میاں بیوی ---- حقوق ا ورذمہ داریاں
(قسط نمبر: 2)
محمدجمیل اخترجلیلی ندوی
۳- حقوقِ زوجیت کی ادئے گی
اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کو دوطرح کی صفات سے متصف کیاہے، ایک کو’صفاتِ ملکوتیت‘ اوردوسرے کو’صفاتِ بہیمیت‘ کہتے ہیں، عبادات کاتعلق صفاتِ ملکوتیت سے ہے، جب کہ خواہشاتِ نفسانی کی تکمیل صفات ِ بہیمیت میں سے ہے،پھر ان دونوں صفات کی ادائے گی کی فطری خواہش انسان کوودیعت کردی گئی ہے۔
نکاح کاایک اہم مقصد خواہشات کی تکمیل اوراولادکاحصول بھی ہے اور ظاہر ہے کہ یہ دونوں مقاصد اللہ تبارک وتعالیٰ کے نظام تکوینی کے تحت اسی وقت حاصل ہوتے ہیں، جب میاں بیوی کے درمیان تعلق قائم ہوجاتاہے، اگرتعلق قائم نہ ہوتونکاح کے یہ دونوں اہم مقاصد فوت ہوجائیں گے اورجب یہ فوت ہوں گے توروئے زمین پراخلاقی انارکی پھیل جائے گی۔
حق زوجیت( یعنی بیوی سے تعلق قائم کرنا)بھی بیوی کاایک اہم دینی اور ضروری حق ہے، جس کوپوراکرناآج کے زمانہ میں خوراک وپوشاک کے حق سے زیادہ ضروری ہے، حضور اکرمﷺکوبتلایاگیاکہ (حضرت) عبداللہ بن عمروبن العاص ؓ دن کوروزہ رکھتے ہیں اوررات کو قیام کرتے ہیں، اللہ کے رسولﷺنے ان سے اس بات کی تصدیق کی، پھرفرمایا:
’’ایسا مت کرو، روزہ بھی رکھو اورافطاربھی کرو، قیام بھی کرواورسوبھی جاؤ، کیوں کہ تمہارے جسم کاتم پرحق ہے، تمہاری آنکھ کاتم پرحق ہے اورتمہاری بیوی کا تم پرحق ہے‘‘(بخاری، باب لزوجک علیک حق، حدیث نمبر: ۵۱۹۹)۔
یہی وجہ ہے کہ فقہاء نے اسے بیوی کاایساحق تسلیم کیاہے، جس کے مطالبہ کا پورا استحقاق بیوی کوحاصل ہے، مشہورحنفی فقیہ عثمان بن علی زیلعیؒ لکھتے ہیں:
’’وطی(بیوی کے ساتھ تعلق قائم کرنا)بیوی کاحق ہے، لہٰذااسے شوہرسے مطالبہ کاپورااستحقاق ہے‘‘۔(تبیین الحقائق، بحث فی العزل:۶؍۲۱)
یہ حق کس قدراہمیت کی حامل ہے، اس کااندازہ آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ کی طرف سے مرتب کردہ قانونی کتاب’’مجموعۂ قوانین اسلامی‘‘کے قانونِ طلاق کے دفعہ (۷۳) سے لگاسکتے ہیں ، جس میں لکھاہے کہ:
’’ترکِ مجامعت اوربیوی کومعلقہ بناکررکھنا بھی تفریق کے اسباب میں سے ایک سبب ہے؛ کیوںکہ حقوق زوجیت کی ادائے گی واجب ہے، حقوقِ زوجیت ادانہ کرنااوربیوی کومعلقہ بناکررکھناظلم ہے اوردفع ظلم قاضی کافرض ہے، نیز صورت مذکورہ میں عورت کامعصیت میں مبتلاہونا بھی ممکن ہے، قاضی کافرض ہے کہ ایسے امکانات کوبندکردے؛ اس لئے اگرعورت قاضی کے یہاں مذکورہ بالا شکایت کے ساتھ مرافعہ کرے توقاضی تحقیقِ حال کے بعدلازمی طورپررفع ظلم کرے گا اور معصیت سے محفوظ رکھنے کے مواقع پیداکرے گا‘‘(مجموعۂ قوانین اسلامی،ص:۱۹۲)۔
حق زوجیت کی ادائے گی کی مدت
یہاں ایک سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیااس حق کی ادائے گی کے لئے کوئی مدت متعین ہے؟اس کے جواب میں تھوڑی تفصیل ہے، علامہ عینی ؒ لکھتے ہیں:
’’اس کی مقدارکے بارے میں اختلاف ہے، کہاگیاہے: ایک مرتبہ( زندگی میں)، یہ بھی کہاگیا: ہرچاردن میں ایک مرتبہ، یہ بھی کہاگیاہے: ہرطہرمیں ایک مرتبہ، (علامہ) ابن حزمؒ فرماتے ہیں: اپنی خاص بیوی کے ساتھ مجامعت کرناشوہرپرفرض ہے، جس کی ادنی مقدارقادرہونے کی صورت میں ہرطہرمیں ایک مرتبہ ہے، ورنہ وہ اللہ کانافرمان ہوگا‘‘(عمدۃ القاری،(حدیث نمبر:۹۹۱۵) باب لزوجک علیک حق: ۲۰؍۱۸۹)۔
علامہ ابن ہمامؒ فرماتے ہیں:
’’جانناچاہئے کہ بالکلیہ جماع کاترک کرناشوہرکے لئے جائز نہیں، ہمارے اصحاب نے صراحت کی ہے کہ گاہے بگاہے جماع کرنادیانتاً واجب ہے؛ البتہ قضائً صرف ایک مرتبہ جماع ہی لازم ہے،ہمارے اصحاب نے کوئی مدت مقررنہیں کی ہے، تاہم واجب یہ ہے کہ ایلاء کی مدت(چارماہ)تک اس کی رضامندی کے بغیر چھوڑے نہ رکھے‘‘(فتح القدیر، باب القسم: ۷؍۳۷۲)۔
موجودہ زمانہ چوں کہ عام بے حیائی کازمانہ ہے؛ اس لئے اس زمانہ کے لحاظ سے علامہ ابن حزمؒ کاقول بہت ہی مناسب معلوم ہوتاہے؛ البتہ جولوگ بیویوں کوچھوڑ کردوسری جگہ رہتے ہیں، ان کے لئے چارمہینے تک کی گنجائش نکل سکتی ہے، جیسا کہ علامہ ابن ہمامؒ کے قول میں صراحت کی گئی ہے، نیزحضرت عمرؓ نے امرائے اجنادکوحکم دیتے ہوئے فرمایا تھاکہ: ’’کوئی بھی شادی شدہ شخص چار مہینے سے زیادہ اپنی بیوی سے دورنہ رہے‘‘(ردالمحتار، باب القسم:۴؍۳۸۰) ، اس سے زیادہ کی گنجائش نہیں رہنی چاہئے۔
آج ہمیں اپنے معاشرہ کاجائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کیاہم میں سے ہر فرد اپنی بیوی کایہ حق صحیح طورپراداکررہا ہے؟ آج ہم میں سے اکثرکویہ توفکرہوتی ہے کہ ہماراگھرشاندارہو، رہن سہن کی سطح اونچی ہوجائے، لباس وپوشاک میں نمایاں نظرآئیں، ان کی فکرآپ کومبارک؛ لیکن خدارابیوی کایہ حق مارکرفکرنہ کریں، ورنہ پورامعاشرہ اخلاقی اعتبارسے کھوکھلاہوجائے گا، جیساکہ ان علاقوں کامشاہدہ بتلاتا ہے، جہاں کی اکثریت غم روزگارکی تسلی کے لئے بیرون ممالک کارخ کرتی ہے اوردودوسال تک گھرکے دہلیز پرقدم تک نہیں رکھتے، کاش ! ہم میں سے ہرشخص اس حق کی ادئے گی کی طرف توجہ دے سکے!
برتھ کنٹرول
حقوق ِزوجیت سے تعلق رکھنے والاایک دوسرامسئلہ عزل کاہے، یہ بھی جماع کاایک طریقہ ہے، جس میں مباشرت توپائی جاتی ہے؛ لیکن انزال کے وقت عضوخاص کونکال لیاجاتاہے اورمادۂ منویہ کوشرم گاہ سے باہرخارج کیاجاتاہے، اکثر فقہاء کے نزدیک یہ مکروہ ہے، شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ لکھتے ہیں:
’’میں کہتاہوں کہ حرمت کے بغیرعزل کی کراہیت معلوم ہوتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ مصالح متعارض ہیں؛ چنانچہ باندی میں عزل کرنے میں فی نفسہ خاص مصلحت ہے، جب کہ نوعی مصلحت یہ ہے کہ عزل نہ کرے ؛ تاکہ کثرتِ اولاد اورنسل کی بڑھوتری کاتحقق ہوسکے اوراللہ تعالیٰ کے تشریعی وتکوینی عام احکام میں نوعی مصلحت کی رعایت کرناشخصی مصلحت کے مقابلہ میں زیادہ راجح ہے‘‘(حجۃ اللہ البالغۃ، آدا ب المباشرۃ: ۲؍۲۰۶)۔
البتہ ’’طبی ضرورت کے تحت نرودھ کااستعمال کرنااورعزل کرنا جائز ہے‘‘(کتاب الفتاوی:۴؍۴۴۴)، مفتی نظام الدین اعظمی صاحبؒ اس کی تفصیل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ اگرصحت خراب ہو، تکالیف حمل برداشت کرنے کی طاقت نہ ہویااستقرارحمل میں ایسی تکالیف کااندیشہ ہو، جوناقابل تحمل وبرداشت ہوں، یامسلمان دیندارطبیب حاذق نے اس کی تشخیص کی ہوتوعارضی طورپرقوت وصحت کی بحالی کے لئے منعِ حمل تدابیرمثلاً: نرودھ، لوپ، دوا یامرہم کے استعمال کی گنجائش ہے‘‘(منتخبات نظام الفتاویٰ:۳؍۳۸۳، ط:ایفا پبلیکیشنز، دہلی)۔
تاہم یہ بات یادرکھنے کی ہے کہ عزل یااس قسم اموراختیارکرنے میں بیوی کی اجازت ضروری ہے، علامہ ابن ہمامؒ لکھتے ہیں:
’’(وہ حقوق، جن کی مالکہ عورت ہے، ان میں سے ایک)عزل سے رکناہے؛ الایہ کہ وہ اجازت دے(توایسی صورت میں عزل جائزہے)‘‘(فتح القدیر، فصل فی بیان المحرمات: ۳؍۲۲۷)۔
۴- بیویوں کے درمیان باری کی تقسیم اورعدل
اگرکسی شخص کی ایک سے زائد بیویاں ہوں توان کے درمیان عدل کرنا اورشب گزاری کے لئے باری کی تقسیم کرنا ضروری ہے،یہ بیویوں کے بنیادی ؛ بل کہ اعلیٰ واشرف حقوق میں سے ہے، یہی وجہ ہے کہ جب آپﷺنے حضرت ام سلمہ ؓ سے نکاح فرمایاتوان سے کہا:
’’تمہاری وجہ سے تمہارے گھروالوں(تم)کوخفت نہ ہوگی (اورتمہاراحق ضائع نہیں ہوگا)، تم اگرچاہوتوتمہارے پاس سات دن رہوں اور(پھر) سات سات دن تمام بیویوں کے پاس رہوں اور اگرچاہوتوتمہارے پاس تین دن رہوں، پھردوسری بیویوں کے پاس جاؤں‘‘(مؤطاإمام مالک،المقام عندالبکروالأیم، حدیث نمبر: ۱۹۳۵)۔
اس حدیث سے صاف طورپرمعلوم ہورہاہے کہ اگرایک سے زائدبیویاں ہوں توان کے درمیان شب گزاری کے لئے باری کی تقسیم عمل میں آئے گی، اب یہاں ایک سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیاباری کی اس تقسیم میں نئی اورپرانی سب برابرہیں یاان میں کچھ فرق ہے؟ اس سلسلہ میں فقہاء کے درمیان اختلاف رائے ہے؛ چنانچہ امام مالک ؒ، امام شافعیؒ اورامام احمدؒ کے نزدیک مسئلہ یہ ہے کہ اگر دوسری شادی باکرہ سے کررہاہے تواس کے ساتھ سات دن گزارے ، پھراس کے بعدباری کی تقسیم عمل میں لائے اوراگرثیبہ سے کررہاہے توتین دن اس کے ساتھ شب باشی کرے، پھراس کے بعدباری تقسیم کرے، امام ابوحنیفہؒ اوران کے اصحاب کے نزدیک بیویاں سب برابرہیں، ان کے درمیان کسی قسم کی کوئی تفریق نہیں کی جائے گی، سب کے ساتھ برابرشب گزاری جائی گی(الاستذکارلابن عبدالبر: ۵؍۴۳۹، معالم السنن للخطابی: ۳؍۳۱۴)۔
باری شوہریا بیوی کاحق؟
دوسرامسئلہ یہ ہے کہ باری کی یہ تقسیم شوہرکاحق ہے( کہ اگروہ چاہے تویہ تقسیم کرے اوراگرنہ چاہے توتقسیم نہ کرے )یاعورت کا(کہ تقسیم نہ کرنے کی صورت میں وہ تقسیم کامطالبہ کرے)؟ علامہ ابن عبدالبرؒ اس کاجواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’حدیث کاظاہران لوگوں کی گواہی دیتاہے، جنھوں نے اس کوعورت کاحق قرار دیاہے، اللہ کے رسولﷺکے قول:’’باکرہ کے لئے سات اورثیبہ کے تین دن‘‘ کی وجہ سے، لہٰذا عمومی آثارکی وجہ سے شوہرپرضروری ہے کہ ہرحال میں باکرہ کے پاس سات دن اورثیبہ کے پاس تین دن گزارے، یہی فقہائے امصارکی ایک جماعت کابھی قول ہے اوریہی ان کے نزدیک معمول بہ ہے، اورتمہارے لئے حضرت انسؓ کا قول:(مضت السنۃ بذلک)’’سنت سے یہی ثابت ہے‘‘اس مسئلہ کے لئے کافی ہے‘‘(التمہید:۱۷؍۲۴۹)۔
بیوی کے ساتھ عدل
اسی سے جڑاہواایک اورمسئلہ ’عدل‘ کاہے، عدل ’انصاف ‘کوکہتے ہیں اورانصاف یہ ہے کہ ’’انسان کاثابت شدہ حق اسے دیاجائے اوراس کے اوپرلازم شئی اس سے لیاجائے‘‘۔
بیویوں کے ساتھ عدل کن چیزوں میں؟
اب بیویوں کے وہ ثابت شدہ حقوق کیاہیں، جن میں تمام بیویوں کے درمیان عدل سے کام لیناضروری ہے؟ فقہائے کرام نے اس سلسلہ میں پانچ چیزوں کا ذکر کیاہے:
(۱) ماکولات : کھانے کی چیزوں میں عدل ضروری ہے، جوایک بیوی کوکھلائے، وہی دوسری بیوی کوبھی کھلاناہوگا، اگرایک بیوی کے لئے بازارسے فاسٹ فوڈ لارہاہے تودوسری بیوی کے لئے بھی لاناضروری ہوگا۔
(۲) مشروبات: پینے کی چیزوں میں عدل ضروری ہے، اگرایک بیوی کوفلٹرپانی پلارہاہے تودوسری بیوی کوبھی فلٹرپانی پلاناضروری ہے۔
(۳) ملبوسات: پہننے کی چیزوں میں بھی عدل سے کام لیناضروری ہے، اگر ایک بیوی کوکاٹن کے کپڑے پہنارہاہے تودوسری بیوی کوبھی وہی کپڑے پہنانے ہوں گے۔
(۴) رہائش گاہ: رہنے کی جگہ میں بھی عدل کرنا ہوگا، اگرایک بیوی کوبہترین گھررہنے کے لئے مہیاکیاجارہاہے تودوسری بیوی کوبھی مہیاکرناہوگا۔
(۵) شب باشی: رات رہنے میں بھی عدل ضروری ہے، ایک بیوی کے پاس جتنی راتیں گزاری جائیں، دوسری کے پاس بھی اتنی ہی راتیں گزاری جائیں (بدائع الصنائع، فصل: وجوب العدل بین النساء فی حقوقہن: ۲؍۳۳۲)۔
عدل نہ کرنے کی سزا
اگرکوئی ایساشخص ، جس کے پاس ایک سے زائدبیویاں ہوں اوروہ مذکورہ چیزوں میں عدل سے کام نہیں لیتاہے؛ بل کہ ناانصافی کرتاہے توقیامت کے دن انسانوں کے ٹھٹ کے درمیان بھی پہچاناجائے گا، اللہ کے رسولﷺنے فرمایا:
’’جس شخص کی دوبیویاں ہوں اوروہ ان میں سے کسی ایک کی طرف مائل ہوجائے توقیامت کے دن وہ اس حال میں آئے گا کہ اس کاایک پہلوجھکاہواہوگا‘‘(سنن أبی داود،باب فی القسم بین النساء، حدیث نمبر: ۲۱۳۳، سنن الدارمی، حدیث نمبر: ۲۲۵۲)۔
دنیامیں وہ ایک بیوی کی طرف مائل ہواتو’’الجزاء من جنس العمل‘‘ (عمل کے مقابلہ میں سزا) کے طورپراس کاایک پہلوفالج زدہ ہوگا، جس سے تمام لوگوں کو معلوم ہوجائے گا کہ اس کے کس کرتوت کے بدلہ میں یہ سزاملی ہے؟
ہمیں اپنے معاشرہ کاجائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کیامعاشرہ کاہروہ فرد، جس کی ایک سے زائد بیویاں ہیں، عدل وانصاف سے کام لے رہاہے؟ کیااکثرایسانہیں ہوتا کہ ایک بیوی کے ساتھ تورہائش اختیارکرلیاجاتاہے، جب کہ دوسری بیوی کوکالمعلقہ بناکررکھ دیاجاتاہے؟ کاش! ہم اس سلسلہ میں حضوراکرمﷺکواپناآئیڈیل بناتے اورقیامت کے دن کی رسوائی سے اپنے آپ کوبچانے کی کوشش کرتے!!
(جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
ایک تبصرہ شائع کریں