جہاد میں رسول اللہ ﷺ کااسوہ

جہاد میں رسول اللہ ﷺ کااسوہ

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضوراکرم ﷺ کوہمارے لئے بہترین مثال اورنمونہ (Ideal)قراردیاہے، ارشاد باری ہے:لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃ’‘ حَسَنَۃ’‘۔ (الأحزاب:۲۱) ’’اللہ کے رسول میں تمہارے لئے بہترین نمونہ ہے‘‘، آں حضرتﷺکی یہ مثالیت کسی ایک امرکے ساتھ خاص نہیں؛ بل کہ شعبہائے زندگی کے تمام امورکے ساتھ متعلق ہے اوراللہ کے رسولﷺنے امت کے سامنے بذات خوداس مثالیت کواس اندازمیں برت کرپیش کیاہے، جس کی نظیرنہ توتاریخ کے خزاں رسیدہ کسی ورق میں مل سکتی ہے اورناہی بہاردیدہ کسی صفحہ میں۔

میدانِ حرب وضرب میں عمومی طورکسی رورعایت کے بغیرتمام طرح کے اعمال کی انجام دہی کوزمانہ جاہلیت میں بھی جائزسمجھاجاتاتھا اورآج بھی سمجھاجاتاہے؛ حتی کہ بعض ایسے غیراخلاقی امورکابھی ارتکاب کیا جاتاہے، جس سے انسانیت کی جبین مارے شرم کے خم ہوجاتی ہے اوردرند، چرند اور پرند ہی نہیں؛ بل کہ شجروحجربھی غم کے آنسوبہاتے ہوئے چیخ پڑتے ہیں۔

رسول اللہﷺرزم گاہ کے لئے بھی ہمارے لئے اسوہ ہیں، لہٰذا آیئے! ہم اپنے سرکی آنکھوں سے جہاد میں رسول اللہ ﷺ کی اس مثالیت کامشاہدہ کرتے چلیں۔

عصبیت و مفادسے پاک

نبی کریم ﷺ نے اپنی زندگی میں جتنی بھی جنگیں لڑی ہیں، ان کاواحد مقصداُس خالق کے کلمہ کو چہاردانگ ِعالم میں بلنداورغالب کرناتھا، جس نے ساری کائنات کوپیداکیا،جس نے انسانوں پیداکیا، جس نے چاند سورج کو بنایا، جس نے دریا وپہاڑزمین کی شادابی اوراس کے استحکام کے لئے پیداکئے ، ان جنگوں میں نہ توذاتی مفادکا دخل تھااورناہی کسی عصبیت کااثر، یہی وجہ ہے کہ نبوت ملنے کے بعد تیرہ(۱۳)سال کی طویل مدت تک اہل مکہ کے ظلم وستم اوراُن کے جوروجفا پرصبرکی سل چھاتی پررکھ کربیٹھے رہے؛حالاں کہ وہ اینٹ کاجواب پتھرسے دے سکتے تھے کہ حضرت حمزہ ؓ اورحضرت عمرؓ جیسے شجاعت کے پیکرلوگ آپﷺکے جلومیں شامل ہوچکے تھے، نیزاُن جنگوں کوخاندانی لڑائی بناکرپیش کرنابھی کوئی مشکل امرنہ تھا کہ( عمومی طور پرتمام اورخصوصی طورپرآپ کے خاندان کے) لوگ نہ صرف یہ آپ ﷺ کوصادق وامین سمجھتے تھے؛ بل کہ مقاطعہ جیسی مشکل گھڑی میں آپﷺکے خاندان کے لوگ آپ ﷺکے دوش بدوش بھی تھے؛ لیکن آپ ﷺنے ایسانہیں کیا۔

اس کے برخلاف جب ہم تاریخ کے صفحات پلٹتے ہیں اورجنگوں کی تاریخ کامطالعہ کرتے ہیں توہمیں صاف طورپرنظرآتاہے کہ ان کی لڑائیاں مفادپرستی اورعصبیت کی شکاررہی ہیں، کہیں قومی عصبیت کی جنگ ہے تو کہیں لسانی تنگ نظری کی لڑائی، کہیں معدنی تیل کے لئے معرکہ ہے توکہیں زمیں داری کے لئے ہنگامہ، کہیں بادشاہت کامفادکارفرماہے توکہیں صدارت کی غرض درپیش، کہیں ٹکنالوجی کی ترقی کاحسدہے توکہیں معاشی استحکام کی جلن، کہیں ملک کووسعت دینے کی خواہش ہے توکہیں نظریاتی فلسفہ کوتھوپنے کی امنگ، کہیں مسلکی جھگڑاہے توکہیں مشربی جدال، غرض کسی نہ کسی مفاد اور عصبیت کے تحت جنگیں لڑی گئی ہیں اورموجودہ زمانہ میں توہم کھل کراس کامشاہدہ کررہے ہیں، کاش!جنگ کے سلسلہ میں آں حضرتﷺکے اسوہ کواپنایاجاتاتوآج دنیا جنگ کی بھٹی میں نہ تپ رہی ہوتی اوربالخصوص مشرقِ وسطیٰ آتشِ جنگ کے جس گولے پربیٹھی ہوئی ہے، وہ گولہ ہی وجودمیں نہ آتا۔

انسانیت کا احترام

سن دوہجری میں کفارقریش اورمسلمانوں کے درمیان ایک اتفاقی جنگ ہوئی، جو’’جنگِ بدر‘‘کے نام سے تاریخ کے صفحات میں مذکورہے، اس جنگ میں تقریباً سترمشرکین کام آئے، جب یہ جنگ ختم ہوگئی توآپﷺ نے ان مقتولین کوکنویں میں ڈلوادیااوراوپرسے مٹی پاٹ دی گئی، یہ محض انسانیت کے احترام میں تھا --- کیاآج کی جنگوں میں انسانیت کے اس احترام کوملحوظ رکھاجاتاہے؟ہماری جنگوں میں توقصداً نعشوں کوبے گوروکفن چٹیل میدان میں چھوڑدیاجاتاہے؛ تاکہ انسانیت کا جوتھوڑااحترام باقی رہ گیا ہے، اسے جانورمل کرختم کردیں، چیرپھاڑکرنے والے پرندے اوردرندے اسے گھسیٹتے پھریں، اس کے بغیرہماراکلیجہ ٹھنڈابھی تو نہیں ہوتا، کاش ! حضورﷺ کے اس عمل کرسامنے رکھ کرمیدانِ جنگ میں بھی انسانیت کااحترام کرناسیکھتے!!!

عورتوں کوہلاک کرنے کی ممانعت

اسلام ایک ایسادین ہے، جس نے عورتوں کے حقوق کی حفاظت کسی دوسرے دین کے مقابلہ میں کہیں زیادہ کیاہے، ایک ایسے زمانہ میں اس نے ان کے حقوق کونہ صرف تسلیم کیا ہے؛ بل کہ ان کوان کے حقوق سے سرفرازبھی کیاہے، جس میں ان کی حیثیت محض مال ومتاع کی تھی؛ حتیٰ کہ ان کوبعض وہ حقوق بھی عطاکئے ہیں، جن سے مردمحروم ہیں، انھیں میں سے ایک ’’جنگ میں ان کوقتل کرنے ‘‘ کی ممانعت بھی ہے؛ چنانچہ بخاری کی روایت میں ہے کہ آں حضرت ﷺ نے کسی جنگ میں ایک خاتون کومقتول پایاتوسختی کے ساتھ جنگ میں کسی خاتون کوقتل کرنے سے منع فرمادیا(بخاری، باب قتل النساء فی الحرب، حدیث نمبر: ۳۰۱۵)،اسی ممانعت کا نتیجہ تھا کہ کسی بھی غزوہ میں ایک بھی خاتون کوقتل نہیں کیاگیا؛ حالاں کہ عربوں کے رواج کے مطابق مردوں کی جرأت وبے باکی میں شعلہ زنی کے لئے بہت سا رے غزوات میں کفار مکہ اوردوسرے قبائل کی خواتین نے بھی شرکت کی تھی۔

کیاآج کی جنگوں میں اس بات کاخیال رکھاجاتاہے کہ عورتیں ہلاک نہ کی جائیں؟ آج تو اصل محارب کا ساراغصہ انھیں پراتاراجاتاہے اور جو محارب ہوتے ہیں، وہ نشانہ بننے سے کوسوں دوررہتے ہیں، اوریہ صرف آج کی جنگوں کاہی حال نہیں ہے؛ بل کہ ماضی کی جنگوں میں بھی ایسے ’’کارنامے‘‘ عورتوں کے ساتھ انجام دئے گئے ہیں، جن کوسن کرآج بھی ہرذی شعورشخص کاجسم سن اوررونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں،کاش ! آںحضرت ﷺکے طرزعمل کو ان جنگوں میں اپنایاجاتا!!!

بچوں کوقتل نہ کرنے کاحکم

بچے ایسے پھول کی مانندہوتے ہیں،جسے ہرشخص محبت کی نظرسے دیکھتاہے، آں حضرت ﷺ کوبھی بچوں سے بے انتہامحبت تھی، آپ ﷺ کبھی ان کے ساتھ ڈانٹ ڈپٹ کامعاملہ بھی نہیں فرماتے تھے، اگروہ کوئی غلطی کرتے توانھیں پیارسے سمجھاتے ، بچوں کے ساتھ محبت کے اس معاملہ میں مسلم اور غیر مسلم کے درمیان کوئی تفریق نہ تھی، نیز آںحضرت ﷺنے ہرمسلمان کوبچوں کے ساتھ محبت کے اس طریقہ کو سکھایا تھا؛ چنانچہ آغازِاسلام میں جب اہل مکہ اسلام لانے والوں پرظلم کی انتہاکررہے تھے،ایسے میں غزوۂ بدرکے بعد حضرت خبیبؓ مسلمانوں کی ایک جماعت کے ساتھ مشرکینِ مکہ کی خبر دریافت کرنے کے لئے گئے؛ لیکن اتفاق سے گرفتارکرلئے گئے، گرفتاری کے بعدبنوحارث نے اپنے باپ کے بدلہ میں(جس کوحضرت خبیبؓ نے غزوۂ بدر میں قتل کیاتھا) قتل کرنے کے لئے خرید کر قیدکردیا، حضرت خبیبؓ کویہ یقین ہوچکا تھا کہ ضرورقتل کئے جائیں گے؛ چنانچہ انھوں نے اپنے رب سے ملاقات کے لئے تیاری کی اورتنظیف وتطہیرکے لئے ایک استرا ادھارلیا، اسی دوران بنوحارث کے کسی خاتون کا چھوٹابچہ کھیلتے کھیلتے ان کے پاس پہنچ گیا، انھوں نے پیار سے اس بچہ کواپنی گود میں بٹھالیا، ماںنے جب اپنے بچے کوایسے دشمن کی گود میں دیکھا، جسے کل قتل کیا جانا تھااور وہ اس حال میں کہ ہاتھ میں ا ستراتھا تووہ حواس باختہ ہوگئی، حضرت خبیبؓ نے ماں کی اس گھبراہٹ کوپہچان لیااورکہا: تم ڈررہی ہوکہ میں اسے قتل کردوں گا، میں اسے قتل نہیں کروں گا اوربچے کوماں کے سپرد کردیا (قصص من التاریخ الإسلامی، ص:۵۷)، بچوں کے ساتھ اس محبت کو اللہ کے رسول ﷺ نے میدانِ جنگ میں بھی باقی رکھا اورحکم جاری کیاکہ ’’کسی بچہ کوقتل نہ کیا جائے‘‘ (بخاری، کتاب الجہاد، باب قتل الصبیان فی الحرب، حدیث نمبر: ۳۰۱۴، مسلم، حدیث نمبر: ۵۵۴۷)، اس حکم کوآپ ﷺ اورآپ کے صحابہ نے برت کربھی دکھایا؛ چنانچہ جہاد کی تاریخ میں بچے کوقتل کرنے کی روایت ہمیں نہیں ملتی۔

کیاآج بڑوں سے کہیں زیادہ بچوں کوموت کے گھاٹ نہیں اتاراجاتاہے؟ ان سے کس جرم کابدلہ لیاجاتاہے؟وہ تو دشمنی کے نام سے بھی واقف نہیں،ان معصوم بچوں کی کتنی ہی تصویروں اورویڈیوزکو دیکھ کرکلیجہ کانپ اٹھتاہے، ’’گھسیانی بلی گھمبانوچے‘‘ کے مثل بڑوں کی گولیوں کابدلہ بچوں کے سینوں میں پیوست کرکے دیا جاتا ہے، گزشتہ صدیوں میں بھی بچوں کے ساتھ انتقام لینے کی زیادتی ہوتی تھی اورآج تواس زیادتی میں اضافہ ہی اضافہ ہے، کاش! آں حضرت ﷺ کی سیرت کامطالعہ کیاجاتااورجنگ میں بچوں کے زیادتی نہ کرنے کے حکم پرعمل کیاجاتا!

مُثلہ نہ کرنے کاامر

جنگوں میں غصہ کے اظہارکاآخری طریقہ ’’مثلہ‘‘ ہے، جس میں مقتول کی بے حرمتی کے لئے اس کے اعضاء وجوارح کاٹ دئے جاتے ہیں، زمانۂ جاہلیت میں تواس کارواج تھاہی، موجودہ زمانہ میں بھی دیکھنے کوملتاہے، بس فرق طریقۂ کارکاہوتاہے، پہلے اعضاء ایک ایک کرکے کاٹے جاتے تھے اورآج بم برساکر ایک ہی لمحہ میں چیتھڑے اڑادئے جاتے ہیں، بعض دفعہ تودماغ تک نکل کرہرراہ گیرکودعوتِ تفکیردیتارہتاہے؛ لیکن ایسے حالات میں کسی کوسوچنے کی مہلت کہاں؟

حضوراکرم ﷺنے جتنی بھی جنگیں لڑیں، ان میں کہیں بھی مقتولین کے ساتھ اس طرح کی بے حرمتی کا جرم نہیں کیاگیاہے؛ حتیٰ کہ آپ کے محبوب چچا حضرت حمزہ ؓ کی شہادت کے بعدان کامثلہ کیاگیا، اگرآپ چاہتے تواس کابدلہ بعدکی جنگوں میں لے لیتے؛ لیکن آںحضرت ﷺ نے غم کاکڑواگھونٹ تو پینا پسندفرمایا، انتقاماً بھی ایسی حرکت کوگوارا نہیں فرمایا؛ بل کہ صراحۃً اس کی ممانعت فرمائی؛ چنانچہ حضرت عمران بن حصینؓ فرماتے ہیں کہ: حضوراکرم ﷺجب بھی ہمارے درمیان خطیب کی حیثیت سے کھڑے ہوئے تو صدقہ کاحکم دیا اورمثلہ کرنے سے منع فرمایا‘‘۔(مسنداحمد، حدیث نمبر: ۲۰۰۹۷)، کاش! جنگ کی آگ بھڑکانے والے آپ ﷺ کے اس طرزعمل کواختیارفرماتے!

مذہبی پیشواؤوں کونہ مارنے کاحکم

فاتح قوم دورانِ جنگ طیش وطنطنہ میں سب کچھ بھول جاتی ہے، اس کے سامنے مخالفین میں سے ہرشخص کی حیثیت ایک لڑائی کرنے والے کی ہوتی ہے، خواہ معابد کے ربی ہوں یاصوامع کے راہب، مندرکے پجاری ہوں یامسجد کے امام،بکریوں کے ریوڑ کی طرح ایک ہی ڈنڈے سے سب کوہانک دیتے ہیں؛ حالاں کہ عموماً یہ لوگ معتدل مزاج اورجنگ وجدال سے دوررہنے والے ہوتے ہیں۔

نبی اکرم ﷺ کی جنگوں میں ان چیزوں کی رعایت ہوتی تھی ، ایک ہی ڈنڈے سے سب کونہیں ہانکا جاتا تھا؛ چنانچہ حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺجب اپنے لشکرکوبھیجتے توحکم دیتے ہوئے فرماتے تھے: ’’…نہ تومثلہ کرو، نہ بچوں کوقتل کرو اورناہی صوامع والوں(مذہبی پیشواؤوں) کو قتل کرو‘‘( مسند احمد، حدیث نمبر: ۲۷۲۸) ---- کاش! جنگوں میں آپ ﷺکے اس اسوہ کواپنایاجاتا!

دشمنوں کے ساتھ حسن سلوک

غزوۂ بدرکے موقع پرحضرت حبابؓ کے مشورے پرعمل کرتے ہوئے آں حضرت ﷺ نے بدرکے چشمہ پرقبضہ کرلیاتھا، اگرچاہتے توکسی کافرکو، جو خود انھیں کے ساتھ مقابلہ آرائی کے لئے بھی آیاہواہو، ایک گھونٹ پانی بھی نہ دیتے؛ لیکن قربان جایئے رسول اللہ ﷺپر! کہ کافروں کوپانی لینے کی عام اجازت دیدی۔

کیاہم بھی اپنے دشمنوں کے ساتھ ایساہی رویہ اپناتے ہیں؟کیاہم اپنے دشمن کے بارے میں ہروقت ایذارسانی کے لئے نہیں سوچتے رہتے؟ کیا ہم ان کے درہپئے آزارنہیں رہتے؟حضوراکرم ﷺکے عمل سے ہمیں یہ سبق ملتاہے کہ ہم اپنے دشمنوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کریں اوربالخصوص زندگی سے متعلق ایسی عام چیزوں سے قطعاً نہ روکیں، جوایک انسان کے لئے نہایت ضروری ہو۔

دشمن محسن کے ساتھ حسنِ سلوک

غزوۂ بدرمیں گھمسان کارن پڑنے سے پیشترآں حضرت ﷺ نے یہ فرمایاتھا کہ بنوہاشم اوردیگرقبائل کے کچھ لوگ بادلِ نخواستہ اِس جنگ میں شریک ہوئے ہیں، لہٰذا اُنھیں قتل نہ کیاجائے،ابوالبختری بن ہشام اورعباس بن عبدالمطلب کوقتل نہ کیاجائے، بنوہاشم نہ صرف یہ کہ طوعاً وکرہاً جنگ میں آئے تھے؛ بل کہ شعب ابی طالب میں بھی آپ ﷺکے لئے تکلیفیں برداشت کی تھیں، ابوالبختری نے کئی مرتبہ شعب ابی طالب میں کھاناپہنچایا تھا، نیزمقاطعہ کے ختم کرنے میں بھی اس کااہم رول تھا، یہ سارے آپ ﷺاورمسلمانوں کے محسنین تھے، لہٰذا آں حضرت ﷺ نے ان کے احسان کااس طرح بدلہ چکایا۔

اب ہمیں سوچناہے کہ اپنے محسن کا کتناخیال رکھتے ہیں؟ کیاایسانہیں ہوتاکہ اپنے ذاتی مفادکی خاطرہم اپنے محسن کی ٹانگ نہیں کھینچتے؟ ہم میں سے تو بہت سارے ایسے بھی ہیں، جواپنے محسن ہی کے دشمن بن جاتے ہیں اورجنگ کے موقع پر تومحسن اوردوست سب دشمن ہی کے صف میں ہوتے ہیں، جب کہ دشمنی میں ہم کسی تفریق کے قائل نہیں،کاش! حضورﷺ کے اس طرز کاہم بھی کچھ پاس ولحاظ کر لیتے!!!

قیدیوں کے ساتھ حسنِ سلوک

غزوۂ بدرسے فارغ ہوکرآپ ﷺمدینہ پہنچے اور قیدیوں کوصحابہ کے درمیان یہ حکم دیتے ہوئے تقسیم فرمایا:’’قیدیوں کے ساتھ بھلائی کاسلوک کرو‘‘، جس کانتیجہ تھا کہ صحابہ ان کی رسیوں کوہلکی گرہ لگاتے؛ تاکہ تکلیف نہ ہو، نیز خود توموٹاجھوٹاکھاتے؛ لیکن قیدیوں کوحسب ِاستطاعت عمدہ کھلانے کی کوشش کرتے اور ان کاہرطرح سے خیال رکھتے؛ چنانچہ حضرت مصعب بن عمیرؓ کے ماں شریک بھائی ابوعزیزکہتے ہیں: ’’میں بدرکے قیدیوں میں انصارکے حصہ میں تھا، وہ لوگ آپ ﷺ کے اس حکم کی وجہ سے صبح وشام مجھے روٹی کھلاتے ، جب کہ خودکھجورکھاتے تھے‘‘ (المعجم الکبیرللطبرانی، حدیث نمبر: ۹۷۷)۔

اس کے برخلاف آج قیدیوں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدترسلوک کیاجاتاہے، ان پرکتے چھوڑے جاتے ہیں، بجلی کاشاٹ دیاجاتاہے، ناخن کھینچ لئے جاتے ہیں، پتھرکی سلوں پرمسلسل لٹایاجاتاہے، تیزروشنی کردی جاتی ہے؛ تاکہ قیدی پلک بھی نہ جھپکاسکے، مسلسل کھڑے رہنے پرمجبورکیاجاتاہے، کھانے پینے کے لئے ترسایا جاتاہے، سخت سردی کے موسم میں ٹھنڈے پانی میں کمرتک ڈوبے رہنے پرمجبورکیاجاتاہے، بے لباس کردیا جاتاہے؛ حتی کے اخلاقی سطح سے مکمل طورپرنیچے اترکرہم جنس پرستی پربھی مجبورکیاجاتاہے، کاش! یہ لوگ آخری نبی ﷺکے قیدیوں کے ساتھ سلوک کامطالعہ کرتے اورایک انسان کے احترام کوملحوظ رکھتے ہوئے آں حضرت ﷺ اورصحابہ کے عملی نمونہ کواپناتے، کاش…کاش…!!!

دورانِ جنگ دشمن کے حق میں دعا

غزوۂ احد میں عبداللہ بن قمئہ کے حملہ کی وجہ سے آں حضرتﷺ زخمی ہوگئے اورآپﷺ کے سامنے کے دودانت بھی ٹوٹ گئے،ایسے وقت میں بھی آپ دعادیتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ اے اللہ! میری قوم کوبخش دے، وہ نہیں جانتی‘‘(مسلم، باب غزوۃ أحد، حدیث نمبر:۱۷۹۲)، اسی طرح محاصرۂ طائف کے دوران بعض نے محصورین کے حق میں بدعاکی درخواست کی، جس کے جواب میں آپﷺ نے یہ دعادی:’’اے اللہ! ثقیف کوہدایت دے اورمیرے پاس آنے کی توفیق دے‘‘(مصنف ابن ابی شیبہ، ماجاء فی ثقیف، حدیث نمبر: ۳۳۱۶۳)۔

کیاہمارا رویہ بھی ایساہی ہوتاہے؟ کیاہم معمولی بات پربددعادینا نہیں شروع کردیتے؟ کیاہم بھی اپنے دشمن کے لئے ہدایت کی دعاکرتے ہیں؟ غزوۂ احدوحنین ہمیں یہ درس دیتے ہیں کہ دشمن کے حق میں بددعاکے راستہ کواپنانے کے بجائے اُن کے لئے ہدایت کی دعاکرنی چاہئے۔

سخت جاںدشمن کے ساتھ عفوودرگزر

اہل مکہ وہ لوگ ہیں، جنھوں نے اہل اسلام کو تکلیف دینے میں کسی طرح کی کوئی کسرباقی نہیں رکھی تھی، صحابہ کے جسموں سے اُن زخموں کے داغ مٹے نہیں تھے، جواہل مکہ نے ان پرلگائے تھے؛ بل کہ بعض صحابہ کے زخم تو رِس ہی رہے تھے، اہل مکہ وہ لوگ تھے، جنھوں نے آپ ﷺ کے قتل کی سازش رچی تھی، جنھوں نے صحابہ کے گھرباراوردولت وجائداد پرغاصبانہ قبضہ کررکھاتھا، جنھوں نے اُن کودیارِغیرجانے پرمجبورکردیاتھا ، سن آٹھ ہجری میں اُنھیں لوگوں پرفتح حاصل ہورہی تھی، ان کے دلوں میں بھی کیاکیا اُمنگیں بدلہ لینے کی نہیں اُٹھی ہوں گی؟ انتقام لینے کی کیاکیا تدبیریں اِن کے حاشیۂ خیال میں گردش نہیں کررہی ہوں گی؟ لیکن صفح وعفوکی ایسی مثال قائم کی گئی، جس کی نظیرقدیم وجدیدتاریخ کے اوراق میں ملنی مشکل ہے۔

آج معمولی دشمن پربھی ہمیں اگرغلبہ مل جاتاہے توہم اُس پراس طرح پِلْ پڑتے ہیں، جس طرح شیرِ نراپنے شکارپرپل پڑتاہے، معافی کا نام سنتے ہی ہمیں شاک لگ جاتاہے، ہم توبدلہ لینے کابہانہ تلاشتے رہتے ہیں اوراس کے لئے رائی کوپربت بنانے سے بھی نہیں چوکتے۔کاش! فتح مکہ ہماری نگاہوں کے سامنے رہے اورہم اس کواپنے لئے اسوہ بناسکیں!!!

آگ میں جلاکرمارنے کی ممانعت

دورانِ جنگ ہرفریق کامقصد اپنے مخالف کوختم کرناہوتاہے، خواہ اس کے لئے کوئی سابھی طریقہ اختیارکرناپڑے؛ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ دورحاضر میں اس کے لئے مختلف کے قسم کے کیمیائی ہتھیاراستعمال کئے جاتے ہیں، ایسے ہتھیار، جن سے انسان کاسارابدن جل کرخاک ہو جاتاہے؛ بل کہ آج کل زیادہ تر استعمال ہونے والے ہتھیارکاتعلق اسی قبیل سے ہے۔

حضوراکرم ﷺ نے اپنے کسی جنگ میں اس طرح سے اپنے مخالفین کونہیں ماراہے؛ بل کہ آں حضرت ﷺ نے صراحۃً اس طرح مارنے کومنع فرمایا ہے، حضرت ابوھریرہؓ سے روایت ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ایک سریہ (وہ جنگ، جس میں حضورﷺخود شریک نہ ہوئے ہوں)میں بھیجتے وقت فرمایا: ’’اگرفلاں فلاں کوقابومیں کرلوتوان دونوں کوجلادینا‘‘، دوسرے دن ایک قاصد کے ذریعہ سے پیغام بھیجا کہ’’میں نے ان دونوں آدمیوں کو جلانے کاحکم دیاتھا؛ لیکن اللہ تعالیٰ کے طریقے پرعذاب دینادرست نہیں؛ اس لئے اگران دونوں پرقابوپالوتوانھیں قتل کرنا‘‘(مصنف ابن ابی شیبہ، من نہی عن التحریق بالنار، حدیث نمبر: ۳۳۸۱۴)،آپ ﷺ کااسوہ ہمیں یہ سبق دیتاہے کہ ہم غیظ وغضب میں اس قدرآگے بڑھ جائیں کہ لوگوں کو جلا کرمارناشروع کردیں۔

انتقامی جنگ سے دوری

حضرت سعدبن عبادہ ؓ نے فتح مکہ کے موقع سے وفورِجذبات میں سرشاراورجوشِ جنوں میں بے خود ہوکریہ کہدیا:’’آج لڑائی کا دن ہے، آج کعبہ میں جنگ وجدل جائزہوگا‘‘،حضرت ابوسفیان نے آپ ﷺ سے حضرت سعدکی شکایت کی توآپ ﷺ نے فرمایا:’’سعدنے غلط کہا، آج خانۂ کعبہ کی عظمت کا دن ہے، آج اس کوغلاف پہنایاجائے گا‘‘،(بخاری، باب أین رکز النبی ا الرایۃ یوم الفتح، حدیث نمبر: ۴۰۳۰) چوں کہ حضرت ؓ کی اس بات سے انتقام کی بوآرہی تھی؛ اس لئے ان سے علم لے کران کے بیٹے قیس کودے دیا۔

کیاآج کی جنگیں بھی انتقامی کارروائیوں سے خالی ہوتی ہیں؟ آج توجنگ لڑی ہی انتقاماً جاتی ہے، اگریہ انتقامی آگ کے لپٹ نہ اٹھے توسرے سے کوئی جنگ ہی وجود میں نہ آئے، کاش! آج آں حضرت ﷺ کے اس اسوہ پرعمل کیاجاتا!!!

دورانِ جنگ عہد کا لحاظ

غزوۂ بدرمیں مسلمانوں کی تعداد دشمنوں کے مقابلہ میں نہایت ہی کم تھی اورایک آدمی کااضافہ بھی باعث تسکین ہوتا، ایسے موقع پرحضرت حذیفہ اورحضرت ابوحسیل رضی اللہ عنہماکوکہیں سے آتے ہوئے کفارراہ میں روکتے ہیں کہ محمدﷺکی مدد کوجارہے ہیں، یہ انکارکرتے ہیں اورعدم تعاون کاوعدہ کرتے ہیں، کفار انھیں جانے کی اجازت دیدیتے ہیں، یہ دونوں حضورﷺ کی خدمت میں حاضرہوکرپوری بات بتاتے ہیں توآپ ﷺ ان سے ہرحال میں وعدہ وفاکرنے کوکہتے ہیں اورجنگ میں شریک ہونے کی اجازت مرحمت نہیں فرماتے۔

ہم اپناتجزیہ کریں کہ کیاہم بھی وعدہ کا اس قدرپاس رکھتے ہیں کہ سخت ضرورت کے وقت بھی اس سے نہ پھریں؟ ہماراحال تواس بہت براہے، وعدہ پروعدہ کرتے ہیں؛ لیکن وعدہ خلافی بھی ہماراشیوہ ہے، ہم تومعمولی معمولی باتوں پروعدہ کوتوڑبیٹھتے ہیں اورجنگ کوتو’’دھوکہ کامجموعہ‘‘ہی سمجھتے ہیں، پھروہاں دھوکہ سے باز کیسے آئیں؟کاش! حضورﷺ کے اس عمل سے ہم بھی ہر حال میں وعدہ کووفاکرناسیکھتے!!!

قیدیوں کی سزاؤوں میں تخفیف

غزوۂ بدرکے اختتام کے بعد قیدیوں کومدینہ لایاگیااوررسیوں سے باندھ کرمسجد نبوی میں رکھاگیا، رات کو بعض قیدیوں کی کراہ سنائی دی، قیدیوں کی کراہ سن کرآں حضرت ﷺ بے چین ہوگئے اور بقیہ رات آنکھوں میں کاٹی، جب صبح ہوئی توآپ ﷺ نے ان کی بندشوں کوڈھیلاکرنے کاحکم دیا۔

کیاآج بھی قیدیوں کی سزاؤوں میں تخفیف کی جاتی ہے؟ کیاآج بھی کوئی قائد قیدیوں کی تکلیف سے بے چین ہوتاہے؟ آج کاقائدتو قیدیوں کو تنگ وتاریک سل میں بند کرکے چین کی بانسری بجاتے ہوئے محوخواب ہوجاتاہے اوران کی سزاؤوں میں تخفیف کی بجائے اضافہ کی ہی سوچتاہے، کاش! آپ ﷺ کے قیدیوں کے ساتھ اِس عمل سے سبق لیاجاتا!!!


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی