داری اورتصرف کے دائرۂ اختیار‘‘کوکہتے ہیں(المدخل الفقہی العام:۱۰۳)

حق کے لغوی واصطلاحی تعریف کے کلمات پرنظرڈالنے سے کئی ایسی باتیں معلوم ہوتی ہیں، جوحق کی اہمیت کواجاگرکرتی ہیں، سب سے پہلی چیز’’ثابت شدہ‘‘ ہے، جس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ خواہی ناخواہی آپ پراس کی ادائے گی ضروری ہے، اس سلسلہ میں آپ کی اپنی مرضی کاکوئی عمل دخل نہیں، دوسری چیز’’شریعت کی طرف سے مقررکردہ‘‘ ہے، جس سے معلوم ہوتاہے کہ اس کی عدم ادائے گی کی صورت میں آپ براہِ راست اللہ تعالیٰ کی گرفت میں ہوں گے اور جوشخص اللہ کی گرفت میں آجائے، اسے راہِ فرارنہیں مل سکتا؛ کیوں کہ’’تمہارے رب کی پکڑ بہت سخت ہے‘‘(البروج:۱۲)، تیسری چیز’’ذمہ داری‘‘ہے،’ذمہ داری‘ایسی چیز کوکہتے ہیں، جس کے لئے آپ جواب دہ ہوں اورآپ کامؤاخذہ کیا جاسکے، ان تینوں کلمات سے بالکل واضح ہوجاتاہے کہ حق کی ادئے گی بہرحال ضروری ہے، عدم ادائے گی کی صورت اللہ تعالیٰ کی پکڑسے بچ نہیں سکتے۔

حق کی تعریف کے ساتھ ساتھ اس کی اہمیت کوجان لینے کے بعدآیئے اب حقوق پربھی ایک نظرڈالتے چلیں، اس سلسلہ میں سب سے پہلے غیرمالی حقوق کاذکرمناسب معلوم ہوتاہے۔

غیرمالی حقوق

غیرمالی حقوق میں درج ذیل چیزیں داخل ہیں:

۱- بنیادی دینی تعلیم

اتنی مقدارمیں دینی تعلیم کاحصول ضروری ہے، جس کے ذریعہ سے عقیدہ کے اندردرستگی اورحلال وحرام کے درمیان تمیز کی جاسکے، فرائض کوجانا جاسکے اوراوامر(جن اعمال کے کرنے کاحکم دیاگیاہے)اورنواہی(جن اعمال سے رکنے کاحکم دیاگیاہے)کی واقفیت ہوسکے ، اللہ کے رسولﷺکے مبارک ارشاد ’’علم کاحاصل کرناہرمسلمان (خواہ مردہویاعورت)پرفرض ہے‘‘(سنن ابن ماجۃ،باب فضل العلماء… حدیث نمبر:۲۲۴)کامطلب بھی یہی ہے؛ چنانچہ امام غزالیؒ لکھتے ہیں:

’’خلاصہ کے طورپر یہ کہنامناسب ہے کہ علم کی دوقسمیں ہیں، ایک علم معاملہ اوردوسرے علم مکاشفہ اوریہاں علم معاملہ ہی مرادہے اورتین طرح کے علم معاملات کا عاقل بالغ شخص کومکلف کیاگیاہے، اعتقادی، عملی اورممنوعی‘‘(إحیاء علوم الدین: ۱؍۳۱)۔

شادی کے بعدشوہرپرایک اہم ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ اپنی بیوی کوبنیاد ی دینی تعلیم سے آراستہ کرے؛ تاکہ گھرکاپوراماحول دینی ہوجائے اوربچوں کی تربیت دینی ماحول میں ہوسکے، ایک مرتبہ کاواقعہ ہے، صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا ایک وفدحضوراکرمﷺکی صحبتِ بابرکت میں بیس دن تک سعادت مندیوں اورخوش بختیوں کی نعمتوں سے بہرہ مندہونے کے بعدگھرواپسی کاارادہ کیا تواللہ کے رسولﷺنے زادِ راہ سے سرفراز فرماتے ہوئے ارشادفرمایا:

’’اپنے گھروالوں کے پاس لوٹ جاؤ، انھیں کے درمیان قیام کرو، انھیں سکھاؤ اور انھیں حکم دو‘‘(بخاری،حدیث نمبر: ۶۳۱، مسلم، حدیث نمبر:۶۷۴)۔

اس حدیث میں لفظ’’أھل‘‘ کا استعمال ہواہے، جس میں پہلے نمبرپر’بیوی‘شامل ہے، پھراس کے بعد دوسرے افرادِ خانہ کانمبرآتاہے؛ چنانچہ مشہورماہرلغت احمدبن محمد فیومیؒ لکھتے ہیں:

’’اہل کااطلاق بیوی پرہوتاہے اوراہل (کے معنی) گھروالے( بھی) ہیں‘‘(المصباح المنیر، ص:۲۳)۔

علامہ بدرالدین عینیؒ مذکورہ حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:

’’اہل سے مراد بیویاںہیں، یااس سے عام(تمام افرادِ خانہ)مرادہیں‘‘(عمدۃ القاری، باب ماجاء فی إجازۃ خبرالواحد…:۱۶؍۴۸۵)۔

بہرحال! اس حدیث میں تعلیم دینے کاحکم کیاگیاہے، اب سوال یہ ہے کہ تعلیم سے مرادکونسی تعلیم ہے؟ اس کاجواب شراح حدیث کے کلام سے ملتاہے، علامہ قسطلانیؒ فرماتے ہیں:

’’اسلامی شریعت کی تعلیم دو اورواجبات کی ادائے گی اورمحرمات سے اجتناب کاحکم دو‘‘(ارشادالساری: ۰۱؍۲۸۷)، اورظاہرہے کہ بنیادی دینی تعلیم میں یہی باتیں شامل ہوتی ہیں۔

ایک دوسری حدیث میں اللہ کے رسولﷺنے فرمایا:

’’جس کسی کی باندی ہو، وہ اسے اچھی تعلیم دے، پھرآزادکرکے اس سے شادی کرلے تواس کے لئے دوہرااجرہے‘‘(بخاری،باب تعلیم الرجل أمتہ وأہلہ، حدیث نمبر:۹۷)۔

جب باندی کوتعلیم دینے کی یہ فضیلت ہے توبیوی کوتعلیم دینے اہمیت اور فضیلت تو اس سے کئی درجہ بڑھی ہوئی ہوگی، حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں:

’’باندی کے سلسلہ میں حدیث صراحتاً مطابقت رکھتی ہے، جب کہ اہل کے سلسلہ میں قیاساً مطابقت پائی جاتی ہے کہ اہل کوفرائض وسنن کی تعلیم دینے کااہتمام کرناباندی کے ساتھ اہتمام کرنے کے مقابلہ میں زیادہ مؤکد ہے‘‘(فتح الباری:۱؍۱۹۰)۔

بیوی اگردینی تعلیم سے آراستہ ہوگی تودنیاوآخرت دونوں جگہ کی زندگی گلزار بن جائے گی اوراگردینی تعلیم سے محروم ہوگی توخواہ دنیاوی زندگی میں بظاہر کیسی ہی خوش حالی کیوں نہ نظرآئے ؛ لیکن دینی اعتبارسے اس زندگی کے اندر کھوکھلاپن ہوگا، نیزبیوی اگردینی تعلیم سے معمورہوگی توشوہرکے لئے دینی راستہ کے انتخاب میں معاون ومددگارہوگی، علامہ عینیؒ لکھتے ہیں:

’’کہ تعلیم وتربیت یافتہ عورت سے شادی کرنازیادہ برکت والااورشوہرکے لئے دین کے راستہ پرچلنے میں معاونت سے زیادہ قریب ہے‘‘(عمدۃ القاری، باب تعلیم الرجل أہلہ وأمتہ:۲؍۱۱۹)۔

آج غورکرنے اورسوچنے کی ضرورت ہے کہ کیاہم اپنی بیویوں کی دینی تعلیم کے لئے فکرمندہوتے ہیں؟ کیاکبھی ہم نے اپنی بیویوں کے قرآن کی تصحیح کی؟ کیا کبھی ہم نے اپنی بیویوں کوطہارت ، نماز، روزہ اورزکوٰۃ کے مسائل سکھانے کی فکرکی ؟بیویوں کودین کی بنیادی تعلیم دیناہماری ذمہ داری ہے، اگرہم نے اس ذمہ داری کوادانہیں کیاتوہم سے اس بابت پوچھ ہوگی؛ کیوں کہ اللہ کے رسولﷺ کا ارشادہے:

’’سن لو! تم میں سے ہرشخص ذمہ دارہے اوراس سے اس کے ماتحت کے بارے میں پوچھ ہوگی … مرداپنے گھروالوں پرذمہ دارہے اوراس سے ان کے بارے میں پوچھ ہوگی‘‘(مسلم، باب فضیلۃ الإمام العادل…، حدیث نمبر:۱۸۲۹)۔

اس لئے ہمیں اپنی اس ذمہ داری کوحسن وخوبی کے ساتھ نبھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔

۲- فرائض کی تلقین

فرض کے اصل معنی’’کاٹنے‘‘ کے آتے ہیں، پھرچوں کہ ’واجب‘قطعی اور دوسرے (مندوب، مباح وغیرہ ) سے (حکم میں)کٹاہواہوتاہے؛ اس لئے وہ لازم اور مقررکرنے کے معنی میں منتقل ہوگیا(لسان العرب: ۱۱؍۱۶۰، کشف الأسرار: ۱؍۱۴۴)۔

یہاں فرض سے مراد’’وہ مامورات اورمنہیات ہیں، جن کواللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے بندوں پرلازم کیاہے‘‘۔

مامورات کی قسمیں

مامورات(جن افعال کے کرنے کاحکم دیاگیاہے)کی درج ذیل قسمیں ہیں:

فرض

جس کاثبوت ایسے قطعی دلائل سے ہو، جن میں کسی قسم کاکوئی شبہ نہ ہواورجن کے انکارگنجائش نہیں، جیسے: پنج وقتہ نمازیں، روزہ، زکوٰۃ اورحج وغیرہ، ان امورکو بلاعذرچھوڑنے والا قابل گرفت اوران کاانکارکرنے والا کافرکہلائے گا، اس کی دوقسمیں ہیں:

(۱) فرض عین:

ایسافرض، جس کی ادائے گی فرداً فرداً ہرشخص پرضروری ہے۔

(۲) فرض کفایہ:

ایسافرض، جس کی ادائے ہرفردپرضروری نہیں؛ بل کہ بعض افراد کی ادائے گی سے وہ ساقط ہوجاتاہے؛ البتہ اگرکوئی ایک فردبھی ادانہ کرے توتمام لوگ گناہ گارہوتے ہیں۔

واجب

جس کاثبوت ظنی دلائل سے ہو، جن میں دلائل کے تعارض کی وجہ سے شبہ کی گنجائش رہتی ہے ، جیسے: وترکی نماز، واجب کے انکارکرنے والے کامؤاخذہ تو ہوتاہے؛ لیکن اس کوکافرنہیں کہاجاتا۔

نفل

فرض اورواجب کے علاوہ جتنے مامورات ہیں، خواہ وہ سنت کے نام سے جانے جاتے ہوں یامستحب اورمباح کے نام سے، وہ سب اس میں شامل ہیں، تاہم ان میں بھی کچھ چیزیں ایسی ہیں، جن کی ادئے گی کے سلسلہ میں تاکیدہے، جیسے: فجرکی سنتیں، ظہرسے پہلے، اسی طرح عصر، مغرب اورعشاء کے بعدکی سنتیں، ان امورکی ادائے گی کا اہتمام اس لئے ضروری ہے کہ یہ فرائض کے اندررہ جانے والی کوتاہیوں کی تلافی اورفرائض پرعمل آوری کاذریعہ ہوتے ہیں۔

مذکورہ تمام باتوں سے بیوی کوواقف کرانا، پھراس پرعمل درآمدگی کویقینی بنانا شوہرکی ذمہ داری ہے،اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

’’اپنے گھروالوں کونمازکاحکم دواوراس پرجمے رہو‘‘(طہ:۱۳۲)۔

نیزیہ کام انتہائی ثواب کابھی ہے؛ چنانچہ ایک حدیث میں ہے، اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا:

’’اللہ تعالیٰ اس شخص پررحم فرمائے، جورات میں بیدارہوکرنمازپڑھتاہے اوراپنی بیوی کوبیدارکرتاہے اوروہ اٹھ کرنماز پڑھتی ہے، اگربیوی اٹھنے سے انکارکرتی ہے تواس کے چہرہ پرپانی کاچھڑکاؤ کرتاہے(تاکہ بیوی جاگ جائے اورنماز پڑھ لے)‘‘(سنن ابن ماجۃ، باب ماجاء فیمن أیقظ أہلہ من اللیل،حدیث نمبر:۱۳۳۶)۔

منہیات کی قسمیں

مامورات کی طرح منہیات کی بھی کچھ صورتیں ہیں:

حرام

ایسے امورکی انجام دہی کوکہتے ہیں، جوشرعاً اپنی ذاتی حیثیت میں ممنوع ہو، جیسے: شراب نوشی اوربدکاری وغیرہ، اس کی دو صورتیں ہیں:

(۱) ذاتی اعتبارسے حرام:

جیسے: مردارکھانا اورشراب نوشی وغیرہ۔

(۲) خارجی چیز کی وجہ سے حرام:

جیسے: بلااجازت کسی کامال کھالینا کہ مال اپنی ذات کے اعتبار سے حلال ہے؛ لیکن اجازت نہ لینے کی وجہ سے(جوکہ خارجی امرہے)حرام ہے۔

مکروہ

مکروہ کے معنی ’’ناپسندیدہ ‘‘کے ہیں، اصطلاح میں مکروہ ’’ایسے امور کو کہتے ہیں، جن سے رکنے کامطالبہ شارع نے غیرلازمی طورپرکیاہو، اس کی بھی دوصورتیں ہیں:

(۱) تحریمی:

جوامورحرام کے قریب ہوں، ان سے رکنے کامطالبہ ’مکروہ تحریمی‘ کہلاتاہے۔

(۲) تنزیہی:

جوامورحلال کے قریب ہوں، ان سے رکنے کامطالبہ ’مکروہ تنزیہی‘ کہلاتاہے۔(مامورات اورمنہیات کی ان بحثوں کودیکھنے کے لئے دیکھیں:علم أصول الفقہ،ص: ۱۰۵-۱۱۶، الإحکام فی أصول الأحکام: ۱؍۱۵۶)

مذکورہ باتوں سے بیوی کوآگاہ کرنااوران کے ارتکاب سے روکنا شوہرپرلازم ہے؛ کیوں کہ یہ اعمال جہنم میں لے جانے کاسبب ہیں، جب کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں گھروالوں کودوزخ کاایندھن بننے سے بچانے کاحکم دیاہے:

’’اپنے آپ کواوراپنے گھروالوں کو(دوزخ کی)آگ سے بچاؤ‘‘(التحریم:۶)۔

غورکرنے کی بات ہے کہ کیاہم بھی اپنی بیویوں کومامورات پرعمل پیراکرنے اورمنہیات سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں؟ ہماری اکثریت اپنی بیوی کی ہرخواہش کو پورا کرنے کی کوشش کرتی ہے، اس کے لئے بھاگ دوڑ؛ بل کہ بیرونِ ملک تک کا سفرکرنے سے بھی نہیں ہچکچاتی، کیاایسے شوہرپریہ ذمہ داری عایدنہیں ہوتی کہ وہ اپنی بیوی کوفرائض کی ادائے گی اورمحرمات سے بچنے کی تلقین کرے؟ یقیناً یہ ذمہ داری ہرہرشوہرپرہے اوراس سلسلہ میں اس سے پوچھ بھی ہوگی۔

(جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی